بہا الدین زکریا کا قاضی


زندگی سے جنگ کرنے والا ہی زندگی جینا جانتا ہے کیونکہ وہ زندگی کی قیمت سے خوب آگاہ ہوتا ہے جو تمام عمر اس نے چکائی ہوتی ہے۔ محنت کش باپ کا بیٹا جب نظام کی چکی میں پس کر کسی عہدے پر پہنچتا ہے تو وہ اس نظام کی رگ رگ سے واقف ہوتا ہے۔ وہ یہ جانتا ہے کہ نظام ہر انسان کے لئے ایک جیسا کام نہیں کرتا وہ ان حالات پر کڑھتا ہے اور اس کا اظہار قلم کے ذریعے کرتا ہے کیونکہ وہ قلم کی طاقت پر یقین رکھتا ہے۔ غوث پور کے سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے والا یہ منفرد اور ادبی دماغ کسے معلوم تھا کہ ملتان اور بالخصوص بہا الدین زکریا کا ایک معتبر حوالہ بن کر ادبی افق پر چمکے گا جس کی توسیع اس کے طلبہ و طالبات کی صورت میں ہوگی اور پھر ایک نہیں کئی قاضی عابد پاکستان کے کئی شہروں اور جامعات میں علمی ادبی اور فکری روشنی پھیلائیں گے۔

مجھے ہمیشہ اپنے استاد محترم ڈاکٹر شاہد نواز کو دیکھ کر رشک آتا کے کوئی اتنا دل کا سچا اور کھرا کیسے ہو سکتا ہے۔ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی داستان یا انسانی کردار ضرور موجود ہے جس کی جھلک میں اپنے استاد میں محسوس کرتی ہوں داستاں کی کہانی کا سرا میرے ہاتھ تب لگا جب قاضی عابد صاحب سے ملاقات ہوئی سیمینار افسانے کے حوالے سے تھا۔ ڈاکٹر شاہد نواز صاحب میزبانی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے جب قاضی صاحب کو آخر میں ڈائس پر بلایا گیا تو میری بے صبری مزید بڑھی ایک تو قاضی صاحب کو پہلی بار سننا تھا۔ دوسرا اپنے استاد کی شخصیت کو لے کر بہت سے سوالات کے جواب درکار تھے۔ قاضی صاحب ڈائس پر آتے ہی بولے۔

” شاہد صاحب آپ کا وجود ہی میرا بہترین حوالہ ہے۔ باقی تعارف کی کیا ضرورت ہے۔“ ۔
مجھے جھٹکا لگا ایک استاد جو اپنے شاگرد سے جڑنے اور اس کو اپنا حوالہ بنانے میں فخر محسوس کر رہا ہے۔

یار کمال ہے۔ مجھے کہانی سمجھ آنا شروع ہو گئی میرے اردگرد منٹو کے حوالے سے روایتی جملوں نے گردش کرنا شروع کی لیکن کانوں پر پڑنے والی آواز مسلسل منٹو کے فن اور فکر سے پھوٹنے والے موضوعات اور اس کے کرداروں کو بیان کر رہی تھی جس کی بنا پر منٹو پر مختلف طرح کے الزامات لگے مجھے ایک لمحہ کے لیے قاضی صاحب ادب کے ایسے قاری محسوس ہوئے جو ادب سے لطف کشید کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی معنویت سے بخوبی واقف تھے۔ مجھے ایک لمحے کے لیے قاضی عابد صاحب کا منٹو بھلا لگا وہ منٹو جس کی تفہیم قاضی صاحب خوبصورت افسانوں کی صورت میں پیش کر رہے تھے۔ اس دن کی کارروائی میرے ذہن میں آج تک تازہ ہے اور پھر کیا تھا۔ مجھے اپنے استاد کے استاد سے عقیدت ہو گئی۔

ان کی افسانوی ادب سے جڑت اور اس جڑت سے حاصل شدہ تفہیم کے اظہار میں تو کوئی ان کا ثانی نہیں لیکن ایک عادت جس نے مجھے قاضی صاحب کے مزید قریب کی وہ ان کے اختلاف کا طریقہ تھا۔ اختلاف کا جو طریقہ اور شعور ان کے پاس تھا۔ شاید ہی کسی کو میسر ہو بڑی سے بڑی ناگوار بات کو اس انداز میں کہہ جاتے تھے کہ سننے والا انسان حیران رہ جاتا تھا۔

قاضی صاحب اپنے قریب لوگوں کی فکری تربیت کرتے، ان کو روایتی رویوں سے ہٹا کر محبت بھرے انداز میں زندگی کرنا سکھاتے، اپنے قریب لوگوں پر زندگی کے رنگ اس طرح منکشف کرتے کے ان کی وجہ سے زندگی بھلی اور پیاری معلوم ہونے لگتی مجھے کبھی کبھی محسوس ہوتا کہ وہ عہدوں کے لئے نہیں بلکہ عہدے ان کے لئے بنے تھے۔ ایسے استاد کو کیا عہدہ دیا جاسکتا ہے جو انسان میں انسانیت کو اجاگر کرے، جو لوگوں کو زندگی کے نئی معنی عطا کرے، ایسا جوہری جو یہ جانتا ہو کہ میرے پاس موجود کون سا ہیرا کس صلاحیت کا مالک ہے اور اس کی اصل مقام کیا ہے جو ادارے کو وقار عطا کرے اور پھر ایک دن وہ ادارے نہیں بلکہ ادارہ اس کی وجہ سے پہچانا جائے بس یہ سب اتنا آسان نہیں اس کے لیے کتنی خواہشوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔

کتنی ہی من چاہی راہوں کو چھوڑ کر کٹھن راستوں کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ زندگی کا ایک لمبا اور تھکا دینے والا سفر طے کرنا پڑتا ہے جس کے بعد انسان کا وجود سفر کی شدت سے کمزور ہو جاتا ہے لیکن وہ اطمینان اس کمزوری پر حاوی ہوتا ہے جو اسے راستے پر حاصل ہوتا ہے۔ تب اس کی کہانی کئی افسانوی کہانیوں سے زیادہ دلچسپ ہوتی ہے اور پھر آخر میں کئی کہانیوں کو نئی تفہیم عطا کرنے والا شخص جب خود کہانی بنتا ہے تو اس کی تفہیم زیادہ مشکل اور تکلیف دہ ہوتی ہے کیونکہ یہ کہانی اس کردار کی ہوتی ہے جس کردار نے کہانی کو جنم دے کر کئی کہانیوں کو تکمیل تک پہنچایا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments