مشاہدات ایران ”سنجیدہ طنز و مزاح“


یہ سطور میرے زیر تحریر سفر نامہ ”مشاہدات ایران“ سے اقتباس ہیں۔
ایران میں قیام کے چھ سالہ دور میں میں نے سینکڑوں بار لوکل ٹیکسی میں سفر کیا ہے۔

تقریباً ایران بھر میں ایرانی خواتین کا لباس جینز شرٹ ہی ہے اور ترکمان خواتین جو عبایہ نما لباس پہنتی ہیں وہ بھی جینز شرٹ ہی کی طرح انتہائی چست اور کسا ہوا ہوتا ہے جس سے جسمانی نشیب و فراز شدید چیخ و پکار کرتے ہوئے اور بعض اوقات تو صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے انتہائی حد تک بھی نمایاں ہوتے ہیں۔

2014 میں جب ہم جیسے مہجور وہاں گئے اور حسن باپردہ کو یوں بے حجاب نما دیکھا تو شروع کے چند روز تو اپنی وطنی جبلت کے عین مطابق ہمیں ہر ہر خاتون دامے درمے سخنے شدید قابل رسائی اور مائل بہ عطا محسوس ہوتی تھی وہ ایسے کے ان کا ہمارے ساتھ بے تکلفانہ، دوستانہ انداز گفتگو ہمیں انتہائی غلط سلط فہمیوں میں مبتلا کیے دیتا تھا۔ وہاں بیشتر دکانوں، شاپنگ مالز، گروسری اور میٹ شاپس تک پر خواتین کثرت سے کام کرتی ہیں۔ کم تعداد میں ٹیکسی بھی چلاتی ہیں۔

بات شروع ہوئی کہ ایران میں قیام کے دوران ہم نے سینکڑوں بار لوکل ٹیکسی میں سفر کیا جس میں کار کی پچھلی سیٹ پر تین مسافر بیٹھتے ہیں اور بیشتر مرتبہ ایسا ہوتا کہ ہم کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوتے تو دائیں بائیں ایرانی دوشیزائیں ورکنگ وومن، یا کالج یونیوسٹی سٹوڈنٹس آ کر بلا جھجک بیٹھ جاتیں۔ شروع کے چند ایام میں ہم بالترتیب پہلے گھبرائے، بار دگر شرمائے پھر ایک آدھ مرتبہ ”حسب العادت الوطنیہ“ ٹھرکائے بھی مگر جیسے ہی ہمیں ”القانون فی الایران بابت الزنان“ سے آگاہی ہوئی ( جس کی بابت وہاں ہم پاکستانیوں میں ایک ضرب المثل ”وٹے پہ رکھ کے وٹہ“ بہت مشہور ہے ) تو جملہ جذبات ہائے روحانی، جسمانی اور شہوانی قفس عنصری کو داغ مفارقت دے گئے۔

اب ہمیں اپنے دائیں بائیں ایرانی بھرپور دوشیزاوٴں کے ملکوتی حسن کی بجائے دائیں منکر اور بائیں نکیر ہی نظر آتے ہیں۔ اب ہمیں وہ حسین و رنگین اور بہترین کی بجائے سنگین نظر آتی ہیں۔

تو جناب ایران میں اس طویل قیام کے دوران ہمارا بہت سی خوبصورت خواتین سے ورکنگ ریلیشن، دوستانہ انداز میں رہا ان سے بے تکلفانہ اور کافی کھلی ڈلی گپ شپ بھی رہی مگر کبھی ان سے ”حب الوطنی“ قسم کا جذبہ درمیان نہیں آیا۔ میری کسٹمرز میں سے تقریباً 90 فیصد خواتین تھیں۔ یقین مانیے ٹھیٹھ پاکستانی ہونے کے باوجود بھی کبھی وہاں شیطانی و ابلیسی خیال نہیں آیا۔ ریپ وغیرہ تو درکنار، متعہ اور مسیار سے بھی انکار، اور ایرانی قانون جاننے کے بعد وہاں شرعی عقد ثانی کا خیال بھی نہیں آیا۔ ہر دو فریق فقط احترام کے دائرے میں رہے۔ یہ اور بات ہے کہ ناچیز اپنی مذکورہ بالا ”جبلت الوطنیہ“ کے زیر اثر کسی حد تک بادل نخواستہ ہی اس احترام کے دائرے میں رہا وگرنہ اس باہمی احترام کا زیادہ تر کریڈٹ ایرانی صنف نازک کو جاتا ہے کہ وہ ایک انتہائی تہذیب یافتہ قدیم قوم کی مہذب روایات رکھتی ہے۔

ایک اور بات یہ کہ وہاں خواتین کو مساوی حقوق حاصل ہیں اور صنفی عدم مساوات کہیں دیکھنے میں نہیں آتی لہٰذا وہاں حقوق نسواں کی علمبردار کوئی تنظیم، کوئی نعرہ کبھی سننے کو نہیں ملا۔ یقین مانیے ایران کے اس کشادہ ذہن معاشرے میں بہت حد تک مردو زن کا آزادانہ اختلاط ہے۔ پارکوں، ساحل سمندر، سڑکوں، دفاتر، میٹرو بلٹ ٹرین الغرض ہر جگہ چست لباس، جینز شرٹ میں ملبوس اور بغیر چہرے کے پردے کے بے خوف و خطر موجود ہیں۔ سخت ایرانی قانون سے قطع نظر بھی وہ لوگ وہاں مرد و عورت کی جنسی تفریق کو کچھ خاص اہمیت نہیں دیتے یہی وجہ ہے کہ وہاں ایک نوجوان اکیلی لڑکی اگر ایران کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک شب و روز بس، ٹیکسی اور ٹرین کے ذریعے سفر کرے تو بے دھڑک کرتی ہے۔ اسے کسی قسم کا کوئی شدید جنسی ہراسانی کا خدشہ ہرگز لاحق نہیں ہوتا الا یہ کہ کہیں اسے من مرضی کا دورہ لاحق ہو جائے۔

قارئین کرام

یہ اور بات ہے کہ یہاں پاکستان واپس آنے کے بعد اب مذکورہ بالا واقعات و معاملات کی بابت میرے خیالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ منکر نکیر گم ہو چکے ہیں اور شیطانی وساوس کثرت سے آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments