جب انڈیا جاتے ہوئے نورجہاں کو چلتے جہاز سے اتار لیا گیا تھا


(نورجہاں کی اکیسویں برسی کے موقع پر ان کے دو رۂ ہندوستان کی یادیں )
9 فروری 1982 کی دوپہر کو پاکستان ائر لائنز کی فلائٹ پی کے 276 کا بھارت میں جتنا انتظار تھا، اتنا کبھی نہیں ہوا تھا۔ اور اتفاق یہ تھا کہ جو فلائٹ صبح ساڑھے دس بجے بمبئی (جو آج ممبئی ہے ) پہنچنا تھی وہ اس روز لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر سے پہنچی۔ اس جہاز کا انتظار سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ کر رہے تھے۔ اس جہاز سے ملکۂ ترنم نورجہاں 35 سال بعد ہندوستان پہنچی تھیں۔

بمبئی کے ہوائی اڈے پر جن لوگوں نے نورجہاں کو خوش آمدید کہا ان میں پران پیش پیش تھے جو بطور ہیروئن ان کی پہلی فلم ”خاندان“ میں ان کے ساتھ ہیرو آئے تھے۔ پھر موسیقار نوشاد علی تھے جنھوں نے ”انمول گھڑی“ میں نورجہاں کے لیے ناقابل فراموش دھنیں بنائیں تھیں۔ نورجہاں کی پرانی سہیلیاں ستارہ دیوی اور سردار اختر تھیں، دلیپ کمار کی نمائندگی ان کی ساس نسیم بانو کر رہی تھیں اور نورجہاں کے سینکڑوں دوسرے مداح تھے جو ان پر پھولوں کی بارش کر رہے تھے۔

نورجہاں MORTAL MEN، IMMORTAL MELODIES نامی تقریب میں شرکت کرنے بمبئی پہنچی تھیں۔ اس تقریب کا اہتمام متکلم فلموں کی گولڈن جوبلی تقریبات کے سلسلے میں میوزک ڈائریکٹر ایسوسی ایشن نے کیا تھا اور اس کا انتظام سدارتھ کاک کے ادارے سینما وژن نے کیا تھا۔ نورجہاں ائرپورٹ سے سیدھی تاج محل ہوٹل گئیں جہاں کمرہ نمبر 1608 ان کے لیے مختص تھا۔

کراچی سے بمبئی کی یہ فلائیٹ کہنے کو تو محض 6 گھنٹے 10 منٹ کی تھی لیکن نورجہاں کے لیے یہ سفر اتنا آسان ثابت نہیں ہوا تھا۔ یہ ضیا الحق کے مارشل لاء کا زمانہ تھا اور اس وقت ہندوستان آنا جانا اتنا آسان نہیں تھا۔ متعدد سرکاری محکموں سے اس کی اجازت لینا پڑتی تھی اور اپنی ”وفاداری“ کا یقین دلا کر ہی کسی کو ہندوستان جانے کی اجازت ملتی تھی۔ 15 دسمبر 1947 کو نورجہاں بمبئی میں اپنا شاندار فلمی کیریئر چھوڑ کر اپنے شوہر کے ہمراہ پاکستان ہجرت کر آئیں تھیں۔

noor jahan and lata mangeshkar
نور جہاں اور لتا منگیشکر

لاہور ویسے بھی ان کے دل کے قریب تھا چونکہ ان کی پیدائش قصور کی تھی جو لاہور کے نزدیک ہی واقع ہے، لیکن وہ ایک بار پھر بمبئی میں واقع اپنے اس گھر کو دیکھنے کی خواہش مند تھیں جہاں شوکت حسین رضوی کے ساتھ ان کی شادی ہوئی تھی اور جہاں ان کا بڑا بیٹا اکبر رضوی پیدا ہوا تھا۔ اس شہر میں ان کے بے شمار دوست اور چاہنے والے تھے اور ماضی کی سنہری یادیں تھیں جن کی چمک 35 برس گزرنے کے باوجود ماند نہیں پڑی تھی۔ نورجہاں کو جب ہندوستان میں ہونے والی اس عظیم الشان تقریب کا دعوت نامہ ملا تو انھوں نے نہایت خوشی کے ساتھ اسے قبول کیا، انھیں لگا کہ وہ خواہش جو گزشتہ 35 برس سے ان کے دل میں پلتی بڑھتی رہی ہے شاید اس کے پورا ہونے کا وقت آ گیا ہے۔

ان کے ہمراہ ان کی بیٹیوں ظل ہما اور حنا اعجاز کے علاوہ چند دوسرے لوگ بھی اس سفر میں ان کے ہمراہ تھے۔ بعد ازاں ان کے داماد عقیل بٹ بھی ان کے پاس بمبئی پہنچ گئے۔ نورجہاں کے ساتھ ان کے سابق شوہر اعجاز درانی بھی بھارت جانا چاہتے تھے لیکن انھیں حکومت پاکستان کی طرف سے اجازت نامہ نہ مل سکا۔ وہ ملکۂ ترنم کو رخصت کرنے کے لیے لاہور سے کراچی تک ان کے ساتھ ہی گئے۔ نورجہاں خوش خوش کراچی سے جہاز میں سوار ہوئیں، لیکن جہاز نے جب بمبئی کی جانب اڑان بھرنے کے لیے رن وے پر دوڑنا شروع کیا تبھی عین وقت پر رن وے پر چلتے ہوئے جہاز کو روک کر نورجہاں کو ڈرامائی طور پر جہاز سے اتار لیا گیا تھا۔

جہاز کے پائلٹ کو وائر لیس کے ذریعے ٹاور سے پیغام دے کر جہاز روک دینے کی ہدایت دی گئی تھی۔ جہاز جو کافی دور جا چکا تھا واپس آیا اور اس میں سے نورجہاں اور ان کے ہمراہیوں کو نیچے اتار لیا گیا۔ نورجہاں کو اس واقعے سے اس قدر صدمہ پہنچا کہ وہ اشک بار ہو گئیں۔ اس دوران ان کے سابق شوہر اعجاز ان کی دلجوئی کرتے رہے۔ نورجہاں نے ائرپورٹ کے امیگریشن حکام سے جہاز سے اتار لیے جانے کی وجہ معلوم کی اور خود اسلام آباد میں کسی اعلیٰ افسر سے ٹیلی فون پر بات کی، جن کی مداخلت پر نورجہاں کو بمبئی جانے کی اجازت دی گئی۔

اگرچہ بمبئی پہنچ کر نورجہاں نے بتایا تھا کہ اس خبر میں کوئی صداقت نہیں کہ انھیں چلتے جہاز سے اتارا گیا تھا۔ بات صرف یہ تھی کہ ان کے پاس ملک سے باہر جانے کا جو اجازت نامہ تھا، اس کی تصدیق میں دیر ہو گئی تھی اور جب پاسپورٹ اور پولیس کا محکمہ اسلام آباد میں متعلقہ محکموں سے رابطہ قائم کرنے میں ناکام رہا تو انھوں نے میری بات پر یقین کرتے ہوئے کہ مجھے بمبئی جانے کی واقعی اجازت مل گئی ہے، جہاز کو رن وے سے واپس بلوا لیا۔ اس پریشانی میں ڈیڑھ گھنٹہ ضائع ہو گیا۔

noor jahan, lata mangeshkar, dilip kumar and surraya
نورجہاں، لتا منگیشکر، دلیپ کمار اور ثریا

9 فروری کی رات نورجہاں کی پہلی ضیافت دلیپ کمار کے گھر پر ہوئی جو فلم جگنو میں ان کے ہیرو تھے۔ دلیپ صاحب تب کیرکٹر رول کر رہے تھے اور نورجہاں بھی مدت ہوئی فلموں میں کام چھوڑ چکی تھیں اور پس پردہ گلوکاری کیا کرتی تھیں۔

دلیپ کمار اور سائرہ بانو کی طرف سے دی گئی ضیافت میں راج کپور اپنی بیوی اور بچوں رندھیر کپور، رشی کپور اور چمپو کے ساتھ آئے تھے۔ لتا منگیشکر، نوشاد علی، پران، جیتندر، ریکھا، دھرمیندر، نندا، جانی واکر، پدمنی کولہا پوری اور اس زمانے کے دوسرے بہت سے فلمی ستارے وہاں موجود تھے۔

اگے دن پران صاحب کے ہاں دعوت تھی، پھر یش چوپڑہ کے ہاں ڈنر تھا۔ اس کے بعد لتا منگیشکر اور دیو آنند کے ہاں دعوتیں ہوئیں، اور پھر تو رات ایک اور مدعو کرنے والے درجنوں۔

دیو آنند نے اپنے ہاں دعوت میں جب نورجہاں کی بیٹی حنا اعجاز کو دیکھا تو جھٹ اسے اپنی نئی فلم ”آنند اور آنند“ میں ہیروئن کے کردار کی پیشکش کردی، وہ اس فلم میں اپنے بیٹے کو سنیل آنند کو ہیرو کے طور پر لانچ کرنے والے تھے۔ لیکن نورجہاں نے نہایت سلیقے سے دیو آنند کی اس پیشکش کا انکار کر دیا اور بتایا کہ انھوں نے حنا کا رشتہ طے کر دیا ہے اور کراچی کے مشہور تاجر خالد وحید سے جلد ہی ان کی شادی ہونے والی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حنا کے والد اعجاز درانی سخت گیر باپ ہیں۔ اگر میں اجازت دے بھی دوں تو وہ کبھی اجازت نہیں دیں گے۔

11 فروری کو شان سکھانند ہال میں وہ پروگرام تھا جس میں شرکت کے لیے نورجہاں بمبئی پہنچی تھیں۔ لتا منگیشکر نے دیپ جلا کر تقریب کا افتتاح کیا تھا جس کی صدارت مہاراشٹر کے گورنر نے کی تھی۔ اس پروگرام میں نورجہاں کے علاوہ لتا منگیشکر، طلعت محمود، راج کماری، ہیمنت کمار، لینا کپور، نتن مکیش، انور، سریندر ناتھ، اوشا منگیشکر، مہندر کپور، شبیر کمار، ہری ہرن، کویتا کرشنا مورتی، بھوپندر اور اشوک کمار نے گیت گائے۔ یہ پروگرام تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہا تھا۔

پروگرام کی نہایت خوبصورت کمنٹری جاوید اختر کی لکھی ہوئی تھی جسے ان کی اداکارہ بیوی شبانہ اعظمی اسٹیج پر ادا کر رہی تھیں، جب تقریب کی مہمان خصوصی کو بلانے کا وقت آیا تو انھوں نے کہا، ”جس طرح اس دنیا کے پاس صرف ایک سورج اور صرف ایک چاند ہے، اسی طرح اس دنیا کے پاس صرف ایک نورجہاں ہے۔“ جاوید اختر کے ان خوبصورت لفظوں کو سن کر ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ شبانہ نے پھر دلیپ کمار کو اسٹیج پر بلایا اور نورجہاں کے بارے میں چند لفظ کہنے کو کہا۔

دلیپ کمار آئے اور اپنی شستہ اور خوبصورت اردو میں انھوں نے نورجہاں کا تعارف ان الفاظ سے کروایا: ”میرے دل میں محترمہ کے لیے جو احترام ہے۔ ان کے لیے، ان کے فن کے لیے، ان کی شخصیت کے لیے اور ان کے وقار کے لیے۔ جو عزت ہے وہ میرے لفظوں کو ایک اختصار دیتی ہے، اور مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں نا اہل ہوں کیونکہ 35 برس کے بعد اچانک ایک ایسی دلکش دلفریب ہستی سے پھر ملنا اگر میسر ہو تو انسان کی عقل، اس کا ادراک، اس کے الفاظ اس کے احساس کی ترجمانی نہیں کر سکتے۔“ انھوں نے مزید کہا، ”میں اتنا ضرور کہوں گا، نورجہاں جی! جتنے برس کے بعد آپ ہم سے ملنے آئی ہیں، ٹھیک اتنے ہی برس ہم سب نے آپ کا انتظار کیا ہے۔“ دلیپ کمار کے ان الفاظ پر ہال ایک بار پھر تالیوں سے گونج اٹھا تھا۔

نورجہاں جھلمل کرتی سیاہ ساڑھی پہنے اسٹیج پر پہنچیں اور انھوں نے حاضرین سے مختصر خطاب کیا، دلیپ کمار کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہاں آ کر جو شفقت اور محبت مجھے ملی ہے وہ میرے لیے ایک انمول خزانہ ہے جو میری زندگی کی آخری گھڑیوں تک میرے پاس رہے گا۔ انھوں نے کہا کہ اللہ کرے ہمارے دونوں ملکوں کے تعلقات اور بڑھیں اور اتنے سنور جائیں کہ ہم لوگ ہمیشہ نہ سہی تو اکثر مل بیٹھا کریں۔ انھوں نے گانے سے پہلے کہا کہ میں کوئی تیاری کر کے نہیں آئی، نہ ہی گانے کا سوچ کر آئی تھی لیکن میں سمجھتی ہوں کہ فن کار کا فن اس کا اپنا نہیں ہوتا بلکہ آپ لوگوں کی امانت ہوتا ہے، لہٰذا یہ امانت میں آپ لوگوں کو ضرور سونپوں گی۔

”پھر نورجہاں نے، جن کی عمر اس وقت چھپن برس تھی، مائک سنبھالا اور تین ہزار سامعین کو اپنی سدا بہار آواز کے جادو سے مبہوت کر کے رکھ تھا۔ انھوں نے“ انمول گھڑی ”کا گیت“ آواز دے کہاں ہے ”شروع کیا اور یوں لگا جیسے ہال کی چھت تالیوں کی گونج سے اڑ جائے گی۔ اس گیت کے موسیقار نوشاد علی نورجہاں کے ساتھ اسٹیج پر موجود تھے اور آکسٹرا کو خود کنڈکٹ کر رہے تھے۔ نورجہاں نے گیت میں خوبصورت الاپوں کا اضافہ کیا اور خوب رچاؤ کے ساتھ گایا، ہر ہر انترے پر ہال تالیوں سے گونج اٹھتا تھار۔

اس یادگار گیت کے بعد انھوں نے پاکستانی فلم“ قیدی ”سے فیض احمد فیض کی مشہور نظم“ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ ”شروع کی اور آخر میں فلم“ یار مستانے ”سے وزیر افضل کی دھن میں ترتیب دیا ہوا پنجابی فلمی گیت“ جا اج توں میں تیری، توں میرا، سجناں وے ”سنایا۔ نورجہاں نے اپنے گیتوں پر ہندوستانی سامعین سے بے اندازہ داد سمیٹی۔

اس سے پہلے اس پروگرام میں لتا نے فلم ”ہم دونوں“ کا گیت ”اللہ تیرو نام ایشور تیرو نام“ اور فلم ”بازار“ کا گیت ”ساجن کی گلیاں چھوڑ چلے“ سنائے تھے۔ طلعت محمود نے فلم ”آرزو“ سے ”اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل“ ، ہیمنت کمار نے ”انارکلی“ سے ”جاگ درد عشق جاگ“ اور فلم ”جال“ سے ”یہ رات یہ چاندنی پھر کہاں“ سنائے۔ جی ایم درانی نے ایک پرانا نغمہ ”نیند ہماری خواب تمھارے“ سنایا تھا۔ اشوک کمار نے بھی اپنی پہلی فلم ”اچھوت کنیا“ کا گیت ”میں بن کی چڑیا“ اور ”جھولا“ کا گیت ”نہ جانے کدھر آج میری ناؤ چلی“ سنا کر سامعین سے داد سمیٹی تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments