ایک موت دو شہر


جم مرے بیاسی سال کی عمر میں بھی کافی چاق چوبند تھا۔ بتیس سال کی عمر میں اس نے شادی کی تھی، تین بچوں کا باپ بنا تھا۔ مارگریٹ کے ساتھ زندگی بہت خوب صورت تھی کہ نہ جانے کیا ہوا، بیس سال کے بعد دونوں ہی ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ مارگریٹ نے طلاق لی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے اب جم سے محبت نہیں رہی ہے۔ بہت تکلیف دہ زمانہ تھا وہ۔ وہ مارگریٹ کے ساتھ رہنا چاہتا تھا اور مارگریٹ اس سے دور ہو چکی تھی پھر دونوں نے مل کر ہی فیصلہ کیا تھا کہ علیحدہ ہوجائیں۔

مارگریٹ تھوڑے دن نیویارک میں ہی رہی، پھر اسے پتا لگا کہ وہ شکاگو چلی گئی ہے جہاں اس نے دوسری شادی کرلی ہے اور اب خوش ہے۔ جم نیویارک میں ہی رہا۔ بچے بڑے ہو گئے۔ بڑی بیٹی سوزانہ نے ایک کسان سے شادی کی تھی اور کنساس میں آباد ہو گئی تھی۔ جولین کی پہلی شادی ایک سال میں ہی ختم ہو گئی تھی پھر وہ ڈیوڈ سے شادی کر کے سینٹ انٹونیو ٹیکساس میں رہنے لگی تھی۔ دونوں کے دو خوب صورت اور ذہین بچے تھے۔ جم نے دوسری شادی آسٹن کے گھر چھوڑنے کے بعد کی۔

آسٹن آئی لین کے ساتھ نیویارک میں ہی رہ رہا تھا۔ جم اور لیزا کی ملاقات نیویارک میں ہی ہوئی تھی۔ لیزا کے بھی تین بڑے بچے تھے۔ تینوں اپنے اپنے گھروں کے ہو گئے تھے اور لیزا کا شوہر ایک دن بہت ساری شراب پی کر گاڑی چلاتے ہوئے ایکسیڈنٹ کا شکار ہو کر مر گیا تھا۔ لیزا سے اس کی ملاقات لائبریری میں ہوئی تھی۔ دونوں کی دوستی ہوئی جو محبت میں بدلی اور پھر دونوں شادی کر بیٹھے۔ دونوں کے بچوں نے شادی پر خوب اہتمام کیا تھا۔ دس سال دونوں ساتھ رہے تھے پھر ایک دن یکایک لیزا دل کا دورہ پڑنے سے مر گئی تھی۔ جم اس وقت ستر سال کا تھا۔ جب سے جم اکیلا ہی رہتا تھا۔

زندگی تنہا تھی مگر اس نے جینا سیکھ لیا تھا۔ صبح اٹھتا تھا، محلے کی لائبریری میں اخبار پڑھتا تھا، عمر رسیدہ شہری ہونے کے حوالے سے ہر تفریح گاہ کے دروازے کھلے تھے۔ والی بال اور بیس بال اس کے پسندیدہ کھیل تھے۔ ٹیلی وژن دیکھتا تھا اور محلے کے بار میں تھوڑی بیئر پی لیتا تھا۔

جم بلڈ پریشر کا مریض تھا۔ جس کے لیے اسے دوائیں کھانی پڑتی تھیں اور سال میں چار دفعہ ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا تھا۔

اس روز اسے لگا تھا کہ اس کا بلڈ پریشر زیادہ ہے۔ اس کے سر میں درد تھا اور کان سائیں سائیں کر رہے تھے۔ اس نے سوچا کہ ای آر (ایمرجنسی روم) فون کر کے ایمبولینس بلوا لے۔ اسی وقت جین کا فون آ گیا۔ جین اس کی دوسری بیوی کی دوسری بیٹی تھی۔ جم سے بہت قریب آ گئی تھی اور دونوں میں بہت دوستی تھی۔ جین نے بتایا تھا کہ وہ صبح اس سے ملنے آئے گی۔ پھر جم جین اور جین کے بچوں کے بارے میں سوچتا ہوا سو گیا تھا۔

٭

شمیمہ، نسیمہ، کریمہ تینوں ہی ابو جان کو لے کر سول ہسپتال پہنچی تھیں۔ صبح صبح شمیمہ اسکول جانے کی تیاری کر رہی تھی، نسیمہ بھی اپنا سامان درست کر رہی تھی اور کریمہ ابو جان کو چائے دینے ان کے کمرے میں گئی تھی۔ اس نے دیکھا کہ وہ بے سدھ بے ہوش پرے تھے۔ تریسٹھ سال کی عمر تھی ان کی، بلڈ پریشر کے مریض تھے۔ اس نے چیخ مار کر دونوں بہنوں کو بلایا تھا۔ وقت نہیں تھا کہ کسی سے بات کی جاتی۔ کھوکھرا پار سے سول ہسپتال بہت لمبا سفر تھا۔

ایدھی کی ایمبولینس تو فوراً آ گئی تھی، ابو جان بے ہوش تھے۔ ایمبولینس کے ڈرائیور، لڑکیوں اور محلے والوں کی مدد سے انہیں ایمبولینس میں ڈالا گیا تھا، صبح کا وقت تھا ہر کوئی کام پر جا رہا تھا۔ تینوں ہی لڑکیاں ایمبولینس میں بیٹھ گئی تھیں۔ ٹی ٹاں، ٹی ٹاں، ٹی ٹاں کرتی ہوئی ایمبولینس سول ہسپتال کی کیزولٹی (شعبۂ حادثات) پونے گھنٹے میں پہنچ گئی تھی۔

ایمبولینس سے اتار کر ایک ٹھیلے نما ٹرالی پر انہیں ڈال دیا گیا تھا جس کا ایک پہیہ ٹوٹا ہوا تھا۔ جب ٹرالی کو دھکا دے کر لے جانے لگے تھے تو راستے بھر وہ پہیہ مسلسل اپنے ہی گرد گھومتا رہا تھا اور ٹرالی جھٹکے لیتی رہی تھی۔ سردی کا زمانہ تھا اور ٹرالی ٹھنڈی ہو رہی تھی جس کے اوپر نہ کوئی چادر تھی اور نہ کمبل۔ شمیمہ نے اپنے پرس کو ابو جان کے سر کے نیچے رکھا تھا اور گھر سے لائی ہوئی چادر ان پر ڈال دی تھی۔ ان کے منہ سے تھوک نکل نکل کر بہہ رہا تھا جو اس نے اپنے دوپٹے سے صاف کیا تھا۔ تینوں بہنیں خاموش تھیں مگر تینوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کی گنگا جل بہے جا رہے تھی۔ کریمہ کے ہاتھ میں پنج سورہ تھا جسے وہ بار بار پڑھے جا رہی تھی۔ یا خدا! یا خدا! میرے ابو کو بچا لے۔ اور ہمارا ہے ہی کون۔ یا خدا! یا خدا! یا خدا! یا خدا!

اسٹریچر کو دھکا دے کر شمیمہ اندر جا ہی رہی تھی کہ ایدھی ایمبولینس والے نے کہا، ”تین روپے کی پرچی بنوا لیں۔“ پھر خود ہی بولا تھا، ”لائیں مجھے دیں میں بنوا کر لے آتا ہوں۔“ شاید اس نے سوچا ہو گا کہ لڑکی کہاں جائے گی۔ شمیمہ نے پرس سے تین روپے نکال کر دیے۔ کیزولٹی کے اندر ہلکی ہلکی روشنی تھی۔ سامنے کا ٹیوب لائٹ ٹوٹا ہوا تھا اور ٹوٹ کر دیوار پر لٹک رہا تھا۔ دو ٹیبلوں کو ملا کر ایک کا ؤنٹر سا بنا ہوا تھا۔ جہاں دو آدمی شلوار قمیص پہنے ہوئے بیٹھے تھے، جن کے سامنے اسٹیتھو اسکوپ رکھا ہوا تھا، شمیمہ سمجھ گئی تھی کہ دونوں ڈاکٹر ہیں۔ صبح صبح وہ دونوں بھی چائے پی رہے تھے اور مسکہ بن کھا رہے تھے۔

شمیمہ تقریباً بھاگی ہوئی ان کے پاس گئی تھی۔ ”ڈاکٹر صاحب بچا لیں میرے ابو کو ۔ پتا نہیں کیا ہوا ہے، رات بالکل ٹھیک تھے ابھی صبح دیکھا تو بے ہوش پڑے ہوئے تھے۔“

ڈاکٹر نے غور سے لڑکی کو دیکھا تھا پھر آواز دی تھی، ”بابو بابے کو فوراً بستر پر ڈالو۔“ بابو پاس ہی کھڑا تھا جو اسٹریچر کو گھسیٹ کر دوسرے کمرے کی طرف لے گیا تھا۔

”فرقان لگتا ہے کہ بابے کو سی وی اے ہو گیا ہے۔ یار ذرا میڈیکل والوں کو بلاؤ تو صحیح، جب تک میں دیکھتا ہوں۔“ وہ چائے کی آخری گھونٹ لے کر کمرے کی طرف گیا تھا۔

وہ بستر پر بے سدھ پڑے ہوئے تھے اور لمبی لمبی سانسیں لینے کی آواز آ رہی تھی۔ ایک بہن مسلسل قرآن پڑھے جا رہی تھی۔ اور ساتھ رو بھی رہی تھی۔

”کب سے ان کی یہ حالت ہے؟“ اس نے پوچھا تھا اور آواز لگائی تھی، ”نرس! بی پی آپریٹس (بلڈ پریشر لینے کی مشین) لاؤ۔ جلدی کرو جلدی۔“ اس نے آنکھیں دیکھی تھیں نبض پر ہاتھ رکھا تھا اور جیب سے ایک چابی نکال کر ابو جان کے تلوے پر نیچے سے اوپر کی طرف کھکوڑا تھا۔ انہوں نے پیر کی انگلیوں کو سیدھا کر لیا تھا۔

”صبح جب اٹھے تو ایسے ہی تھے جی۔ ’ج شمیمہ نے کہا۔
”بلڈ پریشر کی بیماری کب سے ہے ان کو ؟“ اس نے پھر پوچھا۔
”جی بہت دن سے ہے اور کبھی کبھی دوائیں بھی کھاتے ہیں۔“ شمیمہ نے پھر کہا تھا۔
”میڈیکل تھری والے کہہ رہے ہیں ہمارا وقت ختم ہو گیا ہے۔“ فرقان نے آ کر ڈاکٹر کو بتایا تھا۔
”ارے تو یار فور والوں کو بلا لو، آخر مریض کو تو دیکھنا ہے ناں۔“ ڈاکٹر نے زور سے کہا تھا۔

”میں نے بلایا تھا۔ وہ کہہ رہے ہیں اب او پی ڈی کا وقت ہو گیا ہے وہاں ہی بھیج دیں مریض کو ۔“ فرقان نے پھر کہا۔

”ارے گدھے کے بچوں کو بولو، سی وی اے کا مریض ہے، بے ہوش ہے۔ تم نے کہا تھا ان کو ؟“ ڈاکٹر نے پھر کہا۔
”نہیں، یہ تو نہیں کہا تھا۔“ فرقان نے جواب دیا۔
”یار تم عجیب انسان ہو بات تو پوری کیا کرو۔“ ڈاکٹر نے جھلا کر کہا تھا۔
”ٹھہرو میں بات کرتا ہوں، یہ کہہ کر وہ باہر چلا گیا تھا۔
شمیمہ تھوڑی دیر کھڑی رہی پھر آہستہ آہستہ باہر گئی تھی جہاں دو ٹیلی فون رکھے ہوئے تھے۔

”میڈیکل فور؟ سسٹر میری کسی ڈاکٹر سے بات کرائیں۔“ ڈاکٹر فون پر گرج رہا تھا۔ شمیمہ بھی قریب ہی آ کر کھڑی ہو گئی۔

”ہاں میں بول رہا ہوں ڈاکٹر رشید کیزولٹی سے، ہاں یار ایک مریض ہے سی وی اے کا ، پچاس ساٹھ سال کا آدمی ہو گا آ کر دیکھ لو۔“ پھر کسی کے بولنے کی آواز آئی تھی۔

”ارے بھائی! اب آٹھ سے اوپر ہو گیا ہے تمہیں لوگ ڈیوٹی پر ہو اور جو بھی تم سے سینیئر ہے اس کو بلاؤ اور آ کے مریض کو دیکھو فوراً۔“ اس نے تقریباً چیخ کر کہا تھا۔ ”اس مریض کو داخل کرنا ہو گا۔“

”یہ وقت ہی خراب ہے۔“ اس نے شمیمہ کی طرف دیکھ کر کہا تھا، ”ڈیوٹی بدلنے کا وقت ہے، ہر وارڈ والا دوسرے وارڈ پر ٹالتا ہے۔ مگر گھبرائیں مت ابھی وہ لوگ آ جائیں گے پھر ان کو اوپر لے جائیں گے۔“

”مگر ڈاکٹر صاحب آپ تو کچھ کریں وہ تو بالکل بے ہوش پڑے ہیں۔ کچھ کریں ڈاکٹر صاحب! آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔“ شمیمہ نے تقریباً روتے ہوئے کہا تھا۔

”ہاں! ابھی کچھ کرتے ہیں۔“
٭

جین نے ایپل پائی کو لپیٹا تھا۔ جم کو ایپل پائی بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ ہمیشہ اس کے لیے اپنے ہاتھوں سے اپیل پائی بنا کر لے جاتی تھی اور جینیفر کو تیار کیا تھا۔ ڈرمٹ صبح ہی کام پر چلا گیا تھا۔ جینیفر باہر جا کر گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔ ٹھنڈی تھکی ہوئی صبح تھی۔ جم اس کا سوتیلا باپ تھا مگر اس کی ماں کی شادی کے بعد دونوں بہت قریب آ گئے تھے۔ اسے جیسے دوبارہ اس کا باپ مل گیا تھا۔ سالوں میں دوستی بڑھ کر محبت میں بدل گئی تھی اور جم اس کے بچوں کو بے انتہا پیار کرنے لگا تھا۔

اکثر ہفتہ اتوار کو وہ لوگ جم کو اپنے گھر لے آتے تھے۔ جم کے اپنے بچے بھی تھے، فون اور مختلف موقعوں کے مختلف کارڈوں کے ذریعے تعلق قام رہتا تھا اور کرسمس کے موقع پر ایک دوسرے سے ملاقات بھی ہوتی رہتی تھی، جم کا اپنا بیٹا آسٹن نیویارک میں رہتا تھا۔ جین کی اس سے بھی بہت بنتی تھی۔ اکثر و بیش تر یہ لوگ خوش ہونے کے بہانے ڈھونڈ لیتے تھے۔ جین نے گاڑی چلاتے ہوئے سوچا تھا کہ ایپل پائی دیکھ کر جم خوش ہو جائے گا۔ گھر کے سامنے گاڑی روک کر جین نیچے اتری۔ جینیفر نے پہلے ہی جا کر گھر کی گھنٹی بجانی شروع کردی تھی۔ ”گرانڈ پا، ہم لوگ آ گئے ہیں! گرانڈ پا ہم لوگ آ گئے ہیں!“

دروازہ نہیں کھلا۔ جین نے اپنی چابی نکال کر لگائی۔ اندر بیٹھنے کے کمرے میں ہی جم فون کے پاس صوفے پر بے ہوش پڑا ہوا تھا۔ جین کی چیخ نکل گئی اور اس نے گھبرا کر فون اٹھا کر 911 ڈائل کیا تھا۔ ”ایمرجنسی ہے، جلدی ایمبولینس لے کر آؤ۔“ اس نے رو رو کر اور چیخ چیخ کر اپنا پتا بتایا تھا۔

چھ منٹ میں ایمبولینس پہنچ گئی۔ آنے والوں نے فوراً ہی دروازے سے گاڑی لگائی تھی۔ ایک اسٹریچر پہیوں سمیت ایمبولینس سے باہر نکلا تھا۔ نرم گداز گرم چادریں اور گرم پانی سے گرمائے ہوئے اسٹریچر پر بہت احتیاط سے جم کو گاڑی میں لے جایا گیا۔ گاڑی کے اسٹارٹ ہونے سے پہلے ہی جم کے بازوؤں پر بلڈ پریشر لینے والی مشین لگادی گئی تھی۔ منہ سے بہنے والا جھاگ سکشن سے نکالا جا رہا تھا۔ سانس کی نالی کھولنے کے لیے منہ میں ایک ٹیوب لگادی گئی تھی۔ آکسیجن کی نلکی لگا کر تیزی سے آکسیجن دیا جا رہا تا۔ گاڑی کے نکلنے سے پہلے ہی ایک انجکشن بھی لگایا جا چکا تھا۔ ہنگامی علاج کے لیے تمام ادویات ایمبولینس میں موجود تھیں۔ ایمرجنسی سے نمٹنے والی تین نرسیں بڑی تیزی سے اپنا کام کر رہی تھیں۔

ڈرائیور ہسپتال فون کر کے بتا رہا تھا کہ وہ دس منٹ میں جم مرے نام کے بڈھے کو جس کی عمر تقریباً اسی پچاسی سال ہے، لے کر ہسپتال پہنچے گا۔ اسے سی وی اے ہو گیا ہے۔ ریکارڈ آفس سے اس کی فائل نکلوا لو۔ اس کی سانس ٹھیک چل رہی ہے، اس کا بلڈ پریشر زیادہ ہے، ہم پہنچنے والے ہیں۔ ایمرجنسی ٹیم کو الرٹ کرو، شاید سرجری کی ضرورت ہو۔

جین نے ایمبولینس کے نکلنے کے بعد آسٹن کو فون کیا کہ دوسرے بھائی بہنوں کو خبر کردے۔ اس نے گھر کے دروازے بند کر دیے تھے اور جینیفر کو لے کر ہسپتال کی طرف نکل گئی۔

٭

ایک لیڈی اور دو مرد ڈاکٹر میڈیکل فور سے شعبۂ حادثات میں پہنچے تھے۔ ابو ابھی تک برف جیسے ٹھنڈے اسٹریچر پر پڑے ہوئے تھے، نسیمہ بار بار ان کا منہ پونچھ رہی تھی۔ بلڈ پریشر لینے کی مشین زمن پر گر کر ٹوٹ گئی تھی۔ لہٰذا استعمال کرنے کے قابل نہیں تھی۔ پانچ دن سے کیزولٹی میں کوئی بی پی مشین نہیں تھی۔ لیڈی ڈاکٹر نے اپنے کوٹ کی جیب سے اپنی مشین نکال کر لگائی۔ ”بلڈ پریشر تو بہت زیادہ ہے۔“ اس نے ڈاکٹر کو بتایا تھا۔

”کب سے یہ بلڈ پریشر کی دوائیں کھا رہے ہیں؟“ اس نے شمیمہ سے پوچھا تھا۔
”میرے خیال سے تو کھا ہی رہے تھے۔ یہ مجھے پکا پتا نہیں ہے۔“ شمیمہ نے جواب دیا تھا۔

”عجیب بیٹی ہیں آپ! آپ کو پتا بھی نہیں ہے کہ یہ دوا کھا رہے ہیں کہ نہیں؟ ایسے میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔“ ڈاکٹر نے درشتگی سے جواب دیا تھا۔ ”نہ جانے کیسے کیسے جاہل اس ہسپتال میں آ جاتے ہیں۔“

”جی وہ کبھی کبھی دوا چھوڑ دیتے تھے کہ کہیں دوا کے عادی نہ ہوجائیں۔ شاید ڈاکٹر نے بھی یہی کہا تھا۔“ شمیمہ نے بڑے ادب سے جواب دیا تھا۔

”جاہل ہے ڈاکٹر، پتا نہیں کون سے ڈاکٹروں کے پاس لے جاتے ہیں آپ لوگ۔“ ڈاکٹر نے مزید غصے سے کہا تھا۔ ”اب تو ان کو وارڈ میں لے جانا ہو گا۔ آپ لوگ ٹھہریں میں انتظام کرتا ہوں۔“

یہ کہہ کر ڈاکٹر دوسرے کمرے میں گیا تھا اور وہاں کے ڈاکٹر سے کہا تھا کہ ”پورٹر کے ذریعے مریض کو فوراً میڈیکل فور پہنچوا دو، جب مریض وہاں پہنچے گا تو علاج شروع ہو گا۔ مریض بے ہوش ہے مجھے تو مشکل لگتا ہے کہ بچے گا نہیں۔ یہ لوگ بہت دیر سے ہسپتال پہنچے ہیں۔ اب کوئی خاص افاقہ تو نہیں ہو سکتا ہے۔ نہ جانے کب سے بڑے میاں بے ہوش پڑے ہیں، نہ جانے کیا کیا damage ہو چکا ہے۔ اب تو کوشش کرنا بھی فضول ہی ہے۔“

”اوئے رمضان!“ ڈاکٹر نے آواز لگائی تھی۔ ”بابے کو میڈیکل فور لے کر جاؤ، جلدی کرو۔“
شمیمہ آواز سن کر باہر آ گئی۔ ”ڈاکٹر صاحب! ابو ٹھیک تو ہوجائیں گے نا؟“ اس نے ڈاکٹر سے پوچھا۔

”کچھ کہہ نہیں سکتے بی بی، ابھی میڈیکل فور کے ڈاکٹر نے دیکھا ہے۔“ اس نے ڈاکٹر کی طرف دیکھ کر کہا۔ ”اب علاج ان کی ذمہ داری ہے، دیکھیں کیا ہوتا ہے۔“ اس نے جواب دیا تھا۔

”کوشش کریں گے بی بی! ابھی تو وارڈ میں چلیں، وہاں علاج شروع ہو گا۔ کچھ دوائیں اور چیزیں آپ لوگوں کو لانی ہوں گی۔ کوشش تو بہرحال کرنا ہے مگر ان کی حالت صحیح نہیں ہے، وارڈ میں چلیں۔ وہاں آپ کو لکھ کر دیتے ہیں پھر جتنی جلدی آپ دوائیں لائیں گی اتنی ہی جلدی ان کا علاج ہو سکے گا۔“ دوسرے ڈاکٹر نے جواب دیا۔

اتنے میں رمضان ٹوٹے ہوئے اسٹریچر کو دھکا دیتا ہوا باہر آ گیا۔ شمیمہ جھپٹ کر پھر باپ کے پاس پہنچ گئی۔ ابھی تک اس کا پرس ان کے سر کے نیچے تھا، ان کی آنکھیں بند تھیں، شمیمہ بار بار منہ صاف کر رہی تھی۔ وہ بے حس بے جان ہی لگتے اگر سانس لینے کی آواز نہیں آ رہی ہوتی۔

میڈیکل فور کے ڈاکٹر کو کیزولٹی کے ڈاکٹر نے آواز لگائی تھی۔ ”لڑکیاں خوب صورت ہیں بھائی، وارڈ میں خیال رکھنا۔“ اس نے بڑی شریر مسکراہٹ سے یہ بات کہی تھی۔ اور زور زور سے ہنس دیا تھا۔

کیزولٹی سے اسٹریچر کھڑپڑ کھڑپڑ کرتے ہوئے میڈیکل وارڈ پہنچی۔ اسٹریچر کا ایک پہیہ اپنے ہی طور پر گھومتا رہا تھا۔ ناہموار راستوں پر ہچکولے لیتی ہوئی، ٹکراتی ہوئی، اچھلتی ہوئی اسٹریچر سیڑھیوں پر جا کر رک گئی۔ اسٹریچر والے نے شمیمہ سے کہا کہ بیس روپے دیں تو تبھی دو آدمیوں کی مدد سے اسٹریچر کو اوپر وارڈ میں لے جایا جا سکے گا۔

شمیمہ نے جلدی سے بابا کے سر کے نیچے سے پرس نکالا تھا تاکہ پیسے نکال کر دے سکے۔ گھر سے نکلتے نکلتے اس نے گھر میں موجود پانچ پانچ سو کے چار نوٹ اور سو کے تین نوٹ پرس میں ڈال لیے تھے، کچھ روپے پہلے سے بھی پڑے ہوئے تھے۔ اب خالی پرس اس کا منہ چڑارہا تھا۔ نہ جانے کب کسی نے کیزولٹی میں ہی خاموشی سے پرس سے پیسے نکال لیے تھے۔ اس کا تو جیسے دل ڈول کر رہ گیا تھا۔

نسیمہ کے پاس بیس روپے تھے جو اس نے پورٹر کو دیے جس نے ایک جمعدار کی مدد سے اسٹریچر کو سیڑھیوں سے اوپر پہنچایا۔

وارڈ میں بستر پر ایک گندی سی چادر بچھی ہوئی تھی جس پر انہوں نے بابے کو جا کر ڈال دیا تھا۔ وہ ابھی تک بے ہوش تھے۔ تھوڑی تھوڑی دیر میں ان کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا جو شمیمہ بار بار اپنے دوپٹے سے صاف کر رہی تھی۔

ایک نرس آئی تھی نسیمہ اور شمیمہ کو دیکھ کر چلی گئی تھی۔ جب تھوڑی دیر کوئی اور نہیں آیا تو شمیمہ وارڈ کے ساتھ والے نرسوں کے کمرے میں گئی تھی۔

وہاں ایک نرس ایک ٹیبل کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ ٹیبل پر کچھ فائلیں اور کاغذوں کا ڈھیر تھا۔ کونے میں ایک جگہ پر پانی ابل رہا تھا جس میں کچھ سرنج پڑے ہوئے تھے۔ ٹیبل کے ساتھ ہی ایک الماری تھی جس میں کچھ دوائیں رکھی ہوئی تھیں۔ نرس نے اسے گھور کر دیکھا تھا۔

”کیا بات ہے بی بی! کہاں چلی آ رہی ہو؟“
”جی میرے ابو لائے گئے ہیں، بالکل بے ہوش ہیں، کسی نے دیکھا نہیں ہے انہیں ابھی تک۔“

”ابھی دیکھ لیں گے، ویسے بھی ان کی طبیعت بہت خراب ہے، تھوڑی دیر میں اور کیا بگڑ جائے گا۔ آپ بستر پر جائیں ابھی ڈاکٹر ان کو دیکھیں گے۔“

”ذرا جلدی سے بلا دیں ان کو ، طبیعت بہت خراب ہے۔“ شمیمہ نے تقریباً روتے ہوئے کہا۔ ”کب سے بے ہوش پڑے ہیں، کوئی دوا دیں کہ ذرا ہوش تو آئے۔“

نرس اٹھ کر دوسرے بند کمرے میں چلی گئی اور تھوڑی دیر میں ڈاکٹر کے ساتھ واپس آئی تھی۔ ڈاکٹر نے آ کر پھر ابو جان کو دیکھا تھا۔ نرس بلڈ پریشر مشین لاؤ، نرس آکسیجن لاؤ، نرس کاغذ لاؤ۔ نرس آکسیجن لگاؤ، جلدی سے کینولا دو تو میں آئی وی لائن تو لگا دوں۔ آکسیجن کا سلنڈر دیکھ کر نسیمہ کو لگا تھا جیسے ابو اب نہیں بچیں گے۔

نرس نے آکسیجن کی نلکی ابو کی ناک میں ڈال کر اوپر سے سفید ٹیپ لگادیا۔

ڈاکٹر نے کاغذ پر جلدی جلدی لکھ کر دیا تھا کہ یہ سامان لے کر جلدی آئیں تاکہ علاج شروع کیا جا سکے۔ ہسپتال میں کچھ بھی نہیں ہیں۔ سب بازار سے ہی لانا پڑتا ہے۔ ہسپتال کے باہر دو اؤں کی کئی دکانیں ہیں، کہیں سے بھی دوائیں لے آئیں، بس ذرا جلدی کریں۔ وقت کم ہے حالت خراب ہی ہوتی جا رہی ہے۔

شمیمہ ہاتھ میں کاغذ لے کر ساکت کھڑی تھی، پرس میں کوئی رقم نہیں بچی تھی نسیمہ بار بار ان کا منہ صاف کر رہی تھی، کریمہ خاموشی سے قرآن کا ورد کر رہی تھی۔ آسمان جیسے اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا۔ ابو کے سینے کی کھڑکھڑ جیسے دور ہوتی جا رہی تھی۔

٭

ایمبولینس کے پہنچنے سے پہلے ہی ہنگامی حالات سے نمٹنے والی ٹیم پہنچ گئی تھی۔ پوری ایمبولینس ہنگامی کمرے میں گھس گئی تھی اور جم کو ایمبولینس کے اسٹریچر سمیت ہی اتار کر دوسرے ہنگامی کمرے میں پہنچا دیا گیا تھا۔ بلڈ پریشر کا آلہ لگا ہوا تھا اور انجکشن کے اثر سے بلڈ پریشر کم ہو گیا تھا۔ جم گہری گہری سانس لے رہا تھا آکسیجن ماسک ابھی تک لگا ہوا تھا۔ ایک نرس نے جلدی سے پیشاب کی نالی لگادی تھی۔ دوسری نرس نے ناک سے ایک اور نالی معدے تک پہنچا دی تھی اور اس میں سے کھینچ کھینچ کر معدے سے تیزابی پانی نکالا جا رہا تھا۔

”سینہ خراب ہے۔“ ڈاکٹر نے کہا۔ ”یہ تو بہت بوڑھے ہیں۔ جلدی سے اینٹی بائیوٹک کا شاٹ لگا دو تاکہ انفیکشن نہ ہو۔“ نرس ایک رگ سے خون نکال کر مختلف ٹیسٹوں کے لیے چھوٹے بڑے شیشیوں میں خون بھر رہی تھی۔

”فوراً مریض کو ایکسرے ڈپارٹمنٹ لے جاؤ، ان کے سرکا سی ٹی اسکین کرنا ہو گا، اگر خون دماغ میں جم گیا ہے تو فوراً آپریشن کرنا ہو گا، دماغ کے سرجن کو خبر کر دو، آپریشن تھیٹر کو بتاؤ، بے ہوشی کے ڈاکٹر کو خبر کرو۔ ان کی فائل آ گئی ہے، میں نے پڑھ لیا ہے پہلے بھی کوئی خاص بیماری نہیں ہوئی ہے۔ بلڈپریشر کے لیے بڑے میاں دوا کھاتے ہیں، ڈائی بیٹس یا کوئی اور اس قسم کی بیماری نہیں ہے ان کو ۔ فزیوتھراپی والوں کو بھی خبر کردو کہ مریض کو ان کی ضرورت پڑ جائے گی۔ جب تک آپریشن کا فیصلہ نہیں ہو جائے، ان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ بائیں ران پر ایک لال سا نشان ہے دھیان رکھنا پڑے گا کوئی السر وغیرہ نہ بن جائے۔ ای سی جی تو بالکل ہی ٹھیک ہے۔ بڑے میاں بالکل جوان آدمی کی طرح بوڑھے ہیں۔“ ڈاکٹر مسلسل مریض کی رپورٹ کر رہا تھا۔

ایکسرے ڈپارٹمنٹ کے لوگ جم کو لے جانے آ گئے۔ نرسوں نے پورٹر نے بہت احتیاط سے جم کے جسم کو دوسری ٹرالی پر منتقل کیا تھا۔ یہ ٹرالی ایکسرے ڈپارٹمنٹ کی تھی اور اب اس پر ہی سب کچھ ہونا تھا۔

٭

”دیکھیں بی بی! آپ کے ابا جان کی عمر تو زیادہ نہیں ہے مگر حالت ان کی کافی خراب ہے۔ دماغ میں خون کی رگ پھٹ گئی ہے جس میں سے خون رس رس کر باہر نکل رہا ہے اور دماغ میں جم گیا ہے۔ ایک تو ان کا بلڈ پریشر بھی بڑھا ہوا ہے جس کے لیے فوری طور پر بلڈ پریشر کم کرنے کی دوا دینی ہوگی جو آپ کو فوراً بازار سے لانی ہے، ہمارے وارڈ میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ یہاں صرف ڈاکٹر ہیں، نہ نرسیں ہیں، نہ سامان ہے اور نہ ہی دوائیں ہیں۔

یہ پرچی آپ کو لکھ کر دی ہے اور آپ لوگ ابھی تک کچھ لے کر نہیں آئے ہیں۔ اگر لے کر نہیں آئیں گے تو کام کیسے چلے گا، علاج کیسے ہو گا؟ مریض بچے نہ بچے علاج تو کرنا ہو گا ناں۔ کوشش تو کرنی ہوگی، آپ لوگ سرکاری ہسپتال کیا سوچ کر آتے ہیں کہ یہاں ہر چیز فری میں ہے، ہر چیز مل جائے گی، عجیب لوگ ہیں آپ لوگ، کراچی میں رہتے ہیں کہ نیویارک میں؟“

”ڈاکٹر صاحب میرے پرس میں تقریباً تین ہزار روپے تھے جو میں گھر سے لے کر نکلی تھی مگر کسی نے یہ پیسے کیزولٹی میں پرس سے نکال لیے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب میں کچھ کروں گی مگر فی الحال تو آپ لوگ کچھ انتظام کریں۔ ہمارا تو ہمارے ابو کے علاوہ کوئی بھی نہیں ہے۔ انہیں کچھ ہو گیا توہم کہاں جائیں؟“ شمیمہ نے تقریباً روتے ہوئے کہا تھا۔

”ڈاکٹر شازیہ! آپ کے پاس کچھ ہے؟ جب تک یہ لوگ انتظام کرتے ہیں ہمیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔“ ڈاکٹر نے ایک لیڈی ڈاکٹر سے مخاطب ہو کر پوچھا تھا۔

”سر! ڈونیشن اور خیرات کے پیسوں سے اس ایمرجنسی کے لیے میں نے کل چیزیں منگوالی تھیں۔ آپ کہیں تو اس پہلے مریض سے شروع کر سکتے ہیں۔“ ڈاکٹر شازیہ نے جواب دیا تھا۔

”اگر ڈونیشن، خیرات کے پیسے نہ ہوں تو نہ جانے ان مریضوں کا کیا بنے۔“ ڈاکٹر غصے سے بڑبڑایا تھا۔

”جلدی کرو، شازیہ ان کا تو برا حال ہو رہا ہے۔“ ڈاکٹر نے کہا تھا، ”بی بی! ہم کوشش کرتے ہیں لیکن آپ اتنی دیر میں اپنے رشتے داروں کو فون کر کے بلا لیں اور جو بھی کر سکتی ہیں، کریں۔ ان چیزوں کا انتظام کرنا بہت ضروری ہے۔“

”سر! یہ ہائی ڈرالی زین کا آخری انجکشن بچا ہے اگر اس سے بلڈ پریشر کم نہیں ہوا تو کیا ہو گا؟“ شازیہ اپنے لاکر سے کچھ سامان لے کر آئی اور ڈاکٹر سے کہا۔

”چلو یہ تو شروع کرو۔ کیتھیٹر پاس کرو، این جی ٹیوب پاس کرو، کیزولٹی والوں نے آئی وی لائن تک صحیح نہیں لگائی ہے۔ جو بھی ٹیسٹ ہوسکتے ہیں وہ تو کر اؤ۔ ایک دفعہ بلڈ پریشر کم ہو جائے تو دیکھتے ہیں، ساڑھے نو بجنے والے ہیں۔ او پی ڈی میں جانے سے پہلے سر راؤنڈ کریں گے، ان کے لیے بھی کیس تیار کرلو۔“ ڈاکٹر نے تیز تیز لہجے میں جواب دیا تھا۔

”بی بی! آپ تو جائیں چیزوں کا انتظام کریں۔“
شمیمہ نے نسیمہ سے کہا کہ وہ وہیں ٹھہرے، وہ نیچے جا کر پی سی او سے ماموں جان کو فون کر کے بلاتی ہے۔

کریمہ کی آنکھوں سے آنسو نہیں رک رہے تھے۔ وہ رو رو کر مسلسل دعائیں کر رہی تھی ابو کی صحت یابی کے لیے، کسی معجزے کے لیے۔ اے خدا! میری سن، میرے مالک! میری جان لے لے۔ میرے ابو کو بچا لے۔ انہیں کچھ ہو گیا تو ہمارا کون ہے جو ہمیں دیکھے گا؟ ”

٭

جین ڈاکٹر کے کمرے میں ہی بیٹھی ہوئی تھی کہ اسٹیون بھی آ گیا تھا، جم کو سی ٹی اسکین کے بعد تھیٹر بھیج دیا گیا تھا۔ ایمرجنسی کا کنسلٹنٹ جین کو بتا رہا تھا کہ دماغ میں رگ پھٹ جانے کی وجہ سے خون جم گیا ہے۔ سر میں ایک چھوٹا سا سوراخ کر کے یہ خون نکال لیا جائے گا جس کے بعد دماغ پر سے دباؤ ختم ہو جائے گا، پھر آہستہ آہستہ امید کی جا سکتی ہے کہ مریض ٹھیک ہو جائے گا، فزیو تھراپی بھی ہوگی پھر، سو فیصد تو نہیں، لیکن کسی حد تک افاقہ ضرور ہو گا۔ لیکن ابھی یہ آپریشن بہت ضروری ہے، جتنی جلدی آپریشن ہو گا اتنا ہی جلد اچھا ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔

اسٹیون نے فارم پر دستخط کیا تھا اور جین بولی جو بھی آپ مناسب سمجھتے ہیں، کریں ہم لوگوں کو آپ پر پورا بھروسا ہے۔

بے ہوشی کے ڈاکٹر نے مریض کو دیکھ لیا ہے۔ وہ اور نیورو سرجن بالکل تیار ہیں۔ ”آپریشن کے بعد مریض انتہائی نگہداشت کے کمرے میں ستائیسویں منزل پر ہو گا۔ آپ لوگ وہیں چلے جائیں، لیکن آپریشن میں تقریباً دو گھنٹے لگیں گے۔ آپ لوگ وقت پر لے آئے مریض کو یہ بہت اچھا ہو گیا ہے، میرے لائق کوئی بات ہو تو ضرور بتائیے گا۔“ ڈاکٹر نے مسکرا کر کہا تھا۔

”نہیں ڈاکٹر! کچھ نہیں، جو بھی ہو سکتا ہے آپ کر ہی رہے ہیں، ہمیں کوئی سوال نہیں کرنا ہے۔“
٭

شمیمہ نے فون پڑوس میں کیا تھا اور کہا کہ ماموں جان کے گھر سے کسی کو بلا دیں۔ ماموں جان تو کام پر جا چکے تھے، ممانی سے ہی بات ہوئی تھی۔ شمیمہ نے بتایا تھا کہ ابو جان فالج زدہ بے ہوش پڑے ہیں۔ جو پیسے گھر میں تھے وہ پرس سے چوری ہوچکے ہیں، ڈاکٹروں نے دوائیں لانے کو کہا ہے اور میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔

ممانی نے تسلی دی تھی پھر کہا تھا کہ وہ کوشش کر کے دیکھتی ہیں اگر ماموں کو آفس میں خبر کرسکیں وہ وہاں ضرور پہنچیں گے۔

ممانی کی آواز سن کر اسے رونا آ گیا تھا۔ وہ آنسوؤں کو پونچھتی ہوئی پی سی او سے باہر نکلی تو کسی نے مخاطب کیا تھا، ”بہن جی! میں دوائیں لے دیتا ہوں آپ کو ، کیوں پریشان ہوتی ہیں۔“ ایک آدمی اس کے ساتھ ساتھ پی سی او کی طرف آیا تھا۔

”جی آپ کون ہیں؟“ میں آپ کو جانتی تک نہیں ہوں، آپ کیوں خریدیں گے دوائیں میرے لیے؟ ”اس نے رک کر پوچھا۔

”جی میں آپ کی باتیں سن رہا تھا لیکن اگر آپ کے پاس رقم نہیں ہے تو کیا ہوا، آپ کے ابو کو کچھ نہیں ہونا چاہیے، اگر بہت مسئلہ ہے تو آپ مجھے بعد میں پیسے لوٹا دیجیے گا۔ اس نے کافی شرافت سے یہ بات کہی۔

اسے نہ جانے کیوں اس شخص پر اعتبار سا ہو گیا تھا۔ ٹھیک ہے۔ ”آپ دوائیں لا دیں اور چل کر دیکھ لیں، میرے ابو میڈیکل فور میں ہیں، میں آپ کو رقم واپس کردوں گی۔“ کتنے اچھے لوگ ہوتے ہیں دنیا میں۔ اس نے اپنی دل کی گہرائیوں سے سوچا تھا۔ سول ہسپتال کے پیچھے کیزولٹی والے دروازے والی گلی میں جہاں مختلف میڈیکل اسٹور، ایکسرے کی دکانیں اور الٹراساؤنڈ کا بازار لگا ہوا ہے، وہیں کی ایک دکان سے اس آدمی نے ساری دوائیں، سرنج، کیتھیٹر این جی ٹیوب، یورین بیگ اور کینولا دلایا تھا۔ دکان والے نے سولہ سو اٹھاسی روپے کا بل بنایا تھا جو اس نے فوراً ادا کیا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ وارڈ تک آیا تھا۔

سول ہسپتال میں تو کچھ ملتا نہیں تھا۔ دوائیں باہر کی دکانوں سے خریدی جاتی تھیں۔ ایکسرے کی دکانیں بھی کھلی ہوئی تھیں اور لیبارٹری بھی کھلی ہوئی تھیں۔ دو بجے کے بعد زیادہ تر کام انہی جگہوں پر ہوتا تھا۔ ہسپتال کے ہی بہت سے ڈاکٹر اس کام میں شامل تھے۔ ان کے ایکسرے کے سینئر تھے، الٹراساؤنڈ کی دکانیں تھیں، لیبارٹری انہوں نے ہی کھولی ہوئی تھی اور کئی میڈیکل اسٹورز میں ان کی شراکت داری تھی۔

ابو جان کی وہی حالت تھی، بے ہوش، ساکت بلڈپریشر کچھ کم ہو گیا تھا، پیشاب کی تھیلی میں پیشاب جمع ہو رہا تھا، ناک میں بھی ایک ٹیوب ڈالی جا چکی تھی۔

اسی وقت وارڈ کے بڑے پروفیسر انہیں دیکھنے آئے تھے۔ ڈاکٹر شازیہ کو وہ بتا رہے تھے کہ اس قسم کے مریضوں کا انگلینڈ، امریکا میں فوراً سی ٹی اسکین کے بعد سر کا آپریشن کر دیا جاتا ہے اور عام طور پر یہ لوگ صحیح بھی ہو جاتے ہیں، مگر ان بابا کا تو مشکل ہی سے کچھ ہو سکتا ہے، سی ٹی اسکین اور آپریشن ممکن ہی نہیں ہے اور اگر دوچار دنوں میں ہوش نہیں آیا تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

٭

جم مرے آپریشن تھیٹر سے جلدی ہی باہر آ گیا تھا۔ وہ لوگ آئی سی یو کے برابر والے کمرے میں بیٹھے ہوئے انتظار کر رہے تھے کہ ہسپتال کے ایک ملازم نے آ کر ان سے فارم بھروایا تھا۔ اس فارم میں پوچھا گیا تھا کہ مریض کے ہسپتال میں آنے کے بعد سے علاج کے شروع ہونے میں کوئی تاخیر تو نہیں ہوئی؟ ایمبولینس کا انتظام کرنے میں دیر تو نہیں لگی؟ ڈاکٹروں، نرسوں اور ہسپتال کے عملے کا سلوک غیرمناسب تو نہیں تھا؟ اسی طرح کے بہت سارے سوالات تھے جن کا جواب دینے میں دیر نہیں لگی۔ ہسپتال کے عملے کا سلوک بہت ہی اچھا تھا۔ انہیں کوئی بھی شکایت کسی سے نہیں تھی۔ بس اب صبح ہو جائے، اس نے سوچا تھا۔

وہ لوگ جم کو دیکھنے آئی سی یو گئے تھے، شیشوں کے پیچھے جم نظر آ رہا تھا۔ اس کا سر پٹیوں سے بندھا ہوا تھا اور جیسے وہ گہری نیند سو رہا تھا۔

صاف ستھرے آئی سی یو کے اندر دھیمی سی پرسکون روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ صاف اور خوب صورت لباس میں چاق و چوبند نرسیں کام کرتی نظر آ رہی تھیں۔ مریضوں کے چاروں طرف مختلف قسم کی مشینیں لگی ہوئی تھیں۔ انہیں اطمینان سا ہو گیا تھا کہ جم خیریت سے ہے۔ انہیں پوری امید ہو گئی تھی کہ جم اچھا ہو جائے گا اور تھوڑے دنوں میں ہی ہسپتال سے باہر دوبارہ اپنے گھر میں ہو گا۔ وہ لوگ اطمینان سے اپنے گھر چلے گئے۔

٭

”لڑکیاں تو تینوں ہی خوب صورت ہیں۔“ اس نے فون پر کسی سے کہا، بس خدشہ یہ ہے کہ بڈھا جلدی نہ مر جائے۔ ابھی تو صرف سولہ سو روپے ہی لگے ہیں، تھوڑا اور ادھار کی دوائیں آ جائیں تو پھر یہ لڑکی پھنس جائے گی۔ پھر وہی سب کچھ ہو گا جو پہلے ہوتا آیا ہے۔ ”

پہلے بھی یہی ہوتا آیا تھا، سول ہسپتال کے باہر اس قسم کے لوگ گھوم رہے ہوتے ہیں، بچوں کے وارڈ سے پریشان ماؤں کو دوائیں خریدواتے ہیں، بوڑھے مریضوں کی بیٹیوں کو دوائیں خریدواتے ہیں اور آہستہ آہستہ جب قرض ہزاروں میں پہنچ جاتا ہے تو بچوں کی جوان مائیں اور بوڑھے مریضوں کی جوان بیٹیاں آس پاس کی ہی عمارتوں میں ہوس کا شکار ہوتی ہیں۔ عجیب بات ہے، بچوں کے علاج کے لیے عورت اپنے آپ کو قربان کرتی ہے اور ماں باپ کے علاج کے لیے بھی عورتیں ہی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔

نہ کسی کو پتا ہے، نہ کسی کو پتا لگے گا۔ کون بتائے گا، کون کون لٹا ہے یہاں سے؟ خاموشی کی ایک سازش نے گھیرے میں لیا ہوا ہے ان تمام سرکاری ہسپتالوں کو ۔ خاموشی کی اس سازش میں کیسی کیسی مائیں، کیسی کیسی بیٹیاں، کہاں کہاں پر کس کس کی نذر ہو گئی ہیں؟ کاش یہ گھروں پر ہی مر جایا کریں۔ اپنے چاہنے والوں کے درمیان اپنے رشتے داروں کے ساتھ اپنی بیٹیوں کو روتے ہوئے چہروں کود یکھتے ہوئے، گھر کی چھایا میں۔

٭

”جم از ڈوئنگ ویل۔“ نرس نے فون پر کسی کو بتایا تھا۔ ”بیاسی سال کی عمر اتنی زیادہ بھی نہیں ہے۔ اس نے آنکھیں کھول لی ہیں، جسم کا آدھا حصہ ابھی تھوڑا ناکارہ ہے۔ اسے بولنے میں مشکل ہو رہی ہے مگر لوگوں کو پہچانتا ہے۔ فزیوتھراپی اور مستقل دو اؤں سے ضرور افاقہ ہو گا۔ میرے خیال میں اچھا ہوجانا چاہیے۔“ دور کنساس میں جم کی بیٹی کو یہ سن کر بہت پہنچا تھا۔ اس کے کام کی نوعیت ایسی تھی کہ وہ ابھی تک نیویارک ہسپتال نہیں جا سکی تھی۔

اگلے ہفتے اس کا جانے کا پروگرام تھا۔ وہ روزانہ نرس سے فون کر کے خیریت پوچھ رہی تھی۔ جم آہستہ آہستہ صحیح ہو رہا تھا۔ اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ جم مر سکتا ہے۔ سال میں ایک دو دفعہ ہی ملاقات ہوتی تھی باپ سے مگر پھر بھی اسے اپنے باپ کا خیال رہتا تھا اور یہ سکون بھی کہ نیویارک شہر میں اگر وہ بیمار پڑتے ہیں تو فوراً علاج بھی ہو جائے گا اور ہوا بھی یہی تھا۔ اس نے سکون کی ایک سانس لی تھی اور شام کے کھانے کے لیے سوپ کا بڑا برتن چولہے پر چڑھا دیا تھا۔ سردی میں بیل کی دم کا سوپ بچوں کو بہت اچھا لگتا تھا۔ اگلے ہفتے وہ ضرور نیویارک جائے گی، اس نے سوچا۔

٭

ابو جان کی طبیعت خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ ایک دفعہ بھی ہوش نہیں آیا تھا۔ بلڈپریشر کم کرنے کی دوا ہائڈرالیزین کبھی ملتی تھی اور کبھی نہیں ملتی تھی۔ ایلڈومیٹ کے انجکشن لگ رہے تھے کہ یکایک ان کو تیز بخار ہونے لگا تھا۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ شاید ملیریا ہو گیا ہے، جس کے لیے کلوروکوئن دیا جا رہا تھا۔ پھر ایک دن ان کا پیشاب بھی سفید سفید سا آنے لگا تھا جیسے اس میں پس آ رہا ہو۔

ڈاکٹروں نے ایک اور مہنگی اینٹی بائیوٹک لکھ دی تھی، ماموں جان نے کچھ پیسے دیے تھے، شمیمہ نے اسکول سے کچھ پیسے ادھار لیے تھے اور میڈیکل اسٹور اور اس آدمی کا ادھار چکا دیا تھا۔ اس کا ادھار ہزار سے زائد ہو چکا تھا اور ایک دن اس کی نظروں میں اس نے بہت کچھ پڑھ لیا تھا۔ وہ ڈر گئی تھی، خوف سے کانپ گئی تھی، فرشتے نما انسان کے دل میں جو کچھ تھا اس کے ہونے سے قبل ہی ادھار پورا کر دینا ضروری تھا۔ اس کی تو دو بہنیں تھیں، چھوٹی خوب صورت اور جوان۔

ابو جان تو نہ جانے کب اچھے ہوں گے، کچھ ڈاکٹر اور کچھ وارڈ میں موجود لڑکوں کی نظروں سے وہ خوف زدہ ہو کر راتوں کو کپکپاتی رہتی تھی۔ زندگی اس قدر تلخ ہو جائے گی اور وہ بھی یکایک اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ کتنی ذمے داریاں آن پڑی تھیں۔ ابو کی طبیعت خراب ہوتی جا رہی تھی۔ اپنے ساتھ بہنوں کی حفاظت کی ذمے داری بھی اسی کی تھی۔ روپے ختم ہوچکے تھے اور چاروں طرف کی دنیا میں کوئی بھی نہیں تھا جس پر بھروسا کیا جاسکتا تھا۔

آج اس نے گھر سے صاف چادر لاکر ابو کے لیے بچھائی تھی۔ تولیے کو گرم پانی میں بھگو کر ان کے چہرے کو ، ہاتھوں کو ، شانوں کو ، جسم کو ، بالوں کو صاف کیا تھا۔ بستر کے گدے کے نیچے کھٹمل مارنے کی دوا ڈالی تھی۔ ہسپتال کے پتھر کی طرح سخت تکیے کے بدلے میں گھر سے تکیہ لا کر ان کے سر کے نیچے رکھا تھا۔ ہسپتال کے گندے بدبودار پھٹے ہوئے لال کمبل کی جگہ اپنے کمبل سے ابو کے جسم کو ڈھانپا تھا۔ تھکے ہوئے جسم سے بد بو سی اٹھ رہی تھی اور چہرہ صاف کرنے کے باوجود ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی سایہ ہو۔ پانچ دن میں وہ گھل کر رہ گئے تھے اس نے انہیں غور سے دیکھا اور بغیر آواز کے اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بہہ نکلی۔

٭

چھٹے دن جم کو وارڈ میں بھیج دیا گیا تھا۔ اس نے جین کو پہچانا تھا، آہستہ آہستہ کچھ کہا بھی تھا اور ہاتھ بڑھا کر جینیفر کے ہاتھوں کو پکڑ بھی لیا تھا۔ کمرے میں دن بھر مختلف لوگوں کی لائن لگی ہوئی تھی، صبح نرسوں نے آ کر سب کچھ صاف کیا تھا۔ پھر ڈائی ٹیشنن کے لکھے ہوئے کھانے کے مطابق انہیں کھانا دیا گیا تھا۔ ایک نرس نے بڑی احتیاط سے اور بڑے پیار سے آہستہ آہستہ انہیں کھانا کھلایا تھا، پھر سینے کے ڈاکٹر نے آ کر انہیں دیکھا تھا، اس کے بعد سرجن نے آ کر زخم دیکھے تھے، پھر نیورولوجسٹ نے آ کر فالج کے اثرات کو سمجھنے کی کوشش کی تھی، پھر فزیو تھراپی والے آ گئے تھے اور جسم کے ہر حصے کو آپستہ آہستہ پیار سے ورزش کرائی گئی تھی، کچھ حصوں پر مالش بھی کی گئی تھی۔

نرسوں نے جسم کے ایک ایک حصے کو آج ذرا تفصیل سے صاف کیا تھا۔ اس کے بعد دوبارہ سے مختلف ٹیسٹ کرنے کے لیے خون لیا گیا تھا۔ دوپہر کو کھانا کھلایا گیا تھا، پھر وہ سو گئے تھے۔ شام کو سائیکلوجسٹ نے آ کر دیکھا تھا۔ جلد کے اوپر پڑے ہوئے نشان کو دیکھنے کے لیے جلد کا ڈاکٹر آیا تھا، ایسا لگتا تھا جیسے پورا ہسپتال بیاسی سال کے بوڑھے کو بچانے کے لیے بے قرار سا ہو گیا ہے، زندگی رک گئی تھی، چہرہ دمک رہا تھا اتنے بڑے آپریشن کے باوجود۔

جم کے بچوں سے مشورے کے بعد یہ طے ہوا تھا کہ جم دس بارہ دن کے بعد نرسنگ ہوم میں چلا جائے گا جہاں تربیت یافتہ نرسیں اور فزیوتھراپی کے ماہر جم کو آہستہ آہستہ معمول پر لانے کی کوشش کریں گے۔ وہ وہاں سوئمنگ پول میں نہا سکے گا، اخبار پڑھ سکے گا اور ٹیلی ویژن کے پروگرام بھی دیکھ سکے گا۔ شاید دوبارہ کمپیوٹر کے اوپر اپنے بچوں کو پیغامات دے سکے گا، ان کے پیغامات پڑھ بھی سکے گا۔ وہاں ہر شعبے کے ماہر ڈاکٹر اسے دیکھ سکیں گے اور کسی بھی ہنگامی صورت حال میں فوری توجہ مل سکے گی۔

٭

چھٹے دن یکایک سب کچھ ہو گیا تھا، بخار بھی کم نہیں ہوا تھا، آنکھیں بھی نہیں کھلی تھیں، ہوش بھی نہیں آیا تھا اور انہوں نے جان دے دی۔ نہ کوئی شرر اٹھا، نہ انہوں نے بیٹیوں کے ہاتھ کو پکڑ کر وصیت کی، نہ کسی کے آنسو دیکھے، نہ کسی کو اپنے آنسو دکھائے، خاموشی سے لڑ لڑ کر تھک تھک کر جان دے دی۔ باسٹھ سال کی عمر میں سول ہسپتال کے گندے سے بستر پر زندگی جتنی مزاحمت کر سکتی تھی، کرتی رہی، مزاحمت کا خاتمہ مسکراتی ہوئی موت نے بہت آسانی کر دیا تھا۔

میلی سی چادر میں لپٹی ہوئی لاش نہ جانے کیا کیا کہانیاں سنا رہی تھی۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments