امریکہ میں پہلا قانونی نشہ


امریکہ میں قانونی طور نشہ کرنے کی حد اکیس سال مقرر ہے۔ اکیس سال کے بعد نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کسی بھی بار یا نائٹ کلب میں جا کر مے کشی کے مزے لے سکتے ہیں۔ نشہ کرنے کے لیے عمر کی حد کا تعین کرنے والوں نے نہ جانے کیا سوچ کر زندگی کے اکیسویں سال کو چنا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں اکیسویں سال سے بہت پہلے ہی بالغ ہو جاتے ہیں۔ بالغ ہو نے سے یہاں مراد، جب کوئی انسان اپنی اولاد پیدا کرنے کے قابل ہو جائے۔

یہ کہانی خاص طور امریکہ کی اس نوجوان نسل کے بارے میں ہے جو اپنی اوائل عمر میں ہی ایسے تجربات حاصل کر لیتی ہے جن پر معاشرے اور قانون نے کچھ حدود مقرر کر رکھی ہیں۔ اگر ہم اپنی ذاتی زندگی اور اپنی نوجوان نسل کے رویوں پر غور کریں تو یہ ایک تلخ سچ ہے کہ ہم چوری چھپے یا کھلم کھلا زند گی کے ایسے تجربات سے پہلے ہی گزر چکے ہوتے ہیں یا ان کے عینی شاہد ہوتے جن پر بظاہر سوسائٹی کی طرف سے کچھ حدود و قیود لگائی جاتی ہیں۔ نوجوانوں پر عمر کی حد لگانے والا قانون عملی طور پر کس حد تک موثر ہے، یہ ایک الگ اور تحقیق طلب موضوع ہے لیکن اس کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ کس جوش و جذبے کے ساتھ امریکی نوجوان اپنی اکیسویں سالگرہ مناتے ہیں۔

اکثر امریکی نوجوان جن کی عمر اکیس سال ہونے کو ہو وہ کسی بھی نائٹ کلب یا بار میں جا کر اپنی سالگرہ کا جشن بڑے دھوم دھڑلے سے مناتے ہیں۔ مے کشی کی لذت سے شاید وہ پہلے بھی آشنا ہوں مگر اب وہ کھلے عام اور دوسروں کے ساتھ بیٹھ کر شراب نوشی کر سکتے ہیں۔ بہت سارے منچلے امریکی نوجوان اپنے اکیس سال ہونے کے دن کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں اور اس کو بھر پور طریقے سے مناتے ہیں۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ بار میں جاتے ہیں یا اپنے ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ مل کر خوب ہلہ گلہ کرتے ہیں۔

ریچل کی زندگی کا بھی وہ دن آ چکا تھا جب وہ شہر کے کسی بڑے کلب میں جا کر سب کے سامنے مے نوشی کرنا چاہتی تھی۔ لیکن اس دن، وہ تنہا تھی۔ وہ دن ریچل کی زندگی میں کوئی حقیقی خوشی کا دن نہیں تھا۔ وہ چوری چھپے اور اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ مل کر شراب پہلے بھی پی چکی تھی لہذا شراب اس کا مسئلہ نہیں تھا بالکل اسی طرح جیسے کوئی دلہن اپنی سہاگ رات والے مزے شادی سے پہلے ہی لوٹ چکی ہو۔

ریچل نشے کی کیفیت اور مزے کو مقررہ عمر کی حد سے پہلے ہی جان چکی تھی اب صرف قانون کی ایک ہچ باقی تھی کہ جب وہ اپنے بڑوں اور سب دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر مے نوشی کر سکے۔ ریچل اداس اس لیے تھی کہ اس کی اکیسویں سالگرہ کے دن کوئی اپنا اس کے ساتھ نہیں تھا۔ وہ ان دنوں اپنے ماں باپ سے ناراض ہو کر کسی سہیلی کے پاس رہ رہی تھی اس لیے اس کی سالگرہ کے دن، اس کے ماں باپ، بہن بھائی اور دادا دادی میں سے کوئی بھی اس کی خوشیوں میں شریک نہ ہو سکا۔

وہ اپنے بوائے فرینڈ کو پچھلے سال ہی چھوڑ چکی تھی۔ وہی بوائے فرینڈ جس نے ریچل کو پہلی مرتبہ چرس اور آئس کے نشے سے متعارف کروایا۔ وہ دونوں اپنے والدین سے چھپ چھپا کر بیئر بھی پیتے تھے۔ ان کے ماں باپ کو بھی اندازہ تھا کہ ان کے بچے کوئی نشہ کرتے ہیں لیکن انہوں نے بچوں کی اس حرکت کو نظر انداز کیا۔ وہ سمجھتے رہے کہ سب نوجوان اپنی عمر کے اس خاص حصے میں ایسی ویسی حرکتیں کرتے ہیں۔

ریچل بھی ہماری ایسی نوجوان نسل کی نمائندہ تھی جن کو ان کے گھر والے، سکول اور چرچ اخلاقیات کا درس تو دیتے ہیں لیکن وہ انہیں اندر سے موٹیویٹ اور تبدیل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ بچے بڑوں کی سختی اور تبلیغ سے تنگ آ کر رد عمل کے طور پر وہ سارے کام کرتے ہیں جن سے ان کا روکا جاتا ہے۔ وہ اپنی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی دوہری زندگی جینا سیکھ لیتے ہیں اور اپنی باقی عمر احساس گناہ کے سائے میں بسر کرتے ہیں۔

نوجوانوں کو معاشی اور معاشرتی دباو میں رکھ کر انہیں اپنی جنسی اور نفسانی خواہشات کو دبا کر جینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ کوئی انہیں، ان کے مسائل کا حل نہیں بتاتا کہ وہ اپنی بشری اور حیاتیاتی ضروریات کے تقاضے کیسے پورے کریں۔ کوئی انہیں ستر حوریں ملنے کا درس دیتا ہے تو کوئی انہیں مناسب وقت کا انتظار کرنے کا مشورہ۔ لیکن جوانی تو مستانی ہوتی ہے۔ اگر جوانی کے جوش مارتے دریا کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی جائے تو پھر ہوتا وہی ہے کہ پاتے نہیں راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے!

ریچل بھی ان نوجوانوں میں سے تھی جس نے بلوغت کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی بالغوں والے کام کرنے شروع کر دیے۔ اس کا بھی کیا قصور تھا کہ اس نے اپنے امی ابا کے کمرے میں کچھ ڈی وی ڈیز پر اپنے گھر والوں سے چھپ کر بلیو پرنٹ فلم جو دیکھ لی تھی۔ وہ فلمی مناظر، وہ ہیجانی کیفیت، وہ ہو ہا کی آوازیں، وہ عکسی تجربات، وہ سب کچھ، معصوم ریچل کے دل و دماغ پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو گئے تھے۔ اپنے پرائمری سکول کے زمانے میں ہی وہ جنسی لذت سے آشنا ہو چکی تھی، مڈل سکول کی کلاسز میں پہنچ کر وہ مشت زنی کی عادی ہو گئی اور اس نے اپنی مخالف جنس کے ساتھ باقاعدہ سیکس کرنا ہائی سکول میں شروع کر دیا تھا۔

ریچل وہ کلی تھی جو اپنے وقت سے پہلے ہی کھل اٹھی اور جب بہار آئی تو اداس بیٹھی اپنے ماضی کو یاد کر رہی تھی۔ وہ گلاب کی اس پنکھڑی کی طرح تھی جو وقت سے پہلے ہی کسی طوفان سے ٹکرا کر زمین پر گر جائے اور پھول کا جوبن دیکھے بغیر ہی مرجھا گئی ہو۔ کالج کی پڑھائی کے دوران، ریچل اپنے کسی کلاس فیلو کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی۔ اس کے ماں باپ ناراض ہوئے اور اسے گھر سے نکال دیا۔ ریچل اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہنے لگی اور وہاں اسے اپنی جنسی لذت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ نشہ کرنے کی سہولت بھی میسر تھی۔ ریچل کا دوست اکثر شراب پی کر بے قابو ہو جاتا تھا اور اسے مارتا پیٹتا۔ چند سالوں بعد ریچل اپنے بوائے فرینڈ سے علیحدہ ہو کر اپنی کسی سہیلی کے پاس رہنے لگی۔

کسی اپنی گزری زندگی پر پچھتاوے کی کیفیت دیکھنا ہو تو وہ ریچل کی اکیسویں سالگرہ کا دن دیکھے۔ وہ ایک آئرش نائٹ کلب میں بیٹھی اپنی سہیلی کے ساتھ شراب پی رہی ہوتی ہے۔ ریچل کو یوں سرعام اور دوسروں کے ساتھ مل کر نشہ کر نا اچھا لگ رہا تھا لیکن پھر بھی نہ جانے اس کی زندگی میں کیا کمی تھی کہ وہ نشے کی حالت بھی پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ جوں جوں، آئرش لیکور، Baileys Irish Cream کے گھونٹ اس کے حلق سے نیچے اتر رہے تھے، اس کے من کی اداسی اور بڑھ رہی تھی۔

وہ اپنے ساتھ والی ٹیبل پر بیٹھے خوش لباس اور خوش شکل جوڑے کو دیکھ کر زیادہ پریشان ہو جاتی ہے۔ نائٹ کلب کی روشنیاں اس کی مدہوش آنکھوں میں چبھنے لگتی ہیں۔ اس کی زندگی کا سب سے اہم دن، اس کے لیے شام غم لے کر آیا تھا۔ اس کا پہلا قانونی نشہ اسے ماضی کے جھروکوں میں گم کر دیتا ہے۔ وہ اپنے بوائے فرینڈ کو یاد کرتی ہے، وہ دوست جس کے ساتھ مل کر اس نے پہلی مرتبہ نشہ کیا تھا۔ وہ جام پہ جام چڑھاتی جا رہی تھی اور ساتھ بیٹھی سہیلی کو اپنی پہلی محبت کے قصے سنانے لگی۔ نشے کی حالت وہ اپنے پہلے بوائے فرینڈ کے سارے گناہ بھول جاتی ہے۔ اسے بس اپنے بیتے دنوں کی اچھی باتیں ستانے لگیں۔

اپنی پہلی محبت کی یاد میں اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اکیسویں سالگرہ کے دن اور اپنے پہلے قانونی نشے کا شوق پورا کرنے کے بعد ریچل کی ذہنی کیفیات بدلنے لگیں، غم ہجراں کے بادل امڈ آئے، انگور کی بیٹی بھی اسے کوئی تسکین نہ دے رہی تھی۔ پھر اس نے کلب کے ہال میں نظر دوڑائی، ایک ٹیبل پر کسی خوش باش فیملی کو ہنستے مسکراتے اور ایک نوجوان کو ناچتے اور لڑکھڑاتے ہوئے دیکھا۔ وہ خاندان بھی شاید اپنے کسی جوان کی اکیسویں سالگرہ منا رہا تھا، اسے دیکھ کر ریچل کو اپنے داغ دل یاد آنے لگے وہ بھی اپنے خاندان والوں کو مس کر نے لگی۔

ریچل کی سہیلی اسے تسلی دیتی رہی اور کم شراب پینے کی تلقین کرتی رہی۔ ریچل کی سہیلی اپنے پورے ہوش و حواس میں تھی، وہ آج کی رات ریچل کے لیے ایک نامزد (designated) ڈرائیور تھی اور ریچل کی حالت اور پچھتاوے کی کیفیت دیکھ کر پریشان ہو رہی تھی۔ ریچل اتنی شراب پی چکی تھی کہ اس کی قوت فیصلہ متاثر ہو نے لگی اور وہ اپنے گزرے دنوں کی یادوں میں گم ہو گئی۔ اس کے بچپن اور لڑکپن کی ساری غلطیاں اس کے سامنے آسیب بن کر ناچنے لگتی ہیں۔

وہ اپنے آپ سے سوال کر رہی تھی کہ اس کی تنہائی کی وجہ کیا ہے، وہ دل ہی دل میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتی ہے اور اپنے ایکس بوائے فرینڈ کو فون پر ٹیکسٹ بھیجتی ہے۔ ”آئی مس یو ویری مچ آن دس ڈے“ (میں آج کے دن تمہیں بہت یاد کر رہی ہوں ) ۔ لیکن رات دیر تلک اس کے بوائے فرینڈ کا کوئی جوابی پیغام نہیں آیا۔ ہاں مگر ریچیل کی اکیسویں سالگرہ کا دن ختم ہونے سے کچھ دیر پہلے اس کے فون پر ایک ٹیکسٹ میسج موصول ہونے کی آواز آئی۔ مگر ریچل پر آئرش مے کا نشہ اتنا حاوی ہو چکا تھا کہ اس نے وہ میسج اگلی سہ پہر اپنا ”ہینگ اوور“ ختم ہونے کے بعد پڑھا جس میں اس کے باپ کا پیار بھرا پیغام تھا کہ ”وی آل مس یو آن دس ڈے، سویٹ ہارٹ“ (ہم سب تمہیں بہت یاد کر رہے ہیں ) ۔ جب اپنی اکیسویں سالگرہ کی پارٹی ختم کر لو تو گھر واپس لوٹ آنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments