میاں والی کی نوزائیدہ بچی اور روحانی بابا جی کے بھاشن


عورت مارچ، می ٹو یا عالمی یوم خواتین بلاوجہ نہیں ہیں نہ ہی یہ ایک دم سے وجود میں آئے ہیں بلکہ ان کے پیچھے نہ جانے کتنی بچیاں، لڑکیاں، عورتیں اور بوڑھیاں ہیں جو کچل دی گئیں، مار دی گئیں، جلا دی گئیں۔ چہروں پر تیزاب پھینک دیا گیا۔ ونی کردی گئیں۔ کاروکاری کی بھینٹ چڑھا دی گئیں۔ ستی کردی گئیں۔ لونڈیاں بنا کر بازاروں میں بیچ دی گئیں۔ جنسی دوزخوں میں پھینک دی گئیں۔ لوہے کے جانگیوں (کچھوں ) میں جکڑ دی گئیں۔

جنسی شہوت بڑھانے اور گھٹانے کے لئے ان کا کلائیٹورس کاٹ کر ان کو مختون کر دیا گیا۔ برتھ کینال ٹانکے لگا کر سی دی گئی اور شادی سے کچھ روز پہلے چیرا لگا کر دوبارہ کھول دی گئی۔ اونٹوں سے دونوں پاؤں بندھوا کر انہیں مخالف سمتوں میں بھگا کر درمیان سے چیر دی گئیں۔ حاملہ عورتوں کا پیٹ چاک کر کے جنین کو ان کے سامنے ذبح کر دیا گیا جسے انہوں نے اس لمحے دیکھا جب ان کی اپنی شہ رگ کاٹی جا رہی تھی۔ ماں بچہ دونوں ایک ساتھ وہیں ٹھنڈے ہو گئے۔

ممالیہ جانوروں میں یہ دو پایہ واحد جانور ہے جو اپنی ہی مادہ کو زندہ درگور کرتا رہا ہے۔ زندہ جلاتا رہا ہے۔ کلہاڑیوں اور تلواروں سے اس کی کھال ایسے اتارتا رہا ہے جیسے عید الاضحی ’پر بکری اور بھینس کی اتاری جاتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ بکری بھینس کو پہلے ذبح کر دیا جاتا ہے تاکہ مزید اذیت سے بچ سکے۔ اس نے مگر وہ تاریخیں رقم کی ہیں کہ پہلے پاؤں سے لے کر سر تک زندہ کی کھال اتاری۔ وہ چیختی چلاتی رہی لہولہان ہو گئی۔ پھر اس کے نازک اعضا کاٹے اور پیٹ چاک کیا اور اسی مرحلے پر اس کی جان نکل گئی۔

سوات کی معصوم بچی جب گھر آ کر بتاتی ہے کہ قاری صاحب نے میری شلوار میں واش روم کر دیا یا پھر میانوالی کی ہفت روزہ شیرخوار کے ننھے سے سینے میں اس کے کل وزن کے ہندسوں سے زیادہ گولیاں اتار دی جاتی ہیں تو یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ عالم حیوانات میں وہ بہ ہر حال اس نر دو پایے سے کئی سیڑھیاں نیچے کھڑی ہے بلکہ پڑی ہے۔ میانوالی کی بالشت بھر ننھی جان سے لے کر بے شمار میاں والیوں کی داستان خونچکاں وہ کتاب ہے جس سے استحصال کنندہ کو مفر نہیں۔

آپ جو مرضی دلائل گھڑ لائیے۔

ظلم اوروں پر بھی ہوتا ہے۔ مردوں پر بھی ہوتا ہے۔ خواجہ سراؤں پر بھی ہوتا ہے۔ فلاں پر بھی ہوتا ہے۔ ڈھمکاں پر بھی ہوتا ہو گا۔ اس سب سے مگر ہم آپ عورت کے مقدمے سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔

کہیں نہ کہیں تو کچھ غلط ہو رہا ہے۔ کوئی نہ کوئی تو گڑبڑ ہے۔ آخر صدیوں پر پھیلی اس درندگی اور شقاوت قلبی کو کہیں سے تو ہوا مل رہی ہے۔ ہو سکتا ہے مہذب دنیا میں اس مخلوق کو برابری اور حقوق مل چکے ہوں یہاں مگر ایسا نہیں ہے۔ یہاں تو سرکاری ٹیلی وژن پر مشہور زمانہ روحانیت کے بابا جی دیوتا جو ساری زندگی اٹلی یورپ کے ساحلوں پر عیاشیاں مارتے رہے پیراں سالی میں چند صم بکم خواتین و حضرات کو گول میز پر بٹھا کر اور بیک گراؤنڈ میں چرخہ چلوا کر ایک سالم گھنٹہ صرف یہ فلسفہ بیان کرتے ہیں کہ بچپن میں ان کی اماں جب انہیں سکول جانے کے لئے تیار کرتی تھیں تو ناشتے کی میز پر ان کا، ان کے بھائیوں کا اور باپ کا کھانا لگا دیتی تھیں۔ میز پر دنیا جہاں کا من و سلوی ’چنا ہوتا۔ ان کی بہن مگر پھٹے پرانے میلے کچیلے لباس میں دور بیٹھی ان کے بوٹ پالش کرتی رہتی۔ اور جب وہ سب کھا کر چلے جاتے تو ماں اسے رات کی بچی ہوئی باسی روٹی سالن کی خالی دیگچی کے ساتھ پکڑا دیتی جسے وہ اسی روٹی کے نوالوں سے رگڑ رگڑ کر صاف کرتی رہتی اور دیر تک جگالی کرنے کے بعد پانی کے دوچار گھونٹ پی کر جھاڑو پوچے میں لگ جاتی۔

پوچھنے پر ماں نے بتایا کہ اسے اگلے گھر جانا ہے وہاں خدا جانے کیسے حالات ہوں۔ لہذا میں اس کی عادتیں خراب نہیں کرنا چاہتی۔

پروگرام کے آخر میں بابا جی نے فرمایا

” تو خواتین و حضرات آپ بھی اپنی بچیوں کی عادتیں بالکل خراب نہ ہونے دیں۔ بھائیوں اور گھر کے دوسرے مرد حضرات کی برابری کرنے سے ان کی حوصلہ شکنی کریں۔ اللہ تعالی ’آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔“

ناقص العقل کے ساتھ ایسا ہی تو ہونا چاہیے۔ مجازی خدا کے جسم میں اگر زخم ہوجائیں، وہ زخم پیپ اور خون سے بھر جائیں، پھر ان زخموں میں کیڑے پڑ جائیں اور مجازی خدا کی بیوی اپنی زبان و دہن سے چاٹ کر اور چوس کر وہ زخم ایسے صاف کرے کہ ان کی غلیظ راد تک پی جائے تب بھی مجازی خدا کا حق ادا نہ ہو گا۔

کرتوت چیک کر رہے ہیں آپ مجازی خدا کے؟

میں مزاح لکھتا ہوں۔ جیسا کہ عام خیال ہے کہ مزاح نگار اندر سے بذات خود بہت دکھی ہوتا ہے۔ اور وہ سماج کی خرابیوں، صعوبتوں اور دل شکن سانحات سے کٹے پھٹے بدنوں پر طنز و مزاح کا مرحم رکھ دیتا ہے۔ یہ مرہم کچھ وقت کے لئے ہی سہی مگر جسم میں اٹھتی تکلیف کی لہروں کو کم ضرور کر دیتا ہے۔ لیکن جب پشاور کی مسجد میں گوشت پوست کے پینسٹھ اجسام حصوں بخروں میں بٹ جائیں اور میانوالی میں سات دن کی نومولود بچی کو گولیوں سے چھلنی کر دیا جائے تو میں ان زخموں پر کون سا مرہم رکھوں؟

میں ڈاکٹر ضرور ہوں مگر میرے پاس ان زخموں کی کوئی دوا دستیاب نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments