کیا مارشل لاء بھی ایک آپشن ہے؟


آدھی کچی آدھی پکی خبروں اور ایسے ہی تجزیوں کی آج کل سوشل میڈیا وی لاگ اور ٹی وی چینلز پر بہتات ہے۔ زیادہ تر بحث پی ٹی آئی کے ڈیفیکٹرز کی تحریک عدم اعتماد کو ووٹ ڈالنے کے بعد ان کی قانونی حیثیت پر ہو رہی ہے، کہ جب وہ عدم اعتماد کے حق میں اور اپنی حکومت کے خلاف ووٹ ڈال دیں گے تو سپیکر ان کے خلاف ڈیفیکشن کلاز کے تحت الیکشن کمیشن کو اطلاع دے دے گا یوں وہ اپنے سیٹ سے ہاتھ دھو لیں گے یوں حزب اختلاف کے لئے بہت بڑا مسئلہ بن جائے گا کیونکہ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد حزب اختلاف نے اسمبلی میں اپنی اکثریت ظاہر کر کے نیا وزیراعظم منتخب کرانا ہو گا۔ ڈیفیکشن کلاز کے نیچے آنے کی وجہ سے حزب اختلاف کے نئے ساتھی تو ڈس کوالیفائڈ ہوچکے ہوں گے یوں نیا وزیراعظم کیسے منتخب کیا جائے گا جب 172 ممبران کی تعداد ان کے پاس پوری نہیں ہوگی؟

لائن کراس کرنے والے ممبران کے نام بیشک سپیکر الیکشن کمیشن کو بھیج سکتا ہے لیکن الیکشن کمیشن آگے کتنے دنوں میں ان کی قسمت کا فیصلہ کرے گا یہ طے نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کو فوراً فیصلہ کرنے پر کوئی مجبور بھی نہیں کر سکتا کیونکہ سپیکر کا کام محض ان کے نام آگے بھیجنے تک ہے۔ چونکہ الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے اس لیے وہ جب تک مطمئن نہ ہو یا ان ناموں کا فیصلہ کرنے کے لئے فارغ نہ ہو ان کو ڈی سیٹ نہیں کیا جاسکتا۔

چونکہ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد حزب اختلاف فوراً نئے وزیراعظم کو منتخب کرنے کے لئے تحریک پیش کرے گی یوں لائن کراس کرنے والے ممبران دوبارہ نئے وزیراعظم کو منتخب کرنے کی خاطر بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ پھر اگر لائن کراس کرنے والے ممبران کو فرض کریں، فوراً ڈس کوالیفائڈ کیا جاتا ہے اور نئے وزیراعظم کو منتخب کرنے کے لئے حزب اختلاف کے پاس بھی مطلوبہ میجارٹی موجود نہ ہو تو اس صورت میں سپیکر کو اسمبلی تحلیل کر کے نئے الیکشن کا اعلان کرنا ہو گا۔ اور نئے انتخابات مسلم لیگ نون کی خواہش کے عین مطابق ہے۔ اس کی یہ خواہش پوری نہ ہو جائے اس لیے تو موجودہ اسمبلی تحلیل کرنے سے احتراز کیا جا رہا ہے کیونکہ پی ڈی ایم کا مطالبہ ہی حکومت کے استعفوں اور نئے انتخابات کے انعقاد کا ہے۔

خان صاحب ماشاءاللہ فائٹر ہیں۔ جس طرح ملک و قوم کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں سنتے ہیں حزب اختلاف کو تحریک عدم اعتماد کے دوران بھی ویسا ہی ٹف ٹائم دیں گے۔ اسمبلی ہال میں تزئین و آرائش اسی کا حصہ ہے۔ ممکن ہے بجٹ وقت سے پہلے اچانک پیش کردے کیونکہ قانوناً بجٹ سیشن جب تک جاری ہو تحریک عدم اعتماد پیش نہیں کی جا سکتی۔ سپیکر کے ساتھ مل کر خان صاحب ہر وہ کام کرنے پر کمربستہ ہیں جس کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد پیش نہ ہو سکے۔

ان کی کوشش ہوگی کہ جیسا بھی ممکن ہو حزب اختلاف کو زچ کیا جائے تاکہ وہ سڑکوں پر توڑ پھوڑ کرنے پر مجبور ہو جائے۔ پہلے ہی پیکا جیسے قوانین بنا کر خبروں کو محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ جھڑپوں اور کریک ڈاؤن کے دوران سچ جھوٹ کا پتہ نہ چل سکے۔ اور جب امن وامان کی صورتحال بہت ابتر ہو تو پھر تیسری فریق جتنی بھی غیر جانبداری کے ارادے ظاہر کرے اور غیر سیاسی ہونے کے اعلانات کردے اسے آنا پڑے گا۔ لیکن ایک دفعہ آیا ہوا وہ واپس کب جاتا ہے کئی بار دیکھا جا چکا ہے۔

حزب اختلاف والوں کو حکومت ملے گی تو ممکن ہے وہ خان صاحب کے ساتھ اس سے بھی زیادہ برا کریں جو انہوں نے حزب اختلاف والوں کے ساتھ کیا ہے اس لئے اس کے لئے بہتر تیسرے فریق کا آنا ہو گا جن کی وجہ سے خان صاحب کی آمد بتائی جاتی ہے۔ یوں خان صاحب کے ساتھ ساتھ اس کے سہولت کار بھی مشرف جیسی صورتحال سے بچ جائیں گے۔

چونکہ پاکستان میں مارشل لا بیرونی ضروریات کی وجہ لگتا رہا ہے اس لیے دیکھنا پڑے گا کہ کیا آج ویسی صورتحال بنتی ہے؟

روس یوکرین میں گھس گیا ہے۔ یوکرین یورپ میں ہے۔ ناٹو وہاں روس کا سامنا نہیں کر سکتا یا نہیں کرنا چاہتا۔ کیونکہ وہاں روس اور ناٹو کی جنگ ہوگی تو اس میں دونوں طرف ایک نسل کے لوگ مریں گے ایک ہی قسم کے شہر تباہ ہوں گے ساری دنیا کی اکانومی برباد ہو جائے گی۔ لیکن روس کو گھیرنے کا صرف یہی ایک راستہ نہیں اور وہ دوسرا راستہ یورپ سے نہیں ایشیاء سے گزرتا ہے۔ ازبکستان تاجکستان کا ہمسایہ افغانستان ہمارا بھی ہمسایہ ہے۔

جہاں پر ایک ایسی حکومت موجود ہے جس کو کوئی منہ لگانے کو تیار نہیں۔ جب اسی کی دہائی میں سوویت یونین افغانستان میں آ رہا تھا تقریباً ایسی ہی صورتحال تھی۔ پاکستان میں ایک نامقبول ڈکٹیٹر کی حکومت تھی ایران میں امریکی مخالف مولوی اقتدار میں آچکے تھے جن کو آج کے افغانستان کی طرح کوئی منہ نہیں لگا رہا تھا۔ سوویت یونین نے موقع مناسب جانا (جبکہ وہ اس کے لئے ایک ٹریپ تھا) اور افغانستان میں گھس گیا، جیسا کہ آج روس یوکرین میں گھس گیا ہے۔ اس وقت بھی سوویت یونین کا خیال تھا کہ وہ کابل پہنچ گیا ہے دو تین مہینے میں حالات قابو میں کر کے آرام سے آگے کا سوچے گا۔ لیکن پھر دس سال وہاں پھنسا ہانپتا رہا۔

آج کی افغان حکومت کی وجہ سے ساری دنیا ہم سے ناراض ہے۔ دنیا پھر راضی ہو سکتی ہے اگر اس کی منصوبے کے مطابق ہم اپنے افغان اثاثوں کو استعمال کرنے پر تیار ہو جائیں۔ کیونکہ اس افغانستان میں حالات وسائل اثاثے اور بھوک سب مہیا ہے۔ انہی اثاثوں کے ذریعے ازبکستان اور تاجکستان میں شورش پھیلا کر روس کو دوطرفہ مسائل میں الجھایا جاسکتا ہے۔ یوں یوکرین پر دباؤ کم کیا جاسکتا ہے۔ اگر ازبکستان اور تاجکستان میں شورش کافی وقت تک برقرار رکھی جائے جو ہماری بھی خواہش ہوگی کیونکہ ہم پرائی جنگوں کو لمبا کرنے کا کافی تجربہ رکھتے ہیں تو ہم پر موجود مالی اور معاشی دباؤ کو کم بھی کیا جاسکتا ہے۔ جب ایک دفعہ عالمی سطح پر ایک بار پھر ہماری افادیت ثابت ہو جائے گی تو پھر عمران خان نواز شریف زرداری کو کون پوچھے گا؟ کیونکہ ان سے پہلے بھی ذوالفقار علی بھٹو بینظیر اور نواز شریف کو کسی نے نہیں پوچھا تھا؟

ایٹمی اسلحہ کے حصول کی طرح اس دوران سی پیک بھی حاصل کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔ چین کو بھی اس قسم کی صورتحال سے خاطر خواہ فائدہ پہنچ سکتا ہے کیونکہ وہ مغرب اور امریکہ کے دشمن نمبر ون کی حیثیت کھو دے گا بلکہ اس کو مغرب اور امریکہ سے مطلوبہ مراعات بھی مل سکتی ہیں۔ پاکستان مالی معاشی اور سیاسی طور پر ایک بار پھر آئی سی یو سے نکل کر پوسٹ آپریشن کی پوزیشن میں پہنچ سکتا ہے۔ ممکن ہے روس نے بھی اسی صورتحال کا اندازہ لگا کر سد باب کے طور پر ہمارے وزیراعظم کو عین حملے کے دنوں میں سرکاری مہمان بنانا مناسب سمجھا ہو۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ پاکستان کے مفادات روس کے ساتھ نہیں یوکرین اور مغربی دنیا کے ساتھ وابستہ ہیں۔

عراق پر امریکی حملے کے دوران پاکستان میں بینظیر بھٹو کی حکومت تبدیل کردی گئی تھی تاکہ اسٹیبلشمنٹ کو کھل کھیلنے کا موقع مل سکے۔ عراق تو کافی دور ہے جبکہ یوکرین پر حملہ کرنے والا ملک تو ہمارا ایک گھر چھوڑ کر ہمسایہ ہے۔

یاد رکھیں حالات اتنے بھی سیاستدانوں کے اختیار میں نہیں ہیں جتنے انگلینڈ میں بیٹھا نواز شریف سمجھتا ہے۔ ڈیڑھ مہینے سے امریکہ کہہ رہا تھا کہ روس یوکرین پر حملہ کرنے والا ہے اور روس سمیت پوری دنیا اسے پروپیگنڈا کہتی رہی لیکن ہوا وہی جو امریکہ نے کہا تھا۔ اب یہ سمجھنا کہ امریکہ روسی حملے سے باخبر تھا اور یہ نہیں جانتا کہ اس نے ردعمل میں کیا کرنا ہے بین الاقوامی سیاست سے لاعلم لوگوں کا خیال ہے حقیقت نہیں۔

قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم کے روس جانے سے کئی دن پہلے اسٹیبلشمنٹ نے یورپ جاکر اپنے مذاکرات مکمل کیے ہیں۔ یورپ میں یوکرین ہے۔ یورپ میں برسلز ہے۔ یورپ میں ناٹو ہے اور یورپ میں ہمارے طاقتور حلقے بھی کہیں پر مصروف تھے۔ جن کے بارے میں حقیقی خبروں کی بجائے محض ٹامک ٹوئیاں ماری جا رہی تھیں۔ ”جہاز گیا اور جہاز چھوڑا اور دو دفعہ مذاکرات کیے وغیرہ وغیرہ“

جنگ تھی نہ کوئی ایمرجنسی، نہ علاقائی جغرافیہ میں کوئی ہلچل، پھر ملک بدترین حالت میں ہے اور ایسے میں ایک آرمی چیف خود کو مصیبت میں ڈالنے کے لئے ایکسٹینشن لیتا ہے۔ کیا اس سے پہلے عسکری سربراہوں نے ایسے حالات میں ایکسٹینشن لی تھی؟ یا اردگرد کوئی ہلچل اور گڑبڑ جاری تھی یا ہونے والی تھی۔ تو پھر اب کیا ہوا تھا کہ ایک کیرئیر افسر اپنی سروس کی پیک پر پہنچ کر بدترین سیاسی معاشی اور سفارتی ملکی صورتحال میں ایکسٹینشن لینے کا شوق پورا کرے۔ عمران خان جیسے ساتھی تو جونیجو، جمالی اور شوکت عزیز بھی تھے۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments