’اگر آپ کا شوہر آپ پر ہاتھ اٹھائے تو آپ اسے چھوڑ سکتے ہیں لیکن یہی کام آپ کا بچہ کرے تو؟‘

سارہ مکڈرمٹ - بی بی سی نیوز


 

خاکہ

اکثر والدین کو کبھی بھی یہ فکر نہیں ہوتی کہ ان کا بچہ ان پر حملہ کرے گا لیکن اگر ایسا ہو تو وہ ایک مخمصے میں پڑ سکتے ہیں۔ وہ گھر چھوڑ کر جا نہیں سکتے اور انھیں خوف بھی ہو سکتا ہے کہ اگر مدد تلاش کی تو اس کا اثر ان کے بچے پر پڑے گا۔

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اس مسئلے کے بارے میں کم لوگوں کو علم ہے اور یہ ہمارے تصور سے کہیں زیادہ عام ہے۔

گذشتہ موسم گرما میں 10 سال کے آئیڈن نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی کتیا کو مار دے گا۔ اس نے اسے ایک سوسیج دکھا کر صوفے کے پیچھے بلایا اور ایک ہاتھ اس کے منہ پر رکھا اور ایک اس کے گلے کے گرد ڈال دیا۔

آئیڈن کی ماں ہیزل نے بتایا کہ ’عجیب چیز یہ ہے کہ وہ دراصل کتے کو اور مجھے سب سے زیادہ پسند کرتا ہے لیکن ہم ہی وہ دو ہیں جن کو وہ نشانہ بنائے گا اور کبھی کبھی وہ میرا ردِ عمل جاننے کے لیے اسے تکلیف بھی پہنچائے گا۔‘

آئیڈن ٹھوکریں مارتا ہے اور وہ دانتوں سے کاٹتا بھی ہے۔ وہ ہیزل کو کہتا ہے کہ وہ اس سے نفرت کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ (ہیزل) مر جائے، کہ وہ بندوق حاصل کر کے اسے گولی مار دے گا۔

آئیڈن نے ہیزل کو سیڑھیوں سے نیچے گرانے کی کوشش بھی کی اور اب جب اسے پتہ چل گیا کہ ہیزل اپنی بینائی کی خرابی کی وجہ سے کئی چیزیں نہیں دیکھ سکتیں تو اس نے ہیزل پر ایسی چیزیں پھینکنا شروع کر دیں جن کو اپنی طرف آتے ہوئے وہ نہیں دیکھ سکتیں۔

حال ہی میں اس نے اپنی ماں پر چائے کی کیتلی پھینکی ہے، جس میں شکر ہے کہ ابلا ہوا پانی نہیں تھا لیکن جب آئیڈن نے پھینکی تھی تو اسے معلوم نہیں تھا کہ اس میں ابلا پانی تھا یا ٹھنڈا۔

ہیزل کہتی ہیں کہ ’ایسا لگتا ہے کہ یہ بدسلوکی اور ڈرانے دھمکانے والا رویہ ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں گھریلو تشدد کے رشتے میں ہوں۔ آپ کہتے ہیں کہ جب پہلی بار آپ کا شوہر آپ پر ہاتھ اٹھائے تو آپ دروازے سے باہر چلے جائیں لیکن آپ اپنے بچے کے ساتھ ایسا نہیں کریں گے۔ نہیں نہ؟ کیوںکہ آپ بچے کے محافظ ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے شکار بھی۔‘

گھر کی تمام چھریوں کو آئیڈن کی پہنچ سے دور تالہ بند کر دیا گیا جب اس نے ایک دن دراز سے چھری نکال کے خاندان کے ایک اور فرد پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ کوئی بھی تیز چیز مثلاً کینچی، یہاں تک کہ ناخن کاٹنے والے نیل کٹر سے بھی حملہ کر دے گا۔

ہیزل کہتی ہیں کہ ’ہر چیز تشدد کی طرف لے جاتی ہے۔ وہ تشدد کی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے اور اسے ہر طرح کے حالات میں تشدد نظر آتا ہے۔ ہم عام سے بچوں کے پروگرام بھی نہیں دیکھ سکتے کیونکہ اگر ان میں تھوڑا سا بھی تشدد ہوا تو وہ اس کی نقل کرے گا اور دوبارہ کرے گا۔‘

Short presentational grey line

آئیڈن چار سال کا تھا جب ہیزل اور ان کے شوہر نے اسے گود لیا اور یہ بات فوری طور پر واضح ہو گئی تھی کہ اس کی ضروریات اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ تھیں جتنی ان کو بتائی گئی تھیں۔

ہیزل کہتی ہیں کہ ’ہمیں پہلے دن سے پتہ تھا کہ اس کے ساتھ سنجیدہ مسائل ہیں لیکن ہم نے سوچا کہ بس ٹھیک ہے، وہ بہت ہی عجیب و غریب ماحول میں ہے، جہاں پہلے اس کی فوسٹرنگ کے لیے دیا گیا تھا وہ صحت مند جگہ نہیں تھی۔۔۔ دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے۔‘

لیکن معاملات ٹھیک سے نہ چل سکے۔ شروع سے ہی آئیڈن نے مکے مارنا، بال کھینچنا اور تھوکنا شروع کر دیا۔

ہیزل اور ان کے شوہر کو امید تھی کہ وقت کے ساتھ ساتھ تشدد میں کمی آ جائے گی لیکن یہ مزید خراب ہوتا گیا۔

آئیڈن نے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے تک دو مرتبہ سکول کے خصوصی یونٹ میں جہاں وہ پڑھنے جاتا ہے اپنی ٹیچنگ اسسٹنٹ کو مار کر ہسپتال پہنچا دیا۔ پہلی بار ان کے چہرے پر لات مار کر جب وہ وہ چیزیں زمین سے اٹھانے کے لیے نیچے جھکی جنھیں آئیڈن نے غصے سے فرش پر پھینکا تھا۔

سکول کے عملے کو خصوصی تربیت دی گئی تھی کہ اگر آئیڈن متشدد ہو جائے تو اسے کس طرح کنٹرول کرنا ہے۔ وہ پہلے موقعے کو یاد کرتی ہیں جب انھوں نے آئیڈن کو 50 منٹ تک کے طویل ’کنٹرول‘ کے بعد دیکھا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’وہ اپنی کلاس میں بغیر قمیض کے چھوٹے سے صوفے پر بیٹھا ہوا تھا کیونکہ اس کو پسینے آ رہے تھے، اس کے ساتھ اس کی ٹیچنگ اسسٹنٹ تھیں۔ اور وہ لرز رہا تھا اور کانپ رہا تھا۔ وہ منظر بہت خوفناک تھا۔ میں بیٹھ گئی اور وہ میرے گھٹنے کے ساتھ لپٹ گیا۔ یہ واقعی بہت تکلیف دہ تھا۔‘

جب ہیزل ان حالات کے بارے میں سوچتی ہیں تو ان کا کہنا ہے کہ کیا سکول کے عملے کو آئیڈن کو اس طرح جکڑنا چاہیے تھا لیکن اس کے علاوہ وہ اسے کیسے روک سکتے تھے، وہ یہ نہیں جانتیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس سے اسے ضرور صدمہ پہنچا ہو گا لیکن مجھے معلوم ہے کہ وہ کتنا متشدد تھا۔ میں نے تدریسی معاونین کی تمام چوٹوں کو دیکھا اور مجھے نہیں معلوم کہ وہ اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے اور کیا کر سکتے تھے۔‘

اس کے بعد سکول نے ایک پیڈڈ کمرہ بنوایا تاکہ جب آئیڈن سے دوسروں کو خطرہ محسوس ہو تو اسے ایک نرم اور محفوظ جگہ پر بھیج دیا جائے۔

ہیزل کہتی ہیں ’لیکن وہ وہاں روز پہنچ جاتا تھا اور اسے اتنا غصہ آتا تھا کہ اس نے تین مرتبہ دروازے کا ’ری اینفورسڈ گلاس‘ یا مضبوط شیشہ توڑ دیا۔‘

یہ وہ موقع تھا جب سکول نے ہیزل کو کہا کہ وہ ان کے بچے کو مزید نہیں سنبھال سکتے۔

Short presentational grey line

سنہ 2010 میں آکسفرڈ یونیورسٹی کے محققین نے بچوں کے والدین پر تشدد کے بارے میں پولیس کے اعداد و شمار کا پہلا تجزیہ کیا تھا جس میں انھیں پتہ چلا کہ 12 ماہ کی مدت کے دوران لندن میں اس طرح کے 1900 جرائم ریکارڈ کیے گئے تھے۔

اس پروجیکٹ کی سربراہ اور کریمنولوجی کی پروفیسر ریچل کونڈری کا اندازہ ہے کہ ملک بھر میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں ایسے کیسز ہوتے ہیں جن میں سے بیشتر کا تو اندراج ہی نہیں ہوتا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ایک بڑا چھپا ہوا مسئلہ ہے۔ بہت سارے والدین ہیں جنہیں پتہ نہیں کہ وہ اس کی اطلاع پولیس کو دے سکتے ہیں یا انھیں مدد مل سکتی ہے یا انھیں سروسز نہیں ملتیں۔‘

والدین انھیں اکثر بتاتے ہیں کہ انھوں نے برسوں تشدد کا سامنا کرنے کے بعد اپنے بچوں کو رپورٹ کیا اور صرف اس وقت فون کرتے ہیں جب وہ واقعی ڈرے ہوئے ہوتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ان کا بچے کو مجرم قرار دینا اور اس بارے میں پریشان ہونا کہ اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں بالکل بجا ہے۔‘

کونڈری کے مطالعے سے پہلے بچوں کی طرف سے والدین پر ہونے والے تشدد پر بہت کم تحقیق ہوئی تھی اور حقیقت میں اس کے بارے میں بہت کم آگاہی موجود تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ کسی بھی سرکاری ویب سائٹ پر، کسی بھی حکومتی پالیسی میں نہیں تھی، اس کا کہیں بھی ذکر نہیں تھا اور پھر بھی جب میں نے ان لوگوں سے بات کی جنھوں نے بچوں اور خاندانوں کے ساتھ ہر طرح کے مختلف علاقوں میں کام کیا تھا، انھوں نے بتایا کہ ہر وقت ان کے سامنے اس طرح کے کیسز آتے رہتے تھے، سو یہ تو واقعی دلچسپ خاموشی تھی۔‘

https://www.youtube.com/watch?v=hV33e7Dv1ZU

خاندان کے افراد اپنے دوستوں کو بھی یہ نہیں بتا سکتے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

سابق سوشل ورکر ہیلن بونک، جو بچوں کے والدین پر تشدد کے بارے میں ایک کتاب لکھ چکی ہیں کہتی ہیں کہ ’اس میں بڑی شرم چھپی ہوئی ہے۔‘

’اگر آپ والدین ہیں تو آپ کا کردار اپنے کے بچے کو معاشرے کا ذمہ دار فرد اور ایک محبت کرنے والا، احساس کرنے والا انسان بنانا ہے اور اگر یہ نہیں ہوتا تو لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ ناکام ہو گئے ہیں۔ وہ واقعی اس کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے اور چونکہ کوئی بھی اس بارے میں بات نہیں کرتا، تو آپ کو لگتا ہے کہ شاید آپ ہی کے ساتھ اس طرح ہو رہا ہے۔‘

گھریلو تشدد اور جنسی تعلقات رکھنے والے قریبی ساتھی کی زیادتی کی طرح بچوں کی طرف سے والدین پر تشدد بھی زندگی کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے امیر اور غریب افراد کو متاثر کرتا ہے۔

یہ سمجھنا غلط ہو گا کہ یہ تب ہی ہوتا ہے جب بچے دوسروں کی کیئر میں رہ چکے ہوں۔ بچوں کی طرف سے والدین پر تشدد پر کام کرنے والے خیراتی ادارے پیرینٹل ایجوکیشن گروتھ سپورٹ کی مشیل جان کہتی ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا ادارہ بچوں کو گود لینے والوں خاندانوں سے زیادہ اُن خاندانوں کی مدد کرتا ہے جن کے اپنے ہی بچے ان پر تشدد کرتے ہیں۔

ہیزل کے خاندان کی طرح زیادہ تر مائیں ہی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔

ریچل کونڈری کہتی ہیں کہ ’خواتین کے ہر طرح کے گھریلو تشدد کا نشانہ بننے کا امکان زیادہ ہے اور یہاں بھی یہی صورتحال ہے۔ اگرچہ ایسا باپوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے لیکن بیٹے کا ماں پر تشدد سب سے عام ہے۔‘

Short presentational grey line

یہ بھی پڑھیے

والدین بچوں پر تشدد کیسے کرسکتے ہیں؟

بچوں نے تشدد کرنے والے والدین کو معاف کر دیا

‘کون سی بچی؟ میں نے تو کوئی بچی پیدا نہیں کی!‘

اب کوئی بھی مقامی سکول آئیڈن کو داخلہ نہیں دے گا۔ تمام سپیشلسٹ یونٹ اسے ٹھکرا چکے ہیں یا انھوں نے اسے نکال دیا ہے۔

ان کے گھر کے سب سے قریب یونٹ بھی آدھے گھنٹے کی دوری پر ہے اور وہ بھی اس کی پیچیدہ ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔

ہیزل کہتی ہیں کہ ’انھوں نے اسے قابو کیا ہوا ہے لیکن کچھ بھی حل نہیں ہو رہا۔ بچہ ابھی بھی جدوجہد کر رہا ہے۔‘

تعلیمی لحاظ سے بھی وہ اپنی عمر کے دوسرے بچوں سے تقریباً تین یا چار سال پیچھے ہے، اگرچہ اس کی لکھائی بہت خوبصورت ہے۔

خاکہ

ہیزل نے پیسے خرچ کے ایسے ٹریننگ سیشنز میں حصہ لیا ہے جو سیکھاتے ہیں کہ آئیڈن جیسے متشدد رویے والے بچوں سے کس طرح نمٹنا ہے اور کیسے ان کی توجہ کسی اور طرف لگانی ہے تاکہ وہ آپ کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔

ایک حربہ یہ ہے کہ ایک بڑا صوفہ کشن سامنے کر دیا جائے تاکہ آئیڈن انھیں تکلیف نہ پہنچا سکے۔

ہزیل کہتی ہیں کہ ’پہلی مرتبہ اس نے مجھ سے وہ چھین لیا اور اس سے ہی مجھے مارنے لگا۔ تو میں نے سوچا کہ یہ ٹھیک ہے، مجھے اسے زور سے پکڑنا ہے۔ دوسری مرتبہ یہ حربہ کام کر گیا۔ میں اسے ہم دونوں کے درمیان رکھنے میں کامیاب رہی اور وہ اسے مکے مارتا رہا، لاتیں مارتا رہا اور اس کے ادھر ادھر سے آنے کی کوشش کرتا رہا لیکن وہ یہ کر نہیں سکا۔‘

ہیزل اصرار کرتی ہیں کہ ان کا بیٹا برا نہیں بلکہ وہ ایسا اس صدمے کی وجہ سے ہوا ہے جس کا سامنا اس نے ماضی میں کیا تھا اور یہ اس کی غلطی نہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ وہ بدسلوکی کرنے والا ہے لیکن حقیقت میں وہ نہیں ہے، وہ بے بس ہے۔ درحقیقت وہ ایک خوبصورت مزاج والا لڑکا ہے۔ وہ پیار کے قابل اور مزاح سے بھرپور ہے اور ہم ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں۔‘

لیکن اس سارے تناؤ کی وجہ سے انھیں اپنی ملازمت چھوڑنا پڑی ہے۔ ان کی صحت تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ گذشتہ سال انھیں ایک سے زیادہ مرتبہ شنگلز اور نمونیا ہوا تھا اور اب وہ دماضی صحت کے لیے اینٹی ڈپریسنٹس لے رہی ہیں۔ ان کے شوہر کے ساتھ رشتے کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب ہمیں پہلی بار احساس ہوا کہ کچھ مسئلے ہیں اور چیزیں بہت مشکل ہیں، تو بنیادی طور پر ہم دونوں کو لگا کہ ہم نے غلطی کی اور ہم اسے برداشت نہیں کر سکے لیکن ایسا بلند آواز کہنے کا مطلب ہے کہ آپ کو کچھ کرنا ہے۔ لہذا ہم میں سے کسی نے بھی بلند آواز یہ نہیں کہا۔ ہم نے بنیادی طور پر تقریباً چھ ماہ تک ایک دوسرے سے بات نہیں کی۔‘


مسئلہ کہاں ہے؟

برطانیہ کے ’ہو از انچارج‘ (انچارج کون ہے؟) پروگرام کے مطابق جب کسی بچے کا رویہ کنٹرول کرنے والا، ڈرانے، دھمکانے والا یا غیر محفوظ ہو جاتا ہے تو اسے نارمل نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ایسی نشانیاں مہیا کرتا ہے جنھیں دیکھنا ضروری ہے:

  • آپ اپنے بچے کے ساتھ تصادم سے بچنے کے لیے اپنا طرز عمل تبدیل کرتے ہیں
  • آپ اپنی یا گھر کے دیگر افراد کی حفاظت کے لیے خوفزدہ ہیں
  • بچہ گھر کے دیگر افراد کی چیزیں چوری کر رہا ہے یا انھیں نقصان پہنچا رہا ہے
  • بچہ آپ یا دوسروں کو دھمکی دے رہا ہے
  • بچہ خود کو نقصان پہنچانے یا خطرناک رویے میں ملوث ہونے کی دھمکی دیتا ہے۔ ہمیشہ خود کو نقصان پہنچانے کی دھمکیوں کو سنجیدگی سے لیں
  • بچہ پالتو جانوروں کے ساتھ برے طریقے سے پیش آتا ہے

کچھ سال پہلے، کافی سوچنے کے بعد، ہیزل اس نہج پر پہنچ گئی تھیں کہ وہ کوئی بڑا قدم اٹھا لیتیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے دیکھا کہ اس کا پورے خاندان پر اثر بہت پریشان کن ہے،اور میں نے فیصلہ کیا کہ میں آئیڈن کو لے کر کہیں چلی جاؤں گی۔‘

ہیزل کے شوہر نے انھیں کہا کہ وہ ایسا نہ کریں اور اگرچہ اب وہ یہ تسلیم کرتی ہیں کہ شاید یہ صحیح فیصلہ تھا لیکن جب وہ اپنے خاندان کے دوسرے بچوں کے بارے میں سوچتی ہیں تو ان کا احساسِ جرم اس سے کم نہیں ہوتا۔

وہ کہتی ہیں کہ ان کے بچپن میں ہم نے انھیں خطرے سے دوچار کیا تھا۔

عالمی وبا سے کہیں پہلے ہیزل کے خاندان نے دوسروں کے گھروں میں جانا چھوڑ دیا تھا۔ وہ کوئی بڑی خاندانی تقریب منعقد کرتے ہیں اور اس میں جاتے ہیں۔

ہیزل صرف اس وقت اپنے والدین کو ملتی ہیں جب آئیڈن سکول میں ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کا آس پاس رہنا برداشت نہیں کر سکتے۔

اور ہیزل آئیڈن کے ہمراہ اپنی دوستوں کو اس وقت نہیں ملتیں جب ان کے بچے بھی ساتھ ہوں۔ وہ اور ان کے شوہر کبھی رات گھر سے باہر نہیں گزارتے۔ وہ آئیڈن کو کسی کے پاس نہیں چھوڑ سکتے جو اس کا خیال رکھ سکے۔

ہیزل کہتی ہیں کہ اس نے ہمیں بالکل تنہا کر دیا ہے لیکن انھیں اپنے جیسے والدین کی آن لائن کمیونٹی سے بہت سکون ملا ہے جہاں لوگ اپنی کہانیاں بتاتے ہیں اور یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس کا کیسے مقابلہ کر رہے ہیں اور اخلاقی مدد کی پیشکش بھی کرتے ہیں۔

’اسی طرح کی صورتحال میں بہت سارے لوگوں کو دیکھنا واقعی آنکھیں کھول دیتا ہے۔ اس طرح کے بہت سے، بہت سارے خاندان ہیں۔‘


ہیزل اپنے پاس سپریڈ شیٹ رکھتی ہیں اور ہر وقت یہ جاننے کے لیے مختلف ایجنسیوں سے رابطے میں رہتی ہیں کہ انھوں نے آئیڈن کے لیے کیا فیصلہ کیا ہے۔ وہ ہمیشہ کوشش کرتی رہتی ہیں کہ اس کی مدد کا کوئی راستہ تلاش کرتی رہیں۔

ریچل کونڈری کہتی ہیں کہ بچے کی طرف سے والدین پر تشدد کسی کا مسئلہ نہیں بلکہ ہر ایک کا ہے، اس لحاظ سے کہ یہ کسی واحد سروس یا تنظیم کی بنیادی ذمہ داری نہیں، مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے۔‘

آئیڈن کے خاندان کی سب سے بڑی امید اسے ایک ایسے رہائشی سکول میں داخل کرانا ہے جہاں تین سال میں وہ اس جیسے بچوں کو مکمل طور پر سدھار سکیں، انھیں گھر واپس جانے کے قابل بنا سکیں، جہاں وہ اپنے کنبے کے ساتھ رہ سکیں اور عام بچوں والے سکولوں میں پڑھ سکیں۔

ہیزل کہتی ہیں: ’میں واقعی اسے تھیراپیٹک سکول میں داخل کرانا چاہتی ہوں، ایسے سکول میں جہاں اس کی واقعتاً مدد ہو سکے۔‘

لیکن وہاں داخلے کا معیار بہت سخت اور پیچیدہ ہے لہذا یہ ایک مشکل کام ہے۔

اگر آئیڈن کو داخلہ نہ ملا تو ہیزل فکر مند ہیں کہ پھر کیا ہو گا۔ ’وہ ایک بدسلوکی کرنے والا پارٹنر بنے گا اور پولیس کے چکروں میں پڑا رہے گا۔ وہ غصے میں آئے گا اور جھگڑا کرے گا۔ مجھے جیل نظر آرہی ہے۔‘

ابھی تک تو انھوں نے مسئلے کو چھپانے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔

جب آئیڈن سکول جاتا ہے تو وہ کتے کو باہر لے کر نکلتی ہیں اور اس کی واپسی کے لیے خود کو تیار کرتی رہتی ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ وہ اس جگہ کو توڑ پھوڑ دے، پھلوں کے پیالے کے اندر پڑی چیزوں کو پھینک دے اور جنگلہ پھلانگ کر باہر نکل جائے۔ یا اگر یہ کوئی پُر امن رات ہوئی تو آئیڈن اپنی آڈیو کتابیں سنتا رہے گا، وہی کہانیاں بار بار، جو الفاظ صفحوں پر موجود ہیں۔

اور جب سونے کا وقت ہوتا ہے تو نیچے کے دروازوں کو تالا لگا دیا جاتا ہے تاکہ اگر وہ رات کو اٹھے تو کتے کو پریشان نہ کرے۔

(اس کہانی میں فرضی نام استعمال کیے گئے ہیں تاکہ آئیڈن کی شناخت چھپی رہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp