لوگوں کو بھی مذہب کے نام پہ استعمال کیا جاتا ہے


آج سے کچھ عرصہ پہلے ہمارے گھر کچھ مہمان آئے تھے اور باتوں باتوں میں انہوں نے کچھ ایسی بات کردی جس پہ مجھے شدید اختلاف تھا۔ میں نے باقاعدہ بحث شروع کردی کہ یہ بات ایسے نہیں ویسے ہے اور وہ آنٹی بھی کچھ کم نہ تھیں ایسے لگتا تھا وہ کچھ سننے کو تیار ہی نہیں تھیں۔ میری امی نے مجھے کمرے میں جانے کا کہا۔ میرا موڈ بہت خراب تھا کہ وہ کیسے اپنی غلط بات پہ ڈٹی رہیں اور اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے انھوں نے بے تکی مثالیں بھی دیں اور بہت سی چیزوں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔

خیر ان کے جانے کے بعد امی میرے پاس آئیں اور بولیں ”بیٹا کبھی کسی کے سامنے مذہب کے بارے میں بات نہ کرنا، نہ کسی کے عقیدے اور نہ کسی کے فقہ پہ سوال کرنا“ میں نے پوچھا امی ایسا کیوں ہے، مذہب پہ بات کرنا جرم ہے کیا؟ تو امی نے کہا کہ بیٹا لوگ مذہب کو حسب ضرورت ضرورت استعمال کرتے ہیں اور اکثر مذہب کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی مذہب کے نام پہ استعمال کیا جاتا ہے۔

سیالکوٹ میں ہونے والے واقعے نے مجھے اس بات کا مطلب سمجھا دیا۔ انسان کے لبادے میں چھپے ان بھیڑیوں نے کس طرح رزق کی خاطر پردیس کی ٹھوکریں کھانے والے ایک معصوم اور نہتے انسان کو مار ڈالا اور کس قدر سفاکی سے مذہب کو بدنام کیا۔ پریانتھا دیاودانا جو کہ ایک سری لنکن شہری تھا اور دس سال سے سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں بحیثیت مینجر کام کرتا تھا اس کو کیا معلوم تھا کہ اس کی ایمانداری کچھ جانوروں کو پسند نہیں آ رہی اور وہ اس ٹوہ میں ہیں کہ کسی طرح اس کو راستے سے ہٹا سکیں۔ اور پھر ان بھیڑیوں نے وہی کیا جو کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، مذہب کارڈ کا استعمال۔

جب میں نے سوشل میڈیا پہ وہ ویڈیو دیکھی تو میری نظروں کے سامنے چند سال پہلے کے مناظر دوڑنے لگے، مشال خان، جو کہ عبدالولی خان یونیورسٹی، مردان کا ایک ہونہار طالب علم تھا اسے کس قدر بے دردی سے ”توہین رسالت“ کا مجرم قرار دے کر عوام کی عدالت نے سزا سنائی تھی، بغیر کسی ثبوت اور تحقیق کے اسے مار دیا گیا۔ وہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ یونیورسٹی میں ہونے والی بے ضابطگیوں پہ بولنے کی سزا ملی اس بے گناہ انسان کو۔

اور نہ جانے کتنے مشال روز ہی اس مذہبی انتہا پسندی کا نشانہ بنتے ہیں، روز کتنے ہی پرینتھا اس ظلم کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن ہم میں سے کبھی کسی نے جرات نہیں کی کہ وہ سوال کرے کہ آخر ہمارے اندر کا سویا ہوا ایمان اور مسلمان صرف ضرورت کے تحت کیوں جاگتا ہے؟ آخر اسلام نے کب سے ہمیں دوسروں کی جان لینے کا حکم دیا ہے؟ آخر کب تک یہ مذہب کے جھوٹے ٹھیکیدار لوگوں کو گمراہ کریں گے؟ آخر کب تک مشال اور پریانتھا جیسے لوگ مذہب کے نام پر بھینٹ چڑھتے رہیں گے؟

ہم سب مذہب سے متعلق ہر بات پہ چپ سادھ لیتے ہیں، لیکن جہاں غرض ہو ہماری وہاں ہم احادیث اور آیات کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے باز نہیں آتے۔ اللہ کے نبی نے کبھی بھی اس کی تخلیق کردہ مخلوق کو مفروضوں اور جھوٹی تہمتوں کی بنیاد پہ سزا نہیں دی۔ فتح مکہ کا وہ تاریخی لمحہ جب دونوں جہاں کے آقا نے اپنے بدترین دشمنوں کے لئے عام معافی کا اعلان کیا، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام انتہا پسند مذہب کبھی نہیں رہا البتہ اس کا پرچار کرنے والوں نے اس کو اپنی ضرورت کے حساب سے استعمال کر کے ہمیشہ اس کا منفی پہلو ہی اجاگر کیا دنیا میں۔

”ختم نبوت“ ایک ایسا عقیدہ ہے جس پہ ہم مسلمان دل و جان سے یقین رکھتے ہیں۔ لیکن ختم نبوت سے پہلے سیرت حضرت محمدؐ بھی موجود ہے جس میں دوران جنگ دشمن کے درختوں تک کی حفاظت کا حکم ہے، لیکن کیوں کہ ہم شاید نام کے مسلمان رہ گئے ہیں اس لئے اپنے آقا کے نقش قدم کو بھلا بیٹھے ہیں۔ اس دنیا کو تخلیق کرنے والے مالک نے واضح کر دیا تھا آج سے چودہ سو سال پہلے کہ ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے تو پھر ہم کون ہوتے ہیں بنا ثبوت کے عدالت لگانے والے۔ اگر سرعام مارنا ہے تو سب سے پہلے اپنے آپ کو ماریں جو کہ اپنے پیدا کرنے والے کے حکم سے روگردانی کر کے بہت ہی مزے سے اپنے گناہوں کا دفاع کرتے ہیں۔ ہمارے اندر اس قدر غلاظت بھر چکی ہے کہ ہم آخرت اور انسانیت کو فراموش کر چکے ہیں۔

مشال اور پریانتھا جیسے لوگ تو نہ جانے کتنے ہی آئے اور گئے لیکن ہم نے کیا کچھ سیکھا ان واقعات سے؟ مرنے والے بھی کسی کے باپ، بیٹے، بھائی اور شوہر تھے، کیا ہمارا نظام عدل جو کہ اب کھوکھلا ہو چکا ہے وہ اس بے گناہ انسان کی موت کو رائیگاں جانے دے گا؟ کیا ان تین بچوں کو انصاف ملے گا، کیا وہ اپنے باپ پہ لگے اس داغ کو دھو سکیں گے؟

ہمارے حکمران ویسے تو قانون سازی کی بہت باتیں کرتے ہیں لیکن ابھی تک ختم نبوت جیسے حساس پہلو پہ کوئی جامع حکمت عملی اور قانون سازی نہیں کر سکے۔ ہمارا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم بات آدھی سنتے ہیں اور فیصلہ جلد سنا دیتے ہیں۔ اور ہماری اسی کمزوری کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ ہم صدیوں سے مذہب کے نام اور ختم نبوت کے نام پر بے وقوف بنتے آ رہے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ میں اور آپ کیوں نہیں دین سے متعلق کوئی سوال کر سکتے اگر ہم کسی شش و پنج میں ہیں؟

کیوں ہم اپنی کنفیوژن دور جر سکتے؟ تو جناب وہ اس لئے کہ بچپن سے ہمارے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ اگر دین، خدا یا اس کے رسول کے بارے میں کوئی سوال کرو گے تو گناہ گار کہلاؤ گے، اللہ تعالیٰ سزا دیں گے۔ جبکہ ایسا کچھ نہیں۔ لیکن یہ ڈر ہمارے ذہنوں میں اس قدر پختہ ہو چکا ہے کہ ہم اس سے نکل نہیں سک رہے، لیکن آخر کب تک؟ آخر کب تک ہم دوسروں کو اور خود کو سزا دیں گے۔ خدارا اب تو جاگ جائیے کب تک دوسروں کے ہاتھوں کھلونا بن کے بے گناہ لوگوں کی زندگی اور اپنی آخرت خراب کریں گے۔

مت اپنے گھناؤنے مقاصد کے لئے خدا اور اس کے رسول کا سہارا لیں۔ جس دین کا آپ پرچار کرتے ہیں وہ دین امن اور محبت کا ہے، انتہا پسندی تو انسان میں ہے اور ایسے انتہا پسندوں کو معاشرے میں ایک ناسور سمجھا جاتا ہے جو کہ پورے نظام کو مفلوج کر دیتے ہیں۔ سیانے کہتے ہیں جب کوئی چیز یا جسم کا کوئی حصہ ناسور بننے لگے تو اس جو کاٹ پھینکو کیونکہ وہ باقی اعضاء کو بھی مفلوج کر دیتا ہے۔ میں یہ فیصلہ آپ پر چھوڑتی ہوں کہ آپ ناسور کے ساتھ جینا چاہیں گے یا ایک صحتمند اور آزاد زندگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments