عوام کا فیصلہ


ملک کے حالات جوں کے توں ہیں لہذا قریبا ایک سال کا عرصہ بیت گیا کوئی مضمون کوئی کالم نہیں لکھا مگر کب تک خاموش رہیں ایک کے بعد ایک تماشا ایک ظلم برپا ہے مملکت خداداد پاکستان میں۔ ایک حساس شخص یا تو مر جائے یا پھر شور مچا دے۔

اب گزشتہ دنوں کا واقعہ لے لیں ایک فرض شناس افسر جو بدقسمتی سے سری لنکا سے ایک فیکٹری کا منیجر تھا دین کے نام پر ”ایمان پرور“ ہجوم کے ہاتھوں بے دردی سے قتل ہو گیا۔ منیجر کا قصور تھا کہ سب اہل ایمان ورکرز چونکہ تنخواہ وصول کرتے ہیں لہذا کام پربھی دھیان دیں۔

امریکہ افغانستان سے نکل گیا اور ہم اپنے سینے پر یہی تمغہ سجاتے رہ گے کہ ہم نے تو امریکہ طالبان مذاکرات کامیاب کرائے ہم ہی تو ہیں جن کی وجہ سے امریکہ جیسی سپر پاور آج افغانستان سے اپنی جان بچا کے جا رہی ہے۔ مگر ہم نے یہ نہ سوچا کہ امریکہ کے نکل جانے کے بعد ہم پر کیا گزرنے والی ہے۔

ٹی ایل پی کو قابو کرنے کے لئے ہم نے اس امید ہر ان سے مذاکرات کئیے کہ افغان طالبانی حکومت ٹی ایل پی کو ہمارے حق میں طابع داری پر منوا کر پکا پھل ہماری جھولی میں گرا دی گی تو عرض ہے کہ ہم طالبان سے آج کے نہیں ان کے معرض وجود میں آنے والے دن سے ہی ڈسے جا رہے ہیں تو پھر ان سے ایسی توقعات وابستہ کرنا خام خیالی سے بھی بڑھ کر خود فریبی ہو کہی جا سکتی ہے

ایک بات تو طے ہے کہ جمہوریت کے سوا کوئی طرز حکومت پاکستان کے عوام کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ ہم لاکھ سیاستدانوں کو برا بھلا کہیں ان میں کیڑے نکالیں مگر اگر غیرجانبدار ہو کر پاکستان کی تاریخ دیکھیں تو ترقی و دفاع کے شعبہ جات میں جو بھی کارہائے نمایاں روا ہوئے وہ سب جمہوری حکمرانوں نے ہی دیے۔ یہ کج بحثی اور ایک بے جان موضوع ہے کہ کون سا سیاستدان کس آمر کی کوکھ سے نکلا۔ بھائی جب پیدائش کے لئے دستیاب کوکھ ہی آمر کی تھی تو جمہوری کوکھ کہاں سے پیدا کر لی جاتی کہ اس کوکھ سے جمہوری سیاستدان پیدا کیے جاتے

بھٹو ایوب خان کے وزیر تھے مگر باغی ہوئے اور اپنی جماعت بنائی۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد بچ رہنے والے پاکستان کو سنبھالا۔ وہ فوجی جرنیل جو اپنی عسکری ذمہ داریوں میں ناکام رہے اور مملکت پاکستان کے مشرقی حصہ کا دفاع نہ کرسکے بلکہ ہتھیار پھینک کر جنگی قیدی بن گے۔ بھٹو نے ایک ہاری ہوئی مگر خودسر جرنیلی فوج کی اندرون و بیرون ملک عزت بحال کی۔ بھارت سے جنگی قیدیوں اور پاکستانی سرزمین کے مفتوح علاقوں کو غیر مشروط طور پر بھارت سے واپس لیا اور مستقبل میں بھارت غیر قانونی سرحدی جارحیت سے گریز کرے اس کے لئے شملہ سمجھوتہ کیا۔

ملک کے ناقابل تسخیر ایٹمی پروگرام کی مضبوط بنیاد ڈالی۔ قائد اعظم کے تشکیل آئین کے خواب کو تعبیر دی اور ملک کو ایک متفقہ آئین بنا کر دیا۔ پاکستان کے شہریوں کو شناخت دی شناختی کارڈ کا اجرا ہر شہری کا لازمی حق ٹھرا۔ پاسپورٹ کا حصول ہر شہری کا بنیادی حق بنا دیا گیا۔ صنعتی ترقی کی بنیاد رکھی بھارت کے مقابل روس کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیا اور سٹیل مل لگوائی۔ مسلم امہ جو اتحاد و اتفاق کا نام بھول چکی تھی اس کا اتفاق فرازندہ ہو چکا تھا۔

اسلامی سربراہی کانفرنس بلا کر اسے ایک اتحاد پر جمع کیا پاکستان کے مزدور اور ہنرمندوں کے لئے عرب ممالک کے دروازے کھلوا کر ملک میں ترسیل زر کو فروغ کو بنیاد دی۔ کامیاب خودمختار خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی۔ اور نجانے کیا کچھ۔ مگر آخر انجام کیا ہوا۔ اس فوج نے جو قائداعظم تک کو ڈفائی کرچکی تھی نے عادات بھی نہ بدلیں اور اپنی روش بھی نہ چھوڑی آئین کو معطل کر کے سیاسی حکومت اور سیاست کا خاتمہ کیا حکومت پر قبضہ کیا اور بھٹو کو عبرت بنانے کے لئے ایک قتل کے مقدمہ میں پھانسی دیدی۔

دس سال سے زائد عرصہ تک جنرلی بندوبست ملک پر مسلط رہا۔ سیاستدانوں اور جمہوریت پسندوں کا جو حال 1977ء کے جرنیلی بندوبست میں ہوا وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ میں آج بھی ان چند زندہ بچ جانے والے جمہوریت پسندوں کو جانتا ہوں جن کی پیٹھوں پر آج بھی اس نام نہاد اسلامی نظام کے نام پر کوڑوں کے نشان باقی ہیں۔

جرنیلی حکومت نے عوام کو دین مذہب اور فرقوں کی بنیاد پر تقسیم کیا جمہوری آوازوں کو بند رکھنے کے لئے کلاشنکوف کلچر کی بنیاد رکھی۔ نئے نویلے سیاسی دلہوں کی تلاش میں سرمایہ داروں جاگیرداروں کو ذات پات کے نام پر تقسیم در تقسیم کیا اور غیر جمہوری جماعتی نظریے سے عاری نام نہاد جمہوریت کے نام پر نجانے کیا نظام متعارف کرایا مگر عوام نے اسے قبول نہ کیا۔ جمہوری جدوجہد چلتی رہی اور بالآخر 1988ء میں ایک مرتبہ پھر آئین بحال ہوا انتخابات ہوئے اور جمہوریت واپس آ گئی۔

ہر چند کے انتخابات آئین کے مطابق ہوئے اور آئین بھی بحال ہوا مگر جرنیلی نظام نے آئین کو حلیہ بگاڑ دیا تھا۔ نووارد سیاستدانوں میں جمہوری اقدار کا فقدان تھا شاید وہ جمہوری سوچ کو اپنے اذہان میں ابھی مکمل طور پر سرایت ہی نہ کرپائے تھے۔ انہیں دس سال صرف آمریت ہی سکھائی گئی تھی مگر وہ انتخابات میں شمولیت کا فن جرنیلی استادوں سے سیکھ چکے تھے لہذا انہوں نے اپنے سوا کسی دوسرے کو اقتدار میں قبول نہ کیا سازشیں بنیں مگر انہیں یہ احساس ضرور ہوا کہ آئین کے طابع ہونے اور جرنیلی گود میں پلنے میں فرق ہے۔ اب اگر سیاست کرنی ہے تو طرز سیاست آئینی بنانا ہو گا۔

اس احساس کے ساتھ سیکھتے سکھاتے نواز شریف ایک نئے سیاستدان بن کر ابھرے۔ 1988ءتا1998ء کا دور بھی جمہوری دور تھا اس میں ملک نے ترقی کی راہ کو دوبارہ پکڑنے کی جدوجہد شروع کی عوام کو خوشحال بنانے کے لئے ملازمتوں سے پابندیاں اٹھیں، اداروں کی بحالی کا کام ہوا مگر چونکہ سیاست کے میدان میں ایک جماعت مکمل جمہوریت کی قائل تھی تو دوسری ابھی آمرانہ سوچ سے مکمل طور پر باہر نہ نکل پائی تھی لہذا ایک کشمکش تھی مگر یہ جمہوریت تھی کہ عوام کے سانس قدر کھلے تھے مگر نئی سیاسی قیادت ٹرانزیشن میں تھی نواز شریف جمہوریت چاہتے تھے مگر آمریت کو بھی ذہن سے نکال نہیں پا رہے تھے۔

یہ دور گومگو و کشمکش کا دور تھا مگر بھارت کے ساتھ ایک مرتبہ پھر بینظیر اور نواز شریف دونوں نے تعلقات کو متوازن رکھا کشمیر کے مسئلے کو زندہ نہی رکھا اور حریت پسندوں کی اخلاقی اور خارجی سطح پر حمایت کو حکومتی پالیسی کے طور پر اپنائے رکھا۔ ہر دو نے ان دس سالوں میں دو دو مرتبہ حکومت حاصل کی مگر کوئی بھی اپنی حکومتی مدت کسی بھی دور میں پوری نہ کر پایا۔ اسی دوران وہ وقت بھی آیا جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کر کے خطے میں طاقت کے توازن کو اپنی جانب کر لیا ایسے میں نواز شریف نے جوابی ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کیا تو یہ معرکہ بھی جمہوریت کے حصہ میں آیا نواز شریف حکومت بھارت سے تعلقات کو مزید بہتر بنانے کر خواہشمند تھی تاکہ جنگی جنونیت سے دور رہ کر ملکی ترقی کو مقصد بنایا جائے پھر انہیں کے دور حکومت میں کارگل ہو گیا۔ نواز جرنل تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ جمہوری سول حکومت نے حاضر جرنل کو فارغ کر دیا یہاں بات غلط یا صحیح کی نہیں بلکہ سولین بالادستی میں وزیراعظم کے آئینی حق کی ہے جو بہرحال نواز شریف کو بحیثیت وزیراعظم حاصل تھا تو انہوں نے اسی کو استعمال کرتے ہوئے پرویز مشرف کو ان کے بیرون ملک دورے کے دوران سبکدوش کر دیا۔ مگر وہ انہوں نے اس حکم کو ناصرف نہیں مانا بلکہ فوج جیسے آئینی ادارے کو اپنی جرنیلی دھونس سے اپنے ساتھ ملا کر حکومت پر قبضہ کر لیا نواز شریف کو گرفتار کر کے طیارہ سازش کیس میں سزا دلا دی جنرل مشرف اقتدار پر قابض ہو گے اور جمہوریت پابند سلاسل کردی گئی آئین کو عدلیہ سے موم کی ناک بنوا لیا گیا اور نیا جرنیلی بندوبست لاگو کر دیا گیا۔

یہ بھی فیصلہ ہوا کہ بینظیر اور نواز شریف مائنس جمہوریت قائم کی جائے گی لہذا پیپلز پارٹی پر پابندی کی صورتیں پیدا کی گئیں۔ نواز شریف ہوشیار تھے اور اپنی سیاسی تربیت بھی کرچکے تھے اور وہ بھٹو کا انجام اور اس انجام کو شرمندہ تعبیر کرنے والوں کا قریبی حصہ بھی رہے تھے اور ان کی چالوں کا جانتے تھے لہذا انہوں نے یہ سوچا کہ اگر طیارہ کیس سزا کا معاملہ چل نکلا تو ان کا انجام بھی بھٹو جیسا ہو سکتا ہے لہذا انہوں نے ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارے اور نواز مشرف معاہدہ ہوا نواز شریف جیل سے نکلے جلاوطن ہوئے۔ دوسری جانب بینظیر اور ان کے شوہر واصف علی زرداری پہلے ہی بدعنوانیوں کے مقدمات میں گھرے ہوئے تھے بے نظیر کسی نہ کسی طرح خودساختہ جلاوطنی اختیار کرنے میں کامیاب ہوئیں مگر آصف زرداری قید ہی رہے۔

بینظیر اپنے والد کی طرح مضبوط اعصاب کی مالک تھیں لہذا انہوں نے جمہوری جدوجہد کو جاری رکھا۔ نواز شریف کو بھی احساس ہو گیا کہ ملک کی ترقی کا واحد راستہ نظریاتی جمہوریت میں ہے سیاسی مخالفین سے اختلاف ذاتی نہیں بلکہ صرف نظریاتی ہونا چاہیے لہذا پی پی پی۔ اور پی ایل ایم ن نے ایک طویل دستاویز تیار کی جسے میثاق جمہوریت کا نام دیا گیا اس دستاویز نے سیاست کو ذاتیات سے نکال کر نظریات کے تابع کرنے کر بنیاد فراہم کی۔

بینظیر نے ایک مرتبہ پھر وقت کے آمر سے جمہوریت کی بحالی کے لئے معاہدہ کیا اور وطن واپس آ گئیں۔ بینظیر کی واپسی نے نواز شریف کو بھی اپنے معاہدے سے پھر جانے کا موقع فراہم کیا اور وہ بھی بینظیر کے بعد وطن واپس آ سکے۔ سیاست میں اب بھی پرانی سیاسی ترشی تو تھی ذاتیاتی حملے اور جملہ بازی کا بہرحال کسی حد تک تدارک ضرور ہوا۔

ایک مرتبہ پھر جرنیلی بندوبست کی بساط کو سیاسی پارٹیوں نے ہی سمیٹا۔ اس دوران بینظیر بھٹو کا قتل بھی ہوا جو ایک مرتبہ پھر آمریت کے دور کا شاخسانہ تھا تو تاریخ جو خان لیاقت علی خان کے قتل سے چلی بینظیر تک رکتی دکھائی نہیں دی۔ بہرحال جمہوریت بحال ہوئی پی پی پی کی حکومت بنی اور اس مرتبہ آئین پاکستان کو واپس 1973ء کی اصل شکل میں بحال کیا گیا 18 اور 19 ترامیم ہوئیں اور پہلی مرتبہ پاکستان کی تاریخ میں دو مسلسل اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہوئیں۔

حوصلہ بڑھا کہ شاید اب جمہوریت اپنے اصل ارتقائی دور میں چل نکلی ہے تو پھر ایک نئی طرز ہائبرڈ نظام کو متعارف کرا دیا گیا ہے اور آج ”جمہوری“ حکومت وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں فخر کے ساتھ یہ دعوی کر رہی ہے کہ ان کی حکومت پر ہائی براس کا پختہ ہاتھ ہے اور وہ اس ہاتھ تلے جب تک چاہیں حکومت کر سکتے ہیں عمران خان کی سیاسی تگ و دو ان کے اس غیر جمہوری دعوہ کی نفی ہے۔ ملک بد ترین اقتصادی بھنور میں پھنس چکا ہے اور خان صاحب اس احساس نے نظیریں چرا رہے ہیں۔ اپوزیشن بے جا ہاتھ پاؤں مار رہی ہے جمہوریت کو دانستہ طور ہر فیل کرنے کا سلسلہ چلا دیا گیا ہے۔ بیوروکریسی یہ باور کر رہی ہے کہ ان کی رضا کے بغیر کوئی حکومت نہیں چلنے دی جائے گی۔

چھوٹے صوبے آئینی خودمختاری کے باوجود محرومی کا شکار ہیں۔ گمشدہ افراد ابھی تک گم ہو رہے ہیں۔ دہشتگردی سر اٹھا چکی ہے۔ خارجہ امور بشمول کشمیر بحرانی کیفیت اختیار کر چکے ہیں۔ حکومت سیاسی حکمت عملی کی بجائے اپنی سیاست افراد کے گرد گھما رہی ہے۔ پارلیمنٹ رجحان کا شکار ہے۔ سیاست ایوانوں سے نکل کر ذاتیات اور گالی گلوچ کے گورکھ دھندے میں مقید کر دی گئی ہے۔ پبلک مہنگائی بے روزگاری اور محرومیوں کے گہرے سمندر میں غوطے کھا رہی ہے تو حکومت سب اچھا نہیں بلکہ عمدہ ترین ہے کی رٹ لگائے جا رہی ہے۔

عوام کی توجہ عوامی مسائل پر نہ رہے میڈیا کو روز ایک نئی گولی بیانات کی شکل میں یا کسی نئے نظام کی بحث کے طور دی جا رہی ہے۔ سب اپنا اپنا چورن مسالہ اس زور سے بیچ رہی ہیں کہ عوام کی چیخیں اس مسالہ چورن کی منڈی میں کہیں گم کردی گئیں ہیں۔ پاکستان ترقی کر رہا ہے اور عوام خدکشیاں کر رہے ہیں۔ خواتین کی عصمت دری ہو تو لباس و وضع کی عجیب توجیہات پیش کی جاتی ہیں۔ تفریحی مقامات پر سیاح گھٹ کر مر جائیں تو اسے سیاحت کے میدان میں ترقی اور عوام کی امارت سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ قتل ڈاکے چوری غرض کہ جان و مال کا تحفظ ناپید شجر ممنوعہ بنا دیا گیا ہے۔

اور کیا کہا جائے بے راہروی کی ایک لانڈری لسٹ ہے جو شاید نہ لکھی جا سکتی ہے اور نہ شائع کی جا سکتی ہے۔

خدارا اس ملک کے عوام کو ایک آزاد خودمختار انتخاب دے دیں۔ ہم عوام آپ سے زیادہ باشعور ہیں ہم درست فیصلہ کر لیں گے اور ہم عوام نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب قائد نے کہا ووٹ ڈالو ہم نے فیصلہ لیا اور قائد نے اس کی تائید کی۔ ہم ملک بنا سکتے ہیں تو ملک چلا بھی سکتے ہیں۔ ہمیں آزادانہ رائے دہی کا حق دیں۔ ہم نے آئین بنایا ہے اسی کے مطابق ہمارے ملک جو چلنے دیں۔ آئین کے مطابق عوام نے جسے جہاں نوکری دی ہے وہ اپنی حد میں رہ کر کام کرے۔ یہ عوام کا فیصلہ ہے۔ پاکستان زندہ باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments