گھر کا نہ گھاٹ کا: افسانہ


مقصود بھائی سے ہماری کوئی دور پرے کی رشتہ داری نہ تھی۔ ان کی ماں ہماری چچیری یا پھپیری بہن ہوتی تھیں۔ اس رشتے سے ہم مقصود بھائی کے ماموں ہوتے تھے۔ مقصود بھائی عمر میں ہم سے چھ ماہ بڑے رہے ہوں گے، اس لئے ہم لہذاھ انہیں مقصود بھائی کہتے تھے۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ مقصود بھائی نے بھی ہم سے آپ جناب ہی رکھی ہوئی تھی اور خاصا لحاظ کرتے تھے۔ یوں بھی ہماری ان کی دوستی تھی نہ بے تکلفی۔ جیکب آباد میں رہتے تھے اور کبھی کسی شادی بیاہ کے موقعے پر کراچی آتے تو ملاقات ہو جاتی، جو چند گھنٹوں سے زیادہ نہ ہوتی۔ مگر انٹرنس پاس کرنے کے بعد جب مقصود بھائی کو تلاش معاش کی سوجھی تو وہ کراچی آئے اور کئی ہفتے ہمارے ہاں ہی رہے۔ بس یہیں سے ہماری ان کی دوستی یا رشتہ داری کا آغاز ہوا۔ مگر جب مقصود بھائی کو کہیں منزل مقصود نہ ملی تو وہ با دل ناخواستہ جیکب آباد لوٹ گئے۔

پھر ہمارا پاکستان سے باہر آنا ہو گیا اور مقصود بھائی سے ہماری ملاقات کبھی خواب میں بھی نہ ہوتی۔ اڑتی اڑاتی خبر ملی کہ مقصود بھائی ریلوے میں ٹکٹ کلکٹر ہو گئے ہیں اور جیکب آباد ریلوے اسٹیشن پر ہی ان کی پوسٹنگ ہو گئی ہے۔ ہمیں اس خبر سے زیادہ خوشی اس لئے نہ ہوئی کہ ہم نے سوچا کہ کاش ان کا عہدہ آدھا ہی ہوتا اور وہ ٹکٹ کلکٹر کے بجائے صرف کلکٹر ہوتے تو ہم بھی مونچھوں کو، جو ابھی رکھی نہیں ہیں، تاؤ دے کر کہتے کہ اوئے جیکب آباد میں ہمارا یار کلکٹر لگا ہوا ہے۔

ایک دن ہم نے لیٹر باکس کھولا تو پاکستان سے آیا ہوا ایک ایسا خط ملا جس کی تحریر ہمارے لئے نئی نہ تھی۔ لفافے پر لگی ہوئی مہر دیکھی تو لکھا تھا ”جیکب آباد“ ۔ خط کھولنے سے پہلے مقصود بھائی کی فلم دماغ کے پردے پر چل گئی۔ جلدی سے خط کھولا۔ پڑھا تو معلوم ہوا کہ اپنی ریلوائی ملازمت کے دوران مقصود بھائی نے پڑھائی جاری رکھی اور بی کام کر لیا ہے۔ اس کے بعد اعلی تعلیم کی غرض سے امریکا آنے والے ہیں۔ یہ ہمارے درمیان پہلا خط تھا۔

پڑھ کر اندازہ ہوا کہ مقصود بھائی خط خوب لکھتے ہیں۔ کئی جگہ ان کی محبت بھری باتوں نے پلکوں پر موتی رول دیے۔ لکھا تھا کہ کئی اچھی یونیورسٹیز میں داخلہ مل گیا تھا مگر میں نے ہیوسٹن کو اس لئے ترجیح دی کہ آپ یہاں رہتے ہیں۔ خاصے وضع دار آدمی تھے، صاف لکھ دیا کہ میں آپ پر بوجھ نہیں بنوں گا، البتہ آپ سے مدد لیتا رہوں گا۔ میرے لئے ایک کرائے کے کمرے کا انتظام کردیجئے گا۔ ہم نے دل میں کہا مقصود بھائی آپ کی تو ایسی کی تیسی، آپ آئیے تو سہی، آپ ہمارے ہوتے کہیں اور رہیں، اب ایسا کل جگ بھی نہیں ہے۔

پھر ایک دن ہم ائرپورٹ پر کھڑے تھے۔ مقصود بھائی آ کر ہم سے لپٹ گئے اور ایسی محبت سے ملے کہ سگا بھائی بھی ہوتا تو گرم جوشی اس سے زیادہ نہ ہوتی۔ ہم گھر آئے، کھانا کھایا، گھنٹوں پاکستان کی، عزیزوں کی اور نہ جانے کیا کیا باتیں ہوتی رہیں۔ چوبیس گھنٹے کی مسافت اور دیر تک گفتگو کے بعد اب یہ حال تھا کہ ان کی باتوں میں خراٹوں کی آمیزش ہو گئی تھی۔ ہم نے ان کے کمرے کا بلب بجھا دیا اور باہر آ گئے۔ آنے کے دس دن بعد مقصود بھائی بڑے انہماک سے اپنی پڑھائی میں لگ گئے۔

ہمارے ساتھ رہنے پر مشکل سے آمادہ ہوئے۔ نہ جانے کس نے ان سے کہہ دیا تھا کہ امریکا میں لوگ اپنی پرائیویسی ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتے۔ ہم نے انہیں سمجھایا کہ بھائی ابھی تو ہمیں پاکستان سے نکلے صرف چھ سال ہوئے ہیں، اتنے عرصے میں ہم اپنی قدروں کو یوں نہ بھلا دیں گے کہ ایک عزیز دوست کی صحبت ہمارے لئے کلفت کا باعث ہو۔

مقصود بھائی اچھے روم میٹ ثابت ہوئے۔ کبھی ہمارے درمیان کوئی اختلاف یا تکرار نہیں ہوئی۔ انتہائی سلیم الطبع آدمی تھے۔ نمازوں میں پنج وقتگی نہ سہی، باقاعدگی ضرور تھی۔ جمعے کی صبح دو رکوع تلاوت بھی کرتے اور جمعے کی نماز کبھی نہ چھوڑتے۔ اپنے لیکچرز وغیرہ کا پروگرام اس طرح مرتب کرتے کہ جمعہ چھوٹنے نہ پاتا۔

کوئی آٹھ دس ماہ ہمارے ساتھ رہنے کے بعد مقصود بھائی موسم گرما کی چھٹیوں میں کام کرنے کے لئے نکلے۔ ہماری شومئی قسمت کہ انہیں کام ایسی جگہ ملا جو یونیورسٹی سے بھی آٹھ دس میل آگے تھا۔ یوں بھی ہمارے گھر سے یونیورسٹی کا فاصلہ کوئی پندرہ میل تھا۔ کام پر جانے کے لئے ان کو آدھے گھنٹے سے زیادہ لگتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کام ملنے کے کوئی دس دن بعد مقصود بھائی اپنے ایک ہم جماعت کے ساتھ منتقل ہو گئے جو ان کے کام کے قریب ہی رہتا تھا اور جس کی کوشش سے مقصود بھائی کو کام ملا تھا۔

ہمیں ان کے جانے کا جو افسوس تھا سو تھا، فکر یہ تھی کہ مقصود بھائی کا نیا روم میٹ خاصا آزاد خیال تھا۔ تھا تو پاکستانی مگر وہ ایسے نوجوانوں میں تھا جو گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے۔ اس قدر امریکیا جاتے ہیں کہ اپنے آپ کو پاکستانی کہنے میں بھی شرماتے ہیں۔ پاکستان جانے کے نام سے بدک جاتے ہیں۔ اپنی عادت و اطوار، رہن سہن حتی کہ نام بھی بدل لیتے ہیں۔ امریکی انہیں امریکی تسلیم نہیں کرتے اور پاکستانی وہ برائے نام ہوتے ہیں، صرف اس حد تک کہ ان کا پاسپورٹ پاکستانی ہوتا ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ ممکن ہے مقصود بھائی کی صحبت ان صاحب کی اصلاح کردے، مگر ہوا ہماری توقع کے خلاف۔

ہوا یوں کہ ملازمت میں مقصود بھائی انتہائی دل جمعی سے لگ گئے اور آٹھ کے بجائے بارہ گھنٹے وہاں مصروف رہتے۔ ہم بھی خوش تھے کہ مقصود بھائی کی امریکہ میں پہلی ملازمت ہے، اچھی طرح پیسے کما لیں تو پھر سکون سے پڑھائی کی طرف توجہ دے سکیں گے۔ یوں بھی مقصود بھائی پچھلے دنوں خاصے تنگ دست و مقروض رہے تھے۔ اس طرح ان کی مصروفیت ہماری ملاقات میں خاصی حائل رہی۔ دو بار ہم ان کے ہاں ہو آئے مگر ان کا ہمارے ہاں آنا نہ ہوا۔

پھر چھٹیوں کے دو ماہ بھی گزر گئے اور یونیورسٹی کھل گئی مگر مقصود بھائی نے ملازمت جاری رکھی۔ ٹیلیفون پر بات ہوئی تو بولے کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ اگلا سیمسٹر چھوڑ دوں اور چار پیسے جمع کر لوں تاکہ آئندہ سکون سے پڑھائی کر سکوں۔ ہم نے ان کی اس بات کو پسند نہ کرتے ہوئے بھی تسلیم کر لیا کہ چلو خواہش تو نیک ہے۔

پھر آہستہ آہستہ ہماری دوستی ماند پڑتی گئی۔ یوں لگتا تھا کہ مقصود بھائی کو ہم میں وہ دلچسپی نہ رہی۔ ٹیلیفون ہمارے ہی جاتے، ان کا نہ آتا۔ غرض اس یک طرفہ تعلقات کا سلسلہ چلتا رہا اور مقصود بھائی کو ملازمت کرتے کرتے کوئی آٹھ دس ماہ ہو گئے۔ ہمارے کئی بار احساس دلانے پر مقصود بھائی دس ماہ بعد پھر یونیورسٹی میں دیکھے جانے لگے۔ مگر اب ان کی شخصیت میں اتنی تبدیلی آ چکی تھی کہ موجودہ مقصود بھائی اور سال بھر پہلے والے مقصود بھائی میں کوئی مناسبت ہی نہ تھی۔

طبیعت میں لا ابالی، تعلیم میں بے توجہی، لباس میں بے قاعدگی، مذہب سے بیزاری۔ سگریٹ پینے کا شوق لڑکے پندرہ سے بیس سال کی عمر کے درمیان شروع کرتے ہیں، مقصود بھائی نے تیس سے پینتیس سال کی عمر میں یہ نیا شوق شروع کیا۔ کہتے تھے کہ سارا دن کام کرنے کے بعد دو سگریٹ پینے سے بڑا سکون ملتا ہے اور نیند اچھی آتی ہے۔ اب وہ کوئی بچے تو تھے نہیں کہ ہم انہیں سگریٹ کے نقصانات پر لیکچر دینے بیٹھ جاتے۔

مقصود بھائی کو ہم سے علیحدہ ہوئے کوئی ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوا ہو گا کہ ایک دن ہم ان کے ہاں پہنچے۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ وہ چونکہ ایک دن قبل کام کرنے گئے تھے (اب وہ ہفتے میں تین دن کام کرتے تھے ) اور کل ان کی رات کی ڈیوٹی تھی، لہٰذا آج دیر تک سوئے تھے اور دوپہر میں ناشتہ کر کے اس وقت ٹی وی پر فٹبال میچ دیکھ رہے تھے۔ ہماری غیر متوقع آمد نے ان کے فٹ بال کے میچ کو ڈسٹرب کیا۔ صوفے کے ایک جانب بیئر کی خالی بوتلیں ہمارے لئے نئی نہ تھیں، اس لئے کہ ہمیں معلوم تھا کہ ان کا روم میٹ بیئر پیتا ہے۔

لیکن جو بات ہمارے لئے غیر یقینی تھی وہ یہ کہ آج ہمیں مقصود بھائی کی گفتگو میں بوئے آب جو محسوس ہوئی۔ انہوں نے جلدی سے چیونگم منہ میں رکھتے ہوئے پیکٹ ہماری طرف اچھال دیا۔ ہم ابھی غیر یقینی اور انجانے پن کی کیفیت میں تھے کہ مقصود بھائی ہمیں چائے میں مصروف کر کے نہانے چلے گئے۔ ہم نے مزید ٹوہ لگانا مناسب نہ سمجھا بلکہ اپنے خیال کو غلط محسوس کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔

ابھی ہم اسی ادھیڑ بن میں تھے کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ مقصود بھائی چونکہ باتھ روم میں تھے اس لئے ہم نے ریسیور اٹھایا۔ ایک نسوانی آواز نے ہائے کہنے کے بعد ہم سے مائک کے بارے میں پوچھا۔ ہم نے سوچا کوئی امریکن لڑکی کسی امریکن لڑکے کو پوچھ رہی ہے۔ ہم نے رونگ نمبر کہتے ہوئے ریسیور رکھ دیا۔ ایک منٹ بعد گھنٹی پھر بجی۔ پھر وہی آواز، اسی مائک نامی آدمی کی تفتیش۔ ہم ابھی اسے تفصیل سے بتا بھی نہ پائے تھے کہ یہاں کوئی مائک نہیں رہتا کہ اتنے میں مقصود بھائی باتھ روم سے نکل آئے اور ریسیور ہمارے ہاتھ سے چھینتے ہوئے اس خاتون سے گفتگو میں مصروف ہو گئے۔

مختصر گفتگو کے بعد ریسیور رکھتے ہوئے ہمیں آگاہی بخشی کہ ساتھ کام کرتی ہے، کچھ کام کی بات پوچھنی تھی۔ ہم نے کہا وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ مائک؟ بولے آپ تو جانتے ہیں مقصود نام مقامی لوگوں کے لئے مشکل ہوتا ہے تو میں نے امریکن نام مائک رکھ لیا ہے۔ ان لوگوں کو سہولت ہوتی ہے۔ ہم نے انتہائی حیرت سے انہیں دیکھا اور پوچھا کہ مقصود بھائی وہ آپ کے ایک چچا کافی عرصے سے سعودی عرب میں رہتے ہیں اور ان کے توسط سے آپ کو سعودی عرب کی کافی معلومات ہیں، آپ ہمیں ان سے سنے ہوئے قصے سناتے رہے ہیں، ذرا بتائیے کہ آپ کے اندازے سے کتنے امریکن سعودی عرب میں رہتے ہوں گے۔

بولے کئی ہزار۔ ہم نے کہا ان میں سے کتنوں نے اپنا نام عبدالجبار رکھ لیا ہے کہ عربوں کو رانلڈ ریگن کہنے میں دشواری ہوتی ہے۔ مقصود بھائی ہماری اس چوٹ پر تھوڑا سا بپھر گئے۔ بولے آپ کی طبیعت میں لچک نہیں ہے، آپ کی تو وہ مثال ہے کہ کتے کی دم بارہ سال شیشے کی نلکی میں رکھنے کے بعد دیکھا تو شیشے کی نلکی ٹیڑھی ہو گئی تھی۔ آپ کو یہاں رہتے ہوئے آٹھ سال ہو گئے مگر ہیں آپ وہی لکیر کے فقیر۔ اس وقت مقصود بھائی میں غصے سے زیادہ جھنجھلاہٹ تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ہم میں کچھ تلخی ہوئی۔ ہم نے موضوع بدلا اور کچھ دیر میں اجازت چاہی۔ راستے بھر ہم مقصود بھائی کے منہ کا بھبکا، نسوانی آواز اور مائک میں الجھے رہے۔

پھر ہماری ملاقات ٹیلیفون پر ہی ہوتی رہی۔ تقریباً چھ ماہ بعد مقصود بھائی کہیں ملے تو ہم انہیں مشکل سے پہچان سکے۔ بال بڑھ گئے اور پتلون گھٹ گئی تھی۔ ایک شورٹ پہنے ہوئے تھے۔ اردو میں اسے نیکر کہہ لیجیے۔ اس کے اختصار کا یہ عالم کہ ہم اسے چڈھی ہی کہہ سکتے ہیں۔ وجہ یہ کہ اس کے پائنچے جانگھوں میں گھسے رہتے ہیں اور اس قدر کم کپڑے سے تیار ہوتی ہے کہ اس سے زیادہ کپڑا تو ہمارے پہلوان کی لنگوٹ پر صرف ہوتا ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ اگر لباس ستر پوشی کے لئے ہے تو یہ ستر نمائشی کے لئے۔

ہم نے کہا مقصود بھائی یہ کیا لباس ہے۔ بولے یار آج گرمی بہت ہے۔ ہم نے کہا مقصود بھائی آج تو صرف ترانوے فارن ہائیٹ ہے۔ کیا تین چار سال میں آپ جیکب آباد کی گرمی بھول گئے۔ مقصود بھائی کچھ مسکرائے مگر آج بولے کچھ نہیں۔ اس لئے بھی کہ آج ایک سفید فام نازنین بھی ان کے ہمراہ تھی۔ ہمیں مقصود بھائی کی ان حرکتوں کا علم ہو چکا تھا لیکن ایک حجاب سا درمیان میں تھا۔ ہم نے ان سے نہ انہوں نے ہم سے کبھی اس موضوع پر بات کی تھی۔

مگر آج وہ حجاب اٹھ چکا تھا۔ مجھے اس سے متعارف کرایا۔ ان سے ملو یہ سوزن ہیں۔ مگر یہ نہیں بتایا کہ ساتھ ہی رہتی بھی ہیں۔ لیکن ہمیں معلوم تھا اس لئے کہ ہم نے اکثر ٹیلیفون کیا تو نسوانی آواز نے ہی ٹیلیفون ریسیو کیا تھا۔ اس تعارف کے بعد یہ ہوا کہ ہم نے کبھی ٹیلیفون کیا، مقصود بھائی نہ ملے تو ہم نے پیغام چھوڑ دیا۔ بعد میں ان کا فون آتا تو کہتے سوزن نے بتایا کہ آپ نے فون کیا تھا۔ اس طرح یہ پردہ بھی اٹھ گیا اور مقصود بھائی نے یہ ظاہر کر دیا کہ وہ کسی لڑکی کے ساتھ رہتے ہیں۔

سوزن ماریہ سے اور ماریہ کیرن سے تبدیل ہوتی رہی۔ اور اب تو مقصود بھائی کھل کر ہم سے اپنی رنگینیاں بھی بیان کرنے لگے تھے۔ کبھی ہم نے کچھ کہا تو بولے بھائی کنویں میں کب تک ٹراتے رہو گے۔ کنویں سے باہر نکل کر دیکھو دنیا بہت بڑی ہے۔

ایک دن ملے تو انہوں نے انتہائی غصے کا اظہار کرتے ہوئے اپنی کسی دور پرے کی رشتہ دار لڑکی کا ذکر کیا جو انہی کی یونیورسٹی میں پڑھتی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ گرین کارڈ کے چکر میں کسی گورے کے ساتھ رہنے لگی ہے۔ مقصود بھائی کو اس کی یہ حرکت انتہائی ناگوار گزری۔ اس کے پچھلے تمام معاشقوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اسے انتہائی بے نقط سنائی۔ سب سے مہذب گالی جو قلم کی گرفت میں آ سکتی ہے وہ ہرجائی تھی۔ ہم نے تجاہل عارفانہ سے ہرجائی کی وضاحت چاہی۔

انتہائی استادانہ انداز میں بولے بھئی جو آج اس کے ساتھ کل اس کے ساتھ۔ ہم نے فوراً کہا مقصود بھائی پھر ہرجائی تو آپ بھی ہوئے۔ ذرا سا سٹپٹائے پھر ایک بے شرم سا قہقہہ لگا کر بولے آپ بھی بڑی پرانی روح ہیں۔ ارے بھئی مرد ذات کا کیا ہے بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لئے۔ ہمیں ان کی اس مثال میں مرد ذات کی وہ عظمت نظر آئی کہ حوا کی بیٹی ایک حقیر سا کیڑا لگنے لگی۔

ایک دن مقصود بھائی کو ہمارا ٹائپ رائٹر چاہیے تھا۔ ان کا ٹیلیفون آیا اور طے ہوا کہ ہم شام کو آٹھ بجے ان کے گھر آئیں گے اور ٹائپ رائٹر دے جائیں گے۔ کسی وجہ سے ہمیں پہنچنے میں دیر ہو گئی اور ہم آٹھ کے بجائے دس بجے ان کے گھر پہنچے۔ جونہی ہم گھر میں داخل ہوئے خوشبو کے ایک جھونکے نے ہمارا استقبال کیا۔ دیکھا تو مقصود بھائی بہترین سوٹ میں ملبوس، بنے ٹھنے تیار کھڑے ہیں۔ ہم نے انہیں اتنا خوش پوش پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔

جلدی سے بولے یار آپ نے تو آنے میں بڑی دیر کردی، میں تو نکلنے ہی والا تھا۔ ہم نے معذرت چاہی اور پوچھا کہ مقصود بھائی خیر تو ہے آج یہ بجلی کہاں گرے گی۔ کیا سوزن کی طرف چلے ہیں۔ بولے نہیں بھائی بجلی ایک ہی جگہ پر بار بار نہیں گرا کرتی، ہر بار ایک نیا ٹھکانا۔ ہم نے کہا مقصود بھائی پھر بھی اتنی تیاری کیسی۔ بولے یار آپ بھی نہ جانے کس دنیا میں رہتے ہیں۔ بھائی آج سیٹرڈے نائٹ ہے، کسی کلب میں جائیں گے، دو تین گھنٹے رقص و سرور کی محفل رہے گی، پھر کسی ہم رقص کو ہمراہ لے آئیں گے۔ چلئے آج آپ کی بھی نتھ اتروا دیں۔ ہمیں مقصود بھائی کی ان واہیات باتوں پر انتہائی غصہ آیا اور ہم الٹے پاؤں واپس آ گئے۔

دوسری شام مقصود بھائی ہمارا ٹائپ رائٹر واپس کرنے کے بہانے ہمارے گھر آ گئے اور بولے بھائی آپ تو کل بے حد ناراض ہو گئے۔ ہم تو آپ کو دوستوں کی طرح سمجھتے ہیں، اگر کبھی مذاق کر لیا تو کیا۔ ہم نے کہا مقصود بھائی اتنی آزادانہ گفتگو اور بیہودہ مذاق اگر آپ ہم سے نہ کیا کریں تو بہتر ہو گا۔ غرض مقصود بھائی نے معذرت چاہی اور کل کی رنجش کچھ کم ہو گئی۔ ہم نے کہا مقصود بھائی آپ کو پاکستان سے آئے ہوئے پانچ سال کا عرصہ ہو گیا، آپ نے کبھی چکر لگانے کا پروگرام نہیں بنایا!

آپ کے گھر والوں کے خطوط ہمارے پاس بھی آئے مگر آپ تو سب کو بھول ہی گئے۔ بولے گھر والے تو خوامخواہ جذباتی ہو رہے ہیں، آ کر صورت دکھا جاؤ، تمہاری یاد بہت آتی ہے۔ میں پوچھتا ہوں یہ کیا جذباتی باتیں ہیں؟ میری صورت کو کیا چاٹیں گے؟ ہر سال عید پر ایک ہزار ڈالر بھیجتا ہوں جس کے سولہ سترہ ہزار روپے بنتے ہیں۔ پاکستان میں رہتا تو اتنی میری سال بھر کی تنخواہ ہوتی، کیا خود کھاتا کیا انہیں دے پاتا۔ ہر دو تین ماہ بعد ٹیلیفون کر کے اپنی خیریت کی اطلاع دیتا ہوں۔ آج تک کبھی اتنے پیسے جمع نہیں کر پایا کہ پاکستان کا پروگرام بنا سکوں۔

مگر اتفاقاً اس واقعے کے دو تین ماہ بعد مقصود بھائی کی والدہ کی طبیعت اتنی بگڑی کہ چل چلاؤ کی نوبت آ گئی۔ بھائی بہنوں نے ٹیلیفون پر بہت آہ و زاری کی کہ ماں کی صورت دیکھنا چاہتے ہو تو آ جاؤ۔ مقصود بھائی کو جانا ہی پڑا اور اس طرح چھ سال بعد مقصود بھائی پاکستان روانہ ہوئے۔ گئے تو ایک ماہ کے لئے تھے لیکن ایک ماہ کب کا گزر چکا پر مقصود بھائی واپس نہ آئے۔ ہمیں معلوم ہوا کہ ان کی والدہ کی طبیعت اب قدرے بہتر ہے۔

اس عرصے میں میری اپنی فیملی کا پاکستان جانا ہوا تو ان سے ٹیلیفون پر تفصیل معلوم ہوئی کہ ان کی ماں کا اصرار ہے کہ بیٹا اب آئے ہو تو مجھے اپنی خوشی دیکھنا نصیب کرو۔ شادی نہیں تو کم از کم نکاح تو کر کے جاؤ۔ مقصود بھائی نے منع تو نہیں کیا لیکن جتنی لڑکیاں انہیں دکھائی گئیں انہوں نے کسی کے لئے ہاں نہیں کی۔ کسی گہری سوچ میں ہیں۔ نہ جانے کیا پریشانی ہے۔ پھر ساڑھے تین ماہ بعد ایک دن ان کا ٹیلیفون آیا۔ بولے میں پرسوں شام آٹھ بجے ہیوسٹن پہنچ رہا ہوں، آپ ائرپورٹ آ جائیں تو اچھا رہے گا۔ بھابی کراچی ہی میں ہیں، آپ اکیلے ہوں گے، ایک دو دن آپ کے ساتھ ہی رہوں گا۔ میں نے کہا میری جان چشم ما روشن دل ما شاد۔ آپ کی بھابی ابھی مزید چار چھ ہفتے وہیں رہیں گی۔ میں اکیلا ہوں آپ میرے ساتھ ہی رہیں گے۔ مگر کیا ہوا سہرے کے پھول کھلے یا نہیں، بات کہاں تک پہنچی؟ بولے آ کر ہی بتاؤں گا۔

تیسرے دن ہم مقصود بھائی کو ائرپورٹ سے لے آئے۔ ان کی صحت کچھ گر گئی تھی اور رنگت پر جیکب آبادی گرمی کی سیاہی چھا گئی تھی۔ ہم نے کھانا کھایا، دیر تک خاندان کی مختلف باتیں ہوئیں۔ جب بھی ان سے شادی والی بات پوچھی وہ ٹال گئے۔ ہم نے اندازہ لگایا کہ وہ ہم سے کچھ چھپا رہے ہیں، اس لئے کریدا نہیں۔ دوسرے دن مختلف باتوں کے دوران ہم نے دیکھا کہ مقصود بھائی کچھ بجھے بجھے سے، کچھ پریشان سے ہیں۔ طبیعت میں وہ چونچالی وہ شوخی نظر نہیں آئی۔

ہم نے سوچا ابھی ابھی گھر سے آئے ہیں، گھر والوں کی یاد میں کچھ پریشان ہوں گے۔ تیسرے دن مقصود بھائی ہمارے بہت روکنے کے باوجود اپنے گھر چلے گئے۔ اتفاقاً اگلے تین چار دن بہت مصروف گزرے اور ہم ان کو ٹیلیفون بھی نہ کرسکے اور نہ ان کا فون آیا۔ اگر آیا ہو تو ہم سارے دن گھر سے باہر رہے تھے۔ چار دن بعد ایک شام ہم گھر آئے تو مقصود بھائی کا خیال آیا، مگر آج سیٹرڈے نائٹ تھی اور اس وقت رات کے نو بجے تھے۔ پھر بھی ہم نے انہیں ٹیلیفون کیا۔

انہوں نے ٹیلیفون اٹھایا تو ہم نے معذرت کی کہ بھائی آج سیٹرڈے نائٹ ہے، آپ تو شکار پر جا رہے ہوں گے، مگر کل دوپہر کا کھانا ہمارے ساتھ کھائیے گا۔ آپ سے تو چار دن سے کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ہم نے ان کی انتہائی مغموم سی آواز سنی۔ آپ مجھے نہ چھیڑیں تو بہت اچھا ہو گا، میں بے حد پریشان ہوں۔ جب سے آیا ہوں نہ کسی کو ٹیلیفون کیا نہ گھر سے باہر نکلا ہوں۔ آپ ڈسٹرب نہ ہوں تو میں ابھی آپ کے گھر آ جاؤں، آپ سے مل کر مجھے تقویت ہوگی۔

ہم نے کہا بھئی یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے، آپ ضرور آئیں بلکہ طبیعت اچھی نہ ہو تو میں لینے آ جاؤں۔ بولے نہیں، میں آ جاتا ہوں۔ اور ایک گھنٹے کے بعد جب ہم نے دروازہ کھولا تو ہمیں یقین نہیں آیا۔ آج سے چھ سات ماہ پہلے، آج ہی کی رات خوبصورت سوٹ میں ملبوس بنا ٹھنا ہیرو، آج سیٹرڈے نائٹ دس بجے رات، شیو بڑھا ہوا، بال بے ترتیب، پرانی سی جینز کی پتلون اور میلی سی قمیص پہنے کھڑا تھا۔ ہم نے انہیں لپٹا لیا اور پوچھا کہ بھائی آخر ہوا کیا؟

بولے ڈپریشن سا ہے، طبیعت گھبرا رہی ہے، کچھ اچھا نہیں لگتا۔ ہم نے کہا کسی ڈاکٹر کے پاس چلیں، بخار وغیرہ تو نہیں ہے؟ بولے نہیں ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے کہا پھر بھی ہوا کیا؟ مگر وہ خاموش رہے اور سر جھکائے بیٹھے رہے۔ ہم نے انہیں گرم گرم دودھ پلایا اور سو جانے کو کہا، کہ صبح آپ سے آرام سے بات ہوگی۔ ضرورت پڑی تو قریب ہی ڈاکٹر شمسی رہتے ہیں وہاں لے چلوں گا۔

نہ جانے مقصود بھائی رات دیر تک جاگے یا کئی دن کی نیند تھی، صبح کافی دیر سے اٹھے۔ ہم نے کہا آپ جائیں شیو کریں، نہائیں۔ ایک جوڑا کپڑا نکال کر انہیں دیا کہ آپ ذرا تیار ہوں، اتنی دیر میں میں کھانا تیار کرتا ہوں۔ جتنی دیر میں وہ نہا کر نکلے کھانا تیار تھا۔ ہم نے کھانا کھایا، چائے وائے پینے کے بعد ہم نے ان کا حال جاننا چاہا۔ بات کھلی تو دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ جو کچھ انہوں نے بتایا اس کا لب لباب یہ تھا کہ شروع میں جب گھر والوں نے ان سے شادی کے لئے کہا تو مقصود بھائی اس کے لئے تیار نہ تھے۔

وہ تو اڑتی چڑیا تھے، خود پنجرے کے اندر جاکر دروازہ کیونکر بند کر سکتے تھے۔ ہم نے جب بھی ان سے شادی کا ذکر کیا انہوں نے رٹا رٹا سا جملہ دہرایا۔ بھائی، جب گائے پالے بغیر دودھ پینے کو مل جایا کرے تو کوئی پاگل ہے جو گوبر اور سانی میں اپنا ہاتھ خراب کرے! مگر جب گھر والوں نے انہیں سمجھایا کہ اب ان کی عمر چھتیس سال ہو چکی ہے، اگر اب بھی شادی نہ کی تو آخر کس عمر میں جاکر کریں گے۔ پھر بوڑھی ماں کا اصرار تو مقصود بھائی تیار ہو گئے۔

مگر اب مشکل یہ ہو گئی کہ انہیں جتنی لڑکیاں دکھائی گئیں ہر ایک میں انہیں ماریہ اور سوزن نظر آئیں۔ انسان کو آئینے میں اپنا ہی چہرہ نظر آتا ہے۔ انہیں ان تمام لڑکیوں کی پاکبازی مشکوک نظر آئی۔ اور سوزن اور ماریہ قسم کی لڑکیوں سے وہ شادی کے لئے تیار نہ تھے۔ یہاں ان کی تمام آزاد مزاجی، ترقی پسندی اور مغربی طبییعت کا قلعہ مسمار ہو گیا تھا۔ ان گنت گنگاؤں میں ہاتھ دھونے کے بعد انہیں ایک ایسی گنگا کی تلاش تھی جس میں کسی نے ہاتھ نہ دھوئے ہوں۔ اب انہیں ایک ایسی عفیفہ درکار تھی جس کی عفت کی قسمیں کھائی جا سکیں، جو مریم کے پہلو میں بٹھائی جانے کے قابل ہو، جس نے کرامن کاتبین سے بھی پردہ کیا ہو اور ایسی عورت انہیں ایک ایسے مرد کے لئے درکار تھی جس کے کردار پر داغ ہی داغ ہوں بدنما داغ۔

ہمیں مقصود بھائی کی اس خواہش پر سخت غصہ آیا اور ہم نے ان سے کہا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ کے خیال میں ماریہ اور سوزن قسم کی لڑکیاں شادی کے قابل نہیں ہیں۔ انہیں ایسا کس نے بنایا؟ اگر ہم اپنے معاشرے کی چار چھ لڑکیوں کو اپنی ہوس کا شکار کرتے رہیں تو پھر ہمارے لئے پاکباز لڑکیاں کہاں سے آئیں گی؟ اگر آپ کو اپنے لئے پاکباز لڑکی چاہیے تو پھر اس لڑکی کا کیا قصور ہے کہ اسے پاکباز مرد نہ دیا جائے؟ آپ گلاب کا پھول کیچڑ میں پھینک دینا چاہتے ہیں، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ گلاب تو خوبصورت گلدان میں صاف ستھرے پانی کے ساتھ ہی بھلا معلوم ہوتا ہے۔

ہم نے ہر ہر موقع پر آپ کو اس بے راہروی سے باز رکھنا چاہا۔ جب بھی آپ سے کہا کہ آپ کا یہ دوست مصطفی جس نے ماں باپ کا رکھا ہوا ’فرسودہ‘ نام ترک کر کے اپنا نام بوبی رکھ لیا ہے اچھا لڑکا نہیں ہے۔ اس کی صحبت میں آپ بگڑتے جا رہے ہیں اور ہم نے جب بھی اس میں پانچوں شرعی عیب گنوائے تو آپ نے ہمیشہ لاپروائی سے کہا کہ ”ہم کو یار کی یاری سے مطلب ہے یار کے فعلوں سے کیا؟“ ۔ یہ انتہائی احمقانہ جملہ آپ نے رٹا ہوا تھا۔

ہمیں یار کے فعلوں سے مطلب یقیناً ہونا چاہیے۔ انسان اپنے دوستوں اور درخت اپنے پتوں سے پہچانا جاتا ہے۔ کند ہم جنس با ہم جنس پرواز، کبوتر با کبوتر باز با باز۔ کبوتر تو کبوتروں کے ساتھ ہی اڑتا ہوا بھلا معلوم ہوتا ہے۔ ہم نے جب بھی کسی کبوتر کو شکرے کے ساتھ اڑتا دیکھا ہے ہمیشہ پریشان دیکھا ہے۔ آپ نے اپنے اوپر اتنا مغربی خول چڑھا لیا تھا کہ مشرق زدہ لوگ آپ کو کنزرویٹیو اور کم درجہ لگنے لگے تھے۔ ان سے ملنا جلنا آپ اپنی ہتک سمجھتے تھے۔ آپ نے متعدد بار ہمارا مذاق اڑایا، ہمارے جذبات کی توہین کی، ہمارے مذہب کی تذلیل کی۔ جوانی کی ساری رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے کے بعد اب اس باسی کڑھی میں ابال کہاں سے آ گیا کہ آپ کی طبیعت نیک اور پارسا لڑکی کی طرف مائل ہونے لگی؟

ہم کافی دیر تک ان سے نہ جانے کیا کچھ کہتے رہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں مقصود بھائی نے ہمارے ساتھ جو جو زیادتی کی تھی، جس جس طرح ہمارے جذبات کا مذاق اڑایا تھا، آج ہم نے اس کا حساب چکا دیا۔ وہ خاموش سر جھکائے ہارے ہوئے جواری کی طرح بیٹھے تھے۔ مکمل خاموش، وہ رو نہیں رہے تھے لیکن ان کا دل رو رہا تھا۔ آج ہمیں یوں لگا گویا اونٹ پہاڑ کے نیچے آ گیا ہو۔

ہم نے گھڑی دیکھی، عصر کا وقت تنگ ہو رہا تھا۔ اٹھ کر وضو کیا۔ آج عمداً ان سے نماز کے لئے نہیں کہا۔ ہم نے ان سے جب بھی نماز کے لئے کہا، انہوں نے اکثر ہمارا مذاق اڑایا، ارے بھائی یہ نمازیں ہی پڑھنی تھیں تو پاکستان ہی میں رہتے، جیسا دیس ویسا بھیس۔ ان چکروں میں پڑے رہیں گے تو بہت پیچھے رہ جائیں گے، یہ امریکا ہے بھائی امریکا۔

ہم نے سوچا ان کے سامنے نماز پڑھنے سے انہیں شرمندگی نہ ہو کہ آبگینوں کو ٹھیس لگ جانے کا اندیشہ تھا۔ ہم نے جائے نماز اٹھائی اور باہر صحن میں نماز پڑھنے لگے۔ آج ہماری طبیعت خود بھاری سی ہو گئی تھی۔ لمبی لمبی آیتوں کے ساتھ بڑے خشوع و خضوع سے چار رکعتیں ادا کیں۔ جب سلام پھیرا تو دیکھا کہ ایک مقتدی نے ہمیں امام ہونے کا شرف بخشا تھا۔ ہمارے ہاتھ شکر خداوندی کے لئے اٹھ گئے اور عقیدت و احترام سے ہمارا منہ آسمان کی طرف بلند ہو گیا۔ جھٹ پٹے کا وقت تھا اور پرندے اپنے اپنے ٹھکانوں کو لوٹ رہے تھے۔ ہمارے کان بجنے لگے، ہمیں یوں لگا کہ آج یہاں امریکا میں بھی ہمارے محلے میں مسجد ہے جہاں مغرب کی اذان ہو رہی ہے۔ موذن کی آواز ہمارے کانوں میں صاف آ رہی تھی۔ حی علی الفلاح، حی علی الفلاح۔ آؤ نیکی کی طرف، آؤ نیکی کی طرف۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments