”بلیک فرائیڈے“ مشی گن کے بچوں کے لیے سیاہ بخت کیوں ثابت ہوا؟


واقعہ ہے۔ سن 2021، نومبر کی تیس تاریخ کا، دوپہر ایک بجے سے کچھ پہلے کا وقت اور مشی گن ریاست میں واقع آکسفورڈ ہائی اسکول جہاں ابھی معمول کے مطابق پڑھائی جاری ہے۔ یہ ایک کلاس کے دورانیہ کے ختم ہونے کا وقت تھا جب اسکول کی راہداری سے گزرتے ہوئے بچے کلاس روم تبدیل کر رہے تھے۔ کسی کو کیا خبر کہ عین اس لمحہ میں کمرہ ہی نہیں ان کی زندگی کا منظر نامہ بھی ہمیشہ کے لیے بدلنے والا ہے۔ اسکول میں نصب کیمرے کے مطابق اس وقت اسکول کا نویں جماعت کا پندرہ سالہ معصوم سی شکل کا طالبعلم ایتھن باتھ روم سے نکل کر راہداری میں داخل ہوتا ہے۔ کلاس کی تبدیلی کی گہما گہمی کے وقت ایتھن نے اسکول کے بچوں پہ اپنی نائن ایم ایم سگ سایر آٹومیٹک (ایس پی 2022) پسٹل سے نہایت منظم انداز میں ان بچوں پہ شوٹنگ شروع کردی۔ خصوصاً ان پہ جو اپنے دفاع کے لیے بھاگ نہ سکے تھے۔ یہ وہ پستول تھی جو اس کے باپ نے نومبر کی چھبیس تاریخ کو امریکہ کی مقبول ترین بلیک فرائیڈے سیل سے کرسمس کے تحفہ کے طور پہ خریدی تھی۔ اس کے باپ جیمز کرمیلی نے یہ گن خریدی تو اپنے نام سے مگر استعمال کے لیے پندرہ سالہ کم عمر بیٹے کو بطور تحفہ نذر کر دی۔ ایسا تحفہ جو زندگی سے محبت کا سبب بننے کے بجائے دوسروں کی موت اور خوف کا سامان بنا۔

دہشت گردی کا یہ واقعہ کہ جس میں چار طالب علموں نے جان سے ہاتھ دھوئے اور چھ بچے اور ایک ٹیچر زخمی ہوئے، بظاہر اچانک ہی ہوا لیکن اس کے درپیش ہونے کی علامات بطور ریڈ فلیگ کچھ لوگوں پہ واضح تھیں جن کی بنیاد پہ اس واقعہ کی مخالفت میں کیس لڑنے والی وکیل کیرن میکڈانلڈ نے اس کے واقعہ میں شوٹنگ میں ہونے والے دانستہ قتل کا ذمہ دار ایتھن کو ہی نہیں بلکہ اس کے والدین جیفر اور جیمز کرمیلی کو بھی غیر دانستہ قتل کے مرتکب مجرمان قرار دیا ہے۔ اور اس یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اس قسم کے واقعات میں دہشت گردی کا ذمہ دار اور قصور وار مارنے والے بچے کو ہی نہیں والدین کو بھی ٹھہرایا گیا ہو۔

Crumbley

آخر وہ ریڈ فلیگ کیا تھے کہ جن کو اگر وقت پہ سمجھ لیا جاتا تو شاید اس خون آشام واقعہ سے بچا جا سکتا تھا۔

1۔ ایتھن کے والد جیمز کرمیلی نے نومبر 26 بلیک فرائیڈے کے دن ایک شوٹنگ اسٹور سے گن خریدی۔

2۔ اسی دن ایتھن نے سوشل میڈیا پہ اس کو خریدنے کی خبر اس کیپشن کے ساتھ لکھی۔

”Just got my new beauty SIG AUER 9 m“ اور اس کے ساتھ ہی دل کی شکل بھی تھی۔

3۔ نومبر 27 کو ایتھن کی ماں جینیفر نے سوشل میڈیا پہ پوسٹ کیا۔ Mom and son day testing out his new Christmas present ”۔

(ماں اور بیٹا آج کرسمس کا نیا تحفہ ٹسٹ کر رہے ہیں۔)۔

4۔ شوٹنگ سے ایک دن پہلے آکسفورڈ ہائی اسکول کی ایک ٹیچر نے ایتھن کرمیلی کو اپنے سیل فون پہ ہتھیاروں کی تلاش کرتے دیکھا جب ٹیچر نے اسکول عملہ کو بتایا تو اسکول نے اس کی والدہ جینیفر کے فون پہ تشویش کے طور پہ میسیج چھوڑا جس کا کوئی جواب نہیں آیا۔ اس کے بعد اسکول کی انتظامیہ نے والدین کو ایمیل بھیجی جس کا بھی کوئی جواب نہیں ملا البتہ ماں نے بیٹے کو ٹیکسٹ ضرور کیا۔

(Lol، میں تم سے ناراض نہیں۔ تم کو یہ سیکھنا ہے کہ کس طرح پکڑے نہ جاؤ۔)۔

5۔ 30 نومبر یعنی دہشت گردی کے واقعہ کے دن، کلاس میں ایتھن کی ٹیچر نے ایتھن کی نوٹ بک پہ ایکسیمی آٹومیٹک ہینڈ گن کی ڈرائینگ دیکھی جس کا رخ ایک جملے کی جانب تھا۔ ”سوچیں قابو میں نہیں آ رہی ہیں۔ مجھے مدد چاہیے۔“ اور اس کے علاوہ گولی کی ڈرائینگ تھی جس کے اوپر دیکھا تھا۔ blood everywhere۔ یعنی خون ہر طرف۔ گن اور گولی کے درمیان ایک شخص کی تصویر تھی جس کو دو دفعہ مارا گیا تھا اور اس میں سے خون بہ رہا تھا جس کے نیچے ہنستی ہوئی شکل تھی۔ یہ نوٹ بھی درج تھا کہ ”میری مدد کرو۔ میری زندگی بیکار ہے۔ دنیا مر چکی ہے۔“ اس تصویر میں ہر جگہ خون نظر آ رہا تھا۔ ٹیچر نے اس کی ڈرائینگ کی اپنے سیل فون سے تصویر لی اور جب اس صبح ایتھن کے والدین اپنے بچے کے رویے کی شکایت کے سلسلے میں اسکول کے عملہ سے ملنے آئے تو انہیں یہ تصاویر دکھائی گئیں اور کہا گیا کہ ان کے بیٹے کو 48 گھنٹوں کے اندر کونسلنگ ضروری ہے۔ لیکن والدین نے نہ اپنے بچے سے یہ پوچھا کہ گن کہاں ہے اور نہ ہی اس کے اسکول کے بیگ کو چیک کیا۔ بچہ میٹنگ کے وقت ان کے ساتھ ہی تھا۔ اسکول کی انتظامیہ نے والدین سے یہ بھی کہا کہ بچے کو گھر لے جائیں۔ مگر والدین کا رویہ مزاحمتی تھا۔ انہوں نے صاف انکار کر دیا اور پھر وہ دونوں بچے کو اسکول ہی میں چھوڑ کے چلے گیے۔ والدین کے جانے کے بعد اسکول کے عملہ نے بچے کو کلاس میں واپس بھیج دیا گو اسکول انتظامیہ کے کلاس میں واپس بھیجنے اور اسکول بیگ نہ چیک کرنے کے فیصلہ کو کافی تنقید اور sue ہونے کا سامنا ہے۔ لیکن امریکہ کے اسکولز میں اسکول کا بیگ ایک ذاتی ملکیت تصور کرتے ہوئے اتنی آسانی سے چیک نہیں کیا جا سکتا اور گن کو خریدنے کا علم انتظامیہ کو نہیں تھا۔

اس میٹنگ کے بعد بچہ اپنے اسکول بیگ کے ساتھ باتھ روم گیا اور وہاں سے تھوڑی دیر بعد نکل کر ہینڈ گن سے مارنے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھا جب تک پولیس نے آ کر کنٹرول نہیں سنبھالا۔ اس دوران دہشت گردی کی یہ خبر تمام والدین تک پھیل چکی تھی۔ اس کی ماں جینیفر نے بیٹے کو ٹیکسٹ میسج کیا کہ ”ایتھن یہ مت کرو۔“ مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ اس وقت تک ایتھن چار بچوں کو جان سے مار چکا اور سات افراد کو زخمی کر چکا تھا۔

victims

اسی دوران ایتھن کے والد جیمز نے 911 کو کال کیا کہ ان کے بیڈ روم کی دراز جو لاک نہیں تھی۔ اس میں سے ان کی گن غائب ہے۔

جب جیمز اور جینیفر کو شوٹنگ کے واقعہ کے تیسرے دن پتہ چلا کہ عدالت میں ایتھن ہی نہیں بلکہ بچوں کی موت کی ذمہ داری کا مقدمہ ان پہ بھی چلے گا تو انہوں نے پہلے تو بینک سے چار ہزار ڈالرز نکلوائے اور پھر وہ دونوں ڈیٹرایٹ شہر کی ایک آرٹ گیلری کے تہہ خانے میں روپوش ہو گئے۔ تاہم وہ جلد ہی پکڑ لیے گئے۔

اس وقت دونوں کل دس لاکھ ڈالرز کی ضمانت کی رقم پہ جیل میں قید ہیں۔ ایتھن بھی اسی جیل میں قید ہے۔ جہاں اس پر بالغ مرد کے طور پہ مقدمہ چلایا جائے گا۔

اس واقعہ نے امریکی میڈیا اور عوام کو ایک بار پھر متحرک کر دیا ہے۔ جیسا کے ماضی میں ایسے واقعات پہ ہوتا آیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی اسکول میں شوٹنگ کا یہ واقعہ امریکہ میں نیا نہیں۔ اب تو امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کے اسکولوں میں گن شوٹنگ وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ محض سن 2021 میں امریکہ کے انتیس اسکول اس دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔ کولوراڈو کے کالمبائین ہائی اسکول (سن 1999 ) اور کانٹیکٹ کے ایلیمنٹری اسکول (سن 2012) میں ہونے والی شوٹنگ کے دلخراش اور جان لیوا المیے لوگوں کے ذہنوں میں ابھی تک تازہ زخم کی صورت ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اسکول میں گن دہشتگردی واقعات سے دو لاکھ اٹھتر ہزار طلبا متاثر ہوئے ہیں جو اپنے تئیں ایک ٹراما ہے۔

شوٹنگ کے ان واقعات کے پیچھے دو اہم حقیقتیں کار فرما ہیں۔ ایک تو پیچیدہ ذہن رکھنے والا انسان نوجوان اور دوسری انسانی ذہن کی پیچیدگیوں سے عاری بندوق جسے اس انسان نے اندھادھند چلایا۔ یہ دونوں ہی توجہ طلب مسائل ہیں۔ انسان کا بیمار ذہنی رویہ اور اسلحہ رکھنے کے حق سے متعلق قوانین۔

اب اگر ہم آج کے دور میں درپیش ذہنی سماجی مسائل کو دیکھیں تو انسانی ذہن ان گتھیوں میں الجھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ ہمیں لگتا ہے کہ میڈیا نے ہمیں بہت سی لوگوں سے جوڑ دیا ہے۔ جو کہ بہت سے لوگوں کے لیے درست بھی ہو گا لیکن ذہنی بیماریوں میں مبتلا افراد کے لیے یہی میڈیا کبھی سایبر بلنگ کی صورت مزید ڈپریشن اور تنہائی کا المیہ بنتا ہے تو کبھی ذہنی امراض کی صورت کہ جن کا علاج امریکہ جیسے ترقی یافتہ میں بھی ایک تہمت بن کر مریض کے مرض کو سمجھنے اور علاج میں مانع رہتا ہے۔

آکسفورڈ ہائی اسکول کے سانحہ میں پندرہ سالہ ایتھن کو ڈپریشن اور تنہائی کا سامنا تھا۔ شوٹنگ والے دن سے قبل اس کے لکھے جملوں اور ڈرائینگ سے اس کی ذہنی حالت عیاں ہے۔ اسکول میں بلینگ یا تمسخر کے سامنا ہونے کے علاوہ وہ شدید ڈپریشن اور تنہائی کا شکار تھا جس کی علامات ظاہر ہے کہ دو سال سے کوویڈ 19 سے پھیلی بیماری اور موت کے بسیرے کے باعث کچھ اور بڑھ گئی ہوگی۔ اس کی ایک پڑوسن کا بیان ہے کہ جب ایتھن آٹھ نو سال کا تھا تو اکثر وقت گزارنے اس کے گھر آ جاتا تھا کیونکہ اس کے والدین بیٹے کو اکیلا چھوڑ کے ایک شراب خانے سے دوسرے شراب خانے جاتے۔ وہ جوئے اور شراب کی لت کا شکار تھے۔ بچے کی جانب سے ان کی اس بے توجہی کی وجہ سے ماضی میں ان کو چائلڈ پروٹکٹیو سروسز کے کیس کا بھی سامنا رہا تھا۔

گو بیماری کی حالت میں بھی کسی کی جان لینے کا کوئی جواز نہیں اور دہشت گردی کا یہ عمل کسی طور پہ بھی قابل قبول عمل نہیں لیکن ہمیں مسئلے کی نشاندہی کے بجائے اس کی جڑوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا سماج ان بچوں کی ذہنی حالت کو سمجھنے اور اس کے تدارک سے قاصر ہے کہ جو غصہ غم، بے بسی اور ڈپریشن کی صورت میں منفی جذبات کو جنم دیتے ہیں۔

ایک دہائی سے بطور منشیات کے عادی تھراپسٹ کام کرتے ہوئے مجھے امریکہ کے سماج کو سمجھنے کا براہ راست موقع ملا ہے۔ اس میں جیل میں منشیات کے عادی مرد مجرمان کے ساتھ کام کرنے کا تقریباً چار سال کا قیمتی تجربہ بھی شامل ہے۔ جس میں دو قاتل بھی شامل تھے۔ اعداد و شمار کے مطابق منشیات کے عادی پچاس سے ساٹھ فی صد افراد کسی نہ کسی ذہنی مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ اپنے تجربات کی روشنی میں میں اس مشہور کہاوت سے پورے طور پہ متفق ہوں کہ Hurt people hurt۔

”زخم خوردہ لوگ (دوسروں کو) زخم دیتے ہیں۔“ ۔

رہا معاملہ گن کنٹرول کے قانون کا تو اس سلسلے میں بدقسمتی سے امریکہ کی پاور اور کنٹرول کرنے والی تاریخ کے دور رس زہریلے اثرات کا کردار ابھی بھی کرم فرما ہیں کہ جب ماضی میں بلکہ ابھی تک بھی نسلی برتری کے سبب سیاہ فام، نیٹیو امریکیوں کا خون سفید نژاد امریکیوں کے سر جاتا ہے۔ قوم کا مزاج اپنی تاریخ کی سوچ سے تراشا جاتا ہے۔ لہذا ابھی بھی تیس سے زیادہ ریاستوں نے بغیر کسی اجازت اور لائسنس کے گن کو ذاتی استعمال اور حفاظت میں رکھنے کا حق قانوناً برقرار رکھا ہوا ہے۔ حالیہ واقعہ کے باوجود چار دسمبر کوریپبلک کے سینٹ کے ایک نمائندے نے کرسمس کے موقعہ پہ سوشل میڈیا پہ کرسمس کی مبارکباد پہ خاندان کے ساتھ گنز کی تصاویر اور پیغام تھا۔ Mary Christmas P۔ S Santa please bring ammo۔

جس ملک کے نمائندوں کا یہ حال ہو وہاں تبدیلی کے عمل میں یقیناً دیر لگے گی۔

امریکہ ہو یا پاکستان ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کہ جو کسی اور کے ساتھ ہوا ہے۔ ہمارے ساتھ نہیں ہو گا اور یہی موہوم سی امید ہمیں آگے قدم بڑھانے سے روکتی ہے۔ لیکن حقیقت میں کسی ایک کے ساتھ بھی ہونے والی زیادتی کے خلاف آواز اٹھانے سے سماجی تبدیلی کا عمل جنم لیتا ہے۔ وہ چاہے ذہنی امراض کے سلسلے میں معاشرتی تہمت کو چیلنج کرنا ہو یا اسلحہ کے آزادانہ استعمال اور خریدنے اور استعمال کرنے کے مناسب قانون کے لیے جدوجہد کا عمل، آپ اپنا حصہ ضرور ڈالیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments