بس اب دعا کریں‎‎


احتجاج کرتے آئین و قانون کی بالادستی کی لڑائی لڑنے والے صحافی، وکیل، سیاسی کارکن ہماری زخم زخم تاریخ اور حال کی پیشانی پر چمکتا ہوا جھومر ہیں۔ ہم ان کی داستان اپنے بچوں کو سنائیں گے، ہم ان بہادروں کے گیت گائیں گے، ان کی قربانیوں کو دلوں پر رقم کریں گے اور دنیا کو بتائیں گے کہ ہمارے غریب خانے میں وحشت بھرے اندھیروں کا راج سہی لیکن اس حال میں بھی ایسے لوگ تھے اور ہیں جو اپنی جان، مال اور عزتوں کو داؤ پر لگا کر عوامی حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے حصول رزق سے محروم ہوئے، کسی کو نوکری چھوڑنی پڑی، کسی کو ملک چھوڑنا پڑا۔ اس خاکسار کے علم میں ہے کہ احمد نورانی کو، جو پاپا جونز کی سٹوری کھوج کر نکال لائے تھے، اس سٹوری کے چھپنے سے قبل کیا کیا آفرز ہوئی تھیں کہ اس سٹوری کو روک لو اور ایک بار ہم سے ملاقات کر لو۔ ملاقات اور رس بھری پیشکشیں جب کام نہ کر سکیں تو آخر میں معاملہ کو انسانی جذبات سے جوڑا گیا کہ ہمارے خاندان کی ایک لائق احترام خاتون ہسپتال میں داخل ہو چکیں کہ بدنامی کا اندیشہ ان کے سکون کو ختم کر چکا اور آپ طے کر لیں کہ اگر یہ سٹوری چھپی تو یہ ذاتی لڑائی بن جائے گی۔ ان سب کے باوجود پیزا کی سٹوری ایسی طاقت سے باہر آئی کہ جو لفظ اخبار میں نہ چھپ سکا وہ دلوں پر چھپا اور پیزا چین کی سٹوری قومی یادداشت کا حصہ بن گئی۔ اس کی قیمت احمد نورانی اور اس کی بیوی بچے ایسے ادا کر رہے ہیں کہ دو سال کی عمر کو چھوتا بچہ ابھی تک باپ کے لمس سے محروم ہے۔ خود احمد نورانی پاکستان واپس کب ا سکیں گے کوئی نہیں جانتا۔

دوبارہ عرض ہے کہ ہم حامد میر، طلعت حسین، نصرت جاوید، اسد طور، احمد نورانی، عمران شفقت، رضوان رضی سمیت تمام دل والوں کے گیت گائیں گے اور ان سے پیار کریں گے لیکن کیا ان کی جدوجہد یا بہادری کی داستانیں تاریخ کا دھارا موڑ دیں گی؟ کیا آنے والا وقت ان دیوانوں کی پکار سے بدل جائے گا؟ کیا محض میڈیا کسی قوم پر آتی آفت کو ٹال سکا ہے؟ کیا فلسطین کا میڈیا اسرائیلی فوج کے حملے روک سکا یا پاکستانی میڈیا نے بھارتی مقبوضہ کشمیر آزاد کروا لیا؟ دوسری طرف مغرب میں دیکھ لیں کہ کیا برطانوی میڈیا ٹونی بلئیر کو عراق پر حملہ کرنے سے روک سکا یا امریکی میڈیا نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایرانی جوہری معاہدے سے نکلنے پر روک دیا۔

دشمن کے خلاف پراپیگنڈہ جو در اصل انسانی تاریخ کا سب سے قدیم ہتھیار ہے اسے ففتھ جینیریشن وار کی ٹوپی پہنا کر جدید بنایا جاتا ہے اور سرعام جھوٹ بولا جاتا ہے کہ یہ تو نئی تکنیک ہے جس سے مقابلے کےلئے بجٹ اور وسائل سرکاری خزانے سے لینے ہیں۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ اگر ملکی مفاد میں میڈیا فرنٹ پر  بنیادی کام کرنے میں وزارت اطلاعات ناکام ہے تو اس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کیوں ایک ہی مقصد کے لیے قوم دو اداروں کا خرچ برداشت کرے؟ ایک جانب وزارت اطلاعات دوسری جانب آئی ایس پی آر۔

اگر آئی ایس پی آر ہی قومی معاملات کو بہتر سمجھتا ہے تو ٹھیک ہے پھر وزارت اطلاعات کی کیا ضرورت اور اگر وزارت اطلاعات اپنا کام کرتی ہے تو آئی ایس پی آر کے غیر معمولی بجٹ کی کیا ضرورت؟ لیکن یہاں بھی وہی معاملہ ہے جو پوری حکومت کا ہے کہ ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے۔

انسانی تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ طاقت رکھنے والوں نے کبھی رضاکارانہ طور پر اپنی طاقت، حق داروں کو نہیں دی اس کھیل میں طاقت اسی کی ہوتی ہے جو اسے منواتا ہے۔ اقتدار کے وحشی کھیل میں انسان نے صدیوں کی قتل وغارت کے بعد پرامن انتقال اقتدار کا طریقہ جمہوریت میں ڈھونڈا کہ بندوق کے بجائے یہ لوگوں کی رائے ہو گی جو ووٹ کی صورت میں طے کرے گی کہ آنے والا حاکم کون ہو گا کیونکہ اس کے علاؤہ اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ صرف اور صرف بندوق ہے۔

اچھا لگے یا برا، حقیقت یہ ہے کہ خود جمہوریت کو برا کہنے والے حتیٰ کہ اس پرامن طریقہ کار کو کافرانہ نظام کہنے والے لوگ کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں جو بندوق اور تلوار والے مسیحا کا خواب دیکھتے ہیں۔ طالبان کی حالیہ کامیابیوں پر دیکھ لیں کون کون خوشی کے شادیانے بجا رہا ہے، یہ سب جانتے ہیں کہ یہ لوگ کبھی ووٹ کی طاقت سے اقتدار حاصل نہیں کر سکتے اسی لئے یہ اسے کافرانہ نظام کہتے ہیں۔ یہ سب خوشیاں منانے والے در اصل اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جو ان کے خیال میں بہت نزدیک ہے کہ جب وہ بھی طالبان کی طرح طاقت سے پاکستان کی حکومت پر قبضہ کریں گے اور اس ملک کے قیام کا اصل مقصد پورا ہو جائے گا یعنی خالص اسلامی مملکت۔

اب یہ خالص اسلامی مملکت کس فرقے کی ہو گی اور اس کے خدو خال کیا ہوں گے؟ اس پر بحث نہیں ہو گی بلکہ ایک مرتبہ پھر بندوق ہی فیصلہ کرے گی کہ خالص اسلامی مملکت در اصل کونسا فرقہ بنائے گا کیونکہ اصل اسلامی راستے سے خود سعودی عرب ہٹتا جا رہا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اب پاکستان وہ خالص اسلامی مملکت بنے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں تاکہ باقی دنیا کو بھی آخر کار خالص اسلامی مملکت کو قبول کرنا پڑے۔ اب ان ارادوں کا پورا ہونا ایک طرف رکھیں لیکن اس لڑائی کی ایک قیمت تو ہو گی جو گلی گلی اور محلے میں لڑی جائے گی۔ ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ملک میں انتظامی توڑ پھوڑ سے باقی دنیا کیسے لا تعلق رہے گی؟ وہ “مدد” کرنے آئیں گے جیسے افغانستان میں باہمی تضاد اور ایک دوسرے کے دشمن ممالک، اپنے اپنے حلقہ اثر والے افغان دھڑوں کو مالی اور عسکری امداد مہیا کر کے “مدد” کرتے رہے۔ اسی “مدد” کی آڑ میں اقوام متحدہ کے نام پر سارا مغرب اور ممکن ہے کہ چین تک ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کی “حفاظت” کرنے کو آ جائے۔

میرے نزدیک یہ بحث لاحاصل ہے کہ طالبان کابل پر قبضہ کرتے ہیں یا نہیں کیونکہ اصل مسلہ کابل پر قبضہ نہیں بلکہ وہ سول وار یا خانہ جنگی ہے جو افغانستان میں شروع ہو چکی ہے اور اس کا اگلا قدم پاکستان ہو گا۔ جیسے جیسے وہاں لڑائی بڑھے گی یہاں درجہ حرارت بڑھتا چلا جائے گا۔ خود دیکھ لیں کہ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت، طالبان سے جنگ کرتی ہے یعنی یہ دونوں ایک دوسرے کے بندے مار رہے ہیں لیکن اقتدار کی جنگ لڑتے ہوئے یہ دونوں فریق اگر کسی بات پر متفق ہیں تو وہ پاکستان کے بارے میں ان کے رائے ہے۔

اسی طرح ہماری جانب پی ٹی ایم، اے این پی، طالبان اور مولانا فضل الرحمان کی پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف سیاسی بلکہ  جنگی عزائم رکھتے ہیں جان لیوا حملے، بم دھماکے کرتے ہیں لیکن ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اقتدار کی لڑائی میں لڑتے بھڑتے یہ تمام پختون فریق اگر کسی ایک بات پر متفق ہیں تو وہ بھی پاکستان کی مقتدرہ کے بارے میں ان کے خیالات ہیں۔

لہذا جہاں لازم ہے کہ سیاسی حقوق کی لڑائی لڑتے دیوانوں کی ستائش کی جائے اور ان کی قربانیوں کو دلوں پر لکھا جائے وہاں اتنا ہی لازم ہے کہ حقیقت پسندی سے پیشہ ورانہ تقاضوں کو سامنے رکھ کر یہ بھی جانا جائے کہ ان قربانیوں سے تاریخ اپنا فیصلہ واپس نہیں لے گی جو بتاتی ہے کہ پاکستان کی مقتدرہ نے بنگالیوں یا مشرقی پاکستانیوں کو کبھی اقتدار کے قابل نہیں سمجھا اور آخر کار اقتدار بھارت کو دے دیا لیکن مشرقی پاکستانیوں کو نہیں۔ عین ویسے ہی جیسے آج بھی پاکستان کی مقتدرہ کسی سویلین کو اقتدار کے قابل نہیں سمجھتی اور اس کا حکم ماننے کے کسی خیال کو بھی توہین تصور کرتی ہے۔

کیا معاملات ہمارے ہاتھوں سے اس حد تک نکل چکے ہیں کہ ایک ہی کشتی میں سوار ہم سب خود کو ڈوبتے دیکھ کر آپس کی لڑائی چھوڑ نہیں سکتے یا کیا آنے والی جنگ کی تیاری میں اپنی صفیں درست نہیں کر سکتے؟ جواب ہے کہ تکنیکی اور کتابی طور پر تو ایسا سوچا جا سکتا ہے اور کوئی شک نہیں کہ ہم سب مل کر آتی ہوئی جنگ یا ہر خطرے کا مقابلہ آسانی سے کر سکتے ہیں لیکن حقیقت کی دنیا میں کیا ہم سب ایک ہونے کو تیار ہیں؟ قوم تو ہمیشہ اپنی فوج کے ساتھ رہی اور رہے گی لیکن کیا فوج بھی اپنی قوم کا ساتھ وہی کردار نبھاتے ہوئے اس طرح دے گی جو اس قوم نے آئین میں انہیں دے رکھا ہے؟ جواب ہے کہ کبھی نہیں۔

کیا یہ کسی ایک سینیر افسر کے بس میں ہے کہ وہ آئین میں درج اپنے کردار کو ویسے ہی نبھائے جس کا اس سے پیشہ ورانہ تقاضہ ہے؟ ناقابل ہضم جواب پھر وہی ہے کہ ایسا کرنا کسی ایک یا چند فوجی افسران کے بس کی بات نہیں رہی اور جو ایسا کرنے کی کوشش کرے کا وہ خود فارغ ہو جائے گا۔

آپ تاریخ سے ہٹلر کا کردار اٹھائیں اور پڑھیں، جان لیں گے کہ دنیا کا ہر الزام ہٹلر پر لگا لیکن کوئی بدترین دشمن بھی یہ نہیں کہہ سکا کہ اسے جرمنی سے محبت نہیں تھی یا یہ کہ وہ اپنے لوگوں سے مخلص نہیں تھا۔ اسے اپنے وطن سے پاگل پن جیسی محبت تھی اور وہ نہایت خلوص سے چاہتا تھا کہ اس کی قوم پورے یورپ اور پھر دنیا پر راج کرے لیکن تمام تر خلوص اور قومی محبت کے جذبات کے ساتھ بندوق پکڑ کے اپنے تمام جرمن سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈال کر جو اس کے خیال میں غدار تھے اور جرمنی کے دشمن تھے، کیا وہ جیت گیا تھا یا کیا اس کے خلوص اور محبت کے قومی جذبات کو آج جرمن قوم یا دنیا عزت دیتی ہے؟

آپ کو شاید حیرت ہو کہ ہٹلر کا ذاتی کردار کسی عیاش کا نہیں تھا۔ اسے شراب سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ گوشت سے پرہیز کرتا تھا اور اس کے ماننے والے اس کی محبت میں ویسے ہی جنونی تھے جیسے کوئی مرید اپنے نیک پیر کی محبت میں اس کے ہر مخالف کو گالی، جیل اور قتل کے قابل سمجھتا ہو۔

 کیا عجیب المیہ ہے کہ سب کے سب دل سے پاکستان سے محبت کرتے ہوئے ایک دوسرے کو مار رہے ہیں اور نہایت خلوص سے اپنی طرف سے ملک بچاتے ہوئے اسے اپنی اپنی دوائی کھلا رہے ہیں۔ یعنی ایک مریض کا علاج ایک ہی وقت میں ایلو پیتھی، حکمت، ہومیو پیتھی، دم درود اور جنات والے پیر سب مل کر رہے ہیں۔

ایسے ہی حالات ہوتے ہیں جب کوئی ڈاکٹر کسی ناقابل علاج مرض سے بےبسی کا اظہار کرتے ہوئے مریض کے لواحقین کو اداسی سے کہتا ہے کہ بس اب دعا کریں۔ اس دعا کرنے والے مشورے کے اندر وہ کیا چیز چھپی ہوتی ہے جو لواحقین کو اسی وقت ماتم کرنے پر مجبور کرتی ہے، وہ آپ جانتے ہیں۔

یہ فقیر بھی اسی دعا اور اپیل کے ساتھ کالم کا اختتام کرنے پر مجبور ہے کہ بس اب دعا کریں کہ بچ جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments