“بیمار مسیحا” ایک جائزہ


انسانی جبلتوں میں سے ایک اہم ترین جبلت ”ہنسی“ ہے۔ جب تخلیقی سطح پر اس جبلت کا اظہار کیا جاتا ہے تو مزاحیہ فن پارہ وجود میں آتا ہے۔ اعلیٰ پائے کے مزاح نگار مزاح کی مسرت سے نہ صرف خود لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس میں شریک کرتے ہیں۔ معروف مزاح نگار اسٹیفن لی کاک اپنی کتاب ”Humour and Humanity“ میں مزاح کی تخلیق کے حوالے سے کہتے ہیں :

”مزاح زندگی کی ناہمواریوں کے اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے، جس کا فنکارانہ اظہار ہو جائے۔“

ہنسنا اور ہنسانا انسان کی فطرت میں شامل ہے اس لیے یہ ہر زمانے کی ضرورت ہے۔ طنز و مزاح کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اس کے آثار اردو کی ابتدائی داستانوں میں ملتے ہیں۔ جس میں میر امن کی ”باغ و بہار“ ، رجب علی بیگ سرور کی ”فسانہ عجائب اور حیدر بخش حیدری کی“ طوطا کہانی ”شامل ہیں۔ مگر طنز و مزاح کا حقیقی آغاز مرزا غالب کے خطوط سے ہی ہوتا ہے۔ مرزا غالب کی مکتوب نگاری ظرافت کا بہترین نمونہ ہے۔ شاید اسی لیے مولانا حالی نے انہیں“ حیوان ظریف ”کا نام دیا تھا۔

سنہ 1877 میں سجاد حسین کی ادارت میں“ اودھ پنچ ”اخبار کے اجرا کے ساتھ ہی بھرپور مزاح نگار بھی شروع ہوتی ہے۔ اس میں لکھنے والوں نے ظرافت کو فروغ دیا۔ اس دور میں رتن ناتھ سرشار، تربھون ناتھ، مرزا مچھو بیگ، جوالا پرشاد برق، احمد علی شوق، نواب سید محمد آزاد اور سجاد حسین جیسے مزاح نگار منظر عام پر آئے۔ اردو ادب میں مزاح نگاری ایک تسلسل سے جاری ہے۔ اردو کے قابل ذکر مزاح نگاروں میں مرزا فرحت اللہ بیگ، عظیم بیگ چغتائی، رشید احمد صدیقی، شوکت تھانوی، کنہیا لال کپور، کرشن چندر، پطرس بخاری، شفیق الرحمٰن اور مشتاق احمد یوسفی کا نام لیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر محمد یوسف سمرا پیشے کے اعتبار سے طبیب ہیں مگر مسیحائی کے ساتھ ساتھ کئی دہائیوں سے تخلیق ادب کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مزاح نگاری کے علاوہ سنجیدہ کالم بھی لکھتے ہیں اور شاعری بھی کرتے ہیں۔ ان کی کتاب ”بیمار مسیحا“ میڈیکل کالج میں داخلے سے لے کر مختلف ہسپتالوں میں ڈیوٹی سر انجام دینے کے دوران پیش آنے والے مختلف واقعات پر مبنی ہے جنہیں ڈاکٹر یوسف سمرا نے اپنے دلکش اسلوب میں اس طرح بیان کیا ہے کہ قاری کے لبوں پر بے اختیار مسکراہٹ آ جاتی ہے اور بعض مقامات پر تو بے اختیار ہنس پڑتا ہے۔ عطا اللہ عالی اس حوالے سے رقم طراز ہیں :

”بیمار مسیحا“ میں ڈاکٹر یوسف سمرا نے اپنے طرز اسلوب سے ہسپتال کے روایتی ماحول کو پرستان کا ایسا حسین گوشہ بنا دیا ہے کہ قاری کے دل میں خواہ مخواہ ہسپتال داخل ہونے کی خواہش مچلنے لگتی ہے۔ بشرطیکہ وہاں ڈاکٹر موصوف کی سی مہربان شخصیت اور دل بستگی کے لیے ان کی ساتھی چنچل اور شوخ نرسیں بھی ہوں ”( 1 )

192 صفحات پر مشتمل کتاب کو 25 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر باب اپنی جگہ مکمل بھی ہے اور کتاب کے تسلسل کو بھی قائم رکھتا ہے۔ ایک مزاح نگار روز مرہ زندگی کے عام واقعات کو بھی اس طرح بیان کرتا ہے کہ پڑھنے والا لطف و انبساط محسوس کرتا ہے۔ مزاح نگار کی ذہانت عام واقعے میں ایسے پہلو تلاش کر لیتی ہے کہ جو عام آدمی کی نگاہوں تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے۔ ڈاکٹر یوسف سمرا نے کئی مقامات پر ایسی صورت حال سے مزاح پیدا کیا ہے جو ان کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مثلاً میڈیکل کالج میں داخلے کے بعد فولنگ معمول کی بات ہے۔ ڈاکٹر یوسف سمرا نے چند واقعات اپنے انداز میں ایسے بیان کیے ہیں کہ بے اختیار لبوں پر مسکراہٹ آ جاتی ہے :

”ابھی کینٹین سے سزا بھگت کر واپس آ ہی رہا تھا کہ چند لڑکیوں نے گھیر لیا۔ ایک بار پھر انٹرویو شروع ہوا۔ مگر یہ نسوانی انٹرویو کچھ اچھا لگنے لگا۔ ایک لڑکی نے پوچھا تم ڈاکٹر ہو۔ میں پہلے ہی ڈرا ہوا تھا۔ میں نے کہا ڈاکٹر تو آپ ہیں۔ ہم تو مریض ہیں۔ اس پر ایک لڑکی نے کہا زبان دکھاؤ۔ ہم نے زبان دکھائی۔ پھر اس نے ہمارا گلا چیک کیا۔ کمر پر ٹوٹی لگا کر دیکھی اور اعلان کر دیا تمہیں (Dehydration) پانی کی کمی ہو گئی ہے۔ کیونکہ تمہارے ہونٹ خشک ہیں۔ تمہاری زبان میں لکنت آ رہی ہے۔ آنکھوں کی چمک غائب ہو گئی ہے اور تمہارا رنگ پیلا پڑ رہا ہے۔ دوسری لڑکی نے نعرہ لگایا چلو اسے پانی پلاتے ہیں۔ وہ ہمیں واپس کینٹین پر لے گئیں۔ خود بھی بوتلیں پینے لگیں اور ہمیں بھی پلائی۔ ہم بہت خوش ہوئے۔ چلو کوئی تو ہے جو ہمارا خیال کر رہا ہے۔ مگر یہ خوشی فوراً ہی کافور ہو گئی۔ جب اس لڑکی نے بوتلوں کا بل ہم سے ادا کروایا“ ( 2 )

زبان و بیان کے ساتھ ساتھ صورت حال سے مزاح پیدا کرنا بھی ایک فن ہے۔ خالص مزاح یہی ہے کہ مزاح نگار اپنی مہارت سے کسی صورت حال سے مزاح کشید کرے اور مزاح کا معیار بھی قائم رہے۔ ڈاکٹر یوسف سمرا صورت حال سے مزاح پیدا کرنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ ”بیمار مسیحا“ میں ہمیں اس کے متعدد نمونے ملتے ہیں :

”ایک مریض جو چھاتی کے درد کے ساتھ ہسپتال میں داخل ہوا تھا۔ پروفیسر نے اس کا اچھی طرح معائنہ کیا اور فرمایا، اس کو دل کا درد ہے۔ اس حساب سے ادویات تجویز کر دیں۔ اس سے اگلے دن اسسٹنٹ پروفیسر کا راؤنڈ تھا۔ انھوں نے بھی اسے اچھی طرح چیک کیا اور اسے پھیپھڑے کا درد تشخیص کیا۔ اور اس کی ادویات تجویز کر دیں۔ اس سے اگلے دن پھر پروفیسر کا دن تھا۔ اس نے جب مریض کی ادویات چیک کیں تو بڑے غصے سے کہنے لگے۔ کس گدھے نے کہا تھا تمہیں یہ دوا کھانے کو۔

مریض بے چارہ ان پڑھ تھا۔ راؤنڈ کے بعد اس نے نرس کو اعتماد میں لے کر پوچھا: یہ اتنے سارے ڈاکٹر روزانہ میرے سرہانے کھڑے ہو کر کیوں لڑتے ہیں۔ نرس نے اس کو صاف صاف بتا دیا کہ ایک ڈاکٹر کہتا ہے دل کی بیماری ہے۔ دوسرا کہتا ہے یہ پھیپھڑے کی بیماری ہے۔ اسی دن شام کو موقع پا کر مریض ہسپتال سے بھاگ گیا“ ( 3 )

مزاح کی تخلیق میں ”لفظی بازی گری“ بھی ایک تکنیک ہے۔ اس میں کئی طریقوں سے مزاح پیدا کیا جاتا ہے جیسے لفظوں کے الٹ پھیر سے، لفظوں کی تکرار سے یا ذومعنی الفاظ کے استعمال سے مزاح تخلیق کرنا۔ ڈاکٹر یوسف سمرا کے ہاں یہ تکنیک بھی ملتی ہے۔ وہ لفظوں سے کھیلنا جانتے ہیں۔ اور موقع کی مناسبت سے الفاظ کو ایسے استعمال کرتے ہیں کہ مسکراہٹ بکھر جائے :

”وہ بہت ہی معصوم لڑکی تھی۔ اس کا نام چینو میں نے رکھا تھا۔ اس کی شکل چینیوں سے ملتی تھی۔ بالکل پتلی سی آواز۔ اس کی آواز پیانو سے نکلی ہوئی کوئی دھن لگتی تھی۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتی۔ مریضوں کے لواحقین سے بہت کم بات کرتی۔ ڈاکٹرز سے بالکل بے تکلف نہ ہوتی۔ غرض اس میں نرسوں والی کوئی بات نہ تھی۔ میں اس پر مکمل طور پر عاشق ہونے کا ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ اکرام سے میری گفتگو ہو گئی۔ اس سے پہلے وہ اکرام کے وارڈ میں ڈیوٹی کرتی رہی تھی۔

اکرام نے جیسے ہی اس کا نام سنا۔ چہرے پر خباثت بھری مسکراہٹ آئی۔“ لڑکی تو بہت اچھی ہے مگر دانت صاف نہیں کرتی۔ منہ سے اکثر بو آتی ہے۔ بس خیال رکھنا ”اور ہمارا عشق صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اکرام سرجیکل وارڈ میں تھا۔ اس کے وارڈ میں ایک نرس ہوتی تھی۔ اکرام نے جیسے ہی وارڈ بدلا اور ہمارے ساتھ آیا اس نے بھی ڈاکٹر بدل لیا۔“ ( 4 )

مزاح کی تخلیق میں مزاحیہ کردار بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ مزاحیہ کرداروں کی تخلیق میں مبالغہ آرائی سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ مزاحیہ کردار کے طرز گفتار اور انداز و اطوار سے ایک ایسا پیکر تراشا جاتا ہے جس کی گفتگو اور حرکات قارئین کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتی ہیں۔ جیسے رتن ناتھ سرشار کا ”خوجی“ ، پطرس بخاری کا ”مرزا صاحب“ اور شفیق الرحمٰن کا ”شیطان“ ایسے کرداروں کی بہترین مثالیں ہیں۔ ڈاکٹر یوسف سمرا نے ”بیمار مسیحا“ میں اسی طرح کے ایک کردار ”بھیڑ“ سے متعارف کروایا ہے۔

وہ ایک نرس تھی۔ اس کا اصل نام تو کچھ اور تھا مگر ڈاکٹر صاحب کے ایک دوست نے اسے بھیڑ کا نام دیا تھا۔ مصنف نے اسی نام سے اس کا ذکر کتاب میں کئی مقامات پر کیا ہے۔ وہ ذرا چھوٹے قد کی ذرا موٹی نرس تھی۔ اور بالکل سیدھی چلا کرتی تھی۔ وہ طرح طرح کے بہانوں سے ڈاکٹر صاحب کے قریب ہونے کوشش کرتی تھی۔ سینڈوچ اور چائے کا تھرمس بھروا کر لاتی جو دونوں مل کر کھاتے۔ اس طرح ڈاکٹر صاحب اور اس کی محبت شروع ہو گئی۔ ایک دن ڈاکٹر نے اسے کسی اور کے ساتھ موٹر سائیکل پر چپک کر بیٹھے دیکھا تو اگلے دن بے وفائی کا طعنہ دیا۔

اس نے بڑے آرام سے بات سن کر کہا کہ ڈاکٹر چھوٹی چھوٹی باتوں کا برا نہیں منایا کرتے۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے چھوٹی چھوٹی باتوں کا برا ماننا چھوڑ دیا۔ ڈاکٹر صاحب ”بھیڑ“ کو چھوڑ چکے تھے اور کسی اور جگہ کام کرتے تھے لیکن قسمت انہیں پھر بھیڑ کے قریب لے آئی۔ وارڈ میں صرف تین مریض تھے اور گہری نیند میں تھے۔ ایسے میں ”بھیڑ“ نے ڈاکٹرز آفس میں چائے پینے کی تجویز پیش کرتی ہے :

”میں نے کہا: رات کو ڈاکٹرز آفس میں ڈاکٹر اور نرس کا اکٹھے چائے پینا کچھ اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اور یہ مریض کیا کہیں گے؟

کہنے لگی: مریض تو صبح تک سوتے رہیں گے۔ میں نے سب کو نیند کا ٹیکہ لگا دیا ہے۔ اس خوفناک وقت کا تصور کرتے ہی میرے ہوش اڑ گئے۔ بھیڑ کے ساتھ تنہائی میں وقت گزارنا کتنا کٹھن ہو گا۔ میں وہاں سے بھاگا۔ اکرام کہنے لگا: تم بہت بے درد ہو۔ بھیڑ کا دل دکھا کر آئے ہو۔ اب بھیڑ کے انتقام کے لیے تیار رہو۔ اس کے کئی دن بعد تک بھیڑ سے ہماری بول چال بند رہی۔ اس دوران بھیڑ نے ڈاکٹر بدلنے کا فیصلہ کر لیا۔ آصف اس کے بہت قریب ہو گیا۔ کاش بھیڑ ڈاکٹر بدلنے کی بجائے وارڈ بدل لیتی ” ( 5 )

ڈاکٹر یوسف سمرا واقعاتی مزاح بھی مہارت سے تخلیق کرتے ہیں۔ واقعہ خواہ معمولی سا ہو لیکن ڈاکٹر یوسف سمرا اپنے اسلوب اور انداز بیاں سے اسے خاص بنا دیتے ہیں۔ سادہ لفظوں اور چھوٹے چھوٹے جملوں سے واقعہ کچھ اس طور سے پیش کرتے ہیں کہ قاری بے اختیار مسکرانے پر مجبور ہو جائے۔ ایک مثال ملاحظہ کیجیے :

”اس رات جب مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔ میں نے اکرام کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ سویا ہوا تھا۔ بڑی مشکل سے اٹھا۔ غصے سے کہنے لگا۔ کیا مصیبت ہے۔ میں نے کہا۔ یار نیند نہیں آ رہی، کوئی نیند کی گولی تو دو۔ وہ اندر گیا۔ الماری کھولی۔ ایک گولی اٹھائی۔ پانی کا گلاس بھرا۔ دروازے پر آیا میرے سامنے گولی خود کھائی اور یہ کہہ کر دروازہ بند کر لیا کہ میرے پاس ایک ہی گولی ہے اگر تمہیں دے دوں تو خود کیا کھاؤں“ ( 6 )

”بیمار مسیحا“ ڈاکٹر یوسف سمرا کی ایسی کتاب ہے جس کا ہر باب مزاح کی چاشنی سے لبریز ہے۔ ان کی تحریر میں ندرت و جدت بھی ہے اور تازگی و شگفتگی بھی۔ وہ ان مزاح نگاروں میں شامل ہیں جو شائستہ اور نفیس ادب تخلیق کر سکتے ہیں۔ ان کی مزاح نگاری میں کسی کی دل آزاری یا عامیانہ پن نہیں۔ بلکہ کئی مقامات پر انہوں نے خود اپنے آپ کو طنز کا نشانہ بنا کر اعلیٰ ظرفی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ ان کا یہ انداز مرزا غالب کی ظرافت یاد دلاتا ہے کہ وہ بھی اسی طرح خود کو طنز کا نشانہ بنا کر معاشرے کے مضحکہ خیز پہلوؤں پر چوٹ کرتے تھے۔ برجستگی، بے ساختگی اور روانی ڈاکٹر یوسف سمرا کے اسلوب کی نمایاں ترین خصوصیت ہے۔ ”بیمار مسیحا“ کے حوالے سے یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ کتاب مزاحیہ ادب میں بہت عمدہ اضافہ ہے۔

حوالہ جات
1۔ عطا اللہ عالی، فلیپ، بیمار مسیحا از ڈاکٹر محمد یوسف سمرا، دعا پبلی کیشنز، لاہور، طبع دوم 2020۔
2۔ ڈاکٹر یوسف سمرا، بیمار مسیحا، دعا پبلی کیشنز، لاہور، طبع دوم 2020، ص 15۔
3۔ ایضاً، ص 32۔
4۔ ایضاً، ص 34۔
5۔ ایضاً، ص 44۔
6۔ ایضاً، ص 65۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments