ایڈیٹر ہوں ضرورت ہے مجھے خون دو عالم کی


(اخبارات اور جرائد میں ادارتی مدیر اور سب ایڈیٹر کا کام ایک دلچسپ مشقت ہوتا ہے۔ کبھی تو انتظار حسین، رضا علی عابدی، انورسین رائے، آصف فرخی، نورالہدیٰ شاہ، شاہد ملک، شاہد محمود ندیم اور لینا حاشر جیسے لکھنے والوں سے واسطہ پڑتا ہے جن کے روشن لفظوں پر نظر ڈالنا بجائے خود ایک اعزاز ٹھہرتا ہے۔ کبھی کچھ لکھنے والے (آپ کے نیاز مند ہی کی طرح) کم علم اور کوتاہ ہنر بھی ہوتے ہیں۔ یہ سوچ کر ان کی تحریروں پر مشقت کی جاتی ہے کہ کبھی کسی نے ہمیں بھی ایسی ہی شفقت سے نوازا تھا۔ نامعلوم، ایسے ان گھڑ لکھنے والوں میں مستقبل کے کتنے مشاہیر پوشیدہ ہیں۔ کبھی کبھار۔ اگرچہ بہت کم۔ کچھ ایسے لکھنے والوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے جو جھاڑ کا کانٹا بن کے چمٹ جاتے ہیں۔ زبان و بیان کمزور، حقائق غیر مصدقہ اور پھر طرہ یہ کہ نت نئی فرمائشیں۔ ہمیں فلاں وقت پر فلاں صاحب سے پہلے فلاں مقام پر شائع کیا جائے۔ کچھ لکھنے والے تو جوتوں سمیت آنکھوں میں چلے آتے ہیں، کہ ”آپ جانتے نہیں ہم کتنے سینیئر ہیں اور صحافت میں ہمارا مقام کیا ہے۔“ خیر، یہ کسی کا گلا نہیں، اپنے پیشے کی روزمرہ مشق کا بیان ہے۔

کوئی ڈیڑھ عشرہ پہلے، آپ کا نیاز مند ایک روزنامہ اخبار میں بطور مدیر “رکھ لیا گیا”۔ وہی دہلی کے چاوڑی بازار میں امبرسر کے تمباکو والی خاتون کی حکایت تھی۔ ”ابن مشرق“ کے قلمی نام سے ایک تحریر موصول ہوئی۔ لکھنے والا ایسا سیر چشم تھا کہ اپنا حقیقی نام تک بتانے کی زحمت نہیں کی۔ اتفاق سے صحافتی زبان و بیان کے پیچ و خم ہی پر مضمون باندھا تھا۔ عزیزو، تحریر کیا تھی، موتیوں کی مالا جڑی تھی۔ کسی چھٹ بھئے قلم گھسیٹ کی کیا مجال کہ ایک شوشہ ادھر سے ادھر کر سکے۔ آج پرانے کاغذات الٹ پلٹ رہا تھا کہ یہ تحریر اچانک سامنے آ گئی۔ جی چاہا کہ آپ کو پڑھوائی جائے۔ آپ کے حسن قرات کے لائق ہے۔ ”ابن مشرق“ صاحب کی پھر کبھی خبر نہیں ملی۔ تحریر سے محض یہ اشارہ مل سکا کہ جماعت اسلامی کی فکر سے وابستہ تھے۔ اگر حیات ہیں تو بہت جئیں۔ اور اگر پردہ فرما گئے تو ان کے لئے آسانی کی دعا ہے۔ و۔ مسعود)

٭٭٭   ٭٭٭   ٭٭٭

ٹی وی دیکھنے کے لیے بیٹھ گیا۔ ہمیشہ کی طرح دل و دماغ ہولناک خدشات کی آماج گاہ بن گئے کہ خوف، دہشت اور ڈپریشن میں اضافے کے سوا کیا ملے گا ٹی وی سے؟ اور یہی ہوا۔ سوئچ آن کرتے ہی خاک و خون کے مناظر سامنے تھے اور منظر کشی کو مزید خوں رنگ کرنے والی برق رفتار آواز جو اینکر پرسن کی فنکارانہ مہارت کے نتیجے میں ”ازدل خیزد بردل ریزد“ کا مصداق بنی ہوئی تھی۔ عام طور پر سنسنی سے واسطہ پڑتا ہے مگر آج معاملہ سنسنی سے بہت آگے بڑھ چکا تھا۔ میں ابتدا میں ٹی وی کے نیوز اور ویوز والے پروگراموں کی روایت۔ سنسنی۔ ہی کے خیالوں میں گم تھا اور سوچ رہا تھا ”ہم اہل ابلاغ سنسنی کو رائج صحافت کا ایک لازمہ کیوں قرار دے چکے ہیں۔ کیوں ہر وقت اس سرخی کی تلاش میں رہتے ہیں جس میں خون کی سرخی جھلک رہی ہوتی ہے۔

ایڈیٹر ہوں ضرورت ہے مجھے خون دو عالم کی
کہ اس سرخی سے بن سکتی ہے سرخی آٹھ کالم کی

سنسنی اور مبالغہ لازم و ملزوم ہیں اور مبالغہ جھوٹ کی سرحدوں سے جا ملتا ہے۔ ہم اہل ابلاغ کو بالعموم اس قسم کی اخلاقیات پر سوچ بچار کے لیے وقت ہی نہیں ملتا۔ ہفت روزہ ”تکبیر“ کراچی کے بانی مدیر محمد صلاح الدین شہید اس رویے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کرتے تھے : ”جو جھوٹ بولا جاتا ہے وہ ضبط تحریر میں آنے اور صفحہ قرطاس کی زینت بننے والے جھوٹ کے مقابلے میں کمتر درجے کا گناہ ہوتا ہے کیونکہ ہم لوگ جھوٹ کو اخبار میں شائع کر کے اسے تاریخ کا حصہ بنا دیتے ہیں۔ اخبار میں شائع کرتے وقت اسے زیادہ سے زیادہ پرکشش بناتے ہیں۔ چیختی چنگھاڑتی سرخیوں سے سجاتے ہیں۔ جھوٹ کو دو آتشہ بلکہ سہ آتشہ بنا ڈالتے ہیں۔“ ہم اہل صحافت کو اپنے گریبانوں میں جھانک کر اپنے آپ سے دریافت کرنا چاہیے کہ ہم قوم اور معاشرے کی کیا خدمت انجام دے رہے ہیں۔

میں جب میدان صحافت میں اترا تو بہت خام تھا۔ حالات کے جبر نے کالج سے اٹھا کر مجھے اخبار کے دفتر میں بٹھا دیا تھا۔ اس دور جہالت میں میں نے کسی لڑکی کے ساتھ زیادتی کی یہ سرخی جمائی: ”جواں سالہ دوشیزہ کی عصمت دری پر اہل علاقہ کا شدید احتجاج“ ایڈیٹر نے بلا کر کہا: ”آپ کے اس پیشے میں آنے سے پہلے صحافت کی کچھ کم عصمت دری نہیں ہو رہی تھی کہ آپ بھی۔“ مجھے اور میرے رفقائے کار کو ایڈیٹر کی جانب سے ابتدا میں جو ہدایات جاری کی گئیں ان میں ایک یہ تھی کہ بہتر ہے کہ اگر کسی لڑکی کے اخلاق سوز حرکت میں ملوث ہونے کی خبر آئے تو اسے گول کر دیا جائے، یعنی اسے اخبار میں شائع نہ کیا جائے اگر مقابلے اور موازنے کا لازمی تقاضا ہو اور اس خبر کو نظر انداز کرنا آپ کے نزدیک ”قابل برداشت“ نہ ہو تو شائع کر دیجیے مگر لڑکی کا نام حذف کر دیا جائے۔ خدانخواستہ کسی کی بچی اغوا ہو جاتی ہے یا بداخلاقی کا شکار بن جاتی ہے تو اس کے ماں باپ کی رسوائی ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔

ہم نے تو اس نصیحت کو تو پلے باندھ لیا مگر جب دیکھا کہ بڑے اور کثیر الاشاعت پرچے تو اس پر عمل نہیں کر رہے تو ہمیں قدرتی طور پر پریشانی ہوئی۔ رفتہ رفتہ یہ پریشانی بڑھتی چلی گئی کیونکہ ہمیں جس اخلاق کا دامن تھامے رکھنے کی نصیحت کی گئی تھی بڑے اخبارات اس کی دھجیاں اڑانے میں نت نئے ریکارڈ قائم کر رہے تھے۔ ایک اخبار جو اشاعت کے حوالے سے سب سے بڑا ہونے کا دعویدار تھا اس کے صفحہ اول پر تین روز تک مسلسل ایک لڑکی کی خبر اس کی متنوع تصاویر کے ساتھ شائع ہوتی رہی۔ چوتھے روز اس خبر کے فالو اپ کا فالو اپ شائع کیا گیا جو اخباری دنیا میں اس وقت تک اپنی مثال آپ تھا۔ یہ فالو اپ صرف ایک تصویر اور اس کے کیپشن کی شکل میں تھا۔ اس کے ساتھ خبر کا متن ناپید تھا۔ یہ تصویر تین روز تک شائع ہونے والی باتصویر خبر والی لڑکی کی بہن کی تصویر تھی جس کے نیچے یہ کیپشن شائع کیا گیا: ”یہ (بداخلاقی کا شکار ہونے والی۔ ) کی بہن ہے جو ایک مقامی کالج میں بی اے کی اسٹوڈنٹ ہے۔“

باتصویر خبروں، فیچرز اور مضامین کا رواج ایسا چلا کہ اخبارات و جرائد میں متن اور مواد کا حجم سکڑتا چلا گیا اور تصاویر کی تعداد بڑھتی SPACE پھیلتی چلی گئی۔ مہذب و شائستہ قارئین کی طرف سے اس رجحان پر تنقید ہونے لگی مگر مقابلے اور مسابقت کے جنون یا صحافت برائے تجارت کے ”دلدادگان“ نے اس تنقید کو خاطر میں لانا ضروری نہیں سمجھا۔ ایک بڑے اخبار کے بڑے ایڈیٹر نے تو ایک دن حد ہی کردی اسے پوچھا گیا: ”جناب! لوگ لڑکیوں کی بلا ضرورت اور بلا جواز تصاویر کی اشاعت اور فحاشی کو فروغ دینے کے رجحان پر سخت نالاں ہیں۔ آپ اپنے قارئین کے اس طبقے کے جذبات کو تو ملحوظ رکھیں۔“ ایڈیٹر کا جواب تھا یہ لڑکیاں ہماری قوم کی اور خود ہماری بیٹیاں ہیں۔ ہم انہیں جس انداز میں بھی پیش کریں ہمارا حق ہے کسی کو اس پر اعتراض چہ معنی دارد۔ اس پر بعض ناقدین نے تو چپ رہنے ہی میں عافیت سمجھی مگر مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر میاں طفیل محمد کا ردعمل بہت سخت تھا۔ انہوں نے کہا: ”اس سے تو بہتر ہے گلبرگ میں چند کوٹھیاں خرید کر جسم فروشی کا باقاعدہ دھندا ہی شروع کر لو۔“ متوازن و معتدل قارئین نے اس ردعمل پر بھی شدید گرفت کی مگر توازن مسلسل مات کھاتا رہا اور انتہا پسندی ترقی کرتی رہی جس کے نتائج اب ہم سب کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں۔

مادر پدر آزادی سے لطف اندوز ہونے والوں میں جو اہل صحافت نمایاں رہے، سوئے اتفاق سے وہ بڑے اداروں کے مالک رہے۔ ان کی صحافت سلطنت اور امارت کی حیثیت اختیار کر چکی ہے (آپ امارت کو متحدہ عرب امارات کا حصہ بھی قرار دے سکتے ہیں ) ۔ آزادی صحافت انجوائے کرنے والے شاید بھول گئے جب ان کی آزادی جبر کے تابع تھی تو آمر ان کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک روا رکھتے رہے ہیں۔ جب ایوب خان نے ایک بڑے اخبار کے ایڈیٹر اور مالک کو تھپڑ رسید کر دیا تھا تو ایک صحافی کا کہنا تھا: ”خدا نہ کرے ہم اتنے بڑے ایڈیٹر بن جائیں کہ تھپڑوں سے ہماری تواضع ہونے لگے اور جب صدر ضیا الحق نے کہا:“ ان کی طرف نوالہ پھینکیں گے تو سب دم ہلاتے چلے آئیں گے ”تو صحافتی آن بان اور شان انتہائی پامال انداز میں خاک میں مل گئی تھی۔ آج منتخب نمائندوں پر تنقید میں ہمارے اخبارات اور ہمارے چینل جو طرز عمل اپنائے ہوئے ہیں اس پر ہم کسی بھی قسم کا اظہار خیال کرنے کی بجائے ان حضرات گرامی سے یہ سوال پوچھنے پر اکتفا کریں گے کہ جس طرح ہمارے ہاں مقتدر ترین شخصیات کی کردار کشی کی جا رہی ہے یا ان کے چہرے مسخ کر کے کارٹون اور“ ڈمیوں ”کی شکل میں چینلز اور اخباری صفحات میں دکھا کر ڈومنیوں کی روایات کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے اس سے صحافت اور جمہوریت کی کون سی خدمت انجام دی جا رہی ہے۔ کیا کسی بھی مہذب ملک میں مقتدر شخصیات کا مضحکہ اڑانے کے اس قسم کے انداز یا رنگ اپنائے جا رہے ہیں۔ آزادی اظہار کی ترقی کا یہ اظہار دیکھ کر لوگ تنزل ہی کو ترجیح دینے لگے تو اس کا سہرا یقیناً ذرائع ابلاغ کے“ بزرجمہروں ”ہی کے سر بندھے گا۔

کی ترقی چشم بد دور ایسی اپنے رنگ میں
اکبر اب مسند نشین بزم رنداں ہو گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments