خوبصورت لمحے


یہ بھی سچ ہے خوبصورت لمحے انسان کے ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسل جاتے ہیں اور ان لمحوں کا انتظار انسان سخت گرمی میں ہونے والی برسات کی طرح کرتا ہے۔

اس روز سردیوں کی دھوپ بھی آنکھ مچولی کھیل رہی تھی اور کرن اپنی بلیوں کو گھاس پر کھیلتے ہوئے دیکھ کر خوشی محسوس کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔

یہ لمحہ بھی انتہائی کٹھن ہوتا ہے جب ہر خوشی آپ کی دہلیز پر ہو اور اس کے باوجود آپ مسکرانا بھول جاؤ۔ کرن کی زندگی بھی ایسی ہی تھی وہ کبھی جانوروں سے پیار کرتی اور کبھی سورج کی کرن سے اپنی زندگی کی کرن تلاش کرتی۔ ایک انجان درد ہمیشہ اس کے سینے میں رہتا اور درد سے منسلک آنسو ہمیشہ اس کی آنکھوں کی سیر کرتے۔

اور اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقوں نے بھی صدیوں سے اپنا دائمی گھر بنا رکھا تھا۔ اس کی مسکراہٹ پر ہمیشہ سے اداسی اپنا حق سمجھتی تھی۔

زندگی کبھی کبھی سرپرائز مانگتی ہے معجزات کی راہ ہمیشہ دیکھتی رہتی ہے۔ کرن بھی اپنی زندگی میں پڑنے والی اس کرن کی منتظر تھی جو اس کے غموں کو مٹا کراس کی خوشیوں کا راستہ بنائے۔ مگر کرن نے ہمیشہ سے اپنی زندگی میں خوشیوں کو اپنی دہلیز پر تو ضرور دیکھا مگر ان کو چھونے سے قاصر رہی۔

میرا اور کرن کا بچپن ایک ساتھ گزرا پھر وقت بھاگنے لگا اور ہم وقت کے پیچھے پیچھے۔ میں وقت کے پیچھے بھاگتی بھاگتی تعلیم حاصل کرنے کے لئے امریکا جا بسی اور خوش قسمتی سے میری شادی بھی وہاں ہی ہوئی

اللہ نے شوہر جیسی نعمت عطاء کی اور اس کے ساتھ ہی اولاد نرینہ کی نعمت سے بھی سرفراز کیا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ازدواجی زندگی میں اتنا مصروف ہو گئی کہ پاکستان آنے کا بھی وقت نہیں ملا۔ کرن کا اور میرا ساتھ صدیوں کا تھا ہم ایک دوسرے کی زندگی کا ایک اہم موضوع تھے۔

کرن ایلیٹ کلاس فیملی سے تعلق رکھتی تھی اور میں مڈل کلاس سے میرے نانا پاکستان میں کسی رئیس کے ملازم تھے جس کے معاوضے میں میں پاکستان کے امیر طبقے کے اسکول میں پڑھتی تھی۔ کرن سے میری دوستی بچپن میں ہوئی لیکن وقت کی بڑھتی رفتار سے ہمارے درمیان بہت فاصلہ آ گیا۔ میں بچپن سے لے کر جوانی تک اپنے نانا کے آنگن میں کھیلتی رہی حتیٰ کہ میری رخصتی بھی نانا کے گھر سے ہوئی۔ میرے والد میرے بچپن میں ہی میری ماں کو چھوڑ گئے تھے شاید والد کو معلوم بھی نہیں تھا ماں کی گود بھرنے والی ہے اور میری اس دنیا میں تشریف آوری ہے۔ لہٰذا میں باپ جیسے کسی بھی رشتے سے واقف نہیں ہوں۔ میرے امریکا شفٹ ہو جانے کے بعد پاکستانی تعلقات زیادہ طویل مدت تک بحال نہیں کر سکی۔

لیکن کرن کی دوستی کو ہمیشہ میں نے اپنے ساتھ محسوس کیا ہے۔ کہتے ہیں بچپن سے لے کر جوانی تک کے حادثات آپ کی زندگی میں آپ کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں۔ میں بچپن سے اب تک اپنی زندگی میں اپنے گمشدہ باپ اور گمشدہ سہیلی کرن کے ساتھ ساتھ سفر کرتی رہی ہوں۔

ان دنوں ہم پاکستان تھے اور میرے بیٹے کو اپنے پاکستانی دوست سے ملنا تھا۔ یہ بنگلہ لاہور کے مشہور اور عالی شان علاقے میں تھا۔ دیکھ کر لگتا تھا جیسے کسی بادشاہ کا محل ہو اس بنگلے کی ابتدا میں کرن بلیوں کے ساتھ دل بہلاتی نظر آ رہی تھی۔

پہلی نظر میں تو مجھے کرن کو دیکھ کر محسوس ہوا جیسے میں وہ خواب دیکھ رہی جسے دیکھ کر میری آنکھ کھلتی تھی اور جسے دیکھ کر میرا دن نکلتا تھا اور جسے دیکھ کر شب ڈھلتی تھی۔ میں آنکھیں مل کر دن گزارنے لگتی تھی۔ پھر میں دو قدم کرن کے پاس گئی۔

کرن کی آنکھوں کی اداسی آنسوؤں کا سہارا لینے لگی۔ وہ دھیمے سے میرے سینے سے لگی۔ میری آنکھوں سے بھی آنسو ٹپکنے لگے۔

کرن کی شادی شہر کے امیر ترین شخص سے ہوئی جو اس کو زندگی کی ہر آسائش فراہم کرتا تھا سوائے پیار کے۔

کرن کا شوہر اپنا من چاہا شخص تھا لیکن یہ بھی سچ ہے من چاہا شخص آپ کے سکون کی وجہ نہیں بن سکتا۔ انسان ہمیشہ لا حاصل کے پیچھے بھاگا ہے۔ انسان کبھی بھی حاصل پر فوکس نہیں کرتا۔ شاید یہ ہی وجہ تھی کہ کرن کا شوہر اس کے ساتھ تو رہتا تھا مگر اس کا تھا نہیں۔ اس کی دہلیز پر بے بسی کے پھول لگے تھے جن کی خوشبو سے وہ روز اپنے آپ کو پھیکی مسکراہٹ سے نوازتی تھی۔ آج اس کی خاموشی نے دم توڑ کر کچھ بولنے کی ہمت کی۔

ہمارے درمیان تفصیلی ملاقات ہوئی۔
”زندگی خوبصورت ہے کیا؟“
میں نے پوچھا
”نہیں یہ لمحے خوبصورت ہیں۔“
اس نے جواب میں کہا۔

وہ الگ بات ہے ریت کی طرح ہاتھوں سے پھسل جائیں گے۔ ہم پھر سے زندگی کے اسی اسٹیشن پر بریک لگا کر خوشیوں کی ٹرین کے منتظر رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments