پوسٹ پارٹم ڈپریشن: زمین، ماں اور لکھاری کا دکھ


وہ شام اسے اچھی طرح یاد ہے جب اس کے ماں بننے کے دن قریب تھے اور وہ اپنے ہونے والے بچے کی گود بھرائی کے فنکشن پر آئے مہمانوں کو رخصت کر کے فارغ ہوئی۔ بہت خوش تھی مگر خاموشی سے اس پر کیف خوشی سے لطف اندوز ہوتی رہی۔ مہمان کیا تھے بس خاندان کی چند قریبی رشتہ دار خواتین تھیں جن کو اس کی ساس نے بلا لیا تھا کہ وہ اس کے زچگی کے خیریت سے ہو جانے کے لیے دعا کریں۔ ساتھ ہی اس کی ساس نے غریبوں کو خیرات بھی کی تھی۔

اور وہ کہتیں کہ ہمارے زمانے میں زچگی سے پہلے اور فصل پک جانے کے بعد کٹ جانے تک کا وقت بہت بھاری سمجھا جاتا تھا۔ ماں پر بھی اور زمین پر بھی۔ اسی لئے جب فصل کٹنے کا وقت ہوتا تو پورے خاندان کی کنواری لڑکیوں کو بلوا کر انھیں خوب ہنسنے کھیلنے کی آزادی دی جاتی اور شام کو انھیں تحفے تحائف دے کر رخصت کیا جاتا تھا۔

وہ اپنی ساس کی توہم پرستی اور فرسودہ رسموں سے ہر وقت نالاں رہتی اور جھنجھلاتی اور سائنسی دلیلیں دیتی کہ کوئی چیز بھاری نہیں ہوتی۔ مگر وہ زیادہ بحث نہ کرتی بس بڑی نرمی سے کہہ دیتی کہ امی آپ لوگوں کے ذہنوں میں ابھی تک آپ کے ہندو اباؤ اجداد کی روایتیں پھنسی ہوئی ہیں۔

لیکن اس کی ساس کہتی بیٹا ماں اور زمین کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ خالق تو بس پیدا کرتا ہے۔ اور اپنی مخلوق کی حفاظت کے لئے کچھ نہ کچھ ٹوٹکے کرتا ہی رہتا ہے ماں اور زمین بھی تو خالق کا روپ ہیں۔ اس کی ساس بڑی سیانی اور پر حکمت خاتون تھی۔ وہ بھی اس کی حکمت پر کبھی تنک کر جواب نہ دیتی۔ دراصل وہ خود ایک جدید علوم سے آراستہ کم عمر نازک سی عام سی لڑکی ہونے کے باوجود folk wisdom پر اکثر غور کرتی۔ لیکن اس وقت تو بس وہ اپنے گھرانے والی خوشی کے تصور سے سرشار رہنے کو ترجیح دیتی۔

اس کے چہرے پر ایک نور تھا جو دن بدن بڑھتا جاتا اور اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا اس کی ماں، ساس اور اس کا شوہر اس کے لئے دعائیں کرتے۔ وہ اپنی اس بڑھتی ہوئی پذیرائی پر بہت نازاں ہوتی۔ اخر کو وہ چند ہی دنوں میں بچہ پیدا کر کے کائنات کو ایک انسان کا تحفہ دینے والی ہے۔ یقیناً وہ خالق کے ساتھ مل کر اس کا ہاتھ بٹا رہی ہے وہ کوئی معمولی کام نہیں کر رہی۔ تخلیق کے عمل میں اس کا کردار کوئی کم تو نہیں۔ اس کا شوہر اور سب گھر والے اس کا ایسے خیال رکھتے جیسے کوئی اپنی فصلوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔

وہ ان خاص التفات پر لہلہاتی رہتی جیسے گنے کی کھڑی فصل کا لہلہاتا میٹھا جنگل، جیسے سرسوں کا بسنتی کھیت، جیسے گندم کی سنہری سرسراتی رقص کرتی فصل اور جیسے بظاہر خاموش مگر مغرور ہرے بھرے کھیت اور ان کے گھمنڈی زمیندار اور کسان جو پک کر تیار ہونے والی فصل کا گردن اکڑا کر معائنہ کرتے اور پیداوار کا تخمینہ لگاتے کھیتوں میں سے گزرتے اور حقے کے کش لگا کر دل ہی دل میں مسکراتے۔ اور اپنی زمین کی زرخیزی پر فخر کرتے۔ اس سارے منظر نامے میں وہ اپنے آپ کو ایک زرخیز زمین اور اپنے گھر والوں کو گھمنڈی مالک سمجھتی۔ پر اس کو کسی چیز کی فکر نہ تھی وہ اس بات پر صرف فخر کرنا چاہتی تھی کہ وہ پیدائش کے عمل میں حصہ لینے جا رہی ہے۔

آخر وہ دن بھی آ گیا جب اس کی فصل پک گئی تھی۔ وہ ہسپتال میں اس کو دنیا میں لانے کے لیے پسینے سے شرابور ہو رہی تھی۔ وہ جان لیوا جسمانی دردوں سے تڑپ رہی تھی اور یہ درد اسے موت سے بھی اشنا کروا رہا تھا مگر اس پر بھی اب خبط سوار تھا اپنی تخلیق کو دنیا میں لانے کا۔ اخر وہ کامیاب ہو گئی اور پسینے میں نچڑے جسم کے ساتھ اس نے ایک اور جسم کو دنیا میں لا پھینکا۔

اس کے وجود کا ایک ٹکڑا اس کے جسم سے الگ ہو گیا تھا۔ اب وہ جسمانی درد سے آزاد تھی۔ اس کی تخلیق اس کی گود میں آ گئی تھی اور وہ بیٹا پیدا کر کے خالق کے رتبے سے سرفراز ہو گئی تھی اور مگر اس کا جسم اجڑ چکا تھا تبھی نرس نے ترس کھا کر اس کی تخلیق کو اس کے بیرونی جسم کے لمس سے واقفیت کے لئے اس کے جسم سے دوبارہ چمٹا دیا تھا۔ اس نے بے ساختہ اپنے ہی جسم کے لوتھڑے کو چوما اور شکر ادا کیا۔

ہسپتال سے واپس آئی تو گھر میں ویسے ہی گہما گہمی تھی جیسے اس کے نانا اور دادا کے کھیتوں میں فصل کٹنے پر ہوتی۔ گنے کے میٹھے بانس پک کر زمین کی گود میں سستا رہے ہوتے۔ کچھ منڈی بھیج دیے جاتے اور کچھ کا میٹھا رس نکال کر گڑ اور شکر بنا لی جاتی۔ کچھ ایسا ادھر بھی تھا اس کے پاس بھی اس کا میٹھا میٹھا گڑ تھا ننھا سا بیٹا اس کی تخلیق۔

چند روز تو ٹھیک گزر گئے وہ جسمانی دردوں، اور پسینے کو خشک کرنے میں مصروف رہی۔ زخم تھے تو ابھی کچے لیکن مندمل ہو رہے تھے۔

اس نے اچانک اپنے پیٹ کو ٹٹولا۔ اس کو اپنا پیٹ جسم کے ساتھ لگا ہوا محسوس ہوا۔ وہ ایک دم خوف زدہ ہو گئی۔ اس کا بچہ اس کی کوکھ میں نہیں تھا۔ کہاں ہے وہ۔ وہ یہ سوچتے ہوئے باہر بھاگی اور سیدھی ساس کے کمرے تک آئی تو ساس نے نصیحت کی کہ ابھی اس کا جسم کچا ہے اس کو بھاگنا نہیں چاہیے۔ اس وقت پہلی مرتبہ اس کو ساس بری لگی۔ لیکن وہ انہی قدموں واپس کمرے میں آئی اور حواس پر قابو پایا اور اپنے پاس پڑی ہوئی چھوٹی سی کریب میں لیٹے ہوئے اپنے بیٹے کو چوما اور ”میرا گڑ“ کہہ کر لپک کر اس کو گود میں اٹھا لیا حالانکہ ہسپتال میں پیدائش کی مشقت کے بہتے پسینوں نے اسے کافی لاغر کر دیا تھا۔

آہستہ آہستہ اس کے لاغر جسم کی طاقت بحال ہو رہی تھی۔ کیونکہ گھر والے اسے کو اچھی خوراک اور ہر طرح کی خدمت کر رہے تھے۔ ننھا ”گڑ“ اب نہ صرف اسے بلکہ سب کو اور میٹھا لگنے لگ گیا تھا۔ کبھی ”گڑ کو دادی اٹھا لیتی، کبھی تایا اور چچا اور پھوپھیاں جو اس کی تخلیق دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ اس کو فخر اور ناز سا ہونے لگتا جب سب گڑ کو گود میں لیتے، پچکارتے اور اس کو مبارکباد دیتے۔ وہ ایک محبت کرنے والی لڑکی جو اب عورت بن گئی تھی سب کو تشکر کی نگاہ سے دیکھتی۔

سب ہی گڑ کی تعریف کرتے۔ کوئی کہتا اس کی انکھیں ماں جیسی ہیں، کوئی کہتا قد باپ جیسا نکلے گا کوئی کہتا بڑا آدمی بنے گا۔ دادا دادی جب اس کے گڑ کی سلامتی کی دعا دیتے تو وہ امین کہتی۔ اور تب تو وہ نہال ہو جاتی جب گڑ اپنے باپ کی گود میں ہوتا۔ وہ دل میں دعا کرتی کہ اس کے باپ کا سایہ ہمیشہ اس پر سلامت رکھے۔ یہ لمحہ اس کے سب لمحوں سے اچھا محسوس ہوتا۔ لیکن دیورانیاں، جیٹھانیاں اور ان کے گھر والے حسد میں ایسے جملے کہہ جاتے کہ وہ رنجیدہ ہو جاتی۔

کوئی اس کے گڑ کو کہتا کہ اس کا رنگ پکا ہے۔ کوئی کچھ تو کوئی کچھ۔ مگر اس کے گھر والے تو بہت خوش تھے یہ بات کافی تھی۔ ۔ لیکن اچانک وہ اداس ہونے لگی۔ بہت اداس۔ بات بات پر رو پڑتی۔ اس کا شوہر اس کی دل جوئی تو خوب کرتا پر اس کو چین نہ اتا۔ ایک احساس بری طرح اس کو لپیٹ رہا تھا کہ کچھ خالی خالی ہے۔ وہ اب اس حد تک اداس ہوتی جا رہی تھی کہ اس کا رونا بند نہ ہوتا۔ اسے لگتا کہ اس کی کوکھ اجڑ گئی ہے۔ گود تو بھر گئی لیکن کوکھ اجڑ گئی تھی۔ اب اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ اب تو روزانہ رونے کا دورہ پڑنے لگتا۔ اکثر ہذیانی کیفیت ہو جاتی۔ اس کی ساس بہت سمجھدار تھی۔ اس نے۔ مشورہ دیا کہ اس کو شدید ڈپریشن ہے اور اسے کسی ذہنی امراض کے ماہر کے پاس لے جایا جائے۔

ڈاکٹر کے کمرے میں جاتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
آپ کیا محسوس کر رہی ہیں ”، ؟ سائیکاٹرسٹ نے سوال کیا۔
” بہت شکستہ، بہت ادھوری“
وہ بولی۔
” بہت خالی“
” کیوں ایسا کیوں ہے؟ اپ کو تو بہت خوش ہونا چاہیے ایک بیٹے کی ماں بن کر“ سائیکاٹرسٹ نے پوچھا

مگر وہ مجھ سے جدا ہو گیا ہے۔ دنیا کی بھڑ گم ہو جائے گا۔ میرا وجود خالی ہو گیا ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ میری کوکھ خالی ہو گئی ہے۔ وہ دنیا میں اگیا ہے۔ دنیا ظالم ہے۔ لوگ اس کو نقصان پہنچائیں گے۔ میرے بچے سے حسد کریں گے ”

اس نے پھر ڈاکٹر سے پوچھا ”ڈاکٹر مجھے رونا کیوں آ رہا ہے۔ میں خوش کیوں نہیں ہوں؟“

پھر ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ اسے پوسٹ پارٹم ڈپریشن ہے یعنی ایسا ڈپریشن جو بچے کی پیدائش کے بعد ہارمون اور نفسیاتی عدم توازن سے ہوتا ہے۔ پھر تھراپی کے ساتھ اس کا دواؤں کے ساتھ علاج شروع ہوا۔ وہ ٹھیک ہو گئی اور دو سال بعد تخلیق کے عمل سے دوبارہ گزری۔ اس مرتبہ اس نے چینی کی طرح میٹھی بیٹی کو پیدا کیا۔ اس کا نام بھی اس کے منفرد ذہن نے چینی ہی تجویز کیا۔ اس کے جسم کے ساتھ اس کا ذہن بھی تخلیقی اور پیدائشی جینز کا حامل تھا۔ اس مرتبہ بھی وہ پوسٹ پارٹم کے کرب سے گزری۔

اب اسے کچھ یاد آنے لگا۔ وہ ناسٹیلجیا میں مبتلا ہو گئی۔
اب سال میں دو بار اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ نانا کے گاؤں جانے کا پروگرام بنا لیتی۔

سال میں دو مرتبہ اس نیم خالی گاؤں میں جہاں اب نہ تو نانا تھے اور نہ اور بہت سے رشتہ دار۔ زمینیں ٹھیکے پر دی جا چکی تھیں۔ وہ بہت سے پیارے مہمان نواز لوگ دنیا سے جا چکے تھے۔ اس کا شوہر بھی ہر سال کے اس بے رونق ہنی مون سے بیزار ہو چکا تھا اور اکثر انکار کر دیتا اور کہتا ”اب وہاں کیا رکھا ہے؟“

” مجھے کسی کی تیمار داری کرنی ہے کسی کو پوسٹ پارٹم ہو گیا ہے۔ “ ۔ وہ کہتی
اس کا شوہر پوچھتا
”کس کو؟“
” گنے، سرسوں اور گندم کے کھیتوں کو“
اس کا شوہر اس کو حیرت سے تکتا۔

اور وہ نانا کے ان کھیتوں کو یاد کر کے پھر سے اداس ہو جاتی۔ اس کو اس کے اس عجیب سے احساس کی یاد اتی جس میں اسے گنے کی فصل، سرسوں کی فصل اور گندم کے فصل کٹنے کے بعد بے سدھ پڑے ہوئے خالی کھیتوں پر ترس اتا۔ ترس کے ان احساسات کو وہ کسی سے شیئر نہیں کر سکتی تھی۔ اس کو بہت چھوٹی عمر میں ہی یہ احساس ہو گیا تھا زمین پر ترس آ سکتا ہے مگر یہ بات کسی کو بتائی نہیں جا سکتی۔ کیونکہ زمین پر کسی کو کبھی ترس نہیں اتا کیونکہ زمین کے جذبات نہیں ہوتے۔

حالانکہ زمین نے اتنی چیزیں پیدا کی ہیں اور کسی کے حوالے کر دی ہیں تو زمین کے کھیت اداس تو ہوتے ہوں گے۔ جب وہ چھوٹی تھی تو کھیتوں پر ترس آنے والے معاملے کو ہرگز کوئی نام نہ دے سکتی تھی اور نہ ترس کے یہ جذبات کسی کو سمجھا سکتی تھی۔ وہ تو اسے جب احساس ہوا جب دو مرتبہ اسے ”پوسٹ پارٹم ڈپریشن“ کے کرب کا سامنا کرنا پڑا۔

اس کی اپنی اولاد اس کو گنے کے خالی کھیتوں کے پاس پڑے ہوئے گنے اور گڑ اور چینی لگتے اور وہ اپنے پوسٹ پارٹم کو زمین سے بھی منسوب کرتی۔ اور یوں اس نے ”زمین اور ماں کے دکھ“ کوایک ہی ماننا شروع کر دیا اور اب وہ اپنے بچپن میں کھیتوں پر آنے والے ترس کو بھی سمجھ گئی تھی کہ اس کو فصل کٹنے کے بعد زمین کے کھیت عجیب اور اداس کیوں لگتے ہیں۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ زمین اور ماں کا دکھ ایک ہے دونوں کو ”پوسٹ پارٹم ڈپریشن ہوتا ہے۔

وقت گزرا اور اس کے اپنے بچے جن کا نام اس نے گڑ اور چینی رکھا تھا دونوں بڑے ہو گئے۔ اب وہ پھر کچھ تخلیق کرنا چاہتی تھی۔ اب کی بار جسمانی تخلیق کے بجائے اپنے ذہن اور قلم سے کچھ تخلیق کرنا چاہتی تھی۔ لکھنے کے جراثیم اسے ورثے میں ملے تھے۔ اس کا باپ اور ددھیالی رشتہ داروں میں سے بہت سے لوگ ادب سے جڑے تھے۔ وہ بھی اس ذہنی تخلیق کے خبط میں مبتلا تھی۔

اس نے لکھنا شروع کر دیا۔ اس کی تحریریں رسالوں میں چھپنے لگی تھیں۔ اس نے اپنی تحریروں کو تخلیق کا نام دیا۔

اس کی پذیرائی ہونے لگی۔ ہر طرف سے داد ملنے لگی۔ اس کی تحریروں پر بھی ویسا ہی نور اور ہریالی نظر اتی جیسے اس کے بچوں کی پیدائش سے پہلے اس کے چہرے پر۔ اور فصل کٹنے سے پہلے گنے، گندم اور سرسوں کے کھیت جیسے رقص میں سرسراتے۔

لیکن جب اسے یہ یقین ہو گیا کہ وہ لکھاری بن گئی ہے تو یوں لگا کہ وہ بالکل اس تجربے سے گزر رہی ہے جیسے اپنے بچوں کی پیدائش پر اسے انوکھا تجربہ ہوا جو بعد میں اس کے لیے کربناک ہونے لگا تھا۔ لکھاری کی حیثیت سے وہ خود اگہی میں ڈوب جاتی۔ وہ سوچتی یہ تجربہ بھی ماں بننے جیسا ہی ہے۔ اسے اسی طرح ایک طرح کے حمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ یعنی کسی خیال کو conceive کرنے بعد بہت سے بے مقصد چکر لگانا، اور لیبر روم کی طرح پسینہ بہانا اور پھر کسی افسانے، کہانی یا تحریر کی پیدائش ہو جاتی۔

یہاں تک سوچنے کے بعد اس نے محسوس کیا کہ اس کے اندر کے لکھاری کو بھی پوسٹ پارٹم ڈپریشن ہو جاتا ہے۔

اس نے اپنا معائنہ خود کیا۔ وہ کچھ عجیب سی حرکات کی مرتکب ہونے لگی تھی۔ پہلے کئی دن کچھ نہ کچھ سوچتی، من گھڑت خیالات اس کو گھیرتے، خود ہی نظریے اور مفروضے بناتی اور بنا کسی مدد کے نقشے بناتی، قصے گھڑتی اور بالآخر خون پسینہ ایک کر کے کوئی کہانی اس سے تخلیق ہو جاتی۔ میگزین میں شائع ہونے کو بھیج دیتی۔ کہانی، تخلیق اور افسانے کا شائع ہونا اس کی شہرت کا باعث بنتا چلا گیا۔ لیکن اس مرتبہ پھر اس کو محسوس ہوا کہ کوئی اور بھی اس کی طرح پوسٹ پارٹم کے کرب سے دوچار ہے۔

وہ سوچتی کہ اب تو اس کے ہاں کسی بچے کی پیدائش نہیں ہوئی پھر بھی اس کا رونے کو دل چاہتا ہے، کبھی وہ بالکل خاموش ہو جاتی۔ کسی ادبی محفل سے بلاوا آتا تو وعدہ کر کے بھی نہ جاتی۔ بہت سوشل ہونے کے باوجود کسی نہ مل پاتی۔ اور ایسا ہر تخلیقی تحریر کے لکھے جانے کے بعد ہوتا۔ کتاب شائع ہونے کے بعد تو حد ہی ہو گئی۔ سب ادبی دوستوں کے فون بھی سننا بند کر دیے۔ ایک عجیب سی تکلیف سے دوچار تھی۔ بے چینی، بے قراری ایسی جیسے کسی عشق میں ناکامی ہو۔

کچھ کھو گیا ہو یا جیسے کوئی بچھڑ گیا ہو، یا کسی پیارے کی موت بلکہ یوں محسوس ہوتا کہ وہ خود مر گئی ہو۔ ۔ اس بار اس نے اپنے دوست سائیکاٹرسٹ سے رابطہ کیا تو اس نے انکشاف کیا کہ پوسٹ پارٹم کا مسئلہ ہے۔ مگر اسے نہیں اس کے اندر کے لکھاری کو۔ جو وقفے وقفے سے پیدائش کے عمل سے گزرتا ہے اور کسی بھی تحریر کے بعد اس کی حالت بھی ماں اور گنے، گندم اور سرسوں کے کھیتوں جیسی ہو جاتی ہے۔ اجڑی کوکھ کی طرح۔ اور یہ اجڑی کوکھ اسے رلاتی ہے، اور اداس رکھتی ہے اگلی ڈلیوری تک۔ اس دوران اسے اپنی تحریروں، اشاعتوں کے تلف ہونے اور اغوا ہونے اور چوری کا ڈر رہتا ہے۔

اس کی اس تشویش نے اس کو متوحش سا بنا دیا تھا۔ اس کی شخصیت میں عدم تحفظ سا اگیا تھا۔ ادیب دوستوں کی شہرت کی بھوک مٹانے کے لئے ادبی چوریوں پر، پبلشروں کی منڈی کے بھاؤ تاؤ پر اور واہ واہ کرنے والے دوستوں کے حسد پر اسے جھنجھلاہٹ ہونے لگتی۔ یوں کبھی غائب ہو جاتی اور کبھی منظر عام پر اجاتی۔ ۔

لیکن اس بار اس نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اپنے مخلص دوستوں کو زمین، ماں اور لکھاری کے دکھ کو شیئر کیا۔ اور شانت ہونے کے کے لئے پوسٹ پارٹم کے دکھ کا مداوا کیا اور پہلے سے بڑھ کر ایک سے ایک اچھی تخلیق کے جھنڈے گاڑ دیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments