شہزادی ثریا جہاں بخت


لشکروں نے اس بار جہاں پڑاؤ ڈالا تھا اس میدان کے ایک طرف گھنا جنگل تھا۔ دشمن تمام حدوں کو توڑتا اور رکاوٹوں کو عبور کرتا ہوا یہاں تک پہنچا تھا۔ شہر کی فصیل سے کچھ میل دور دستگیر عالم شاہ کے لشکر نے ڈیرہ ڈال رکھا تھا۔ اس بار مقابلہ چپٹی ناک اور سوجی ہوئی آنکھوں والی مخلوق سے تھا۔ ان کے بارے میں خلق خدا نے عجیب و غریب باتیں مشہور کر رکھی تھیں کہ یہ بہت ظالم اور حد درجہ خوں خوار ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو جنگ کرتا ہے وہ راگ راگنیوں کا پالن تو کرنے سے رہا، خون خرابہ ہی کرے گا اور وہی اسے زیب بھی دیتا ہے۔ پھر یہ کہ زیادہ تر یہ جنگ جو گھوڑوں پر ہی سوار رہتے ہیں۔ کھاتے پیتے بھی وہیں ہیں اور بیٹھے بیٹھے ہی سو جاتے ہیں۔ اس بات میں کچھ سچائی لگتی تھی۔ اگرچہ مخالف لشکر دور سے ایک لکیر کی مانند نظر آتا تھا لیکن مخبروں نے یہی بتایا تھا کہ مخالف لشکر میں خیمے بہت کم ہیں۔

شام کے پھیلتے اندھیرے میں مستعد محافظین کے محاصرے میں موجود علوی خیمے کی طرف بڑھتے ہوئے سپاہی کو نیزہ برداروں نے روکنا چاہا مگر زرہ پر سالار کا مخصوص نشان دیکھ کر جھک گئے اور راستہ وا کر دیا۔ سالار نے خیمے میں قدم رکھا۔ دستگیر عالم شاہ اس لمحے رسالدار اول حاکم بہجت کے ساتھ جنگی بساط کی بھول بھلیوں میں گم تھا۔ خیمے میں ایک جانب اس کی روغنی تصویر آویزاں تھی جس کو کوئلہ ہوتی ہوئی لکڑی کا غازہ اڑاتا ہوا الاؤ اپنے بھڑکتے شعلوں کی روشنی سے مزید جلال بخش رہا تھا۔ سپہ سالار نے آہنی خول اتارا تو ایک کونے میں بیٹھے تین مذہبی پیشواؤں کے اوراد خدایا مدد سے خدا جمیل ہے، خدا جمیل ہے میں تبدیل ہو گئے۔ شاہ نے نظریں اٹھائیں اور رسالدار نے شہزادی ثریا جہاں بخت سپہ سالار لشکر کو تسلیمات پیش کیں۔

دستگیر عالم کی زیادہ تر زندگی جنگوں، بغاوتوں اور سرکوبیوں میں ہی گزر گئی تھی۔ ایک ریاست میں شورش کا خاتمہ کرتا تو کہیں اور عداوتیں سر اٹھا لیتیں۔ ان کا قلع قمع کرتا تو کوئی اور جنگ اس کی آزمائش لینے کو تیار ہوتی۔ اسی بھاگ دوڑ میں وہ اکثر یہ سوچا کرتا کہ اس کے بعد سلطنت کی باگ ڈور کون سنبھالے گا۔ امن کے مختصر ترین دورانیوں میں اس نے شادیاں کیں، عورت کے ساتھ کو کبھی حقیر بھی نا سمجھا بلکہ بہت مرتبہ مشاورت میں ان کو ساتھ رکھا اور ان کی رائے کو اہمیت دی مگر مرد ہونے کے ناتے ایک نر بچے کی کمی آج تک محسوس کر رہا تھا۔ خدا کی یہی مرضی تھی اور اس کا بھی سر تسلیم خم تھا چناں چہ اس نے فیصلہ کیا کہ شہزادی کو ہی حرب و جدال کی تربیت دی جائے۔

شہزادی ثریا جہاں بخت کسی طور بھی اپنے ہم عصر جنگ جو مردوں سے کم نہ تھی۔ صغیر سنی میں ہی وہ شمشیر زنی، نیزہ بازی، تیر اندازی اور نہتے دوبدو لڑائی میں مشاق ہو گئی۔ شہزادی کو جنگ کے سارے اسرار و رموز رسالدار اول حاکم بہجت نے سکھائے۔ وہی اس کا استاد تھا۔ تربیت کے پہلے روز حاکم بہجت نے چوبی تلوار ہاتھ میں پکڑے شہزادی سے کہا تھا

جنگیدن با شمشیر مانند آہنگ است

تلوار بازی کسی گائیک کے سر اور سازندے کی تال کے درمیان چلتے گیت کی طرح ہوتی ہے۔ گائیک کو تال کی بھی خبر ہوتی ہے اور سازندے کو سر کی جان کاری۔ اسی آہنگ سے حریف ایک دوسرے پر وار کرتے ہیں۔ ایک کی تال پر تھرکتی شمشیر دوسرے کے سر پر ناچتی شمشیر کا وزن ماپتے ہوئے چل رہی ہوتی ہے، اس لیے دونوں اپنا دفاع کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ بس جو اگلی تال پہلے جانچ کر سرعت دکھا جائے، فاتح کہلاتا ہے۔

شہزادی کے جاسوس تمام دنیا میں پھرتے رہتے اور جدید سے جدید جنگی اسلحے کی جان کاری اسے بہم پہنچاتے رہتے۔ وہ ان معلومات کو اکٹھا کر کے حاکم بہجت کے ساتھ مل کر سمجھتی اور اپنے حساب سے اس میں رد و بدل کر کے زیادہ نقصان دہ ہتھیار بنوا لیتی۔ یہ تبدیلیاں اتنی زبردست ہوتیں کہ رسالدار اول بھی شہزادی کی جدت پسندی اور اختراعی طبعیت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہتا۔

اس بار بھی اس کے اسلحہ ساز ذہن کی بدولت دشمن کو نیست و نابود کرنے کے لیے ایک بے رحم ہتھیار تکمیل پا چکا تھا۔ میدان جنگ کے مغربی جانب ریت اور پتھر کے ٹیلوں کی طرف زمین کافی نرم تھی۔ وہاں حاکم بہجت کے حکم کی تعمیل کے لیے ایک دستہ دو دن پہلے سے تعینات تھا۔

شہزادی ثریا جہاں بخت نے تسلیمات قبول کرنے کے بعد شاہ اور رسالدار کے سامنے پھیلی جنگی بساط کے اوپر مختلف مقامات پر رکھے مہروں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی۔ لکڑی اور پتھر سے بنے خوب صورت مہروں میں بادشاہ اور گھوڑوں کے لیے بنے مہروں کے علاوہ ایک لمبوترا سا مہرا تھا جس پر آتشیں رنگ کا گول نگینہ جڑا ہوا تھا۔ شہزادی نے وہ لشکر کے گھوڑوں والے مہرے کے پیچھے سے اٹھا کر جنگل کے لیے بنے سبز خانے میں رکھ دیا۔ سبز خانے کے بالکل سامنے ٹیلوں کا نشان تھا۔

حاکم بہجت نے نچلے کھرج کی گونج دار آواز میں ایک لمبی ”ہوں“ کی اور اس نئی چال کے بعد میدان جنگ کی تبدیل ہوتی حالت کو چشم تصور سے دیکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ بادشاہ اور رسالدار نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر تعریفی نگاہ سے شہزادی کو خراج تحسین پیش کیا۔ یہ چال صحیح چل جانے سے جیت کا پلڑا بھاری ہو سکتا تھا۔

دشمن کے لشکر میں بھی جنگ کی تیاری عروج پر تھی۔ بادشاہ مونکھ گن باتر، لال خیمے کے اندر 10 سرکاری کاہنوں اور اکلوتے شامان کے بیچ دیوتاؤں کو حاضری دینے موجود تھا۔ کاہنوں کی ستر پوشی کے لیے ان کے جسموں پر مختلف جانوروں کی کھالوں سے بنے تہمد موجود تھے۔ انھوں نے اسی جانور کی تمام ہڈیوں کو ایک مضبوط رسی میں پرو کر باقی جسم پر لپیٹا ہوا تھا۔ شامان، جو کہ ان کا سب سے بڑا اور معتبر پیشوا تھا، گیروے چوغے میں ملبوس ان سب کے درمیان موجود تھا۔ اس کے سامنے جنگل سے پکڑا ہوا ایک لحیم شحیم بارہ سنگھا دو خدمت گاروں نے لٹا کر جکڑ رکھا تھا۔

عارضی معبد کے تکونی چبوترے پر پتھر کی ایک سل دھری تھی جس کے حواشی پر گول اور عمودی حروف لال رنگ میں کندہ تھے۔ درمیان میں خالی جگہ تھی۔ شامان نے اطراف میں دونوں ہاتھ پھیلائے تو کاہنوں نے گھٹنے ٹیکے گن باتر کے اردگرد حلقہ بنا لیا۔ شامان نے خدمت گاروں کو اشارہ کیا۔ ایک ہی وار میں بارہ سنگھے کا سر الگ ہو گیا اور کاہنوں کی مناجاتی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ یہ آوازیں ایسی تھیں کہ جیسے سینکڑوں بیل ڈکرا رہے ہوں۔ اور اتنی بلند تھیں کہ پورے لشکر میں جو پیادہ تھے انھوں نے گھٹنے ٹیک دیے اور سواروں نے رک کر گردنیں جھکا دیں۔

گن باتر نے شامان کے اشارے پر بارہ سنگھے کا سر اس کے سینگوں سے پکڑ کر اٹھایا اور ایک جھٹکے سے دونوں طرف کے سینگ الگ کر دیے۔ شامان نے جانور کی کھوپڑی تکونی چبوترے پر ایستادہ پتھر پر موجود خالی جگہ پر لگائی اور بھینٹ مکمل کر دی۔

مونکھ گن باتر کے نام کا مطلب تھا تا ابد اور لازوال رہنے والا مضبوط لوہے کا انسان۔ نام تو اس کے اجداد نے روایات کے مطابق نرینہ اولاد کے واسطے چنا تھا لیکن وہ دل سے ایسا سخت نہ تھا۔ یہ دنیا فتح کرنے کا جھنجھٹ اسے باپ دادا سے ورثے میں ملا تھا۔ اصل میں تو وہ شاعری، عورت، خوش بو اور فطرت سے پیار کرنے والا تھا۔ لیکن اگر وہ ان کاموں میں پڑ جاتا تو سلطنت ہاتھ سے جاتی تھی اور رسوائی الگ۔ قبیلہ کیا کہے گا کہ جنگ جوؤں کا بچہ اب شاعری کرے گا اور عورت کے تلوے چاٹے گا؟ یہ شوق وہ اپنے حرم میں پورے کر لیتا تھا جب کبھی اسے دنیا کے کسی حصے میں قتال کرنے سے فراغت ملتی۔

اس کے حرم میں تمام مفتوحہ علاقوں کی حسینائیں موجود تھیں۔ ہر ”مال غنیمت“ کو پرکھے جانے کی بیسیوں کسوٹیاں تھیں۔ وہ پار کرنے کے بعد ہی کوئی عورت اس کے حرم تک رسائی حاصل کر پاتی اور باقی وزراء اور مشیروں میں بانٹ دی جاتیں۔ لیکن ان میں سے کوئی ایسی نہیں تھی جس کو وہ ملکہ بناتا۔

گن باتر سرد ترین اور سنگلاخ چٹانوں کے بیچ رہنے والے قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ مگر اس کا دل میدانی علاقوں میں بسنے والے لوگوں جیسا تھا۔ اس کی ماں بھی کسی میدانی علاقے کی رہنے والی تھی جہاں پانی، فصل، حرارت اور سرسبز زمین کے وسیع ٹکڑوں کی فراوانی تھی۔ بچپن سے لڑکپن تک جب وہ اپنے باپ اور سالار کے ساتھ تربیتی مراحل سے گزرنے کے بعد تھکن اور جھنجھلاہٹ سے چور ماں کے پاس آتا تھا تو وہ اسے اپنی مقامی زبان میں لوری سناتی تھی۔ اس کا ایک ایک لفظ محبت، خوش بو اور خوب صورتی میں ڈوبا ہوا ہوتا تھا۔ اس کا دماغ یہ سن کر پرسکون ہو جاتا تھا۔ اور اسے دنیا پھر سے اچھی لگنے لگتی تھی۔

اس کے مقدر میں جیت ہی جیت لکھی تھی۔ اس نے بہت سی جنگوں میں نہایت بے دلی سے دیوتاؤں کی بھینٹ چڑھائی لیکن ایسا لگتا تھا کہ دیوتا بھی اس سے ڈرتے تھے۔ وہ اس کی ہر بھینٹ بسر و چشم قبول کرتے اور اسے فتح سے ہم کنار کر دیتے۔ یہ جنگ بھی معمولی نوعیت کی تھی اور اسے اپنے مخبروں کے ذریعے معلوم ہو گیا تھا کہ نرم مٹی والے ٹیلے کے گرد دشمن کن کارستانیوں میں لگا ہے۔ مگر جنگل کے معاملات میں اس کے مخبر بھی کھوج نہ لگا سکے تھے۔

شہزادی جہاں بخت کے حکم کے مطابق جنگ سے پہلے کی رات تیاری مکمل ہو چکی تھی۔ لشکر کے آخری کونے میں سب سے پیچھے 40 چھکڑے جوڑ کر ان پر خاص ہتھیار لاد دیا گیا تھا۔ اس کے اطراف کالے سفوف کی بوریاں ترتیب سے لگا کر پھنسا دی گئی تھیں۔ چھکڑوں کے پہیوں میں اتنا تیل ڈالا گیا کہ چلتے ہوئے ذرا آواز نہ نکلے۔ ہتھیار کے لیے تربیت یافتہ دستہ چھکڑے گھسیٹتا ہوا جنگل کی طرف چل پڑا۔ شہزادی اپنی تخلیق کو جنگل کی سمت جاتا دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں جیت کی چمک تھی۔

جنگ کا دن آن پہنچا۔ لشکر آمنے سامنے ہوئے۔ دونوں جانب علم بلند تھے اور پھریرے لہرا رہے تھے۔ دستگیر عالم شاہ حفاظتی دستے کے ہمراہ مشرقی سمت سے جنگل کی طرف قدرے اونچی جگہ سے جائزہ لینے کو موجود تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

خاور جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

خاور جمال

خاور جمال پیشے کے اعتبار سے فضائی میزبان ہیں اور اپنی ائیر لائن کے بارے میں کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے، کوئی بات کرے تو لڑنے بھڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں

khawar-jamal has 40 posts and counting.See all posts by khawar-jamal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments