نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی تاریخ ”سورج پہ کمند“


چند ماہ قبل محترم حسن جاوید کا فون آیا اور نوید دی کی سورج پہ کمند کی جلد دوم اور جلد سوم شائع ہو گئی ہیں، اس لیے اپنا پوسٹل ایڈریس بھیج دیں، تا کہ مجھے کتابیں براہ راست پہنچ جائیں۔ سورج پہ کمند قیام پاکستان کے بعد بننے والی ترقی پسند طلباء تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور بعد ازاں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی جامع تاریخ ہے، جسے برطانیہ میں آباد دو ہر دل عزیز انقلابیوں ڈاکٹر حسن جاوید اور پروفیسر محسن ذوالفقار نے ایک دہائی کی تحقیق اور انتھک جدوجہد سے مرتب کیا ہے۔

2010 ء میں ہم برطانیہ میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی 75 سالہ تقریبات منا رہے تھے، تو اسی دوران 15 اگست کو ہم سب کے محسن ڈاکٹر ایوب مرزا کا انتقال ہو گیا۔ وہ قیام پاکستان کے چند برس بعد بننے والی ترقی پسند طلباء تنظیم ڈی ایس ایف کے قیام کا ایک اہم کردار تھے۔ ہم نے ساوتھ ایشین پیپلز فورم کے پلیٹ فارم سے ان کا تعزیتی ریفرنس بریڈ فورڈ میں منعقد کیا تو انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کے راہنما راحت سعید، جو ان دنوں برطانیہ میں تھے، اس تعزیتی تقریب کے مہمان خصوصی بنے۔

2011 ء میں فیض صاحب کی صد سالہ تقریبات کے لیے برطانیہ کی آرگنائزنگ کمیٹی بنی تو محسن ذوالفقار اس کے انفارمیشن سیکرٹری منتخب ہوئے، راقم اس کا جنرل سیکرٹری تھا۔ اسی برس محسن ذوالفقار نے پروفیسر فیبی حسین کے ساتھ مل کر فیض صاحب کی زندگی پر انگریزی زبان میں ایک یادگار کتاب ”الوسیو ڈاؤن، فیض احمد فیض“ مرتب کی۔ اس کتاب میں سو سالہ تقریبات کے حوالے سے فیض صاحب کی 100 منتخب نظمیں اردو اور انگریزی میں شامل کی کئی تھیں اور اس کتاب کو اکتوبر 2011 ء میں فیض صاحب کی بیٹی سلیمہ ہاشمی نے لندن میں لانچ کیا تھا۔

فیض سینٹینری کو بھرپور طریقے سے منانے کے بعد اور الوسیو ڈاؤن کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ترقی پسند نظریات کی ترویج و ترقی جاری رکھنے، اور تحقیق و تحریر کا نیا سلسلہ شروع کرنے پر غور شروع ہو گیا۔ بہت غور و فکر کے بعد نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی تاریخ مرتب کرنے، اور عوامی شاعر جناب حبیب جالب کی زندگی، شاعری اور جدوجہد پر تحقیق و تصنیف کا آغاز کرنے کا فیصلہ ہوا۔ بالآخر ڈاکٹر حسن جاوید اور محسن ذوالفقار کی انتھک جدوجہد رنگ لے آئی اور این ایس ایف کے تاریخ پر مشتمل کتاب ”سورج پہ کمند“ کی چھ سو سے زائد صفات پر مشتمل جلد اول 2018 ء میں شائع ہو کر ہمارے ہاتھوں میں آ گئی۔

چند ماہ قبل شائع ہونے والی جلد دوم اور سوم تو اس سے بھی زیادہ ضخیم ہیں، اور ان میں انہوں نے این ایس ایف کی انقلابی جدوجہد کی تاریخ کو 2190 صفات تک پہنچا علم کا وسیع ذخیرہ فراہم کر دیا ہے۔ اپنی اس کتاب کا انتساب انہوں سورج پہ کمند ڈالنے والے ان نوجوانوں کے نام کیا ہے جو انصاف اور حقوق کی تلاش میں باہر نکلے اور لوٹ کر کبھی گھروں کو نہ آئے۔

ترقی پسندی اور ترقی پسند تحریک کی کہانی سماجی ارتقاء کی کہانی کا اہم جزو ہے۔ سماجی زندگی کے آغاز سفر سے اس کہانی کی ابتدا ہوتی ہے۔ عالمی سطح پر طلباء کی تنظیم سازی یا پھر طلباء کی یونین سازی صدیوں پہلے ہائی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھیں۔ اس وقت کی یونینوں یا طلباء کی حکومت کا مقصد بنیادی طور پر ساتھی طلباء کی کسی نہ کسی انداز میں نمائندگی کرنا اور معاونت کرنا تھا۔

اٹھارہویں صدی میں نوآبادیاتی نظام، اور محکوم قوموں کے خلاف سامراجی ممالک کے وحشیانہ ظلم و جبر اور استبداد کے خلاف محکوم قوموں کی جانب سے آزادی کی تحریکوں نے جنم لیا تو نوجوان، بالخصوص طالب علم بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ کلونیل دور کے جبر میں پنپنے والی طلباء تنظیموں میں سیاسی رنگ کھل کر سامنے آیا، اور ان کی تحریکیں ان ممالک کی آزادی کی تحریکوں کا اہم جزو بنتی گئیں۔ برصغیر کی آزادی کی تحریک میں بھی نوجوانوں اور طالب علموں نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔

متحدہ ہندوستان میں ترقی پسند نوجوانوں اور طالب علموں کے گروپ اور تنظیمیں تو عرصہ دراز سے موجود تھے لیکن آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے ترقی پسند طلباء کی متحدہ اور منظم تنظیم کی بنیاد 12 اگست 1936 ء کو رکھی گئی، تا کہ سامراج مخالف سیاست میں تازہ خون شامل کیا جا سکے، اور ملکی آزادی کی جدوجہد میں ایک نیا ولولہ پیدا کیا جائے۔ آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا باقاعدہ طور پر الحاق کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے تھا۔

بعد ازاں ملک بٹوارے کے دردناک دور سے گزرا تو پاکستان، بالخصوص مغربی پاکستان میں ترقی پسند تحریک بہت کمزور تھی۔ سرگرم اور تجربہ کار سیاسی کارکنوں کی اکثریت نقل مکانی کر کے ہندوستان چلی گئی تھی۔ بچے کھچے اور بارڈر پار سے نقل مکانی کر کے آنے والے مٹھی بھر ترقی پسندوں نے یکجا ہو کر کمیونسٹ پارٹی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی بنیاد رکھی۔ چند ہی مہینوں میں ملک پر جاگیرداروں، قبائلی سرداروں اور اسٹیبلشمنٹ نے قبضہ کر لیا، قائد اعظم کو ملک کے سیاسی منظر نامے سے غائب کر دیا، اور ملکی عوام کے آزادی کے خواب چکناچور ہونے لگے۔ اس ابھرتے ہوئے منظرنامے میں عوامی سطح پر بے چینی بڑھنے لگی تو ان حالات میں نوجوانوں میں پیدا ہونے والا اضطراب ایک قدرتی عمل تھا۔ یہی وہ اسباب تھے، جو آنے والے سالوں میں ایک مضبوط، منظم اور متحرک ترقی پسند تحریک، بشمول بلباء تحریک کے قیام کا سبب بنے۔

سورج پہ کمند کی تحقیق و تحریر کرنے والی دونوں شخصیات، حسن جاوید اور محسن ذوالفقار انتہائی منجھے ہوئے ترقی پسند ادیب، دانشور اور تجربہ کار سیاسی کارکن ہیں۔ دونوں سے میرا رشتہ نظریاتی بھی ہے، باہمی احترام اور محبت کا بھی، اور انقلابی جدوجہد میں ساتھ نبھانے کا بھی ہے۔ ڈاکٹر حسن جاوید چونکہ برمنگھم کے علاقہ میں رہائش پذیر ہیں، جس کی وجہ سے عملی جدوجہد میں ان سے اس قدر قربت نہیں رہتی جتنی کہ محسن ذوالفقار سے، کیونکہ وہ میرے شہر لیڈز میں مقیم ہیں۔

محسن اور میں مقامی سطح پر ترقی پسند سیاسی و سماجی سرگرمیوں کو مل کر آرگنائز کرتے ہیں، اور دوسرے شہروں میں منعقد ہونے والی تقریبات میں شرکت کے لیے اکٹھے سفر بھی کرتے ہیں۔ محسن آج کل بیمار ہیں اور ہم سب کو ان کی صحت بارے بہت تشویش ہے۔ محسن کو گزشتہ برس سٹروک کے تکلیف دہ حالات سے گزرنا پڑا اور تا حال ریکوری کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ ہم سب ان کی جلد صحت یابی اور عملی زندگی میں واپسی کے متمنی ہیں۔ ہمیں یہ بھی امید ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہو کر سیاسی کارکنوں کی تعلیم و تربیت اور تحقیق و تحریر کو جاری رکھیں گے، اور عوامی شاعر حبیب جالب کی زندگی، جدوجہد اور شاعری پر شروع کی گئی اپنی کتاب کو جلد پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔

سورج پہ کمند میں حسن جاوید نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے اپنی وابستگی کو ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 1968 ء کی عوامی تحریک کے نتیجہ میں ایوب آمریت کا خاتمہ، 1970 ء کے انتخابات، مشرقی پاکستان کے اندوہ ناک واقعات، یحییٰ خان آمریت کا خاتمہ، عوامی دور کا آغاز، اور 1972 ء میں سندھ میں لسانی فسادات وہ اہم واقعات تھے جنہوں نے انہیں سوچنے اور سمجھنے کی طرف راغب کیا۔ 1973 ء میں جب وہ سندھ میڈیکل کالج میں داخل ہوئے تو این ایس ایف کے نظریات کے اسیر ہو گئے، اور اپنی تعلیم کے خاتمے تک اس کے سرگرم کارکن رہے۔

بعد ازاں وہ این ایس ایف کراچی کے نائب صدر اور مرکزی مجلس عاملہ کے رکن کے طور پر اپنے فرائض ادا کرتے رہے۔ 1977 ء میں ضیاء مارشل لاء مسلط ہوا تو سندھ میڈیکل کالج کے طلباء نے حقوق کی تحریک چلائی، جو بسوں کی تحریک کے نام سے مشہور ہوئی۔ مارشل لاء حکام نے اسے بغاوت کا اعلان سمجھا اور طالب علموں کی بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا، جن میں وہ یعنی حسن جاوید بھی شامل تھے۔ حسن جاوید کو سزا کے طور پر کراچی بدر کرتے ہوئے بولان میڈیکل کالج کوئٹہ ٹرانسفر کر دیا گیا، جو بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے اپنے حکم کے ذریعے منسوخ ہوا، اور حسن جاوید دوبارہ کراچی آ گئے۔ زمانۂ طالب علمی کے بعد وہ عملی طبی تربیت اور مزید تعلیم کے لیے برطانیہ منتقل ہو گئے، جہاں وہ امراض نفسیات میں پوسٹ گریجویشن کرنے کے بعد کے ہیلتھ سسٹم ”این ایچ ایس“ میں اعلیٰ خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

محسن ذوالفقار کی طلباء سیاست سے وابستگی سکول کے دور میں ہی ہو گئی تھی، جب وہ حسینی بوائز سیکنڈری سکول کراچی میں زیر تعلیم تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ڈکٹیٹر ایوب کے دور میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور جمہوری حقوق کی پامالی کے خلاف ملک بھر میں حکومت مخالف آوازیں اٹھ رہی تھیں، اور طلباء میں بھی بے چینی کا سبب بن رہی تھیں۔ ہر طرف جلسے، جلوس جاری تھے، البتہ ان کا سکول اس وقت تک ایسی سیاسی سرگرمیوں سے دور تھا۔

ایک دن دوران سبق اچانک باہر سے نعروں کی آوازیں آئیں تو طالب علموں کے سوالوں کے جواب میں استاد نے کہا کہ ایسی سرگرمیاں صرف باہمت اور بہادر لوگ کر سکتے ہیں۔ یہ سننے کی دیر تھی کہ محسن ذوالفقار نے خاموشی کے ساتھ اپنا بستہ اٹھایا، تیزی کے ساتھ کلاس سے نکلے، اور سکول میں چھٹی کا گھنٹہ بجا دیا۔ سارے بچے سکول سے باہر نکل آئے تو ایک نوجوان نے دھواں دار تقریر کر کے ماحول کو گرما دیا۔ اب سب بچے ایک جلوس کی شکل میں نعرے لگاتے ہوئے قریبی سکول پہنچے اور وہاں کے بچوں کو بھی ساتھ شامل کر کے گورنمنٹ کالج ناظم آباد کی جانب روانہ ہو گئے۔

وہاں کے طالب علموں کی شرکت نے جلوس کو ہزاروں کے جلسہ کی شکل دے دی، جس میں ایوب آمریت کے خلاف پر جوش تقریریں اور فلک شگاف نعرے بلند ہوں لگے۔ بعد ازاں محسن گورنمنٹ کالج ناظم آباد داخل ہو گئے، جو پہلے ہی این ایس ایف کا گڑھ تھا۔ وہ بعد ازاں گورنمنٹ کالج قاسم آباد اور کراچی یونیورسٹی میں بھی زیر تعلیم رہے۔ امیر حسین کاظمی جیسے نامور راہنما کے ساتھ، جوانی کے جذبے، نا انصافیوں اور ظلم و ستم کے خلاف غم و غصہ، ان سب نے مل کر محسن کو ایک انقلابی سیاست اور این ایس ایف کا سرگرم کارکن بنا دیا۔

ان کا آگہی اور جدوجہد کا یہ سفر آج بھی جاری و ساری ہے۔ این ایس ایف کی قیادت میں وہ ایوب آمریت کے خلاف 1968 ء کی تحریک میں پیش پیش رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے سکرند کسان کانفرنس میں بھرپور شرکت کر کے نوجوانوں کی سیاست کو ملک کے پسے ہوئے طبقات، کسانوں اور مزدوروں کی سیاسی جدوجہد کے ساتھ جوڑنے کا عملی مظاہرہ کیا۔ عوامی لیگ اور پھر نیشنل عوامی پارٹی کے سیاسی کام میں بھر پور شرکت و معاونت کرتے رہے، جس سے ان کی، پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ قربت بھی رہی اور عملی سیاست میں پختگی بھی آتی گئی۔

محسن ذوالفقار 1969 ء میں تعلیم و تدریس سے وابستہ ہو گئے اور 1971 ء تک حبیب انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نواب شاہ میں لیکچرر کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اسی برس وہ برطانیہ تشریف لے آئے اور یہاں آنے کے بعد مزید تعلیم بکا سلسلہ شروع کر دیا اور درس و تدریس کے علاوہ سیاسی اور ادبی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش ہونے لگے۔ انہوں نے ایشین یوتھ موومنٹ اور پاکستان ورکرز ایسوسی ایشن میں قائدانہ کردار ادا کیا، اور اب وہ ساوتھ ایشین پیپلز فورم کے کوارڈینیٹرز میں سے ہیں۔

وہ عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے رکن ہیں اور اس کے آرگنائزر کے فرائض ادا کر چکے ہیں۔ وہ 2011 ء میں فیض سینٹینری کمیٹی کے انفارمیشن سیکرٹری رہے اور مختلف شہروں میں فیض فیسٹیول آرگنائز کرنے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ وہ متعدد کتابوں کی تصنیف اور ادارت بھی کر چکے ہیں، جن میں فیض صاحب کی سو سالہ تقریبات کے دوران انگریزی زبان میں مرتب کردہ ”الوسیو ڈاؤن، فیض احمد فیض“ قابل ذکر ہے۔ محسن اور میری فیملی کے گہرے مراسم ہیں اور 2011 ء میں میرے والد کامریڈ چوہدری فتح محمد برطانیہ تشریف لائے تو انہیں اپنی یاد داشتوں کا مجموعہ ”جو ہم پہ گزری“ مرتب کرنے کے لیے بھی محسن ذوالفقار نے ہی آمادہ کیا تھا۔

این ایس ایف کے قیام کے بارے میں حسن اور محسن سورج پہ کمند میں لکھتے ہیں کہ ڈاؤ میڈیکل کالج کے قریب مشن روڈ پر واقع اودھ ریسٹورنٹ میں ہونے والے ایک اجلاس میں پاکستان کی جس طلباء تحریک کی داغ بیل ڈالی، اس نے آنے والی دہائیوں میں پاکستان کے طالب علموں کی مسلسل راہنمائی کی۔ اس تحریک نے انہیں نہ صرف اپنے حقوق کے لیے بے جگری سے لڑنا سکھایا، بلکہ ان نوجوانوں نے جہاں ایک طرف ملک کے دیگر محروم طبقات کے حقوق کے لیے مردانہ وار جدوجہد کی، تو دوسرے طرف وہ عوام کے بنیادی حقوق کی جنگ میں میں بھی پیش پیش رہے۔

اس اجلاس کے نتیجے میں کراچی میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا۔ لہٰذا اس اجلاس میں شریک ڈاکٹر محمد سرور، ڈاکٹر رحمان علی ہاشمی، ڈاکٹر ایوب مرزا، ڈاکٹر ہارون احمد، مرزا محمد کاظم، سلیم عاصمی، غالب لودھی، ڈاکٹر ادیب رضوی وغیرہ کو عموماً تنظیم کے بانی ارکان سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ اس تنظیم کی بنیاد اس سے قبل راولپنڈی میں عابد حسن منٹو، ڈاکٹر ایوب مرزا اور ان کے دیگر ساتھیوں کی راہنمائی میں رکھی جا چکی تھی۔

بائیں بازو کے معروف دانشور چوہدری بشیر جاوید، جن کا بعد ازاں 24 مارچ 1989 کو انتقال ہو گیا تھا، 1986 ء میں لاہور کی ایک تقریب میں بتا رہے تھے کہ جب راولپنڈی میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی تو اس کا نام اور پروگرام کمیونسٹ پارٹی راولپنڈی کے اجلاس میں زیر بحث آیا اور راولپنڈی میں ڈی ایس ایف کے قیام کے بعد اس کو پاکستان بھر میں پھیلانے کے لیے کمیونسٹ پارٹی راولپنڈی کے جنرل سیکرٹری پروفیسر خواجہ مسعود نے رابطے کا فریضہ سر انجام دیا۔ 1999 ء میں بریڈ فورڈ کی ایک تقریب میں میرے محترم بزرگ اور ساتھی ڈاکٹر ایوب مرزا نے بھی اس کی تصدیق کی تھی۔

جب 1954 ء میں کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ تمام عوامی تنظیموں، بشمول ڈی ایس ایف پر پابندی لگا دی گئی تو اس کے سرگرم کارکن خاموشی سے پہلے سے قائم حکومت نواز تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوتے گئے اور 1956 ء میں اس پر باقاعدہ غلبہ حاصل کر لیا۔

حسن اور محسن کے مطابق یہ بات بڑی شدت سے مخصوص کی جا رہی تھی کہ ان دو تنظیموں کی جدوجہد کی کہانی کو باقاعدہ تحریر نہ کیا جا سکا۔ اس کا ذکر مختلف اوقات میں تحریر کردہ مضامین اور سرگرم شخصیات سے گفتگو کی شکل میں تو ملتا ہے، جو گاہے بگاہے ملتے رہے، لیکن ان کی کوئی باقاعدہ کتابی شکل موجود نہیں تھی۔ اس کمی کا احساس کرتے ہوئے 2012 ء میں فیس بک پر این ایس ایف ریویذٹڈ کے نام سے ایک صفہ کی بنیاد رکھی گئی، جس کا مقصد این ایس ایف کے سابق کارکنان کو ایک جگہ جمع کر کے ایک ایسی اجتماعی تاریخ نویسی کی کاوش کا آغاز کرنا تھا جس کے نتیجے میں ان دو تنظیموں کی مکمل تاریخ مرتب کی جا سکے۔ کارکنوں کی اپنی یادداشتیں، چنیدہ شخصیات سے روبرو یا بذریعہ ٹیلی فون گفتگو، دستاویزات، تصاویر اور شائع شدہ مواد وہ تمام ذرائع تھے جن سے اس کاوش میں مدد لی گئی۔

حسن اور محسن کو اپنی اس کاوش کے دوران بہت سے مثبت رویوں کے ساتھ ساتھ بعض منفی رویوں کا بھی سامنا رہا، لیکن مجموعی طور ہر مرحلے پر این ایس ایف کے سابق کارکنوں اور راہنماؤں کی بھر پور مدد اور راہنمائی حاصل رہی۔ تمام ساتھیوں نے جہاں تک ممکن ہوا اس کاوش میں حصہ لیا، اپنی یادداشتیں رقم کیں، پرانی تصویریں اور دستاویزات فراہم کیں اور اٹھائے گئے سوالات کے جوابات فراہم کیے۔ سب سے بڑھ کر ان کے حوصلہ افزائی کے کلمات اس توقعات سے زیادہ مشکل کام میں مصنفین کے مدد گار ثابت ہوئے۔

ان کی خواہش تھی کہ اس اجتماعی کوشش کے نتیجے میں ڈی ایس ایف اور این ایس ایف کے ہونہار کارکنوں کی اس جدوجہد کو محفوظ کیا جا سکے، جو انہوں نے نہ صرف اپنے حقوق کے لیے بلکہ اس وطن عزیز کے تمام محکوم طبقات کے حقوق کے لیے ہر دور میں برپا کیں۔ یہ جدوجہد لوگوں کے حق حکمرانی، تحریر اور تقریر کی آزادی، پاکستان میں بسنے والے تمام لوگوں کے قومی اور لسانی حقوق، اقلیتوں اور عورتوں کی حالت زار، محروم اور مظلوم بے زمین کسانوں اور مزدوروں کے لیے برپا کی جانے والی جدوجہد ہے، جس میں این ایس ایف کے کارکن جہاں ایک طرف طالب علموں کے حق تعلیم کے لیے آواز اٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف وہ صحافیوں کے شانہ بشانہ آزادیٔ اظہار کی جنگ میں مصروف ہیں۔

وہ مزدوروں کی تاریخی تحریکوں میں ان کے قدموں سے قدم ملا کر چلتے ہیں تو بے زمین کسانوں کے احتجاج میں ہم آواز ہیں، اور یہ جدوجہد کسی رومانیت کا نتیجہ نہیں تھی، جیسا کہ آج کل کچھ لکھنے والوں کا خیال ہے۔ یہ یقیناً ان نوجوانوں کی سوچی سمجھی شعوری کاوشیں تھیں اور انہیں اس میں پنہاں خطرات کا بھی بخوبی اندازہ تھا۔ وہ نام نہاد جمہوری حکمرانوں، فوجی آمروں اور ریاستی اداروں کے ظالمانہ کردار کے بارے میں کسی حسن ظن کا بھی شکار نہیں تھے۔

حسن اور محسن کو اس بات کا مکمل ادراک تھا کہ مختلف ادوار میں بوجوہ این ایس ایف کو تقسیم، گروہ بندیوں اور ٹوٹ پھوٹ کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں یہ تنظیم کئی دھڑوں میں تقسیم ہوئی، لیکن وہ یہ یقین رکھتے تھا کہ ان کے بنیادی نظریات، اپنے مقصد سے ان کی لگن، اور اخلاص اور اپنے مقصد کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے پر آمادگی، ان تمام دھڑوں کے راہنماؤں اور کارکنوں کی واضح اکثریت کے درمیان ایک قدر مشترک ہے۔

لہٰذا انہوں نے شعوری کوشش کی کہ وہ ان تمام دھڑوں کے کارکنوں اور راہنماؤں کے درمیان کوئی تخصیص یا امتیاز نہ کریں اور ان سب کو اس اجتماعی کوشش کا حصہ بنائیں۔ تقریباً سات برس پر محیط اس اجتماعی محنت کے بعد وہ اس مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے کہ ان مشترکہ کاوشوں کو پہلی جلد کی شکل میں تحریری شکل دے سکیں۔ ابتدائی طور پر ”سورج پر کمند“ کی اشاعت کی غرض سے اسے دو جلدوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلی جلد میں مختلف ادوار کے چنیدہ کارکنان کے سو انہی خاکے اور بہت سے دیگر کارکنان سے ان کی گفتگو کے خلاصے شامل کیے گئے ہیں۔ ان کارکنان کے انتخاب میں انہوں نے اس بات کا خیال رکھا کہ اس انتخاب کے ذریعے وہ مختلف ادوار، تمام قابل ذکر دھڑوں اور مختلف علاقوں میں این ایس ایف کی جدوجہد کا ممکنہ حد تک احاطہ کر سکیں۔

سورج پہ کمند کی پہلی جلد میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کی بہت سی ایسی نامور شخصیات کے مضامین، انٹرویوز، خاکے یا پھر ان پر لکھے گئے مضامین شامل کر کے حسن اور محسن نے اس کتاب کی اہمیت کو اور بھی بڑھا دیا گیا ہے۔ ان شخصیات میں ڈاکٹر محمد سرور، عابد حسن منٹو، ڈاکٹر ایوب مرزا، رحمان علی ہاشمی، شیر افضل ملک، ادیب الحسن رضوی، معراج محمد خان، ذکی عباس، فتحیاب علی خان، انور احسن صدیقی، نذیر عباسی شہید، اختر حسین ایڈووکیٹ، سید ہارون احمد، احتشام اکبر، امیر حیدر کاظمی، انیس باقر، راحت سعید، لطیف چوہدری، حسام الحق، صباح الدین صباء اور بہت سر دوسرے نام شامل ہیں۔

پاکستان کے ترقی پسند طلباء کی جدوجہد کرنے والوں کو وقت کے دھاروں وہ چیخیں بھی پہنچائی تھیں جو ملک کے طول و عرض میں قائم قید خانوں میں روا رکھے گئے تشدد کے نتیجہ میں بلند ہوئیں۔ ان تک ان قیدیوں کی روداد بھی پہنچی تھیں جو بندی خانوں میں اپنی جوانیاں کھو بیٹھے تھے۔ وہ ان جسمانی اور نفسیاتی زخموں سے بھی واقف تھے جو ان کے ساتھیوں کو اس جدوجہد کے انعام میں ملتے تھے۔ ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچانے والے ڈکٹیٹر ضیاء کے سیاہ دور میں ٹکٹکی سے بند ہے صحافیوں کی تصویریں بھی ان کی نگاہوں سے اس وقت اوجھل نہ تھیں، جب وہ ضیاء دور میں صحافیوں کی سب سے بڑی جنگ میں شریک رضاکارانہ گرفتاری پیش کر رہے تھے۔ یہ جہد مسلسل اور لہو رنگ کہانی کسی رومانی جذبہ کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ ایک خالصتاً شعوری جدوجہد کی کہانی ہے، جس میں شریک بہادر نوجوانوں کو علم تھا کہ وہ دور سے حسین نظر آنے والے ستاروں پر نہیں بلکہ سمندر پہ کمند ڈال رہے ہیں۔

سورج پہ کمند کی دوسری اور تیسری جلد میں انہوں نے این ایس ایف کی تاریخ کے اہم واقعات اور تحریکوں کا سال بہ سال احاطہ کیا ہے، اور سینکڑوں کارکنوں کی حوصلہ افزائی نے ان جلدوں کی تکمیل اور اشاعت میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ جس کسی کے پاس بھی این ایس ایف کی تاریخ کے بارے میں کسی بھی قسم کا مواد موجود تھا، یا پھر وہ اپنی یادداشتیں لکھ سکتے تھے، انہوں نے ایسا کیا، جس سے انہیں اس اہم فریضہ کی تکمیل میں سرخرو ہوئے اور آج 2100 سے زیادہ صفات پر مشتمل این ایس ایف کی تاریخ کی تین جلدیں ہمارے ہاتھوں میں ہیں۔

اپریل 2020 ء میں ہم سے جدا ہو جانے والے پاکستان کے ایک نامور صحافی اور این ایس ایف کے سابق راہنما احفاظ الرحمان نے معراج محمد خان کی یاد میں 2016 ء میں لکھے گئے اپنے ایک آرٹیکل میں کیا خوب نشاندہی کی تھی کہ ان کی آرزوؤں کے رنگ ذات کے خانے میں قید نہیں تھے، بلکہ وہ دنیا سے بدصورت مناظر کو ملیامیٹ کرنے کے لیے اپنی ذاتی آسائشات کو قربان کرتے ہوئے جدوجہد کرتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کہ جانا ہے۔

وہ صبح سے رات تک اس بدقسمت ملک کی اندھیاری راہوں میں چراغ روشن کرتے جاتے تھے۔ ان کے خواب یا ان کے مطالبات بہت سادہ، بے ضرر اور خوبصورت تھے، اس کے باوجود نابینا عقیدوں اور معذور نظریوں کے نام لیوا ان کے لیے غداری کی اسناد جاری کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔ کامریڈ احفاظ الرحمان کے یہ الفاظ یقیناً ان سب ترقی پسند سیاسی کارکنوں و راہنماؤں کی عقیدت میں تھے جو اپنی ساری زندگی سماجی تبدیلی کی جدوجہد کی نظر کر دیتے ہیں اور اپنے اس عہد پر قائم رہتے ہیں، کہ طبقاتی تقسیم دولت کا نظام ختم ہونا چاہیے، ناداروں، مزدوروں، کسانوں کو باعزت انداز میں جینے کا حق ملنا چاہیے، تعلیم سستی اور عام ہونی چاہیے، غلامی کے تمام بدصورت تصویروں اور رنگ، نسل، مذہب، زبان اور صنف کی بنیاد پر فضیلت کا علم لہرانے والے تاریک کرداروں کا خاتمہ ہونا چاہیے، جو نفرت کی فصلیں اگاتے ہیں، اور ذاتی مفادات کے جوہڑ میں غسل کرنے کے بعد درآمد شدہ خوشبوؤں کی بوچھاڑ اپنے جسم پر کرتے ہیں۔

اگر ہم سورج پہ کمند کو نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے تاریخ سمجھیں، تو یقیناً یہ این ایس ایف یا پھر اس کی بانی طلباء تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی ایک انتہائی جامع تاریخ ہے، اور اب تک کی پاکستان میں سیاسی تحریکوں اور تنظیموں پر لکھی گئی تاریخ میں سب سے اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔ اس تاریخی فریضہ کو انجام دینے کے لیے اپنی زندگی کے تقریباً دس برس وقف کرنے پر میں اپنے ہونہار ساتھیوں حسن جاوید اور محسن ذوالفقار کا ممنون بھی ہوں اور انہیں دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

میں یہ بھی امید کرتا ہوں کہ وہ تحقیق و تحریر کا یہ سلسلہ جاری رکھیں گے اور آنے والے دنوں، مہینوں اور سالوں میں نہ صرف حبیب جالب پر اپنی تحقیق کو مکمل کر کے اشاعت کرنے میں کامیاب ہوں گے، بلکہ اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے پاکستان میں ترقی پسند تحریک کی ترویج و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے رہیں گے۔

یہ بات سو فیصد درست ہے کہ پاکستان کی طلباء تحریک کا کوئی ذکر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور اس کی بانی تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ لیکن مصنفین کی جانب سے سورج پہ کمند کی جلد اول کے پیش لفظ میں یہ لکھ دینا کہ این ایس ایف اور اس کی بانی تنظیم ڈی ایس ایف کی تاریخ ہی پاکستان کی طلباء سیاست کی تاریخ ہے، میرے خیال میں درست نہ ہے، اور میرے لیے اسے درگزر کر دینا تاریخ کے ساتھ نا انصافی ہے۔ میرے خیال میں ایسا لکھنے میں سیاق و سباق کا کافی عمل دخل ہے۔ ایک تو دونوں مصنفین کا تعلق کراچی سے رہا۔ دوسرا 1970 ء کی دہائی میں وہ برطانیہ تشریف لے آئے، اور اس وقت تک یقیناً یہی صورتحال تھی۔

پہلی بات یہ کہ ہزار اختلاف کے باوجود دائیں بازو کی طلباء تنظیموں، بالخصوص اسلامی جمعیت طلباء اور ایم ایس ایف کو ہم تاریخ سے خارج نہیں کو سکتے، اور ان کے ذکر کے بغیر سورج پہ کمند کو ہم ترقی پسند طلباء کی تاریخ تو کہہ سکتے ہیں، پر پاکستان کی طلباء تحریک کی تاریخ نہیں کہہ سکتے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک دائیں بازو کی ان طلباء تنظیموں کا ملک کی طلباء سیاست میں کردار اپنے جگہ حقیقت ہے۔

دوسری اہم بات یہ کہ این ایس ایف اور اس کی بانی تنظیم کا ملک کے دو صوبوں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں اول تو وجود تھا ہی نہیں، یا پھر نہ ہونے کے برابر تھا۔ صوبہ بلوچستان میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور صوبہ خیبر پختونخوا میں پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن ہی طلباء کی نمائندہ اور موثر تحاریک رہی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ہم نے 2006 ء میں این ایس ایف کے سابق مرکزی نائب صدر اور اس وقت عوامی ورکرز پارٹی کے جنرل سیکرٹری اختر حسین ایڈووکیٹ کو لندن میں استقبالیہ دیا تھا اور انہوں نے اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کیا تھا کہ نیشنل عوامی پارٹی کے زمانے میں ہم نے قوم پرستوں کی یہ بات مان کر بڑی غلطی کی تھی کہ بلوچستان میں بی ایس او اور خیبر پختونخوا میں پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے مقابلے میں طلبہ تنظیمیں بالخصوص این ایس ایف قائم نہیں کریں گے اور ان صوبوں میں بی ایس اہ اور پی ایس ایف کو ہی اپنی نمائندہ طلباء تنظیمیں تصور کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس عمل سے ان دو صوبوں میں حقیقی مارکسی کیڈر پیدا کرنے کی ہماری صلاحیت ہمیشہ محدود رہی۔

تیسری اہم بات یہ کہ این ایس ایف کا کردار تین دہائیوں تک یقیناً بہت اہم رہا، البتہ ساٹھ کی دہائی کے آخر میں محدود ہونا شروع ہو گیا تھا، کیونکہ متحدہ طلباء تحریک کا وجود اس وقت تک ہی رہا جب تک اوپر کی امبریلا، یعنی پہلے کمیونسٹ پارٹی اور بعد ازاں نیشنل عوامی پارٹی متحد رہی۔ نیشنل عوامی پارٹی، ولی گروپ اور بھاشانی گروپ بن جانے کے افسوس ناک عمل نے بھی اسے اتنا نقصان نہ پہنچایا تھا، جتنا این ایس ایف کے کچھ سابق راہنماؤں و اکابرین کا دائیں بازو کی نئی تشکیل پانے والی جماعت، پاکستان پیپلز پارٹی میں شرکت نے پہنچایا تھا۔

سب سے پہلے این ایس ایف کراچی میں معراج گروپ اور کاظمی گروپ میں بٹ گئی۔ سب سے اہم تاریخی عمل پنجاب میں 1969 ء میں ہوا جب المعروف پروفیسر گروپ کے راہنما اور ممتاز ترقی پسند دانشور پروفیسر عزیز الدین احمد کی زیر نگرانی نیشنلسٹ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے قائم ہوئی اور اس نے بلا شعبہ آنے والی دو دہائیاں پنجاب کی طلباء سیاست پر راج کیا اور دائیں بازو کے گڑھ پنجاب یونیورسٹی میں بھی اپنی کامیابی کا لوہا منایا۔

پنجاب میں ابھرنے والی اس طلباء تحریک نے ایسے سینکڑوں ہونہار نوجوان پیدا کیے، جن کی اکثریت آج بھی ملکی سیاسی منظر نامے میں گرانقدر خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ اس کے اہم چیف آرگنائزرز میں امتیاز عالم، فیاض باقر، اصغر شیرازی، ظفریاب احمد، معصوم عابدی، پرویز عنایت ملک، مشتاق گھمن کے علاوہ سرگرم راہنماؤں میں سابق چیف جسٹس آزاد کشمیر محمد اعظم خان، ممتاز مزدور راہنما طارق لطیف، زمان خان، مشتاق گھمن، زاہد اسلام، مسعود اے ملک ایڈووکیٹ، شاہین قریشی، مشتاق صوفی، حسن باقر، تنویر زمان خان، کبیر گیلانی، ظہیر انجم، ضمیر گیلانی، طارق مسعود، رفیق طاہر اعوان، امجد سلیمی، پرویز صالح، قاسم خان، عقیلہ جدون ایڈووکیٹ، ابن حسن، میاں جہانگیر، آصف خان، محبوب خان، ڈاکٹر احمد خان، شمعون سلیم، انتظار مہدی ایڈووکیٹ اور افتخار شاہد شامل تھے، جنہوں نے بہت قربانیاں بھی دیں اور ان میں سے بہت سے ساتھیوں نے تو انگریزوں کے دور کے بدنام زمانہ شاہی قلعہ لاہور کے ٹارچر سیلز کا وحشیانہ تشدد بھی برداشت کیا۔

اس لیے ایسی تاریخوں کو تاریخ لکھتے وقت درگزر کرنا نامناسب رویوں یا پھر لاعلمی کی نشاندہی کرتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ضیاء دور میں اسٹوڈنٹس یونینز کے آخری الیکشن میں ہم نے پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس الائنس بنایا، تو این ایس او کا اس میں اہم کردار تھا، اور ہم افتخار شاہد کے گھر پر اس کے اجلاس کرتے تھے۔ اس الائنس کے تحت ہم نے پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری کا الیکشن بھی جیتا تھا۔

بعد ازاں 1975 ء میں سوشلسٹ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی گئی تو دو دہائیوں تک اس کا اپنا ایک کردار رہا اور اس نے زاہد پرویز ایڈووکیٹ، ڈاکٹر شاہ محمد مری، رانا محمد اعظم خان، عذرہ روشنک، ڈاکٹر افتخار محمود، ڈاکٹر اللہ داد لونی، صفی اللہ عباسی، طاہر لغمانی ایڈووکیٹ، مزدور راہنما ناصر منصور، مقصود خوشی، اعظم ملک، محمد شاہد، اقبال ملک۔ محمد عمر خان، اعظم زرکون، اعجاز اقبال، ارشد محمود چوہدری، عدنان قادر، عمران لطیف، مختار رحمت، لطیف چوہدری، بلال جاوید یوسف، لیاقت نصیر ایڈووکیٹ، رضاء عباس ایڈووکیٹ، اسد رحمان، محمود خوشی، اسلم اسد جیسے بے شمار ترقی پسند کارکن پیدا کیے، جو آج بھی نظریاتی اور سیاسی عمل میں قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔

راقم کی سیاسی گرومنگ بھی سوشلسٹ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں ہی ہوئی اور بعد ازاں 1980 ء کی دہائی میں اس کا مرکزی جنرل سیکرٹری بھی رہا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ 1984 ء میں پاکستان پروگریسیو اسٹوڈنٹس الائنس کی بنیاد بھی ہم نے مل کر کراچی میں ہی رکھی تھی، اور اس کا پہلا کنوینشن بھی ڈاؤ میڈیکل کالج میں ہی منعقد ہوا ہے تھا۔ اس اتحاد میں ایس ایس او، ڈی ایس ایف، این ایس ایف، سندھی شاگرد تحریک، بی ایس او اور پشتوں اسٹوڈنٹس فیڈریشن شامل تھیں۔

1980 ء کی دہائی میں ڈی ایس ایف کا دوبارہ منظر عام پہ آنا، بالخصوص خیبر پختونخوا میں ریاستی نگرانی میں پیدا کی گئی مذہبی انتہا پسندی کے دور میں ڈی ایس ایف کا صوبے میں بڑی تیزی سے پھیلاؤ اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف نظریاتی بنیادیں فراہم کرنا ملک کی طلباء تحریک کی تاریخ میں تسلیم نہ کرنا بھی نا انصافی کے زمرے میں آتا ہے۔ مانچسٹر میں ذاکر حسین ایڈووکیٹ اور ضیا الدین یوسفزئی اسی دور کی ڈی ایس ایف کے راہنماؤں میں سے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ این ایس ایف کے سابق راہنما ڈاکٹر عبدل غفور کاسی نے درست نشاندہی کی ہے، اور سوال اٹھائے ہیں کہ ہم نے تاریخ سے کیا سیکھا ہے؟ ہماری نظر میں مستقبل کا نقشہ کیا ہے؟ ماضی کے غلطیوں سے بچنے کے لیے آج کے نوجوانوں کو ہمارا مشورہ کیا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ان سوالوں کے جوابات سچے دل سے ڈھونڈنا چاہیے۔ آج کا سیاسی منظرنامہ ہماری پرجوش جوانیوں سے بہت مختلف ہے۔ جاگیردار اور سرمائے کے مالک رجعت پسند طبقے ہمارے ملک اور تمام دنیا میں بے انتہا طاقت حاصل کر چکے ہیں، مگر بایاں بازو آج بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ یہ وقت ہے کہ تمام بائیں بازو کے افراد، تنظیمیں اور سیاسی ادارے اپنے ماضی کا تنقیدی جائزہ لیں۔ سرمایہ داری نظام زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا، لہٰذا ہمیں اس خلاء کو پر کرنے کے لیے ایک تحریک منظم کرنا ہو گی۔

سوویت یونین کے انہدام کے بعد تو ترقی پسند طلباء سیاست جمود کا شکار ہو گئی تھی۔ بعد ازاں ملک میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے اتحاد اور باہمی مرجرز کا سلسلہ شروع ہوا تو گزشتہ دہائی میں این ایس ایف کو نئے سرے سے آرگنائز کرنے کا عمل بھی شروع ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی این ایس ایف ایک بار پھر تیزی کے ساتھ نمودار ہرئی، لیکن افسوس کہ جتنی بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اور گروپس ہیں اتنے ہی این ایس ایف کے اندر دہرے بن گئے۔

اس سلسلے میں سنجیدہ کوششیں بھی ہوئیں۔ این ایس ایف کے 1970 ء کی دہائی کے مرکزی نائب صدر اور عوامی ورکرز پارٹی کے راہنما اختر حسین ایڈووکیٹ نے اس کے اندر تمام دہڑوں کے راہنماؤں سے ملاقاتیں کیں، لیکن ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور ایک وسیع تر متحدہ ڈھانچہ قائم کرنے پر آمادگی ظاہر نہ ہوئی۔ دو برس کی بھرپور کوشش کے بعد ایک حصے نے پروگریسو اسٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ بعد ازاں متحدہ این ایس ایف نہ بن پانے کے محرکات سامنے آنے لگے تو پتہ چلا کہ وہ اپنی پارٹی بنانے والے ہیں۔ بعد ازاں اعلان ہوا تو تو این ایس ایف کے سابق ایکٹیوسٹس نے بائیں بازو کی ایک نہیں بلکہ دو علیحدہ پارٹیاں بنانے کا اعلان کر دیا۔ یہ بلا شعبہ پاکستان کی ترقی پسند تحریک کا المیہ ہے۔ اگر یہی حال رہا تو سورج پہ کمند کون ڈالے گا۔ فیض صاحب نے کہا تھا:

کچھ ان دیکھی منجدھاریں تھیں، کچھ مانجھی تھے انجان بہت
کچھ بے پر کی پتواریں تھیں، اب جو بھی چاہو چھان کرو
اب جتنے چاہے دوش دھرو، ندیا تو وہی ہے ناؤ وہی
اب تم ہی کہو کیا کرنا ہے

ڈاکٹر حسن جاوید اور پروفیسر محسن ذوالفقار نے این ایس ایف کی تاریخ مرتب کر کے پاکستان میں ترقی پسند تحریک کی گرانقدر خدمت کی ہے، اور میں امید کرتا ہوں کہ این ایس او میں قائدانہ کردار ادا کرنے والے ساتھی بھی اس تحریک کی تاریخ مرتب کریں گے، کیونکہ پنجاب میں ترقی پسند طلباء کی تاریخ اس کے بغیر ادھوری رہے گی، اگر ایسا ہو گیا تو مجھے یقین ہے کہ ایسی دستاویز پنجاب میں انتہائی دائیں بازو کی طلباء سیاست کا متبادل منظم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

میں یہ بھی امید کرتا ہوں کہ ترقی پسند جماعتیں اور گروہ انا پرستی اور خود پسندی کے خول سے باہر نکل کر مزدوروں، کسانوں اور طلباء کی متحدہ اور منظم تحریکیں پیدا کرنے میں کوئی کردار ادا کریں گے۔ ورنہ، ”دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ“ کا ان کا نعرہ خود فریبی اور انا پرست پر مبنی فیوڈل مائنڈ سیٹ کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔

آؤ پم سب مل کر ایک منظم، متحدہ اور باعمل ترقی پسند تحریک پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

پرویز فتح برطانیہ کے شہر لیذز میں مقیم ہیں اور برٹش ایروسپیس انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ وہ برطانیہ میں ساوتھ ایشین ممالک کے ترقی پسندوں کی تنظیم ساوتھ ایشین پیپلز فورم کورڈینیٹر ہیں اور برطابیہ میں اینٹی ریسزم اور سوشل جسٹس کے لئے سرگرم ہیں۔

pervez-fateh has 55 posts and counting.See all posts by pervez-fateh

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments