ایم کیو ایم کے سیاسی اتحادوں کی تاریخ: ’حکومت میں جانے نہ جانے کے فیصلے اُوپر سے ہوتے‘

جعفر رضوی - صحافی، لندن


’تحریکِ عدم اعتماد کے لیے میں نے فرضی ناموں سے لاہور اور اسلام آباد کے کئی خفیہ دورے کیے‘۔ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے وفاقی وزیرِ انفارمیشن ٹیکنالوجی و سائنس امین الحق نے انکشاف کیا۔

‘اور یہ بھی ہوا کہ وزیر اعظم کے لیے ایک امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا مگر حکومت بنوائی کسی دوسرے امیدوار کی’، ایم کیو ایم کے سینیٹر فیصل سبزواری نے بھی دعویٰ کیا۔

’ایسا بھی ہوا کہ اعلیٰ ترین قیادت کو بھی ایک گھنٹے پہلے تک یہ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ ہم حکومت سے نکلنے والے ہیں۔۔۔‘ فیصل سبزواری نے کہا۔

ایم کیو ایم پاکستان سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں، جن میں سے ایک اس وقت بھی وفاقی حکومت میں تحریک انصاف کی وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں، سے یہ گفتگو ایک ایسے وقت میں ہوئی جب وزیر اعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا ہے اور حکومت بچانے کے لیے اتحادیوں کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔

لیکن حکومت میں شامل اہم اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر اور سینیٹر دونوں ہی نے لگی لپٹی رکھے بغیر ماضی میں پارٹی کے حکومتوں میں آنے اور جانے کے سوال پر بی بی سی سے بے باک گفتگو میں کُھل کر انکشافات کرنے میں کوئی تامل نہیں کیا۔

دونوں رہنماؤں سے میری بات چیت ایسے وقت ہوئی جب وزیر اعظم عمران خان ایک مشکل وقت میں کراچی کا دورہ کر رہے ہیں جس میں وہ بہادر آباد میں متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز گئے اور رہنماؤں سے بھی ملے۔

اس ملاقات کے بعد وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والی ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس ملاقات میں سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا اور ایم کیو ایم کی طرف سے مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی گئی۔

دوسری طرف پاکستانی ذرائع ابلاغ میں جہاں تحریک انصاف کے دیگر اتحادیوں کی وفاداری اور حکمت عملی پر بحث ہو رہی ہے وہیں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا ایم کیو ایم موجودہ سیاسی صورتحال میں کنفیوژن کا شکار ہے؟

آئیے۔۔۔ ایسے میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی اس گفتگو کی روشنی میں یہ جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ماضی میں تحریک عدم اعتماد، حکومت سازی یا سیاسی اتحاد کی حکومتوں میں ایم کیو ایم کے ’آنے جانے‘ کی وجہ سے اس جماعت اور اتحادیوں کی سیاست کیا رُخ اختیار کرتی رہی۔

جب ایم کیو ایم پہلی بار پارلیمانی طاقت بنی

جنرل ضیا الحق

17 اگست 1987 کو صدر جنرل ضیا الحق کی طیارہ حادثے میں ہلاکت کے بعد 16 نومبر 1988 کو جب بہت طویل مارشل لا کے بعد ملک میں جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات ہوئے تو ایم کیو ایم کو پہلی بار پارلیمانی طاقت تسلیم کیا گیا۔

تب ایم کیو ایم کراچی و حیدرآباد سمیت سندھ کے شہری علاقوں کی 25 اور قومی اسمبلی کی 13 نشستوں پر فاتح رہی اور ملک کی ’تیسری بڑی سیاسی جماعت‘ بن کر اُبھری۔ ان انتخابات میں ملک بھر میں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی پیپلز پارٹی نے حکومت بنانے کے لیے ایم کیو ایم سے شراکت اقتدار کا معاہدہ کیا تو ایم کیو ایم بھی پہلی بار کسی سیاسی اتحاد کا حصہ بنی۔

پاکستان کے موجودہ وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کام امین الحق ایم کیو ایم کے بانی رہنماؤں میں شامل ہیں۔ سنہ 1988 کے انتخابات میں امین الحق بھی رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

’آج میں تمہیں اس ملک اور ایم کیو ایم کی تاریخ اور سیاست کے بہت سے راز بتاتا ہوں‘، امین الحق نے مجھ سے اپنی گفتگو کا آغاز کچھ اس طرح کیا۔

’بینظیر، نواز شریف اور صدر غلام اسحاق، سب نے رابطہ کیا‘

’1988 کے انتخابات میں بڑی سیاسی قوتوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور مخالف مسلم لیگ نون اور اُس کی اتحادی جماعتوں پر مشتمل اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) دونوں ہی واضح اکثریت یا حکومت سازی کے لیے قومی اسمبلی کی نشستوں کی مطلوبہ تعداد حاصل نہیں کر سکے تھے۔ دونوں ہی کو حکومت سازی کے لیے کسی کی حمایت اور مدد درکار تھی۔ ایسے میں ایم کیو ایم کی 13 نشستیں انتہائی غیر معمولی اہمیت اختیار کر گئیں۔‘

’نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں ہی نے ہم سے رابطہ کیا، تیسری جانب (اُس وقت کے) صدر غلام اسحٰق خان نے بھی ہمیں اسلام آباد طلب کیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ ایم کیو ایم کس کی حمایت پر آمادہ ہے۔ ایم کیو ایم نے ایک وفد صدر اسحٰق سے ملاقات کے لیے اسلام آباد بھیجا۔‘

’وفد میں بانی ایم کیو ایم الطاف حسین اور منتخب رکنِ قومی اسمبلی اور پارٹی کے مرکزی رہنما کی حیثیت سے میرے (امین الحق کے) علاوہ زرین مجید اور (اُس وقت) ایم کیو ایم کے مرکزی سیکریٹری فنانس ایس ایم طارق بھی شامل تھے۔ ایم کیو ایم کے بانی رہنما اختر رضوی بھی وفد میں شامل تھے مگر پارٹی فیصلے کے تحت اُن کی ہمارے ساتھ موجودگی خفیہ رکھی جا رہی تھی لہٰذا وہ جہاز میں بھی ہم سے الگ اور بظاہر لاتعلق بیٹھے ہوئے تھے۔‘

’راز کی بات یہ ہے کہ کراچی سے ہماری پرواز کو براستہ لاہور اسلام آباد پہنچنا تھا۔ لیکن جیسے ہی یہ طیارہ لاہور کے ہوائی اڈے پر اُترا، تو واضح ہو گیا کہ اُسے وی وی آئی پی لاؤنج کی جانب لے جایا جا رہا ہے۔ جیسے ہی جہاز کے دروازے کُھلے تو (اُس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف کے معتمد خاص) حسین حقانی جہاز کی اندر آ گئے۔‘

’حسین حقانی نے ہم سے درخواست کی کہ نواز شریف ہم سے ملنا چاہتے ہیں اور وی وی آئی پی لاؤنج میں موجود ہیں۔ پلیز آپ اُن سے ملاقات کر لیجیے،‘ امین الحق نے انکشاف کیا۔

ماضی میں حسین حقانی سمیت کئی اہم شخصیات بی بی سی سے گفتگو میں مان چکی ہیں کہ سنہ 1978 میں کراچی یونیورسٹی میں ایم کیو ایم کی پیشرو طلبا تنظیم آل پاکستان مہاجر سٹوڈینٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) کے قیام کے ابتدائی زمانے میں (اس وقت کے طالبعلم رہنما کی حیثیت سے) حسین حقانی دائیں بازو کے شدت پسندوں کے ایک حملے کے دوران الطاف حسین کو تشدد کا شکار ہونے سے بچانے میں کردار ادا کر چکے تھے۔

وفاقی وزیر امین الحق نے بتایا کہ ’جب ہم لاؤنج میں پہنچے تو وہاں نواز شریف اپنی ٹیم کے ساتھ موجود تھے جن میں (موجودہ سپیکر پنجاب اسمبلی) پرویز الہٰی بھی شامل تھے۔

امین الحق نے کہا کہ نواز شریف سے ملاقات میں فیصلہ ہوا کہ سیاسی اتحاد کے لیے مسلم لیگ اور ایم کیو ایم کے دو دو اراکین پر مشتمل کمیٹی بنا دی جائے۔ کمیٹی میں اُدھر سے حسین حقانی اور ایم کیو ایم سے مجھے نامزد کیا گیا‘۔

’اسلام آباد پہنچ کر فیصلہ کیا پیپلز پارٹی سے اتحاد ہو گا‘

بینظیر بھٹو

’مگر اسلام آباد پہنچ کر ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے۔ پیپلز پارٹی سے مذاکرات کے لیے ایک تین رکنی کمیٹی بنائی گئی جس میں ڈاکٹر عمران فاروق، میں (امین الحق) اور محمد یوسف شامل تھے۔ پیپلز پارٹی سے پی کے شاہانی، اقبال یوسف اور اجمل دہلوی رکن بنے۔، امین الحق نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا۔

ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما اور موجودہ سینیٹر فیصل سبزواری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس فیصلے کے بعد جب بے نظیر بھٹّو عزیز آباد آئیں تو ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کے ساتھ 51 نکات پر مشتمل شراکت اقتدار کا ایک تحریری معاہدہ کیا۔ بدقسمتی سے اس معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہو سکا اور اختلافات کے نتیجے میں محض 11 ماہ بعد ہی دونوں جماعتوں کا اتحاد بالآخر ختم ہو گیا۔‘

امین الحق کا کہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی سے یہ معاہدہ اس لیے ٹوٹا کہ پیپلز پارٹی نے 51 میں سے صرف ایک مطالبہ پورا کیا۔ ہمیں وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی پیشکش کی گئی تو ہم نے معذرت کر لی، پھر حج اور مذہبی امور کی وزارت پیش کی گئی تو بھی ہم نے معذرت کر لی۔ جب پیپلز پارٹی نے باقی مطالبات نہیں مانے تو دوریاں ہو گئیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور پارلیمان میں تیسری قوت کا کردار

لندن جیوری کا فیصلہ کیا ’مائنس الطاف حسین‘ فارمولا کو تبدیل کر سکے گا؟

اے پی ایم ایس او: ’داخلوں سے محروم طلبا‘ کراچی کے کنگ میکر کیسے بنے؟

فرضی نام سے اسلام آباد، لاہور کے خفیہ دورے

امین الحق نے کہا کہ ’پھر مارچ 1989 میں آئی جے آئی سے ہمارا دوبارہ رابطہ ہوا۔ حسین حقّانی ساتھیوں کے ساتھ کراچی آئے اور پھر کئی خفیہ دورے میں نے بھی کیے۔ ان دوروں کا کریڈٹ زاہد سرفراز، عبدالستار لالیکا، ملک نعیم کو بھی جاتا ہے جو مجھ سے ہمہ وقت رابطے میں رہتے تھے۔ میں فرضی نام استعمال کرتے ہوئے لاہور اور اسلام آباد کے خفیہ دورے کرتا رہا۔‘

’بے نظیر بھٹّو کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی ہماری ان ہی ملاقاتوں کا نتیجہ تھا،‘ امین الحق نے انکشاف کیا۔

ماضی میں ایم کیو ایم کے پارلیمانی دستے کا رکن رہنے والے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ ’بے نظیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد خفیہ اداروں نے ہی منظم کی تھی۔‘

’اس زمانے میں بھی یہ سب کچھ یعنی گیٹ نمبر چار، چمک، اشارے، امپائر سب کچھ ہوتا تھا۔ تحریک عدم اعتماد ہم اُن کے ساتھ مل کر ہی لائے تھے۔‘

’اس وقت کے جو تمام لوگ تھے ناں ! وہ بھی بی بی (بینظیر بھٹّو) سے ناراض تھے۔ اور بضد تھے کہ تحریک عدم اعتماد لائی جائے۔ اُن سے ہماری بات چیت ہوتی رہی اس معاملے پر۔ پیپلز پارٹی کے خلاف رجحان اتنا شدید تھا کہ تب ہم سب بھی ایک ہی پیج پر تھے۔‘ شناخت خفیہ رکھنے کی درخواست کرنے والے ایم کیو ایم رہنما نے انکشاف کیا۔

قرآن پر حلف

اگرچہ موجودہ وفاقی وزیر امین الحق نے اپنے پرانے ساتھی کے دعوے کی تردید یا تصدیق نہیں کی مگر اس سوال سے گریز کرتے ہوئے اتنا ضرور بتایا کہ ‘میں اُن لوگوں سے ملتا تھا جو پیپلز پارٹی چھوڑ کر آئی جے آئی میں شامل ہو رہے تھے۔ وہ میرے ہی سامنے قرآن پر حلف اٹھاتے تھے۔‘

’ان میں پنجاب کے کئی اراکین اسمبلی کے علاوہ سندھ سے قربان علی شاہ، رانا چندر سنگھ اور ایک اور تھے جن کا نام مجھے یاد نہیں مگر ان کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی۔ رانا چندر سنگھ کے علاوہ باقی سب نے قرآن پر حلف اٹھایا کہ وہ پیپلز پارٹی چھوڑ دیں گے۔‘

’پھر ہم نے نواز شریف کی آئی جے آئی سے اتحاد قائم کیا‘، امین الحق نے کہا۔

چھ اگست 1990 کو صدر غلام اسحٰق خان نے بے نظیر کی پہلی حکومت کو بدعنوانی سندھ میں امن و امان کی خراب صورتحال اور دیگر الزامات کے تحت برطرف کر دیا تو قومی و صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں۔

24 اکتوبر 1990 کو پھر عام انتخابات کے نتیجے میں آئی جے آئی کی حکومت قائم ہوئی تو ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی 15 اور صوبائی اسمبلی کی 28 نشستیں حاصل کیں۔

شناخت ظاہر نہ کرنے والے ایم کیو ایم رہنما نے دعویٰ کیا کہ ‘سیاسی حلقے تب اتنے بااختیار ضرور تھے کہ بعض اوقات گیٹ نمبر چار یا اشارہ کرنے والوں کی بھی کوئی فرمائش رد کرنے کی ہمّت کر لیا کرتے تھے۔’

’1990 کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے فرمائش کی کہ پروفیسر غفور (جماعت اسلامی کے مرحوم رہنما) کو فیڈرل بی ایریا کی نشست سے انتخاب لڑوایا جائے۔ مگر ہمارا آئی جے آئی سے رابطہ بن چکا تھا تو ایم کیو ایم نے تمام تر دباؤ کے باوجود اُن کی یہ بات نہیں مانی۔

مجھ سے خود اس زمانے میں ’بڑے صاحب‘ نے کہا کہ یہ نشست پروفیسر غفور کو دے دیں مگر ہم نہیں مانے، انھوں نے بتایا۔

نواز شریف سے اتحاد اور کراچی آپریشن

نواز شریف

سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا کہ ’پھر ہم نواز شریف کے ساتھ اتحاد میں چلے گئے۔ نواز شریف وزیر اعظم اور جام صادق علی وزیر اعلیٰ سندھ بنائے گئے۔‘

‘لیکن اس مخلوط حکومت میں رہتے ہوئے بھی جب ہمارے خلاف 19 جون 1992 کو ریاستی آپریشن (کراچی آپریشن کلین اپ) کا سلسلہ شروع ہوا تو ہم نواز شریف کی حکومت سے بھی علیحدہ ہو گئے۔’

’نومبر 1990 سے جون 1992 تک ہم نواز شریف کے اتحادی رہے پھر ہم نے استعفیٰ دیے، کچھ کے منظور ہوئے کچھ کے نہیں ہوئے‘، فیصل سبزواری نے کہا۔

18 اپریل 1993 کو وزیر اعظم سے اختلافات پر صدر غلام اسحٰق خان نے 58,2b کے تحت نواز شریف کی حکومت برطرف کر دی۔ اگرچہ 26 مئی 1993 کو سپریم کورٹ نے نواز شریف حکومت بحال کر دی مگر 18 جولائی 1993 کو صدر اسحٰق اور وزیراعظم شریف دونوں ہی کو ’جنرل وحید کاکڑ فارمولے‘ کے تحت مستعٰفی ہونا پڑا۔

فیصل سبزواری کے مطابق 6 اکتوبر 1993 کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کیا مگر صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں سندھ کی 28 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

بے نظیر بھٹو کی حکومت اور اقتدار سے دوری

بے نظیر بھٹو

فیصل سبزواری نے بتایا کہ ’بینظیر بھٹّو پھر وزیر اعظم مقرر ہوئیں جبکہ عبداللّہ شاہ (موجودہ وزیر اعلیٰ سندھ کے والد) وزیراعلیٰ سندھ بن گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب ایم کیو ایم مسلسل لگ بھگ چار سال اقتدار سے علیحدہ رہی۔‘

’ایم کیو ایم مسلسل نہ صرف حزب اختلاف بلکہ عتاب میں بھی رہی۔ جیل سے وین بھر کر آتی تھی اراکین سندھ اسمبلی کی۔ فاروق ستّار، وسیم اختر، رضا ہارون سب جیل سے لائے جاتے تھے اسمبلی کے اجلاس میں‘، فیصل سبزواری نے کہا۔

واضح رہے کہ اس دوران سندھ میں امن و امان کی صورتحال حد درجے خراب رہی اور کراچی آپریشن کے دوران ایم کیو ایم کے سینکڑوں کارکنان ماورائے عدالت قتل یا (مبینہ اور متنازع) پولیس مقابلوں کا شکار ہوئے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار اور افسران بھی بڑی تعداد میں گھات لگا کر کیے جانے والے حملوں میں جان سے گئے۔

تھانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تنصیبات یا گاڑیوں پر حملے اور قتل و غارت معمول بن کر رہ گئی۔ ہزاروں افراد کی ایسی ہلاکتوں کا نکتۂ عروج تب آیا جب خود بینظیر بھٹّو کے اپنے ناراض بھائی اور رکن سندھ اسمبلی میر مرتضی بھٹّو 20 ستمبر 1996 کو پولیس سے ایک انتہائی متنازع مڈ بھیڑ میں جان کی بازی ہار گئے۔

ان حالات میں خود پیپلز پارٹی کے مقرر کردہ اور بینظیر کے قریبی ساتھی صدر فاروق احمد خان لغاری نے پانچ نومبر 1996 کو بینظیر بھٹّو کی حکومت کو لاقانونیت اور بدعنوانی کے الزامات میں برطرف کر دیا۔ قومی و صوبائی اسمبلی بھی تحلیل کر دی گئی۔

نواز شریف سے ایم کیو ایم کا ایک اور اتحاد جو حکیم سعید کے قتل پر ٹوٹ گیا

کراچی آپریشن

تین فروری 1997 کو عام انتخابات ہوئے اور ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی 12 نشستیں حاصل کیں۔ سینیٹر فیصل سبزواری نے بتایا کہ 1997 میں نواز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم منتخب ہوئے تو ایم کیو ایم ایک بار پھر اتحادی بن کر نواز شریف کی حکومت میں شامل ہو گئی۔ لیاقت جتوئی ایم کیو ایم کی مدد سے سندھ کے وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے۔

17 اکتوبر 1998 کو ہدف بنا کر کیے جانے والے حملے میں سندھ کے سابق گورنر حکیم محمد سعید کو قتل کر دیا گیا۔ فیصل سبزواری کہتے ہیں کہ ‘وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی ہی اتحادی جماعت یعنی ایم کیو ایم کے خلاف پریس کانفرنس کر کے حکیم سعید قتل کا الزام ایم کیو ایم پر ہی عائد کر دیا تو ایم کیو ایم ایک بار پھر حکومت سے علیحدہ ہو گئی۔’

لیکن 12 اکتوبر 1999 کو بالآخر (اس وقت کے آرمی چیف) جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

جنرل پرویز مشرف سے لے کر آصف زرداری تک

جنرل پرویز مشرف

10 اکتوبر 2002 کو پھر انتخابات ہوئے اور ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی 19 اور صوبائی اسمبلی کی 51 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور میر ظفر اللّہ خان جمالی وزیر اعظم مقرر ہوئے اور صوبے میں علی محمد مہر اور پھر ارباب غلام رحیم وزیر اعلیٰ بنے۔

فیصل سبزواری کے مطابق ‘ایم کیو ایم وفاق اور صوبے میں ایک بار پھر حکومت میں شریک ہوئی اور دسمبر 2007 تک اس اقتدار میں شریک رہی۔’

18 فروری 2008 کے انتخابات ایم کیو ایم نے 18 عام اور مخصوص نشستوں سمیت قومی اسمبلی کی کل 25 اور صوبائی اسمبلی کی کُل 42 نشستیں حاصل کیں۔

مرکز میں پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے مگر سیاست نے ایسی کروٹ لی کہ اس بار مسلم لیگ نواز بھی اُن کی شریک اقتدار رہی۔

اس اکثریتی اتحاد کو قومی اسمبلی میں مدد و حمایت کی ضرورت نہیں تھی۔ صوبے میں بھی پیپلز پارٹی نے بھی بغیر کسی مدد و حمایت کے کامیابی سے اپنی حکومت قائم کرلی۔

فیصل سبزواری کا کہنا ہے کہ ’ایم کیو ایم نے پھر بھی وفاق و مرکز کی حکومتوں میں شرکت اختیار کر لی۔‘

یہ بھی پڑھیے

کراچی آپریشن: ’اس شہر کی بدقسمتی کی قیمت اپنے پیاروں کو کھو کر ادا کی‘

آپریشن ’کلین اپ‘: سندھ میں ڈاکو راج، تیس سال پہلے اور آج

22 اگست کی تقریر، الطاف حسین اور اسٹیبلشمنٹ

اقتدار کے بغیر نہ چل سکنے والی جماعت

بعض تجزیہ کاروں کے مطابق تب تک ایم کیو ایم نے اقتدار کا مزہ چکھ لیا ہے اور مشکل تھا کہ اب ایم کیو ایم بنا اقتدار سیاسی میدان میں رہے کیوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کی ہیئت و ساخت بھی تبدیل ہوتی جا رہی تھی۔

سینیٹر فیصل سبزواری نے بھی خندہ پیشانی سے تسلیم کیا کہ یہی وہ دور تھا جب ایم کیو ایم کی شبیہ ایسی بن گئی کہ وہ اقتدار کے بغیر نہ چل سکنے والی جماعت بن کر رہ گئی تھی۔ وجہ شاید یہ تھی کہ یہ وہ دور تھا جو سوشل میڈیا کی نظروں کی سامنے تھا۔

’آج بھی بعض حلقے جملے بازی کرتے ہیں کہ اس وقت ہم نے اقتدار کا آنا جانا شروع کر دیا۔ زرداری صاحب کی حکومت کا وہ دور ہمارے لیے بھی کوئی بہت باعث فخر نہیں تھا بلکہ بطور سیاسی کارکن ہمارے لیے بھی بار بار حکومت میں آنا جانا شرمندگی کا باعث تھا۔‘

’ایسے میں صرف تین مرتبہ ہی حکومت سے نکلنے کے وہ مواقع آئے جن کو سنجیدگی سے نکلنا کہیں گے۔‘

ایم کیو ایم کی آنیاں جانیاں

’پہلی بار دسمبر 2008 میں ہم اس مخلوط حکومت سے نکلے تھے مگر جنوری 2019 میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ہمارے مرکز تشریف لائے تو ہم پھر حکومت میں واپس آ گئے۔‘

’پھر جون 2011 میں خاصے شدید احتجاج اور اختلاف پر ہم حکومت سے علیحدہ ہوئے مگر ہمارے استعفے منظور نہیں کیے گئے۔ لیکن ہمارے وزرا کے محمکے جن میں میرا (فیصل سبزواری) محکمہ بھی شامل تھا دیگر وزرا کو سونپ دیے گئے تھے اور ہم ساڑھے تین مہینے تک وفاقی و صوبائی دونوں حکومتوں سے باہر رہے۔‘

’حتّیٰ کے گورنر عشرت العباد نے بھی استعفیٰ دے دیا مگر وہ بھی منظور نہیں کیا گیا۔‘

’تیسری دفعہ ہم فروری 2013 میں یعنی انتخابات سے محض ڈیڑھ دو ماہ پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت سے علیحدہ ہوئے‘ فیصل سبزواری نے کہا۔

11 مئی 2013 میں انتخابات میں ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی کل 25 اور سندھ اسمبلی کی 51 نشستیں حاصل کیں۔

سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا کہ فاتح ’پیپلز پارٹی نے پھر ہمیں دعوت دی کہ ہم (صوبائی) حکومت میں شامل ہو جائیں مگر ایم کیو ایم کی صفوں میں حکومت میں شمولیت پر بہت زیادہ ناراضی تھی تو ایم کیو ایم نے کارکنوں کا ریفرنڈم منعقد کروایا کہ ہمیں حکومت میں جانا بھی چاہیے یا نہیں۔‘

’ایک کنٹرولڈ (اختیاری یا پابند) رائے شماری ہونے کے باوجود بھی کارکنوں کی بڑی تعداد کی رائے یہ تھی کہ ہمیں حکومت میں نہیں جانا چاہیے تو ہم نہیں گئے۔‘

’لیکن مئی 2014 میں اچانک پھر ہم پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت میں چلے گئے لیکن توقع کے عین مطابق محض ساڑھے چار ماہ ہی میں ہم اس حکومت سے بھی نکل آئے‘ فیصل سبزواری نے بتایا۔

زبردستی کی شادی کی سوال پر فیصل سبزواری نے کہا کہ ’2002 سے تو میں دیکھ رہا ہوں کہ حکومت میں جانے یا نہ جانے کے فیصلے اوپر سے ہی ہوتے تھے۔‘

اعلان امین فہیم کا، حمایت ظفر اللہ جمالی کی

ظفر اللہ جمالی

’بلکہ 2002 میں بڑا لطیفہ تو یہ ہوا کہ ڈاکٹر فاروق ستّار نے نائن زیرو پر پریس کانفرنس کر کے عندیہ دیا کہ ایم کیو ایم وزیراعظم کے عہدے کے لیے پیپلز پارٹی (پیٹریاٹ) کے امیدوار امین فہیم کی حمایت کرے گی لیکن دو دن بعد ہی ایم کیو ایم نے میر ظفر اللّہ خان جمالی کی حمایت کا اعلان کر دیا۔‘

’جتنے جہاندیدہ سیاسی کارکن ڈاکٹر فاروق ستّار ہیں اگر ان کو (معلوم یا) یقین ہوتا کہ ہم میر ظفر اللّہ جمالی کی حمایت کریں گے تو وہ کبھی بھی امین فہیم کی حمایت کا اعلان نہ کرتے۔ لیکن کیوں کہ فیصلے اوپر سے آتے تھے تو یہ ہوا‘، فیصل سبزواری نے تسلیم کیا۔

’ایم کیو ایم میں شاید کچھ افراد ہوں جو 2014 کی حکومت میں جانے کے حق میں رہے ہوں مگر مجھ سمیت بہت بڑی تعداد لکھ کر دے چکی تھی کہ ہمیں حکومت میں نہیں جانا چاہیے۔‘

’پھر جب نکلتے تھے وہ ایک غیر یقینی یا بنا سوچے سمجھے فیصلے کا نتیجہ ہوتا تھا جس سے ہماری ساکھ کو کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ صف اوّل کی قیادت بھی اوپر کے فیصلوں سے لاعلم ہوتی تھی۔‘

’سنہ میں جب ہم حکومت سے نکلے تو (اس وقت) کے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے جو میری بات ہوئی تھی تو وہ بھی ایک گھنٹے پہلے تک لاعلم تھے کہ ہم ایسا کرنے جا رہے ہیں‘، فیصل سبزواری نے دعویٰ کیا۔

اس سوال پر کیا فیصلے صرف الطاف حسین کی سطح پر ہوتے تھے؟ فیصل سبزواری نے کہا کہ ’جی جی بالکل ایسا ہی ہے۔ ایک ماحول بن جاتا تھا اُن (الطاف حسین) کا موڈ دیکھ کر باقی لوگ (دیگر پارٹی قائدین) بھی ہاں میں ہاں ملانے لگتے تھے۔‘

’2013 میں ریفرنڈم میں کارکنان کی رائے کے خلاف ہم حکومت میں جا بیٹھے۔ پھر جب جنرل بلال اکبر رینجرز کے نئے نئے سربراہ (ڈائریکٹر جنرل) بن کر آئے تو 25 ستمبر 2014 کو سکیم 33 عباس ٹاؤن میں میرے ہی دفتر پر رینجرز کے چھاپے کے بعد ہم پھر حکومت سے نکل آئے‘، انھوں نے کہا۔

جھنڈے کی گاڑی کی خواہش اور ایم کیو ایم رہنما کا موڈ

ایم کیو ایم رہنما

جب بی بی سی نے فیصل سبزواری سے پوچھا گیا کہ کیا ایم کیو ایم کا ایک حصّہ چاہتا رہا کہ وہ جھنڈے والے گاڑی میں بیٹھا رہے تو انھوں نے کہا کہ ’کھل کر تو کوئی نہیں کہتا تھا مگر لوگوں کو معلوم تھا کہ کون ایسا چاہتا ہے اور اکثریت کی خواہش تھی کہ ہم پیپلز پارٹی کی حکومت میں نہ جائیں۔‘

’لیکن بدقسمتی سے وہ لوگ زیادہ بااثر ثابت ہوتے تھے جو کہتے تھے کہ ہم حکومت میں ہی رہیں اس سے ہمیں رعایات ملتی رہیں گی، مسائل پیدا نہیں ہوں گے، تو اُن بااثر افراد کی رائے حیثیت اختیار کر جاتی تھی۔‘

اس سوال پر کہ کیا فیصلے فرد واحد (بانی) کی سطح پر ہوتے تھے سینیٹر سبزواری نے کہا کہ ’بعد میں تو ایسا بھی ہوا۔ 2008 کے بعد سے ایم کیو ایم نے سب سے زیادہ تندہی سے جو کام کیا وہ اپنے ہی بانی اور اُن کے مُوڈ سینس کو مینیج کرنے کا کام تھا۔‘

’لیکن اُن (الطاف حسین) کی فیصلہ سازی میں بھی کئی عوامل کارفرما رہتے تھے مثلاً موڈ بنا ہوا ہو، ذہن بنا ہوا ہو، جو ان کے قریب کے کچھ لوگ جانتے تھے یا اُن کی پسند ناپسند کو زیادہ مہارت سے ناپ یا جان سکتے تھے وہ لوگ اس موڈ کے حساب سے فیصلے کرتے تھے۔ لیکن اگر لندن سے حکم آ گیا تو پھر چوں چراں کی کوئی گنجائش نہیں تھی‘، فیصل سبزواری نے کہا۔

مگر وفاقی وزیر اور ایم کیو ایم کے بانی رہنما امین الحق کا کہنا ہے کہ ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔

’پوری پوری رات گزر جاتی تھی پارٹی کی مرکزی کمیٹی غور کرتی رہتی تھی تب کہیں جا کر فیصلہ ہو پاتا تھا۔ حتّیٰ کہ اکثر اوقات اکثریت کی بنیاد پر الطاف حسین کا فیصلہ تک بھی رد کیا جاچکا ہے یا تبدیل کروا دیا گیا ہے۔‘

’مثلاً 1988 کے انتخابات میں خواتین کی نشست پر الطاف حسین بضد تھے کہ بیگم سلمیٰ احمد یا خانم گوہر اعجاز کا خواتین کی نشست پر لایا جائے۔‘

’مگر مجھ (امین الحق) سمیت مرکزی کمیٹی کے کئی اراکین مصر تھے کہ زرّین مجید کو لایا جائے۔ بالآخر الطاف حسین پیچھے ہٹے اور کہا کہ ٹھیک ہے زرّین مجید کو لے آؤ۔ ہم نے باہمی مشاورت سے الطاف حسین کا فیصلہ تبدیل کروایا‘، امین الحق نے کہا۔

’وجہ یہ تھی کہ ہم (امین الحق اور ان کے ساتھ کے رہنماؤں) میں اور الطاف حسین کی عمر، سیاسی تجربے میں بہت زیادہ فرق نہیں تھا۔ ہم ساتھ پڑھتے تھے، کھاتے پیتے تھے، نہایت بے تکلّفی سے تبادلۂ خیال ہو جاتا تھا۔‘

’وہ تو جب 1992 کے آپریشن میں اصل قیادت زیر زمین یا بیرونِ ملک چلی گئی اور الطاف حسین کا تعلق بالکل ہی نچلی سطح پر براہ راست قائم ہو گیا تو پھر پارٹی کا اندرونی ماحول بھی بدلنے لگا۔ الطاف حسین بہت بڑا اور باقی سب لوگ بہت ہی چھوٹے ہوتے چلے گئے۔ پھر جی بھائی، جی بھائی ہونے لگا۔‘

’پرویز مشرف کی حکومت اسٹیبلشمنٹ کی حکومت تھی‘

پرویز مشرف

بڑی کشادہ دلی سے سینیٹر فیصل سبزواری نے تسلیم کیا کہ ’جب ہم پرویز مشرف کی حکومت میں شامل ہوئے تو وہ یقیناً اسٹیبلشمنٹ کی حکومت ہی تھی۔‘

‘اس وقت ایک طرف ایم کیو ایم کو بریدنگ سپیس (سانس لینے کی مہلت) چاہیے تھی تو دوسری جانب امریکہ کی افغانستان میں فوج کشی کی بعد پاکستان کی سڑکوں پر جو کچھ ہو رہا تھا تو جنرل مشرف کو بھی لبرل پارٹنرز تو چاہیے تھے۔‘

’جنرل مشرف آرمی چیف بھی تھے ملک کے صدر بھی تھے تو وہ یقیناً اسٹیبلشمنٹ کی ساتھ ایک ‘میرج آف کنوینیئنس’ (سمجھوتے کا رشتہ) تو تھی ایم کیو ایم کے لیے۔‘

’جہاں تک زرداری صاحب کے حکومت میں آنے جانے کی بات ہے تو میرا نہیں خیال کہ خود زرداری صاحب کے بہت دلی تعلقات تھے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ۔‘

’اسٹیبلشمنٹ کے بعض حصّوں میں آصف زرداری اور رحمٰن ملک حکومت کو بھی ملک کے لیے فائدہ مند تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔

تو ہو سکتا ہے کہ ہمیں (ایم کیو ایم کو) بھی یہ بات اشاروں کنایوں میں کہی گئی ہو کہ آپ اس حکومت میں رہیں یا اس حکومت سے نکل جائیں۔‘

لیکن یہ سب اُس طرح نہیں ہوتا جیسے بعض لوگوں کا قیاس ہے، فیصل سبزواری نے کہا۔

فیصل سبزواری نے بطور تجزیہ نگار کہا کہ ’پاکستان میں طاقتور حلقے سیاسی حکومت بنانے، گرانے، سجانے یا بگاڑنے میں ملوّث رہے ہیں، اس سے تو خود اسٹیبلشمنٹ کبھی انکاری نہیں رہی۔‘

’ایک ماحول تو بنا دیا جاتا ہے۔ ماضی میں جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوتی تھی تو بھی چھانگا مانگا ہوا کہ نہیں، مڈ نائیٹ جیکالز ہوا کہ نہیں، پی ایم ایل کیو، پیٹریاٹ سب کچھ ہوا۔‘

’حکومت گرانے کا کام 58,2b (آئینی شق) کے زمانے میں ہوتا اب 58,2b تو رہی نہیں تو اب گرانے کی بجائے حکومت سازی میں ہوتا ہے سب کچھ۔‘

فیصل سبزواری نے کہا ’یہ تو بڑے اوپن سیکرٹس (کھلے راز) ہیں ہماری تاریخ کے ۔۔!!!‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments