نبیل قریشی کی ”کھیل کھیل میں“ ، مستنصر حسین تارڑ صاحب کی ”راکھ“ اور تاریخ پاکستان


’میں تمہیں موٹی عقل کا مالک اس لئے کہتا ہوں کہ تم بنیادی طور پر ایک ذہین انسان ہونے کے باوجود تاریخ کا شعور نہیں رکھتے۔ تم نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے۔ ایک وہ تاریخ ہے جو تمہیں نرسری سے پی ایچ ڈی تک پڑھائی جاتی ہے اور ایک ادھر دوسری تاریخ ہے جس کے بارے میں تمہیں لاعلم رکھا جاتا ہے۔ تم اسے جان نہیں سکتے، اس کا ذکر نہیں کر سکتے۔ اگر کرو گے تو پوری اسٹیبلشمنٹ کمر بستہ ہو جائے گی تمہیں برباد کرنے کے لئے‘ ۔ ”راکھ“

تاریخ نویسی کی ابتدا یونان اور روم کے طبقہ اشرافیہ کی طرف سے ہوئی جس کا مقصد حکمران خاندانوں سے متعلقہ فتوحات، واقعات اور روایات کو قلم بند کرنا تھا۔ تا ہم تہذیبی و سائنسی ارتقا نے تاریخ نویسی کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے مذہب، سیاست، معیشت، تہذیب و ثقافت اور انسانی نفسیات کا احاطہ بھی کیا۔ سائنسی انقلاب نے تاریخی واقعات کو عقلی میزان پر پرکھنا شروع کیا تو تاریخ، شعوری ارتقا کے سفر میں اقوام عالم کی ہم رکاب ہوئی۔ تاریخ دان اگرچہ ملکی، شخصی و ادارہ جاتی مفادات و تحفظات کے نام پر حقائق کو مسخ کرتے رہے ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخ کا سچ کبھی نہ کبھی آشکار ضرور ہوتا ہے۔ فکری انحطاط کے شکار ممالک ملکی مفاد اور وطنیت کے عقائد کے نام پر مسخ شدہ نصابی تاریخ کی آڑ میں ذہنی و فکری نمو کو ایک مخصوص نقطہ نظر کے تابع کر کے ہراس سوال اور رائے کو جرم گردانا جاتا ہے جو طبقہ اشرافیہ کے طے شدہ بیانیہ سے مختلف ہو۔ تاہم سوال اپنی جگہ موجود رہتے ہیں جن کے جوابات وقت کی راکھ میں کہیں کسی چنگاری کی شکل میں موجود ہوتے ہیں جو اکثر کسی الاؤ کی شکل میں ظاہر ہو کر نام نہاد مروجہ نظریات و تاریخی بد دیانتی کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔

سقوط ڈھاکہ ایک ایسی ہی چنگاری تھی جو تقسیم کی راکھ میں دفن تھی۔ رنگ، نسل، سیاسی عقائد، مذہب اور عقیدے کی آگ نے اس چنگاری کو ایک ایسے جوالا مکھی میں بدل دیا جو بنگلہ دیش کی شکل میں دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس سانحہ کے محرکات کو دیکھا، سوچا، سمجھا اور پرکھا جاتا، اس کے برعکس وہ طاقتور طبقہ اشرافیہ جو اس اندوہناک سانحہ میں ملوث تھا انھوں نے من گھڑت اور جھوٹی تاریخ مرتب کر کے اور حقائق کو مسخ کر کے اس مجرمانہ اور سفاکانہ غفلت کو تقدیس وطن کا رنگ دیا اور اس سانحہ کو جو بیرونی سازش اور اندرونی انتشار کا نتیجہ تھا ہاری ہوئی جنگ قرار دے کر اس سازش کے کردار و عوامل پر تنقید کو قومی وقار سے جوڑ دیا۔

قیام پاکستان کے بعد جس واقع نے برصغیر پاک و ہند کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ سقوط ڈھاکہ ہے۔ اس سانحہ نے نہ صرف کروڑوں لوگوں کی زندگی کو متاثر کیا بلکہ قیام پاکستان کی آئیڈیالوجی پر بھی سوالات کھڑے کر دیے۔ سقوط ڈھاکہ تاریخ کا وہ باب ہے جسے لکھتے ہوئے مورخین نے کبھی بھی غیر جانبداری نہیں برتی ’چاہے وہ ہندوستان میں لکھی گئی یا بنگلہ دیش میں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان کے لئے اس ہاری ہوئی جنگ کو مقتدرہ ہستیوں اور اداروں نے اس کے محرکات کا تحقیقی و علمی جائزہ پر ان دیکھی پابندیاں عائد کرتے ہوئے اسے ملک دشمن بیانیہ سے تعبیر کیا۔ اس مجرمانہ خاموشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سازش جس کا شکار پاکستان ہوا اس کی فرد جرم بھی ہم نے خود پر ہی عائد کر دی اور دوسری طرف دنیا نے یک طرفہ بیانیہ کو شرف قبولیت بخشا جس کے تحت ہم مجرم ٹھہرے اور جو مجرم تھے ان کے حوصلے اتنے بلند ہو گئے کہ وہ آج بلوچستان میں بھی وہی کھیل کھیل رہے ہیں جو نصف صدی قبل مشرقی پاکستان میں کھیلا گیا۔ لیکن خوش قسمتی سے ایسے لوگ موجود ہے جو اصل حقائق کو کھوجنے کی سعی کر رہے اور ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو نہ دوہرانے کے لئے نئی نسل کو غیر جانبداری سے تاریخی واقعات کو پرکھنے کا حوصلہ دے رہے۔

شاعر، مصور، ادیب اور دیگر فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے لوگ فطری طور پر حساس ہوتے ہیں جو ماضی میں ہونے والے واقعات و سانحات پر غور و فکر کرتے، حال کو ماضی کے آئینے میں دیکھتے اور مستقبل کے لئے ان غلطیوں سے بچانے کے لئے اپنے تئیں کوشش کر کے معاشرتی شعور کو جھنجھوڑتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ صاحب عہد حاضر میں اردو ادب کے نامور ادیب ہیں جنہوں نے سفرنامہ، ڈرامہ، کالم نگاری اور ناول جیسی ادبی اصناف میں بیش بہا تخلیقات کا تحفہ قارئین کو دیا ہے۔ تارڑ صاحب کا ناول ”راکھ“ سقوط ڈھاکہ کے پس منظر میں لکھی جانی بے باک، جاندار اور غیرجانبدار تحریر ہے۔ اردو ادب میں ”راکھ“ وہ ادبی شہ پارہ ہے جس میں مستنصر حسین تارڑ صاحب نے غیر محتاط انداز میں پاکستان بلکہ پاکستان ٹوٹنے کی کہانی بیان کی ہے۔ ہر بڑی کہانی کی طرح ”راکھ“ ایک نوحہ، دکھ اور ٹریجڈی ہے جو سقوط ڈھاکہ جیسے عظیم سانحہ کے گرد گھومتی ہے۔ ناول کے اہم کرداروں میں زاہد کالیا، مشاہد، برگیتا، مردان اور ڈاکٹر ارشد شامل ہیں۔ ان کرداروں کے ساتھ ناول میں کچھ حقیقی کردار جیسے ذوالفقار علی بھٹو، منٹو، ملک معراج خالد اور ضیا الحق وغیرہ بھی موجود ہیں۔ تارڑ صاحب نے بڑی خوبصورتی سے ان حقائق کو الفاظ کی لاٹھی سے کریدنے کی کوشش کی ہے جو ارباب اقتدار نے عوام سے مصلحت کے نام پر چھپائے ہیں یا ان کو اس طرح مسخ کیا گیا ہے کہ حقیقت تک پہنچنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اگرچہ الفاظ کا چناؤ اور استعمال ناول کے مروجہ اصولوں کو مدنظر رکھ کر ان کو ادبی رنگ دیا گیا ہے تا کہ ناول اور تاریخی دستاویز میں فرق رکھا جا سکے تاہم ادیب نے مہارت سے اصل مدعا قارئین تک پہنچا دیا ہے۔

مستنصر حسین تارڑ صاحب نے جس بے باکی سے ناول کے ذریعے ارباب اقتدار کی تاریخی حماقتوں کو بے نقاب کیا ہے اسی جرات سے ہدایت کار نبیل قریشی نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اس سانحہ کو پردہ سیمیں پر فلم ”کھیل کھیل میں“ کے ذریعے منتقل کر دیا ہے۔ فلم کی کہانی سقوط ڈھاکہ کے گرد گھومتی ہے اور اس سانحہ کے حقائق و محرکات کو بیان کرتے ہوئے پاکستان میں جاری سیاسی، معاشی اور معاشرتی استحصال کو زیر بحث لا کر ان مسائل سے لاتعلقی اور مجرمانہ خاموشی کو بھی موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ سقوط ڈھاکہ سے موجودہ نسل کی لا علمی، لا تعلقی اور اس لاتعلقی سے جنم لینے والی بے حسی پر بھی تنقید بھی کی گئی ہے۔ فلم کا ایک اہم پہلو بنگلہ دیش میں محصور لاکھوں پاکستانی ہیں جو صرف پاکستان سے محبت کی سزا بھگت رہے ہیں۔ نصف صدی گزرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش میں یہ لوگ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر ستم یہ کہ پاکستان اور پاکستانیوں کو ان سے کوئی سروکار نہیں۔ اگرچہ فلم کے کردار ”راکھ“ کے زاہد کالیا، مشاہد، ڈاکٹر ارشد اور برگیتا جیسے متاثرکن اور فلاسفیکل نہیں ہیں اور ناول کی طرح فلم میں بھی بہت کچھ ان کہا چھوڑ دیا گیا ہے جس سے فلم بین قدرے تشنگی محسوس کرتے ہیں۔ تاہم کہانی کا مرکزی خیال اور کینوس بہت وسیع اور جاندار ہے جس کو بہترین ہدایت کاری نے اثر انگیز بنا دیا ہے۔ پاکستانی سینما میں شاید ہی کوئی ایسی کوشش ماضی میں کی گئی ہی سو اس فلم کو پاکستانی سینما بحالی کی طرف ایک اہم سنگ میل کہا جا سکتا ہے۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کا قیام ایک عظیم سانحہ اور سازش تو ہو سکتی ہے لیکن یہ جنگ ہرگز نہیں تھی۔ سانحہ مشرقی پاکستان تاریخ کا ایسا باب ہے جسے قلم بند کرتے وقت حقائق کے بجائے ملکی وقار، پروپیگنڈا، فتح و شکست اور جھوٹ کو اس شدت اور تواتر سے استعمال کیا گیا ہے کہ اس بحث میں نہ صرف اصل حقائق کہیں کھو گئے ہیں بلکہ اس تواتر سے یک طرفہ جھوٹا اور من گھڑت بیانیہ تشکیل دیا گیا کہ اک مذہب اور ایک نظریہ کے حامی ایک دوسرے کے جانی دشمن ٹھہرے۔ بدقسمتی سے سقوط ڈھاکہ کو ایک ہاری ہوئی جنگ قرار دے کر اس پر بات کرنا جرم قرار دیا گیا جس سے نہ صرف نئی نسل ان محرکات سے نا آشنا رہی جو بنگلہ دیش کا قیام کا باعث بنے اور نہ ہے ان سازشوں کو سمجھ پا رہے ہیں جو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد زیادہ شدت اور طاقت کے ساتھ میدان عمل میں ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب یہ آگ اب بنگلہ دیش سے آگے بڑھ کے بلوچستان اپنی لپیٹ میں لینے جا رہی ہے۔

یہ بحث جو ”راکھ“ اور ”کھیل کھیل میں“ کی شکل میں شروع کی گئی ہے اس کو مزید توانا کرنے کی ضرورت ہے جو مختلف طبقہ ہائے فکر کی شمولیت اور دلچسپی سے ہی ممکن ہے۔ سقوط ڈھاکہ اگرچہ تاریخ پاکستان کا ایک الم ناک باب ہے تاہم یہ ایک حقیقت بھی ہے جو ہمیں تسلیم کرنی چاہیے اور ان تمام محرکات و عوامل کو زیربحث لا کر ان کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنا چاہیے کیونکہ شخص یا ادارہ کوئی بھی ہو وہ پاکستان کا ہے اور اس کا تقدس پاکستان اور پاکستانیوں کے تقدس سے زیادہ ہر گز نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments