خدا، انسان اور محبت


محترم ڈاکٹر خالد سہیل کا کالم ”کیا آپ خدا کو خدا حافظ کہہ چکے ہیں“ پڑھ کر ایک خوشگوار احساس کا در مجھ پر وا ہوا۔ میں ایک ایسے رشتے کے زیر سایہ پروان چڑھی ہوں جہاں پر دو انسانوں نے شادی کے رشتے میں بندھ کر ایک دوسرے کی شخصیت کو ختم کرنے کی بجائے اپنی الک الگ شناخت برقرار رکھتے ہوئے اس رشتے کو نہ صرف اس کی پوری خوبصورتی کے ساتھ نبھایا بلکہ ان خوبصورت انسانی اقدار کا مجھے عملی درس دیا۔ کہتے ہیں کہ اگر آپ نے اپنے بچوں کو کچھ سکھانا ہو تو خود ویسا بن جائیں میرے والدین نے ایسا ہی کیا وہ مجھے انسانیت اور انسان دوستی کا سبق سیکھنا چاہتے تھے اس لیے وہ خود اس کی چلتی پھرتی مثال بن گئے۔

میرے والد اکنامکس اور والدہ ہسٹری کی پروفیسر ہیں۔ وہ دونوں بالکل مختلف پس منظر کے حامل ہیں، وہ دونوں اسلام کے دو مختلف فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ میرے والد ایک سیکولر ذہن کے مالک انسان ہیں جو انسانی رواداری اور دوسروں کی مرضی کا احترام جیسی خوبیوں سے مالامال شخصیت ہیں لیکن اس کے ساتھ اپنی دھن کے پکے ان کے خاندان میں مختلف اسلام کے فقہ سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیں جبکہ میری والدہ اہل سنت کے انتہائی مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور خود بھی پانچ وقت کی نماز اور شعبان رمضان کے روزے دو مہینے مسلسل رکھنے والی خاتون ہیں۔

زندگی کے ایک حسین اتفاق نے ان دونوں کو آپس میں ملوایا اور وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ لیکن میں نے کبھی اپنی والدہ کو اپنے والد نہ ہی کوئی بھی تبلیغی درس دیتے یا مجبور کرتے نہیں دیکھا اور نہ ہی میرے والد نے کبھی میری والدہ کے نماز اور روزے میں کوئی مداخلت کی۔ بلکہ سحری میں اماں کو اٹھانا ان کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے اگر ایسا نہ ہو تو وہ روزہ نہیں رکھ پاتی تھیں اور سارا دن میرے ابا کو یہ سننے کو ملتا کہ ابا کی سستی کی وجہ سے انہوں نے آٹھ پہرا روزہ رکھا ہے اور اگلے دن ابا دو الارم لگا کر سوتے تاکہ یہ غلطی ان سے دوبارہ سرزد نہ ہو اور سحری کی اچھی کارکردگی کی بنیاد پر اماں ابا کو افطاری میں ہم سب سے پہلے حصہ دیتیں اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ رمضان کے املی کی چٹنی کے ساتھ پکوڑے، فروٹ چارٹ اور چنے جیسا ذائقہ سارا سال نہیں ملتا۔

سب سے دلچسپ میرے لیے یہ تھا کہ مجھ پر کبھی کوئی فقہ نہیں تھوپا گیا اگرچہ میرے والد اہل تشیع خاندان سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کی یا والدہ کی طرف سے کبھی یہ بات مجھے نہیں بتائی گئی تیسری جماعت میں جب مجھے شیعہ ہونے کا طعنہ دیا گیا تو میں کافی دیر یہ سمجھتی رہی کہ یہ کوئی گالی ہے جس کا مفہوم مجھے نہیں معلوم اور میری والدہ اور والد پہلے تو پریشان ہوئے، پھر انتہائی سہل الفاظ میں اس سارے مسئلے کو مجھے سمجھایا تسلی دی کہ میرے اوپر کوئی قدغن نہیں اور پھر اس کو یاد کر کے خوب ہنستے اور مجھے بھی ہنسنے پر مجبور کر دیتے۔

ہمارے گھر کی مذہبی رواداری کا مہا سین وہ تھا جب میرے والد کے دوست کے ہمراہ ایک عالم دین آئے اور ہمارے کھانے کی میز پر بیٹھ کر انہوں نے کہا کہ شیعہ کے گھر کا پانی بھی حرام ہے ابا تو آرام سے کھانا کھاتے اور مسکراتے رہے ان کے دوست دو منٹ کے لئے اپنا کھانا بند کر کے میرے ابا کو دیکھتے رہے، میری والدہ سے مل کر ان کو لگا کہ میرے والد اہل سنت سے تعلق رکھتے ہیں جب میں نے ابا سے پوچھا کہ آپ نے ان کو کچھ کہا کیوں نہیں تو جواب آیا کہ وہ ہمارے مہمان ہیں اور ہمارے دسترخوان پر بیٹھے تھے یہ ہماری تہذیب اور رواج کا حصہ نہیں اور مجھے ذہن نشین ہوا کہ مذہبی اختلاف رائے کوئی مرنے مارنے کی چیز نہیں۔

جیسے کہ ڈاکٹر صاحب نے لکھا کہ ان کی دوست کی بیوی کو لگتا تھا کہ وہ روزہ نہ رکھ کے اپنے بیٹے کے لیے اچھے والد ثابت نہیں ہو رہے میری اماں کو کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا ان کو اپنی ذات پر اعتماد تھا کہ وہ جو بھی مجھے سیکھنا چاہتی ہیں وہ خود اس کی ایک شاندار مثال ہیں اور اس کے باوجود کے وہ مذہبی رجحان کی حامل رہیں لیکن اس میں انہوں نے زور زبردستی سے کام نہیں لیا بلکہ مجھے میری والدہ کی طرف سے مذہب میں کسی قسم کی زور زبردستی کا سامنا نہیں رہا۔

ہمارے گھر کی لائبریری میں اسلامک ہسٹری اور لینن، مارکس، ماوزئے تنگ کی کتابیں بڑی ہم آہنگی سے موجود ہیں وہاں منٹو، کشور ناہید، حبیب جالب، فیض کے ساتھ علامہ اقبال اور مولانا مودودی بھی پائے جاتے ہیں۔ جس طرح میرے والد نے کبھی اپنے خیالات کایا اپنے فرقے کا پابند میری والدہ کو نہیں کیا اس طرح میری والدہ نے ہمیشہ میرے والد کے نظریات کا احترام کیا اور ساتھ دیا اگرچہ وہ چاہتی تھیں کہ وہ واپس امریکہ جا کر اپنی یونیورسٹی سے منسلک ہو جائیں لیکن ابا کی خواہش کہ وہ پاکستان کی یونیورسٹی سے منسلک رہنا چاہتے ہیں جہاں پر ان کی اصول پرستی کی وجہ سے ان کا جینا حرام کر دیا گیا تھا، کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور ہمیشہ ان کا ساتھ دیا۔

اگرچہ وہ دونوں خدا کو ماننے والے لیکن اسلام کے دو الگ فرقوں سے تعلق رکھنے والے انسان ہیں لیکن آپس میں باہمی احترام نے ان دونوں اور ان سے وابستہ رشتوں کی زندگی میں سکون گھول دیا۔ شادی کوئی بانڈڈ لیبیر نہیں بلکہ دو لوگوں کے باہمی احترام کا نام ہے۔ ہمارے ہاں صرف شوہر کی عزت کا درس دیا جاتا ہے اور مردوں کو بھی یہی سمجھایا جاتا ہے کہ عزت صرف انہی کی ہے اس صورتحال میں جن خواتین کو کوئی مر جان مرنج مرد حضرات بطور شوہر دستیاب ہو جائیں وہ ان کا رگڑا نکال کر رکھتی ہیں، دونوں صورتوں میں فریقوں کی خواہش ہوتی ہے کہ نہ کوئی ہانی نہ کوئی دوستی نہ ہی کوئی ذاتی وقت بچے دوسرے فریق کے پاس اور فون سے لے کر سانس تک ہر چیز پر قابض ہوں۔

دونوں فریق اپنی بالادستی کی جنگ لڑتے ہیں اور محبت کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ہوتا جس کی بنیاد ہی محبت ہونی چاہیے۔ خدا اور انسان کے رشتے میں دوسرے انسان کا کوئی عمل دخل نہیں یہ ہر کسی کا ذاتی مسئلہ ہے اور ایک دوسرے کے خیالات کا احترام صرف میاں بیوی میں نہیں بلکہ ہر رشتے میں چاہیے چاہے وہ دوستی کا، والدین اور اولاد کا ہو، بہن بھائیوں کا ہو یا پروفیشنل ریلیشن شپ ہو اس میں حدود کا خیال رکھنا اور ان کا احترام ضروری ہے تاکہ زندگی کو زندگی کی طرح سے خود بھی جئیں اور دوسروں کو بھی جینے دیں نہ کہ خود ہی خدا اور انسان کے رشتے کے منصف بن جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments