’ہم سب‘ کے معزز، محترم اور مقبول طبیب، ادیب اور حبیب


جو ڈاکٹر لوگوں کی جسمانی بیماریوں اور تکلیفوں کا علاج کرتے ہیں کیا وہ ان انسانوں کے نفسیاتی اور سماجی مسائل کے بارے میں بھی فکرمند ہوتے ہیں؟ کیا وہ طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی کارکن اور معاشرتی مسیحا بھی ہوتے ہیں؟

جالینوس فرمایا کرتے تھے کہ ایک اچھا طبیب ایک فلسفی اور دانشور بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ انسانی زندگی کے مسائل کے بارے میں غور و فکر کرتا ہے۔ وہ انسانی دکھوں کو کم اور سکھوں کو زیادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ایک بہتر انسان اور معاشرہ بنانے کے خواب دیکھتا ہے۔

جب میں خیبر میڈیکل کالج کا طالب علم تھا تو یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میری ملاقات اور دوستی ڈاکٹر ڈینس آئزک، ڈاکٹر منظر حسین، ڈاکٹر پروین عظیم اور ڈاکٹر قاضی فصیح جیسی شخصیتوں سے ہوئی جو طبیب بھی تھے اور ادیب بھی وہ دکھی انسانیت کے لیے نم آنکھیں اور ہمدرد دل رکھتے تھے۔

جب میں نے ’ہم سب‘ کے لیے لکھنا شروع کیا تو میری کئی طبیبوں، ادیبوں اور حبیبوں سے ملاقات ہوئی۔ آج میں آپ سے ان دوستوں سے اپنی دوستی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔

 ’ہم سب‘ کی پہلی دوست ڈاکٹر لبنیٰ مرزا ہیں۔ میں نے ان کے کالموں پر کمنٹ لکھے تو ان کا پیغام آیا کہ ہم دونوں ہم خیال ہیں کیونکہ ہم دونوں انسان دوست ہیں۔ دو انسان دوستوں کی دوستی ہوئی تو وہ مجھ سے ملنے کینیڈا تشریف لائیں اورچند دن میرے ساتھ میرے کلینک میں میرے مریض دیکھتی رہیں۔ میں نے ان کا تعارف اپنے گرین زون فلسفے سے کروایا۔ انہیں وہ فلسفہ اتنا پسند آیا کہ انہوں نے مجھے ایک لیکچر کے لیے امریکہ بلایا اور اپنے دوستوں سے ملوایا۔ اب وہ پچھلے چند برس سے مجھے دعوت دیتی ہیں کہ میں ان کے طالب علموں سے ملوں اور گرین زون فلسفے کے بارے میں تبادلہ خیال کروں۔

 ’ہم سب‘ کی دوسری دوست ڈاکٹر طاہرہ کاظمی ہیں۔ کئی سال پیشتر ان کا فون آیا کہ وہ شمالی امریکہ آئی ہوئی ہیں اور وجاہت مسعود کے مشورے پر مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔ میں ان سے ملنے نیاگرا فالز گیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں ان کے چند کالم پڑھ چکا ہوں اور ان کے جلالی لب و لہجہ سے متعارف ہونے کے باوجود ان سے ملنے آیا ہوں کیونکہ میں ان جیسی دلیر اور نڈر لکھاریوں کی عزت کرتا ہوں۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ جلالی مزاج رکھنے کے باوجود میرے ساتھ ان کا رویہ نہایت جمالی تھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ ماہر نفسیات بننے سے پہلے میں بھی ان کی طرح پشاور کے زنانہ ہسپتال کے لیبر روم میں کام کیا کرتا تھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ وہ عوام وخ واص کو عورتوں کے طبی اور نفسیاتی مسائل سے عام فہم زبان میں آگاہ کر رہی ہیں۔

 ’ہم سب‘ کے تیسرے دوست ڈاکٹر شیر شاہ سید ہیں۔ ان سے میری پہلی ملاقات کینیڈا میں ہوئی اور میں ان کی درویشانہ شخصیت اور ان کی حس ظرافت سے بہت متاثر ہوا۔ وہ بھی ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی طرح ایک گائینوکولوجسٹ ہیں اور عورتوں کا اپنے ہسپتال میں علاج کرتے ہیں۔ ان کی ان عورتوں کے لیے خدمات قابل صد ستائش ہیں جو فسٹولا کے تکلیف دہ مرض کا شکار ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر شیر شاہ سید کی تخلیقات کی زبان سادہ ہوتی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ سچ کو کسی قسم کے میک اپ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ ایک طبیب اور ادیب ہونے کے ناتے اس راز سے واقف ہیں کہ سچ باتیں لکھاری کے دل سے نکلتی ہیں اور قاری کے دل پر جا کر اثر کرتی ہیں۔

 ’ہم سب‘ کے چوتھے دوست ڈاکٹر سید محمد زاہد ہیں۔ میں نے ’ہم سب‘ پر ان کے کالم اور دیومالائی کہانیاں پڑھیں تو میں ان سے بہت متاثر ہوا اور میں نے انہیں داد دی۔ پھر ایک دن ان کا فون آیا اور انہوں نے بڑی محبت اور اپنائیت سے بات کی۔ اس طرح ہم ایک ادبی دوستی کے رشتے میں جڑ گئے۔ ایک دن انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے اردو افسانوں کا انگریزی میں ترجمہ کر رہے ہیں۔ میں نے ایک ترجمہ پڑھا تو میں اس سے بھی متاثر ہوا اور یہ جانا کہ وہ ایک ذہین ذہن اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔

 ’ہم سب‘ کے پانچویں دوست ڈاکٹر بلند اقبال ہیں۔ میں ان سے ملنے سے پہلے ان کے والد حمایت علی شاعر سے بڑی محبت اور عقیدت سے ملنے جایا کرتا تھا کیونکہ مجھے ان کی شاعری اور شخصیت میں اپنے چچا عارفؔ عبدالمتین کی ترقی پسند فکر اور روشن خیالی کی خوشبو آتی تھی۔ پھر ایک دن مجھے ڈاکٹر بلند اقبال نے اپنے ٹی وی پروگرام۔ پاس ورڈ۔ میں انٹرویو کی دعوت دی۔ اس دعوت کے بعد دعوتوں کا سلسلہ دراز ہو گیا اور ہماری دوستی ہو گئی۔ پھر ہم نے سوچا کہ اپنی نانی اماں کے مشورے پر علم کرتے ہوئے کہ۔ ایک اور ایک دو نہیں گیارہ ہوتے ہیں۔ ہم نے مل کر ایک پروگرام۔ دانائی کی تلاش۔ کا سفر شروع کیا۔ ڈاکٹر بلند اقبال نے کینیڈا ون ٹی کے پروڈیوسر بدر منیر چودھری سے بات کی اور ہم نے وہ پروگرام پیش کرنا شروع کیا۔ اب تک ہم اس کے ساٹھ سے زیادہ پروگرام پیش کر چکے ہیں۔ ان پروگراموں کو ہمارے میاں چنوں کے مشترکہ دوست عبدالستار نے۔ دانائی کے سفر۔ کے نام سے کتابی صورت میں چھپوا بھی دیا ہے۔ پھر بلند اقبال نے ’ہم سب‘ کے لیے افسانے اور کالم لکھنے شروع کیے اور ہماری دوستی کے کئی اور پرت کھلنے لگے۔ ڈاکٹر بلند اقبال ایک ڈاکٹر اور رائٹر ہی نہیں ایک دانشور بھی ہیں۔

 ’ہم سب‘ کی چھٹی دوست ڈاکٹر خالدہ نسیم ہیں جن کا تعلق پشاور اور خیبر میڈیکل کالج سے بھی ہے۔ وہ آج کل پشتو کے معزز محترم و مستند شاعر غنی خان کی شاعری کا انگریزی میں ترجمہ کر رہی ہیں۔ وہ کبھی کبھار ’ہم سب‘ پر کالم لکھتی ہیں کیونکہ وہ بقول شاعر  ’میں لکھنے سے زیادہ سوچتا ہوں‘ کی قائل ہیں۔

میں انہیں مشورہ دیتا ہوں کہ وہ باقاعدگی سے لکھا کریں تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کے خیالات ’احساسات‘ نظریات اور آدرشوں سے واقف ہوں۔

ان سب طبیبوں ادیبوں اور حبیبوں سے دوستی نے ’ہم سب‘ کے رشتوں کو گہرا بنایا ہے۔ یہ سب دوست میرے ہم پیشہ و ہم مشرب ہیں۔ مجھے ان دوستوں کی دوستی پر فخر ہے۔ یہ دوست ایک پرامن اور انصاف پسند معاشرے کے خواب دیکھتے ہیں اور پھر ان خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ’ہم سب‘ کے فورم پر ایک مکالمے کی فضا تخلیق کر رہے ہیں اور یہ مکالمے ایسی فضا استوار کرتے ہیں جس کی بنیاد پر کسی بھی معاشرے میں جمہوریت اور انسان دوستی کی بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہوتی ہیں۔

میرے ’ہم سب‘ کے یہ ڈاکٹر دوست جسمانی طبیب ہی نہیں، سماجی مسیحا بھی ہیں اور مجھے ان کی دوستی پر فخر ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments