1965 کے کراچی فسادات: جب سیاسی بنیادوں پر شروع ہونے والا تنازع کراچی کے ’پٹھان مہاجر فسادات‘ میں بدل گیا

جعفر رضوی - صحافی، لندن


کراچی
’گولی سینے میں لگی تھی۔ مگر علاؤالدین جلال صاحب کے چھوٹے بھائی موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ پورے محلے کے لوگ یا تو گلی میں تھے یا سڑک پر۔ زبردست کشیدگی تھی، مگر خوف یا ڈر سے کہیں زیادہ غصہ جھلک رہا تھا۔‘

کراچی کے وسطیٰ (اور شاید سب سے مشہور) علاقے لیاقت آباد کے رہائشی شہاب الدین اپنی یادداشت کی بنیاد پر مجھے پانچ جنوری 1965 کو ہونے والی اس قتل و غارت، آتش زنی اور لوٹ مار پر مشتمل ہنگامہ آرائی کی تفصیل بتا رہے تھے۔ اس کا آغاز تو سیاسی مخالفت کی بنیاد پر ہوا مگر لسانی رنگ اختیار کر جانے کی وجہ کراچی کا پہلا ’پٹھان مہاجر فساد‘ کہلایا۔

اب بھی ایک غالب اکثریت اس واقعے کو اُردو بولنے والوں اور کراچی میں آباد پشتونوں کے درمیان ہونے والے پہلے مسلح تنازع سے تعبیر کرتی ہے۔

15 جنوری 1965 کی اشاعت میں امریکی جریدے ’ٹائمز‘ نے لکھا کہ اس ہنگامہ آرائی کے دوران 33 افراد ہلاک ہوئے، 300 سے زائد زخمی ہوئے جبکہ لگ بھگ دو ہزار افراد بے گھر ہوئے۔

آٹھ جنوری 1965 کی برطانوی اخبار ‘دی ٹائمز’ کی خبر کے مطابق اس فساد میں قریباً 30 شہری ہلاک ہوئے اور کئی مکانات کو نذر آتش کر دیا گیا۔

اس ہنگامہ آرائی کے عینی شاہد، عالمی و قومی ذرائع ابلاغ کی خبریں، صحافیوں، دانشوروں اور معمر سیاستدانوں سے ہونے والی گفتگو سمیت سیاست و تاریخ کی متعدد کتابیں اِس فساد کا بڑا ذمہ دار پاکستان کے سابق فوجی آمر ایوب خان کے فرزند گوہر ایوب کو قرار دیتے ہیں۔

بی بی سی نے اس سلسلے میں گوہر ایوب سے رابطہ کرنے کی بارہا کوشش کی، کئی پیغامات بھی ارسال کیے گئے مگر وہ اپنا مؤقف دینے کے لیے دستیاب نہیں ہوئے۔

بڑے پیمانے پر ہنگامہ آرائی اور زیادہ تر ہلاکتیں ناظم آباد چورنگی سے لیاقت آباد ڈاک خانے کی سمت اس سڑک پر ہوئیں جسے اب الطاف علی بریلوی روڈ کہا جاتا ہے۔ کچھ واقعات اُس سڑک پر بھی ہوئے جو ایس ایم توفیق روڈ یا شاہراہ پاکستان کہلاتی ہے۔

اس تحقیق کے نتیجے میں سامنے آنے والے تاریخی حقائق کو ترتیب سے بیان کیا جائے تو یہ سب پاکستان کے اس پہلے صدارتی انتخاب سے شروع ہوا جس میں (بعض کتابوں کے مطابق) تھے تو چار امیدوار مگر اصل مقابلہ پاکستان کے دوسرے صدر جنرل ایوب خان اور بانی پاکستان، محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح کے درمیان تھا، جو متحدہ حزبِ اختلاف کی امیدوار تھیں۔

فاطمہ جناح

’فاطمہ جناح بانی پاکستان کی وفات کے فوراً ہی بعد پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اور طاقتور حلقوں پرمشتمل ‘اسٹیبلشمنٹ’ کے جبر کا شکار رہیں‘

’فاطمہ جناح بمقابلہ ریاست‘

’مادرِ ملت‘ کا لقب پانے والی فاطمہ جناح 31 جولائی 1893 کو برٹش انڈیا کی ریاست گجرات کے ساحلی علاقے کاٹھیاواڑ میں پیدا ہوئیں۔

وہ اپنے چار بھائیوں اور تین بہنوں میں سب سے چھوٹی تھیں جنھوں نے سنہ 1923 میں کلکتہ یونیورسٹی سے ’ڈینٹل سرجری‘ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ’آل انڈیا مسلم لیگ‘ کی سب سے فعال خاتون رہنما تصور کی جاتی تھیں اور اپنے بھائی محمد علی جناح کی سب سے قریبی معتمد رہیں۔

سیاست و تاریخ پر لکھی گئی کئی کتابوں اور اُس وقت کے اخبارات سے عندیہ ملتا ہے کہ فاطمہ جناح بانی پاکستان کی وفات کے فوراً ہی بعد پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اور طاقتور حلقوں پر مشتمل ’اسٹیبلشمنٹ‘ کے جبر کا شکار رہیں۔

یہاں تک کہ 11 ستمبر 1948 کو اپنے بھائی کی وفات کے بعد انھیں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے دور میں 1951 تک ’قوم سے خطاب‘ کرنے یا عوام سے مخاطب ہونے سے محروم رکھا گیا۔

پاکستان کے انگریزی اخبار ڈان میں 27 دسمبر 2014 کو شائع ہونے والے صحافی و محقق اختر بلوچ کے مضمون کے مطابق ملک کی ’طاقتور اسٹیبلشمنٹ‘ انھیں ’قوم دشمن‘ گردانتی تھی۔

سنہ 1955 میں فاطمہ جناح نے محمد علی جناح کے بارے میں ایک کتاب ’میرا بھائی‘ تحریر کی مگر پابندیاں اس نوعیت کی تھیں کہ یہ کتاب بھی 32 برس تک شائع نہ ہو سکی اور بالآخر سنہ 1987 میں شائع کی جا سکی، لیکن اصلی مسودے کے کئی صفحات تو تب بھی نہ چھپ سکے۔

قیام پاکستان کے بعد فاطمہ جناح مہاجرین کی آباد کاری میں خاصی سرگرم رہیں مگر پھر ریاستی رویے، پابندیوں اور حالات نے انھیں عوامی زندگی سے کنارہ کش کر دیا اور وہ ایک طویل عرصے یعنی 1960 کی دہائی کے وسط تک ’خود ساختہ ریٹائرمنٹ‘ سمجھی جانے والی زندگی میں ’گوشہ نشین‘ رہیں۔

سنہ 2005 میں شائع ہونے والی پاکستانی مصنف حسن عباس کی کتاب ’پاکستان ڈرفٹ ان ٹو ایکسٹریم ازم، اللّہ، دی آرمی اینڈ امیریکن وار آن ٹیرر‘ کے مطابق پاکستان کے پہلے صدر میجر جنرل اسکندر مرزا نے سنہ 1958 میں وزیر اعظم فیروز خان نون کی حکومت اور ’دستور ساز اسمبلی‘ دونوں کو برطرف کرتے ہوئے (اس وقت ملک کی فوج کے سربراہ) جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔

صرف 13 ہی دن بعد، جنرل ایوب خان نے خود اسکندر مرزا کو بھی برطرف کر دیا اور خود کو ملک کی تاریخ کا دوسرا صدر مقرر کر لیا۔

سنہ 1965 میں جب صدر ایوب خان کی متعارف کردہ ’بنیادی جمہوریت‘ کے تحت منعقد ہونے والے پاکستان کے پہلے صدارتی انتخاب کی گہما گہمی شروع ہوئی تو سیاسی قوتوں نے اتحاد قائم کر کے ایوب خان کی فوجی آمریت کے خاتمے کی تحریک کا آغاز کیا۔

ملک کی انہی بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کے بے حد اصرار اور سیاسی حالات کے پیشِ نظر بالآخر فاطمہ جناح نے اپنی خود ساختہ ریٹائرمنٹ یا گوشہ نشینی ختم کی۔

عوامی زندگی میں واپسی

اب 71 سالہ فاطمہ جناح عوامی و سیاسی زندگی میں واپس آئیں۔

گورنر جنرل غلام محمد، صدر اسکندر مرزا اور صدر ایوب کے ساتھ بطور ’پرنسپل سیکریٹری‘ کام کرنے والے سینیئر بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب ’شہاب نامہ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’آئین کی رو سے صدر کے انتخاب سے قبل قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہونا لازم تھے۔ مگر صدر ایوب نے مئی 1964 میں آئین میں قومی اسمبلی کے ذریعے ایسی ترمیم کروانے کی سرتوڑ کوشش کی جس کے تحت نیا صدر منتخب ہونے تک اقتدار موجودہ صدر (یعنی خود ایوب خان) کے ہاتھ میں رہے۔‘

یہ ایسی ترمیم تھی جس سے صورتحال مکمل طور پر صدر ایوب کے حق میں ہو جاتی۔

شہاب نامہ کے مطابق ’جب قومی اسمبلی میں ترمیم کے حق میں مطلوبہ اراکین کی تعداد حاصل کرنا دشوار ہو گیا تو حکومت نے دھونس، دھاندلی، لالچ اور فریب سے کام لے کر حزب اختلاف کے آٹھ اراکین کو بھی ساتھ ملا لیا جبکہ اس سے قبل خود ایوب خان نے بڑے اہتمام سے سیاسی جماعتوں سے متعلق ایکٹ میں یہ شرط رکھوائی تھی کہ اگر قومی یا صوبائی اسمبلی کا کوئی رکن اپنی جماعت سے علیحدہ ہو گا تو اسے اسمبلی کی نشست سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا۔ لیکن قومی اسمبلی کے ان آٹھ بھگوڑے اراکین کے خلاف ایسی کوئی کارروائی عمل میں نہ لائی گئی بلکہ اُن میں سے ایک کو تو بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کا جج بنا دیا گیا۔‘

بالآخر آئین میں مطلوبہ ترمیم منظور ہو گئی۔

اب پوری حکومت اور تمام تر ریاستی مشینری صدر ایوب خان کے اشاروں پر چل رہی تھی۔ ذرائع ابلاغ ہوں یا ریاستی ادارے کوئی صدر ایوب کے احکامات کی خلاف ورزی کی بات بھی نہیں کر سکتا تھا۔ پولیس اور انتظامیہ ہر سرکاری حکم بجا لانے پر ہمہ وقت تیار اور ہر ادارہ صدر ایوب کے اشاروں کا منتظر رہتا تھا۔

’شہاب نامہ‘ کے مطابق آئین میں ’ایک اور ترمیم کے ذریعے دیہات میں نمبرداروں، انعام داروں، سفید پوشوں اور ذیل داروں کو ’بنیادی جمہوریت‘ کا انتخاب لڑنے کا اہل قرار دے دیا گیا تاکہ حکومت میں (ایوب خان) کے کارندوں اور حلقہ بگوشوں کی تعداد زیادہ ہو جائے۔‘

یہ ترامیم ہوتے ہی صدارتی انتخابی مہم شروع ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی بڑے سیاسی رہنما صدر ایوب کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے جن میں خواجہ ناظم الدین، میاں ممتاز دولتانہ، شیخ مجیب الرحمٰن، مولانا بھاشانی، خان عبدالولی خان، چوہدری محمد علی اور مولانا مودودی سرفہرست تھے۔

ان رہنماؤں کی قیادت میں کونسل مسلم لیگ، عوامی لیگ، نیشنل عوامی پارٹی، نظام اسلام پارٹی اور جماعت اسلامی کے اتحاد سے ’کمبائنڈ اپوزیشن پارٹی آف پاکستان‘ (سی او پی پی) کے نام سے حزب مخالف کا بڑا اتحاد تشکیل پایا جس کا واحد مقصد صدر ایوب کو صدارتی انتخابات میں شکست دینا تھا۔

قدرت اللہ شہاب کے مطابق ’اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے لازمی تھا کہ متحدہ محاذ ایک ایسا صدارتی امیدوار نامزد کرے جو ایوب خان کو شکست دینے کی اہلیت رکھتا ہو۔ اتحاد کے سامنے دو نام تھے۔ ایک فاطمہ جناح اور دوسرا جنرل محمد اعظم خان۔‘

ایوب خان حکومت اور ذوالفقار علی بھٹو جنرل اعظم خان کو زیادہ مضبوط اور فاطمہ جناح کو کمزور اُمیدوار سمجھتے تھے۔

’مذہب کارڈ‘ اور ’سرکاری حربے‘

شہاب نامہ کے مطابق اب ’دین و دنیا‘ دونوں سے بے دریغ فائدے کا مرحلہ آیا اور دنیا بھی بے حساب ’کمائی اور لٹائی‘ گئی۔

پہلے ایک مشہور پیر صاحب نے اعلان کیا کہ انھیں ’کشف‘ سے یہ ’الہام‘ ہوا ہے کہ کمبائنڈ اپوزیشن پارٹی آف پاکستان (سی او پی پی) کو اللہ کی خوشنودی حاصل نہیں۔

پھر چند ’علما‘ نے فتویٰ دیا کہ ’اسلام کی رو سے کسی عورت‘ کا سربراہِ مملکت کے عہدے پر فائز ہونا جائز نہیں۔

غرض اس معاملے میں مذہب کا ہر ممکن استحصال کیا گیا، پیسہ بھی چلا کیونکہ صدر ایوب کی کنونشنل لیگ کے پاس فنڈز کی بھی کمی نہیں تھی، کروڑوں کا فنڈ موجود تھا۔ تاجروں کو امپورٹ لائسنس بھی جاری کیے گئے اور صنعت کاروں کو یہ لائسنس لینے کے لیے ’مقررہ شرح‘ سے الیکشن فنڈ میں چندہ بھی دینا پڑتا تھا۔

یعنی حکومت کی فتح یقینی بنانے کے لیے جو کچھ بھی ہو سکتا تھا، کیا گیا۔ مگر اس سب کے باوجود بھی ایوب خان حکومت مقبولیت کھوتی جا رہی تھی۔

بائیں بازو کی طلبا تنظیم نیشنل سٹوڈینٹس فیڈریشن (این ایس ایف) ہو یا دائیں بازو کی اسلامی جمیعت طلبا (آئی جے ٹی) دونوں ہی نے ایوب خان کی آمریت کے خلاف زبردست احتجاجی مہم شروع کر دی تھی، جو دن بہ دن تیز ہوتی جا رہی تھی۔

سڑکیں ہوں یا تعلیمی ادارے احتجاج کی فضا اور اشتعال کا ماحول ہر جگہ دکھائی دے رہا تھا۔ اور یہ مشرقی و مغربی پاکستان دونوں حصوں میں ہو رہا تھا۔

کراچی اور ڈھاکہ میں سیاسی ماحول کی ایک جھلک امریکی جریدہ ‘ٹائم’ سے دیکھی جا سکتی ہے جو اپنی 25 دسمبر 1964 کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ ’ملک بھر میں (ایوب خان) حکومت کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔‘

ایسے ہی ایک حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے میں پولیس کی گولی سے کراچی میں ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کا شہر ڈھاکہ ’ایوب آمریت مردہ باد‘ کے نعروں سے گونج رہا تھا۔

’ڈھاکہ میں ’ہفتۂ فاطمہ جناح‘ منایا جا رہا تھا تو کراچی کے طلبا میں سیاسی بے چینی اس قدر بڑھ گئی کہ حکومت کو تعلیمی ادارے غیر معینہ مدت تک کے لیے بند کرنے پڑے۔ وکلا کی حکومت مخالفت کا حال یہ تھا کہ ایوب حکومت نے قانون دانوں کو ہی ’شرپسند‘ کہنا شروع کر دیا تھا اور ذرائع ابلاغ کی مخالفت یہاں تک جا پہنچی کے اخبارات و صحافی حکومت کی جانب سے متعارف کروائے گئے نئے ’پریس قوانین‘ کی آڑ میں عائد کی گئی ’قدغن‘ کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے۔‘

فاطمہ جناح کی بے پناہ مقبولیت

اُدھر 71 سالہ فاطمہ جناح کی مقبولیت کا عالم ہی اور تھا۔

پاکستان کے انگریزی اخبار ’پاکستان آبزرور‘ کی 12 فروری 2012 اور 24 دسمبر 2013 کی اشاعتوں کے مطابق جب فاطمہ جناح صدارتی انتخاب کی اپنی مہم کی ابتدائی سرگرمیوں کے لیے ڈھاکہ گئیں تو کم از کم ڈھائی لاکھ افراد کے پُرجوش ہجوم نے اُن کا استقبال کیا جبکہ ڈھاکہ سے چٹاگانگ تک کے 293 میل طویل راستے پر دسیوں لاکھ افراد اُن کی جھلک دیکھنے اور ان کی حمایت و یکجہتی کے اظہار کے لیے موجود رہے۔

جس ریل گاڑی پر وہ سفر کر رہی تھیں وہ اپنی منزل پر اس لیے 22 گھنٹے کی تاخیر سے پہنچی کیونکہ ہر سٹیشن پر کوئی نہ کوئی مداح یا حامی زنجیر کھینچ لیتا اور اُن سے خطاب کی فرمائش کی جاتی۔ اسی ہجوم نے انھیں ’مادر ملت‘ کا لقب دیا۔

کراچی

’جب ’مادرِ ملّت‘ کی گاڑی جلسہ گاہ کے قریب کی گلی میں پہنچی تو ان کی گاڑی کو طلبا نے اپنے کندھوں پر اٹھا کر سٹیج تک پہنچایا تھا‘ (ساٹھ کے عشرے کے کراچی کا ایک منظر)

کراچی میں مقبولیت کا عروج

دائیں بازو کے قریب سمجھے جانے والے اور کراچی سے شائع ہونے والے جریدے ’تکبیر‘ کے سابق ایگزیکٹو ایڈیٹر نصیر احمد سلیمی، فاطمہ جناح کی انتخابی مہم کے دوران بائیں بازو کی طلبا تنظیم این ایس ایف کے رُکن تھے۔

اس تحقیق کے لیے گفتگو میں نصیر احمد سلیمی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ماحول میں شدید گھٹن تھی۔ مادر ملت تو تیار ہی نہ تھیں انتخاب میں اُمیدوار بننے پر۔ وہ صرف اس شرط پر تیار ہوئیں کہ اگر وہ منتخب ہو گئیں تو چھ ماہ کے اندر 1956 کا آئین بحال کروائیں گی اور اُس کے تحت انتخابات کروا کر ملک جمہوری حکومت کے حوالے کر کے ایک بار پھر سیاست سے کنارہ کش ہو جائیں گی۔‘

یہ بھی پڑھیے

کراچی آپریشن: ’اس شہر کی بدقسمتی کی قیمت اپنے پیاروں کو کھو کر ادا کی‘

آپریشن ’کلین اپ‘: سندھ میں ڈاکو راج، تیس سال پہلے اور آج

کیا پاکستان کے پہلے فوجی حکمران کی حکومت مہنگی چینی کی وجہ سے گری؟

ایوب خان: اہم مواقع پر ہمیشہ منظر سے غائب ہو جانے والے ڈکٹیٹر

گاڑی طلبا کے کندھوں پر

نصیر احمد سلیمی کے مطابق کراچی کے نشتر پارک میں فاطمہ جناح کے جلسے کے وقت بھی حکومتی جبر کا عالم یہ تھا کہ ’پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈینینس‘ کے تحت کوئی اخبار جلسے کی خبر تک نہیں چھاپ سکتا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کسی ٹینٹ ہاؤس یا ڈیکوریشن کے ادارے کو اجازت نہیں تھی جلسے کے انتظامات کے لیے کرسیاں، شامیانے، دریاں یا لاؤڈ سپیکر مہیا کر سکے۔ اور کوئی تیار بھی نہیں تھا۔‘

’ایسے میں منتظمین جلسہ گاہ تک لانے کے لیے عوام کو ٹرانسپورٹ بھی فراہم نہیں کر سکتے تھے۔ مگر مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس سب کے باوجود نمازِ عصر تک ہی پورا نشتر پارک اور آس پاس کی گلیاں عوام اور ہجوم سے بھر چکی تھیں۔‘

جب مادرِ ملّت کی گاڑی جلسہ گاہ کے قریب کی گلی میں پہنچی تو اُن کی گاڑی کو طلبا نے اپنے کندھوں پر اٹھا کر سٹیج تک پہنچایا تھا۔

جلسے کا کُل خرچہ (اس وقت) 1200 روپے تھا مگر ایک ادارے ’نیشنل ٹینٹ ہاؤس‘ نے محض چار آنے کا خرچ منتظمین سے لیا تھا۔ ’حکیم سنز‘ نامی ادارے نے لاؤڈ سپیکر فراہم کیے تو پولیس نے اُن کے مرکز پر چھاپہ مارا تو وہ خود تو گرفتار ہو کر تھانے چلے گئے مگر اپنے عملے کو کہہ گئے کہ سامان جلسے کے منتظمین کو پہنچا دو۔

نصیر سلیمی بتاتے ہیں کہ اُسی جلسے کے بارے فیض احمد فیض نے نظم ’یہاں سے شہر کو دیکھو‘ لکھی تھی:

یہاں سے شہر کو دیکھو تو حلقہ در حلقہ

کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل

ایوب خان

’صدر ایّوب خان 21,302 ووٹ کی برتری سے جیت گئے لیکن عوام کی نظروں میں وہ بازی ہار بیٹھے‘

صدارتی انتخاب کون جیتا؟

بہرحال ان حالات میں دو جنوری 1965 کو صدارتی انتخابات منعقد ہوئے جن میں محض بی ڈی (یعنی صدارتی انتخاب میں ووٹ دینے کے اہل یا الیکٹورل کالج کے) ارکان ہی ووٹ دے سکتے تھے۔ یہ کوئی 80 ہزار بی ڈی ممبر تھے۔

شہاب نامہ کے مطابق ’تین جنوری کو جب نتائج کا اعلان ہوا تو صدر ایوب کے حق میں 49,647 ووٹ اور فاطمہ جناح کے حق میں 28,345 ووٹ کا اعلان ہوا اور یوں صدر ایّوب خان 21,302 ووٹ کی برتری سے جیت گئے لیکن عوام کی نظروں میں وہ بازی ہار بیٹھے۔‘

شہاب نامہ اکیلی دستاویز نہیں جس نے کامیابی کے باوجود ایوب خان کی فتح پر طنز کیا۔

نصیر سلیمی کے مطابق پاکستان کے ممتاز شاعر ضمیر جعفری جو اس وقت فوج میں ہی تھے مگر شاعر و ادیب بھی تھے، اُن کی ڈائری ’جدائی کا موسم‘ اخبار میں شائع ہوئی جس میں ضمیر جعفری نے لکھا کہ ’جنرل ایوب جیت گیا اور ملک ہار گیا۔‘

امریکی جریدے ٹائمز کی 15 جنوری 1965 کی اشاعت کے مطابق فاطمہ جناح کا کہنا تھا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ انتخابات میں زبردست دھاندلی کی گئی۔‘

فتح اور شکست کے اس موقع پر ہی اس کہانی میں ایوب خان کے فرزند گوہر ایوب کے کردار کی ’انٹری‘ ہوئی۔

گوہر ایوب

گوہر ایوب

گوہر ایوب خان

گوہر ایوب 15 جنوری 1937 کو (اب صوبہ خیبر پختونخوا کے) ضلع ہری پور کے گاؤں ’ریحانہ‘ میں پیدا ہوئے۔

وہ پہلے چوٹی کے مشنری سکول ’آرمی برن ہال کالج‘ بھیجے گئے پھر راولپنڈی کے انتہائی مہنگے اور حکمراں طبقے کے لیے مخصوص نجی سکول ’سینٹ میریز اکیڈمی‘ میں زیر تعلیم رہے۔

سنہ 1957 میں گوہر ایوب پاکستانی فوج میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد برطانیہ کی ’رائل ملٹری اکیڈمی سینڈ ہرسٹ‘ میں زیر تربیت رہے اور پھر فوج میں ‘کیپٹن‘ (کپتان) کے عہدے پر فائز رہے۔

فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے اپنے سسر جنرل حبیب اللہ خان کے ساتھ تجارتی ادارے بھی قائم کیے اور پھر سنہ 1977 میں پہلی بار اور پھر مجموعی طور پر پانچ مرتبہ قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے۔

چار نومبر 1990 سے 17 اکتوبر 1993 تک وہ نواز شریف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے قومی اسمبلی کے سپیکر رہے۔ 25 فروری 1997 سے سات اگست 1998 تک وہ پاکستان کے وزیر خارجہ رہے پھر نواز شریف حکومت میں کئی اور وزارتوں پر بھی فائز رہے۔

پانچ جنوری 1965 کو کیا ہوا؟

’شہاب نامہ‘ کے مطابق چونکہ صدارتی انتخابات میں ’ڈھاکہ اور کراچی نے بھاری اکثریت سے صدر ایوب کے خلاف ووٹ ڈالے تھے۔ ڈھاکہ کے متعلق تو وہ خون کا گھونٹ پی کر رہ گئے لیکن کراچی میں اُن کے فرزند دلپذیر نے اہلیان شہر کی گو شمالی کا بیڑا اٹھایا۔ چنانچہ پانچ جنوری کو جشنِ فتح کے نام پر کراچی میں ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا جس کی قیادت گوہر ایوب کے ہاتھ میں تھی۔ اُن کے جلوس میں ٹرک، جیپ، ویگن، بس اور رکشوں کی طویل قطاریں تھیں۔ ان سب کے ڈرائیورز اور سواریاں زیادہ تر پشتون قومیت سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل تھیں۔‘

’لیاقت آباد اور چند دوسرے علاقوں میں جلوس اور شہریوں کے درمیان کچھ جھڑپیں ہوئیں۔ اس کا بدلہ چکانے کے لیے رات کے اندھیرے میں ان بستیوں پر شدید حملے کیے گئے۔ آگ لگائی گئی اور کافی جانی و مالی نقصان پہنچایا گیا۔ اس نقصان کا کسی کو اندازہ نہیں۔‘

مزید پڑھیے

ایوب خان کا دور ترقی کی علامت یا ناہمواری کی نشانی؟

طالبعلم عبدالحمید کا خون جس نے صدر ایوب کی قسمت کا ستارہ ڈبو دیا

جب پاکستان کے پہلے صدر کو ’ملک کے مفاد میں‘ جلاوطن کیا گیا

بھٹو کا وہ بیان جس کی وجہ سے جنرل ایوب کو سُبکی اٹھانی پڑی

شہاب الدین اور اُن کے خاندان کے دیگر افراد اُس وقت لیاقت آباد (تھانے کے سامنے) سے شروع ہو کر گجر نالے تک پھیلے ہوئے بلاک ون میں رہائش پذیر تھے اور اب بھی وہیں رہتے ہیں۔ شہاب الدین آج کل اسلامک ریسرچ اکیڈمی سے وابستہ ہیں۔ وہ ڈپٹی ٹاؤن ناظم لیاقت آباد بھی رہ چکے ہیں۔

کراچی آپریشن

فائل فوٹو

شہاب الدین نے مجھے بتایا کہ ’میری گلی میں علاؤالدین جلال صاحب کے بھائی گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے۔ اس وقت میں سکول کا طالبعلم تھا۔ جب جلوس آیا تو ہم سب (بچے) کونے پر واقع مسجد میں نماز پڑھ کر وہیں کھڑے تھے اور محلے کے بیشتر بڑے اور بزرگ لوگوں میں سے کچھ سڑک پر تھے، کچھ سروس روڈ پر تھے۔‘

’مرکزی سڑکوں (الطاف علی بریلوی روڈ اور ایس ایم توفیق روڈ) پر بہت ہجوم تھا۔ جب انھیں گولی لگی تو وہ مرکزی روڈ پر ہی ایک کھلی جگہ میں کھڑے تھے۔ شاید گولی سینے میں لگی تھی۔ مگر علاؤالدین جلال صاحب کے چھوٹے بھائی موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ پورے محلے کے لوگ یا تو گلی میں تھے یا سڑک پر۔ زبردست کشیدگی تھی، مگر خوف یا ڈر سے کہیں زیادہ، غصہ جھلک رہا تھا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’گولی لگنے سے کئی اور لوگ زخمی بھی ہو گئے۔ پھر زبردست ہنگامہ آرائی شروع ہوئی۔ تین چار مکان نذر آتش کر دیے گئے۔ حملہ آوروں نے جو فردوس کالونی کی جانب سے آئے تھے وہیں سی ون ایریا کے قریب ایک مکان کو بھی آگ لگا دی۔ کئی گھروں پر توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔ منیر الاسلام صاحب (میونسپل وارڈ کے اس وقت کے چئیرمین) بھی وہیں تھے۔ اُن کے گھر کے قریب بھی ایک حملہ ہوا۔‘

امریکہ میں مقیم سید محمود حسین اس واقعے کے ایک اور چشم دید گواہ ہیں۔ اُن کے والد سید سراج حسین اس واقعے کے وقت لیاقت آباد پولیس کے تھانیدار (ایس ایچ او) تھے۔

سید محمود حسین بتاتے ہیں کہ ’میں اس وقت 15 برس کا تھا۔ حملہ ہوتے ہی ہنگامہ مچ گیا، سارے لوگ سڑک پر آ گئے۔ حملہ تو گجر نالے کے قریب ہی ہوا تھا۔ وہاں پر ٹرک آئے جن میں پشتون قومیت سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے۔‘

’انھوں نے حملے میں بہت گولیاں چلائیں۔ پھر پورے لیاقت آباد میں حملے کی خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہم تھانے کے اندر (ایس ایچ او کی سرکاری رہائش گاہ) میں رہتے تھے۔ میں باہر نکلا تو لیاقت آباد 10 نمبر کی جانب سے لوگوں کا ہجوم سمندر کی طرح ڈاک خانے کی جانب آتا دکھائی دیا پھر پتہ چلا کہ یہ لوگ وہاں جانا چاہ رہے ہیں جہاں گولیاں لگنے سے لوگوں کے ہلاک یا زخمی ہونے کی اطلاع آ رہی تھی۔‘

امریکی جریدے ٹائمز کی 15 جنوری 1965 کی اشاعت کے مطابق ’گاڑیوں (ٹرک بس اور رکشوں) کا ایک طویل قافلہ ایوب خان کے جشن فتح کے اس جلوس میں شامل تھا۔ اور یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ ٹرکوں پر سوار ایوب خان کے اپنے صوبے کے پگڑی پہنے ہوئے پشتون خوشی و مسرت سے لاٹھیاں لہرا رہے تھے اور ملکی ساختہ پستولوں سے گولیاں چلا رہے تھے۔ مگر جلد ہی اس وقت اشتعال بھڑک اٹھا جب یہ جلوس لیاقت آباد سے گزرا جو فاطمہ جناح کا بھرپور حامی علاقہ تھا۔ اس علاقے میں پہنچتے ہی پشتون ٹرکوں پر سے اُتر آئے انھوں نے کھلی دکانیں لوٹنا شروع کیں اور گھروں کو آگ بھی لگا دی۔‘

برطانوی اخبار ’دی ٹائمز‘ کی چھ جنوری 1965 کی خبر کے مطابق ’فساد دوپہر میں شروع ہوا اور بعض لوگ جلتے ہوئے گھروں میں پھنس جانے کی وجہ سے جل کر ہلاک ہوئے اور بعض اُس وقت ہلاک ہوئے جب پولیس نے صورتحال پر قابو پانے کے لیے گولی چلائی۔‘

اخبار کے مطابق ’ٹرکوں اور ٹیکسیوں پر سوار افراد میں سے بعض نے مہلک ہتھیار اور پتھر اٹھا رکھے تھے۔ گلیوں میں دکانداروں اور مکینوں پر حملے کیے گئے۔ گھروں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کی گئی۔ جب تک پولیس آئی تب تک حملہ آور ہجوم دو حصوں میں بٹ چکا تھا۔ ایک حصہ گجر نالے کی سمت اور دوسرا لالو کھیت کی جانب گیا۔ لالو کھیت جانے والے حملہ آور ہجوم نے مین کلاتھ مارکیٹ (کپڑے کی دکانوں کے بازار) کو لوٹا۔‘

کراچی

فائل فوٹو

’مکینوں اور راہگیروں پر تشدد کیا اور مکانات میں گھس کر توڑ پھوڑ کی۔ آس پاس واقع جگہیوں اور جھونپڑی نما مکانوں کو تباہ کر دیا کئی مکانات کو آگ بھی لگا دی۔ حملہ آوروں نے لوگوں پر گولیاں چلائیں، چھریوں، چاقوؤں سے حملے کیے اور زبردست پتھراؤ کیا گیا۔ گجر نالے پر پولیس نے بھی گولی چلائی دو افراد پولیس کی گولی سے بھی ہلاک ہوئے۔ جب پولیس لیاقت آباد کی جانب پہنچی تو حملہ آور پیر آباد اور گولیمار دونوں سمتوں میں بھاگے مگر راستے میں بھی کئی مکانات اور جگھیوں کو آگ لگاتے گئے۔ اس ہنگامے میں 12 افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوئے۔‘

28 جون 2018 کو روزنامہ جنگ میں ’کراچی والوں کا مذاق نہ اڑائیں‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں حامد میر نے سابق آئی جی پولیس حافظ صباح الدین جامی کی کتاب ’پولیس، کرائم اینڈ پالیٹکس‘ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’لوگوں پر مسلح لوگوں نے گولیاں برسائیں، ان کے گھر لوٹ لیے اور ان کی دکانیں جلا دیں۔ حافظ صباح الدین جامی ان دنوں سپیشل برانچ سندھ کے ایس پی کی حیثیت سے کراچی میں تعینات تھے۔‘

’اپنی کتاب کے دسویں باب میں جامی صاحب نے لکھا کہ گوہر ایوب نے اپنے حامیوں کا ایک جلوس نکالا اور فتح کا جشن منانے کے لیے لالو کھیت کی طرف روانہ ہو گئے جہاں کے لوگوں نے محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔ کراچی کی انتظامیہ کو فوری طور پر یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ اس جلوس کی وجہ سے شہر میں گڑبڑ ہو سکتی ہے۔‘

’کمشنر کراچی روئیداد خان نے ایک اجلاس طلب کر لیا جس میں ڈی آئی جی آصف مجید، ایس پی سکیورٹی عبید الرحمان خان اور ایس پی سپیشل برانچ کے علاوہ کچھ دیگر افسران شریک تھے اور فیصلہ کیا گیا کہ گوہر ایوب خان کو اس جلوس سے روکا جائے۔‘

’وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے اُن سے رابطہ نہ ہو سکا اور آخرکار وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ حافظ صباح الدین جامی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جیتنے والوں نے مہاجر کمیونٹی کو فاطمہ جناح کی حمایت کی سزا دی شہر میں لسانی فسادات پھوٹ پڑے جن میں بہت سے لوگ مارے گئے۔‘

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے بھی لکھا کہ ’گوہر ایوب کے حامیوں نے فاطمہ جناح کو ووٹ دینے والے علاقے میں قتل و غارت، جلاؤ گھیراؤ اور لوُٹ مار کی۔‘

لیکن ایسا نہیں تھا کہ صرف گوہر ایوب یا اُن کے جلوس کے شرکا ہی ہنگامہ آرائی کرتے رہے۔

کراچی

فائل فوٹو

عینی شاہدین کے مطابق جلوس میں شرکا کے ہاتھوں مقامی لوگوں کی ہلاکتوں اور قتل و غارت کے بعد فاطمہ جناح کے حامی اہل علاقہ نے بھی انتقامی کارروائیاں کیں اور مشتعل ہجوم نے کئی گھروں گاڑیوں اور املاک کو آگ لگا دی۔

اس وقت لیاقت آباد کی معروف سیاسی شخصیت علی کوثر کا گھر بھی وہیں تھا۔

علی کوثر (اس وقت ٹاؤن کونسل کے چئیرمین تھے) پورے علاقے میں واحد شخص تھے جو ایّوب خان کے کھلم کھلا حامی تھے۔

سید محمود حسین نے بتایا کہ ’علی کوثر کا گھر بھی جلا دیا گیا۔ مشتعل ہجوم نے حملہ کیا تو علی کوثر مکان کی چھت پر بنے ہوئے پانی کی ٹنکی (اوور ہیڈ ٹینک) میں جا چھپے۔ شاید کوئی ہلاکت بھی ہوئی تھی وہاں۔ پھر میرے والد (ایس ایچ او لیاقت آباد سید سراج حسین) جا کر انھیں لے کر آئے تھے۔‘

علی کوثر کے گھر پر حملے کی تصدیق علاقے کے مکین شہاب الدین، ’تکبیر‘ کے سابق ایگزیکٹوِ ایڈیٹر نصیر احمد سلیمی کے علاوہ نصرت مرزا نے بھی کی۔

نصرت مرزا شہری سندھ کے عمائدین کے پلیٹ فارم ’مہاجر رابطہ کونسل‘ کے بانی سربراہ ہیں اور اس واقعے کے وقت وہ مسلم کالج حیدرآباد سندھ کی طلبا یونین کے صدر تھے۔

نصرت مرزا نے مجھے بتایا کہ ’سو فیصد حمایت مادر ملت کی تھی حیدرآباد میں بھی، کراچی اور ڈھاکہ میں بھی۔ پورے شہری سندھ اور کراچی کی آنکھوں میں جمہوریت کا خواب تھا اور اس پر ایوب خان کراچی کو سزا دینا چاہتے تھے۔ پولیس اور انتظامیہ گوہر ایوب کے ساتھ تھیں۔ مگر علی کوثر کا گھر گوہر ایوب کے جلوس کے شرکا نے نہیں جلایا تھا بلکہ لیاقت آباد میں شامل سیاسی طور پر متحرک افراد نے انتقاماً جلایا تھا۔‘

کراچی آپریشن

فائل فوٹو

آٹھ جنوری 1965 کی برطانوی اخبار ’دی ٹائمز‘ کی خبر کے مطابق ’ساری ہنگامہ آرائی اور قتل و غارت کے بعد پولیس نے کارروائی کرنے میں سستی کا مظاہرہ کیا اور بعد میں طلب کی جانے والی فوج نے بھی کوئی خاص کارروائی نہ کی۔‘

نصیر احمد سلیمی نے بھی کہا کہ ’اس سلسلے میں کوئی تادیبی یا مؤثر انتظامی و عدالتی کارروائی دکھائی نہیں دی۔‘

برطانوی اخبار ’دی ٹائمز‘ کے مطابق قتل و غارت و ہنگامہ آرائی کے کئی گھنٹوں بعد ’شام ساڑھے چھ بجے فوج نے امن و امان کا انتظام خود سنبھال لیا تاکہ صورتحال پر قابو پایا جا سکے جبکہ انتظامیہ نے اس واقعے کے بعد کراچی کے تین علاقوں میں 15 گھنٹے کا کرفیو ضرور نافذ کر دیا۔‘

امریکی جریدے ٹائمز کے مطابق اپنے حامیوں کے قتل عام پر فاطمہ جناح کا کہنا تھا ’مہذب دنیا میں ایسے وحشیانہ عمل کی اجازت کہیں بھی نہیں۔‘

نصرت مرزا نے کہا کہ اُس وقت کوئی مہاجر پٹھان سیاست نہیں تھی۔ یہ فوجی آمریت کے خلاف غصہ تھا۔ ایوب آمریت نے زیادتی کی تو وہ ’مہاجر پٹھان فساد‘ بن گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32548 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments