نئی حکومت اور کرنے کے کام


یہ عام نہیں تاریخی لمحہ تھا، جب سپریم کورٹ نے تاریخ رقم کردی، نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا، اور یہ طے کیا کہ آئین سپریم ہے، پارلیمنٹ بالادست ہے اور جمہوریت اس ملک کا مستقبل ہے۔

اب ضرورت ہے کہ سیاستدان ماضی کی تاریخ کو دفن کریں اور ایک نئی تاریخ رقم کریں، کرنے کے لیے ڈیڑھ سال بڑا عرصہ ہے، نہ کرنے کے لیے دس سال بھی کم ہیں۔

عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اب ہم ایک مختلف پاکستان میں داخل ہوں گے، جو جہد مسلسل سے حاصل کیا گیا پاکستان ہو گا، پہلی بار ایسی حکومت بنے گی جو متفقہ ہوگی اور اس ملک کو ایک نئی بنیاد فراہم کرسکے گی، اس ملک نے، یہاں کے عوام نے، ذلت کی سات دہائیاں گزاری ہیں، بننے والی نئی حکومت پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ ایک ایسی بنیاد رکھے جس سے پہلے دن ہی عوامی اطمینان کے دن شروع ہو سکیں۔

معیشت کی بحالی پہلا چیلنج ہو گا، معاشی اعتبار سے پاکستان آخری اسٹیج پر کھڑا ہے، اس کے لیے کچھ قلیل المدتی اور کچھ طویل المدتی فیصلے کرنے ہوں گے، ایک وزیر خزانہ نہیں، پوری معاشی ٹیم کے ذریعے بحالی معیشت کے چیلنجز سے نمٹنا ہو گا۔

گڈ گورنس بنیادی مسائل میں سے ایک ہے، ادارے مفلوج اور انصاف دسترس سے باہر ہے، عام آدمی جینے کے لیے روز مرتا ہے، کسی کی داد رسی نہیں ہے، قانون کی بالادستی کا تصور مفقود ہے، اتنی بڑی صبر آزما جدوجہد کے بعد کامیابی حاصل ہوئی ہے، اس کا فائدہ براہ راست عوام کو پہنچے، اس جدوجہد میں عام لوگوں نے قربانیاں دی ہیں، ان تک قربانیوں کا نتیجہ پہنچنا چاہیے۔

نئی حکومت ہر قسم کی انتقامی کارروائیوں پر فل اسٹاپ لگا دیے، کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو، کسی سے کوئی بدلہ نہ لیا جائے، نئی سیاسی روایت قائم کرے، نیب کا ازسرنو جائزہ لیا جائے، یہ بات ڈکلیئر کی جائے کہ اس ملک میں کوئی غدار نہیں ہے، یہ سب کا ملک ہے، بشرطیکہ ہر انسان کو جینے کا انسانی حق میسر ہو۔ ساری توانائیاں اس پر صرف کی جائیں کہ عوام کی خوشحالی کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے۔

لاپتہ افراد ایک سنگین انسانی مسئلہ ہے، اس سے بلوچستان بہت زیادہ متاثر ہے، ہر گھر ماتم کدہ ہے، ہر ماں، بہن، بیوی، والد، بھائی اپنے پیاروں کے منتظر ہیں، دس سے پندرہ پندرہ سالوں تک لوگ غائب ہیں، نئی بننے والی حکومت کی سب سے بڑی ذمہ داریوں میں لاپتہ افراد اور بلوچستان شامل ہونا چاہیے، بلوچستان گزشتہ بیس سالوں سے انسانی المیوں کی آماجگاہ ہے، بلوچستان کو مطمئن کرنا ضروری ہے، بلوچستان کو زندہ رہنے کا حق دینا ضروری ہے، تب جاکر جمہوریت دشمنوں کے خلاف کی جانے والی جدوجہد کے نتائج لوگوں تک پہنچیں گے۔

بلوچستان میں انسانی المیے کے خاتمے کے ساتھ ساتھ، وہاں کے لیے خصوصی قانون سازی کی جائے، بلوچستان بہت دور کھڑا ہے، اس فاصلے کو مٹانے کے لیے غیرمعمولی اقدامات اٹھانے ہوں گے، گوادر پورٹ اور ریکوڈیک سمیت بلوچستان میں وسائل کی تقسیم پر بلوچستان کو مطمئن کرنا ضروری ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار حقیقی جمہوری حکومت قائم ہونے جا رہی ہے، جس کی جدوجہد کا نصب العین یہی تھا کہ پارلیمنٹ کو پالیسیاں بنانے کا اختیار دیا جائے، جو نیوٹرل ہیں، وہ یوں ہی نیوٹرل نہیں ہوئے، انہیں نیوٹرل کرنے کے لیے ساڑھے تین سال تک ایسی بھرپور تحریک چلی ہے جس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی ہے، تب جاکر گھٹن کا خاتمہ ہوا اور دھند چٹ گئی ہے، نئی حکومت کو اس کا بھرپور فائدہ اٹھانا ہو گا۔

اطمینان بخش امر یہ ہے کہ نئی حکومت کی تشکیل میں مولانا کا کلیدی کردار ہو گا، مولانا نے چالیس سال تک اس ملک میں آئیڈیل سیاست کی ہے، شائستگی، وقار اور دلیل اس سیاست کے ستون رہے ہیں، مولانا اس وقت ایک قومی قائد اور راہنما کا روپ دھار چکے ہیں، مولانا اب ایک فرد یا ایک پارٹی سربراہ نہیں بلکہ وہ قومی اثاثہ بن گئے ہیں، وہ سب کے لیے با اعتماد ادارے کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں، اس وقت 22 کروڑ عوام کی نظریں مولانا پر ہیں اور مولانا ایک مختلف پاکستان کی تشکیل میں بنیادی کردار کے حامل ہوں گے۔

معاشی خوشحالی، بھیک کی لعنت کا خاتمہ، امریکی غلامی سے چھٹکارا، امن، روزگار، قانون کی بالادستی، چھوٹے صوبوں کا اطمینان، گڈ گورننس، انتقامی سیاست کا خاتمہ، بلوچستان اور ریاست کے فاصلوں کو سمیٹنا، یہ نئی حکومت کے لیے کرنے کے کام ہوں گے۔

چند مہینوں میں محسوس ہو کہ بہت کچھ مختلف ہو رہا ہے، دھیرے دھیرے لوگوں کو خوشگوار حیرت ہو کہ وہ کچھ ہو رہا ہے جسے وہ خواب سمجھتے تھے اور حقیقت میں اس کا تصور نہیں کر سکتے تھے، سپریم کورٹ نے عدلیہ کی تاریخ کا دھارا بدل کر سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا، کسی کو گمان نہیں تھا کہ عدلیہ اس طرح کا ایک واضح اور غیر مبہم فیصلہ کرے گی، عدلیہ نے اپنا حق ادا کر دیا اور ماضی سے مختلف ہونے کا ثبوت دیا، اب حکومت کرنے والوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایک سال میں مختلف پاکستان بنا کر سیاسی تاریخ کا دھارا موڑ دیں، تاکہ انہیں اس طعنے کا سامنا نہ کرنا پڑے کہ، دیکھیں جی ہم تو نیوٹرل ہیں لیکن ان سیاستدانوں سے کچھ نہیں ہو پا رہا ہے۔ جو ماضی میں ہماری مداخلت کا بہانہ بناتے تھے

حکومت میں شامل جماعتوں کے ورکرز پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اب مخالفین پر جملے نہ کسیں، طنز نہ کریں، یوتھیا کا جملہ ترک کر دیں، باہمی احترام کی فضاء بنائے رکھیں، اب وہ اپوزیشن نہیں حکومت ہیں، طنز و تنقید اپوزیشن کا وظیفہ ہوتا ہے، حکومت کا نہیں، اب انہیں طنز و تشنیع زیب نہیں دے گا، لوگ ان سے کارکردگی کا مطالبہ کریں گے کہ عمران خان جا چکا ہے، آپ کے پاس دینے کے لیے کیا ہے۔

عمران خان نے نیا پاکستان بنانے کی بات کی، وہ بری طرح ناکام ہوا، نئی حکومت بھی پرانے پاکستان کی بات نہ کرے، پرانا پاکستان کسی کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ضرورت ایک نئے پاکستان کی ہے، جو 73 سالہ پاکستان سے بالکل مختلف اور عوامی امنگوں کے عین مطابق ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments