کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ: ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی حقیقت نگاری


ڈاکٹر طاہرہ کاظمی سے میرا تعارف ” ہم سب” پر ان کے کالموں کے حوالے سے ہوا ۔ یہ کالم ہمارے سماج میں عورت سے روا رکھی جانے والی زیادتیوں اور خواتین کے ذہنی اور طبی مسائل کے بارے میں ہیں اور جس چیز نے میری توجہ ادھر مبذول کی وہ ان کا منفرد اسلوب ہے جس میں افسانوی رنگ نمایاں ہے  انکی کتاب ، ” کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ” میں نے ابھی ابھی پڑھی ہے۔ یہ کتاب 2020 میں شائع ہوئی اور اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ 2021 میں  اس کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہوگیا  ہے۔۔ یہ کتاب ڈاکٹر صاحبہ کے کالموں کا مجموعہ ہے جنہیں میں  مختلف فورمز میں گاہے بگاہے پڑھتا رہا اور ان کی تحریر کی دلکشی سے متاثر ہوتا رہا۔ اس کتاب کے شروع میں کچھ معتبر مصنفین نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا اور تقریبا تمام نمایاں ادبی پلیٹ فارمز پر بھی اس پر تبصرے شائع ہو چکے ہیں تو میں نے سوچا کہ میرے لیے اب کچھ بھی لکھنے کو باقی نہیں لیکن ان کالموں کے موضوعات، ان میں درج معلومات، مصنفہ کے احساسات اور افسانوی ڈکشن نے مجھے قلم اٹھانے پر انگیخت کیا۔ اگرچہ یہ کالم خواتین کے مختلف مسائل اور انہیں جبر کی حالت میں رکھنے کی روداد ہیں تاہم جو نکتہ نظر سب سے نمایاں ہے وہ عزت، غیرت اور شرم کے بوجھ تلے دبی جانور سے بدتر زندگی گزارتی عورت کے بارے میں ہے۔

ہمارے معاشرے کا یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ عورت کی ذاتی زندگی اور مستقبل کے سارے فیصلے اس کے مرد رشتہ دار ہی کرتے ہیں ۔ ہمارے ہاں جب لڑکی کی پیدائش ہوتی ہے تو نہ صرف ناک بھوں چڑھائی جاتی ہے بلکہ اسے خاندان میں ایک فرد کی آمد کی  بجائے ایک ” مسئلے” کی آمد سمجھا جاتا ہے  اور وہ مسئلہ ہے ” عزت” کا۔ اس اکیسویں صدی میں اب بھی بے شمار ایسے گھرانے ہیں جہاں بیٹی کی پیدائش پر مرد رشتے داروں کے سر اندر ہی اندر شرم سے جھک جاتے ہیں، ایسے جیسے بیٹی کا باپ یا بہن کا بھائی کہلوانا کوئی شرمناک چیز ہے۔

معاشرے میں عورت کے بارے میں  رائج سوچ پر ڈاکٹر صاحبہ نے متنوع کالم سپرد قلم کئے ہیں اور قاری کو بتایا ہے کہ یہاں بیٹی کو نہ فرد سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی انسان بلکہ اسے ایک غیر محفوظ چیز سمجھا جاتا ہے جس کی حفاظت ہردم ضروری ہے۔ طاہرہ کاظمی صاحبہ کے ان کالموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ” عزت” کو عورت کے جنسی رویے سے منسلک کیا جاتا ہے اور نتیجتا اس کی شکل و صورت اور لباس کی وضع قطع بہت اہم ہو جاتے ہیں۔ ” کنوار پن” کا لفظ بھی صرف عورت کے لیے ہے اور مردوں کے لیے ایسے معنی دینے والا کوئی لفظ نہیں خواہ مرد نے کوئی جنسی تجربہ ہی کیوں نہ کر رکھا ہو۔ ڈاکٹر صاحبہ نے درست طور پر اس بات کا کھل کر اظہار کیا ہے کہ پدر سری نظام میں مردوں کو سخت جان، آزاد، خود مختار اور صاحب عقل سمجھا جاتا ہے جبکہ عورت کو جذباتی، تسلیم خو اور مائل بہ اطاعت۔

تعلیم اور معاشی خوشحالی سے معتدل رویے پیدا ہوتے ہیں، اسی لیے عورت کو تعلیم بھی بس ” ضروری” حد تک دی جاتی ہے لیکن جہاں کوئی خاتون اپنی ہمت سے اس طے شدہ حد سے آگے کی تعلیم حاصل کر بھی لے تو اس بات کی یقین دہانی کی جاتی ہے کہ وہ اپنی سماجی اقدار کے ساتھ مضبوطی سے جڑی رہے۔ یہ کالم ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہمارے ہاں بچیاں ماں باپ کے سخت کنٹرول میں پلتی ہیں۔ غریب اور مڈل کلاس کی مایئں کمزور اور بے حوصلہ اور قنوطی ہوتی ہیں چناچہ بچیوں کے لیے بھی وہ اسی طرح کا رول ماڈل بنتی ہیں۔ یہاں ماں باپ کو بچی کی ذات کم اور خاندان کی عزت بہت پیاری ہوتی ہے۔

طاہرہ کاظمی چونکہ خود ڈاکٹر ہیں اور گائنی جیسے مشکل ترین اور پیچیدہ شعبے میں سینئرز میں شمار ہوتی ہیں اس لئے انہوں نے پانچویں، چھٹے بچے کی پیدائش کے لیے آنے والی خواتین اور ان کے لواحقین کو یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ اب بس کریں اور خاتون کی صحت اور جان کا خیال کریں لیکن انہیں اسی روایتی سوچ کا سامنا کرنا پڑا کہ ” خدا نے روحیں تو پہلے سے پیدا کر رکھی ہیں اور جس نے دنیا میں آنا ہے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور روکنا خدا کے کاموں میں دخل اندازی ہے” لیکن یہ کالم پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جدید سائنس نے پرانے نظریات کو باطل قرار دے دیا ہے اور بار بار سی سیکشن قسم کے آپریشنز سے نجات کے لیے ایگ اور سپرم کے ملاپ میں رکاوٹ  کا بند و بست اس مسئلے کا حل ہے لیکن بے چاری خواتین، چاہتے ہوئے بھی، اس پر آمادگی ظاہر نہیں کر سکتیں کہ یہ بھی ان کے مردوں کے طے کرنے کی بات ہے اور مردوں کے لیے یہ بات ان کی ” مردانگی” اور وراثتی علم کے بوجھ سے جڑی ہے۔

طاہرہ کاظمی صاحبہ نے بڑی جرات سے کام لیتے ہوئے بڑی سچی اور تلخ حقیقتیں سپرد قلم کی ہیں، یہ پرواہ کئے بغیر کہ یہاں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اول تو ان حقیقتوں کا ادراک ہی نہیں رکھتی یا پھر اپنے فائدے اور عورت پر مکمل کنٹرول کے لیے انہیں ڈھٹائی سے نظر انداز کرتی ہے۔ دنیا بھر کے مذاہب میں عورت کو دوسرے درجے کا شہری ہی جانا گیا ہے اور ہمارے ہاں تو مسجد و منبر پر براجمان ملاوں نے ایسی ایسی تشریحات کی ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ مذہب اسلام تو نازل ہی عورت کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے ہوا تھا۔ اس کتاب میں معروف ملاوں اور خطیبوں کی بھی گوشمالی کی گئی ہے اور ایک متعصب ڈرامہ نگار کو بھی جائز اور درست طریقے سے آئینہ دکھایا گیا ہے۔

ڈاکٹر صاحبہ کی ایک آدھ بات سے بصد احترام اختلاف بھی ہے مجھے کہ محترم مذہبی خواتین اور دیگر بہادر خواتین کی بہادری اور ظلم کے خلاف للکار کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے بے نظیر بھٹو اور کلثوم نواز کو بھی ایسی ہی جدو جہد والی خواتین بتایا۔ میری نظر میں تو ہمارے سماج میں سیاست سے جڑی خواتین کی ساری جد و جہد اپنے اقتدار کے حصول یا اس کو طول دینے کے لیے تھی اور ہے اور یہ لوگ جب مسند اقتدار حاصل کر لیتے ہیں تو جمہور پر ظلم ہی کرتے ہیں اور اس میں مرد یا عورت کی تمیز نہیں کرتے۔

کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ کے سارے کالم ہمارے ارد گرد کی کہانیاں ہیں جنہیں ہم دیکھتے بھی ہیں، محسوس بھی کرتے ہیں لیکن ان پر کوئی اس طرح سے کم ہی قلم اٹھاتا ہے۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی خود لکھتی ہیں، ” اب کیا کہوں کہ یہ کہانیاں میرے ارد گرد چلتی پھرتی ہیں، کبھی ہنستی کبھی روتی ہیں۔ میرے کان میں سرگوشیاں کرتی ہیں، مجھ سے فریاد کرتی ہیں کہ ہمیں اپنے آنسووں میں پرو کے دل کے صفحے پر اتار لو اور اس معاشرے کے ناخداوں کو ہمارے چہرے دکھاو، شاید کہیں کوئی پہچان و احساس کی رمق باقی ہو” ( صفحہ 218)

ڈاکٹر صاحبہ یوں ہی لکھتی رہئے، بہت سے لوگ ناک بھوں چڑھایئں گے، دل میں گالیاں بھی بکیں گے لیکن ایک کثیر تعداد ان کو نہ صرف پڑھے گی بلکہ سوچے اور سمجھے گی بھی کہ لکھے ہوئے لفظ کو کوئی نہیں مٹا سکتا ہے۔

جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ ان تمام کالموں میں مجھ جیسے ادب کے طالبعلم کو ایک افسانوی فضا بھی نظر آئی۔ بلا شبہ ان کالموں کو میں سماجی حقیقت نگاری کہہ سکتا ہوں۔ کتاب کا سرورق کتاب کے نام کی خوبصورت عکاسی کرتا ہے اور یہ محترم سعید ابراہیم کی ایک عمدہ کاوش ہے۔ کتاب سانجھ پبلیکیشنز  نے اچھے ڈھنگ سے شائع کی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments