عاصمہ جیلانی کیس: ایک عدالتی فیصلہ جس کی گونج 50 سال بعد بھی سنائی دیتی ہے


عاصمہ جیلانی دراصل وہی عاصمہ جہانگیر ہیں جو بعد میں پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کی ایک توانا آواز بن کر ابھریں اور عالمی سطح پر ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔
کراچی — یہ کہانی عوامی لیگ سے وابستہ سیاسی رہنما ملک غلام جیلانی کے اس وقت کے فوجی آمر جنرل یحییٰ خان کے نام لکھے گئے خط سے شروع ہوتی ہے۔سات اپریل 1971 کو لکھے گئے اس خط میں26 مارچ کو مشرقی پاکستان میں شروع ہونے والے فوجی آپریشن پر تند و تیز لہجے میں احتجاج کیا گیا تھا۔ملک غلام جیلانی نے یحییٰ خان کو براہِ راست مخاطب کرکے لکھا تھا “جنابِ صدر! آپ نے جو روش اختیار کی ہے اس سے ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا۔”

ایوانِ صدر کو یہ خط موصول ہونے کے بعد ملک غلام جیلانی کو مارشل لا ریگولیشن نمبر 78 کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔

مشرقی پاکستان میں جاری فوجی آپریشن کے خلاف آواز اٹھانا حکومتِ وقت کے عتاب کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ ملک غلام جیلانی کے علاوہ سابق صدر ایوب خان کے سیکریٹری اطلاعات اور بعد ازاں روزنامہ ‘ڈان’ کے ایڈیٹر بننے والے الطاف گوہر کو بھی اسی جرم کی پاداش میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

ان دونوں افراد کی گرفتاری کے خلاف دائر ہونے والے مقدمے میں آج ہی کے دن 50 سال قبل وہ فیصلہ جاری ہوا تھا جسے پاکستان کی آئینی اور عدالتی تاریخ کا اہم سنگِ میل قرار دیا جاتا ہے۔ یہ مقدمہ ‘عاصمہ جیلانی کیس’ کہلاتا ہے۔

کیس کا پس منظر

عاصمہ جیلانی دراصل وہی عاصمہ جہانگیر ہیں جو بعد میں پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کی ایک توانا آواز بن کر ابھریں اور عالمی سطح پر ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔

ان کے والد ملک غلام جیلانی ایک سابق بیورو کریٹ اور 1962 سے 1964 تک پاکستان کی تیسری قومی اسمبلی کے رکن رہے تھے۔ وہ ایوب خان ہی کے دور سے ملک میں جمہوریت کی بحالی اور سیاسی مخالفت کو کچلنے کی حکومتی کوششوں کے خلاف سرگرم رہے تھے۔

ملک غلام جیلانی مشرقی پاکستان کے مقبول رہنما شیخ مجیب الرحمٰن کے مغربی پاکستان میں قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔

پاکستان کی عدالتی تاریخ پر امریکی محقق ڈاکٹر پاؤلا آر نیوبرگ نے 1995 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ‘ججنگ دی اسٹیٹ’ میں لکھا ہے کہ ملک غلام جیلانی ایوب خان کے دورِ حکومت میں سیاسی حقوق کے لیے قانونی جدوجہد میں پیش پیش رہے تھے۔

جب 25 اور 26 مارچ 1970 کی درمیانی شب قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہونے کے بعد مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع ہوا تو ملک غلام جیلانی نے مغربی پاکستان میں اس کی مخالفت کی اور کئی بیانات جاری کیے۔

لیکن مارشل لا دور کی کڑی سینسر شپ کی وجہ سے ان کے بیانات کا بلیک آؤٹ کیا جاتا رہا۔بالآخر انہوں نے 7 اپریل 1971 کو براہِ راست صدر یحییٰ خان کو خط لکھ کر مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کرنے پر احتجاج کیا اور انہیں اس کے سنگین نتائج سے خبردار کیا۔

ایوانِ صدر کو خط ملنے کے بعد ملک غلام جیلانی کو گرفتار کرلیا گیا۔انہیں 16 دسمبر کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد رہا کیا گیا لیکن چند روز بعد ہی 20 دسمبر کو انہیں دوبارہ حراست میں لے لیا گیا۔

عاصمہ جہانگیر کے ایک انٹرویو کے مطابق ان کے والد کا یحییٰ خان کو لکھا گیا خط کسی طرح الطاف گوہر تک پہنچ گیا تھا اور انہوں نے اسے اپنے اخبار میں شائع بھی کردیا تھا۔

الطاف گوہر اس وقت روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر بن چکے تھے اور وہ اپنے اخبار میں فوجی آپریشن اور مارشل لا کی مخالفت کررہے تھے۔ اس مخالفت کی پاداش میں پانچ فروری 1972 کو انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا۔

اگرچہ ان دونوں افراد کے گرفتار ہونے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہوں ںے مشرقی پاکستان میں صدر جنرل یحییٰ خان کے دور میں ہونے والے فوجی آپریشن پر سوال کھڑے کیے تھے۔ لیکن ان کی حراست اور حبسِ بے جا میں رکھنے کا معاملہ فوجی حکمران کے رخصت ہونے کے بعد شروع ہوا تھا۔

تبدیلیوں کا دور

ذوالفقار علی بھٹو نے سقوطِ ڈھاکہ کے بعد 20 دسمبر 1971 کو یحییٰ خان کو اقتدار سے معزول کردیا تھا۔ اس وقت ملک میں مارشل لا نافذ تھا اور یحییٰٰ خان پہلے ہی 1962 کا آئین منسوخ کرچکے تھ۔ے یعنی اقتدار کی منتقلی کے لیے کوئی دستور سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا تھا۔ اس لیے انتظامی امور اور نئے آئین کی تشکیل تک کاروبارِ ریاست چلانے کے لیے پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے پہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طور پر ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا۔

یحییٰ خان کو 1962 کا آئین منسوخ کرنے کی راہ دکھانے والے بھی ان کے پیش رو جنرل ایوب خان تھے۔

ایوب خان نے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کی پاس داری نہیں کی تھی اور صدارت سے دستبردار ہوکر 25 مارچ 1969 کو اقتدار اس وقت کے آرمی چیف جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے حوالے کردیا تھا۔

یحییٰ خان 1966 میں پاکستان فوج کے کمانڈر ان چیف بنے تھے۔ اس وقت ایوب خان 1965 کی جنگ اور اس کے بعد تاشقند معاہدے پر آنے والے عوامی ردِعمل کی وجہ سے سیاسی طور پر بتدریج کمزور ہونا شروع ہوگئے تھے۔

صدر ایوب کے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر اپنی کتاب ‘فوجی راج کے پہلے دس سال’ میں لکھتے ہیں کہ صدر ایوب کو کمزور ہوتا دیکھ کر یحییٰ خان نے مستقبل میں اپنے لیے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش شروع کردی تھی جو مارچ 1969 میں کامیاب ہوگئی۔ یحییٰ خان نے پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالا اور یکم اپریل 1969 کو ملک کے صدر بن گئے۔

صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد یحییٰ خان نے 1970 میں عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ انتخابات اور دستور ساز اسمبلی کے قیام کے لیے یحییٰ خان نے عبوری آئینی حکم نامے کا سہارا لیا تھا۔ ان انتخابات کے نتائج کی صورت میں دو اکثریتی جماعتوں عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان شراکتِ اقتدار پر تنازع بڑھتے بڑھتے نوبت ملک ٹوٹنے تک آگئی اور جس اسمبلی نے آئین بنانا تھا وہ بھی ملک کے ساتھ ساتھ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔

ان حالات میں مارشل لا کے قواعد کے تحت ہی ملک کا انتظام چل رہا تھا اورذوالفقار بھٹو نے، جو انتخابی نتائج کے بعد اقتدار کے حصول کے خواہش مند تھے، ان حالات میں مارشل لا کے تحت حکومت سنبھالنے سے گریز نہیں کیا۔

حبسِ بے جا کا مقدمہ اور آئینی سوال

ملک غلام جیلانی اور الطاف گوہر کو حبسِ بے جا میں رکھنے کے خلاف درخواستیں کراچی اور لاہور میں ہائی کورٹس سے مسترد ہوچکی تھیں۔ ان عدالتوں نے مارشل لا قواعد کے تحت ہونے والے اقدامات کو اپنے دائرۂ اختیار سے باہر قرار دے کر درخواستیں مسترد کی تھیں اور اس فیصلے کی بنیاد 1958 میں سپریم کورٹ کے دوسو بنام ریاست میں دیے گئے فیصلے میں قائم کردہ اصول کو بنایا تھا۔

دوسو بنام ریاست کیس بلوچستان میں اس وقت کے صوبے کے زیر انتظام علاقے لورالائی میں ہونے والے ایک قتل سے متعلق تھا۔ 1957 میں لورا لائی میں دوسو نامی شخص کو لیویز نے قتل کے الزام میں گرفتار کرکے لویہ جرگہ کے حوالے کر دیا تھا اور جرگے نے قبائلی علاقوں میں نافذ 1911 کے فرنٹیئر کرائم ریگولیشن (ایف سی آر ) کے سیکشن 11 کے تحت دوسو کو سزا سنا دی تھی۔

دوسو کے رشتے داروں نے لویہ جرگہ کا یہ فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیاتھا۔ لاہور ہائی کورٹ نے 1956 کے آئین کی شق 5 اور 7 کے تحت لویہ جرگے کا فیصلہ اور ایف سی آر کی بعض شقوں کو آئین میں فراہم کردہ بنیادی آئینی حقوق کے خلاف قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا تھا۔

وفاقی حکومت نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس پر سماعت کے لیے 18 اکتوبر 1958 کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔ لیکن اس سے پہلے ہی 7 اکتوبر کو اسکندر مرزا نے قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دی تھیں۔ انہوں ںے ملک میں پہلا مارشل لا نافذ کرکے 1956 کا آئین منسوخ کردیا تھا اور فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنایاتھا۔

جنرل ایوب خان نے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننے کے بعد مارشل لا ضابطے جاری کیے۔ اس کی وجہ سے سپریم کورٹ کے لیے ایک اہم قانونی مسئلہ پیدا ہوگیا تھا۔

اگر سپریم کورٹ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتی تو اس کے نتیجے میں 1956 کے آئین کی حیثیت برقرار رہتی کیوں کہ ہائی کورٹ نے اسی آئین کی شقوں کے مطابق ایف سی آر کو بنیاد ی حقوق کے خلاف قرار دیتے ہوئے دوسو کیس میں فیصلہ دیا تھا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکل رہا تھا کہ 1956 کا آئین برقرار ہے اور اس کی موجودگی میں مارشل لا کی قانونی حیثیت ختم ہوچکی ہے۔

اس لیے اس وقت کے چیف جسٹس منیر نے قانون دان ہنس کیلسن کی ‘جنرل تھیوری آف لا’ کا سہارا لیا۔ اس تھیوری کے مطابق اگر عوام اقتدار میں تبدیلی کے لیے لائے گئے انقلاب کی مزاحمت نہ کریں اور اسے بخوشی قبول کرلیں تو اسے ان کی تائید سمجھا جائے گا اور اس کے ساتھ ہی اقتدار میں یہ تبدیلی بھی جائز قرار پائے گی۔

عاصمہ جہانگیر نے ابتدائی عمر میں اپنے عہد کے ممتاز ترین قانون دانوں کو دلائل دیتے ہوئے سنا اور بنیادی حقوق سے متعلق تصورات میں پختگی نے ان کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
عاصمہ جہانگیر نے ابتدائی عمر میں اپنے عہد کے ممتاز ترین قانون دانوں کو دلائل دیتے ہوئے سنا اور بنیادی حقوق سے متعلق تصورات میں پختگی نے ان کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

اس اصول کی بنیاد پر مارشل لا کو عدالت سے سندِ جواز مل گئی تھی اور اس کے تحت جاری ہونے والے قواعد کی قانونی حیثیت اور 1956 کے آئین کی منسوخی کو بھی تسلیم کرلیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں دوسو کیس میں لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار پایا تھا اور ایف سی آر کی شقیں اور لویہ جرگے کا فیصلہ بحال ہو گیا تھا۔

اسی کیس کو مثال بناتے ہوئے کراچی اور لاہور کی ہائی کورٹس نے ملک غلام جیلانی اور الطاف گوہر کی مارشل قواعد کے تحت گرفتاری کی درخواستوں کو مسترد کردیاتھا۔

‘تمہاری عمر کیا ہے؟’

عاصمہ جہانگیر بتاتی ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ سے ناکامی کے بعد انہیں جیل سے والد نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا پیغام بھیجا۔

سابق وزیرِ خارجہ اور لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس منظور قادر نے سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ لڑنے کی ہامی بھری۔ درخواست تیار کر کے عاصمہ اپنی والدہ کے دستخط کرانے کے لیے جارہی تھیں تو وکیل نے ان سے عمر پوچھی۔ انہوں ںے بتایا کہ جنوری 1972 میں ان کی عمر 18 سال ہوچکی ہے۔ اس پر منظور قادر نے درخواست انہیں کے نام سے دائر کردی۔ اس طرح یہ عاصمہ جیلانی کیس بن گیا۔

اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی۔ بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس وحید الدین احمد، جسٹس محمد یعقوب علی، جسٹس صلاح الدین احمد اور جسٹس سجاد احمد شامل تھے۔

اس کیس میں الطاف گوہر کی اہلیہ زرینہ گوہر کی نمائندگی ایک اور ممتاز قانون دان اے کے بروہی کررہے تھے جب کہ حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار پیش ہوئے۔

جب نئی عدالتی تاریخ رقم ہوئی

عاصمہ جیلانی کیس کے فیصلے میں عدالت نے دوسو بنام ریاست کیس میں ہنس کیلسن کی تھیوری کے اطلاق کو ہی مسترد کردیا۔ فیصلے میں عدالت نے کہا کہ پاکستان میں اقتدار کے جواز کے لیے ایک بنیادی اصول موجود ہے جسے قرار دادِ مقاصد میں تسلیم کیا گیا ہے اور جس کے مطابق اقتدارِ اعلیٰ اللہ کے پاس ہے جسے اس کے دیے گئے اختیار سے عوام کے منتخب نمائندے استعمال کرتے ہیں۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ کیلسن کی تھیوری کو مغربی عدالتی روایت میں بنیادی قانونی اصول کی حیثیت حاصل نہیں اور دوسو کیس میں اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔

عدالت نے یہ تاریخی حقیقت بھی واضح کی کہ 1969 میں ایوب خان آئین کے مطابق حکومت یحییٰ خان کے سپرد کرنے کے مجاز نہیں تھے بلکہ 1962 کے آئین کے مطابق وہ استعفیٰ دے سکتے تھے جس کے بعد قومی اسمبلی کے اسپیکر ان کی جگہ ذمے داریاں سنبھال لیتے۔

ان نکات کی روشنی میں عدالت نے یحییٰ خان کو ‘غاصب’ اور ان کے جاری کردہ مارشل لا قواعد کو غیر قانونی قرار دیا۔ عدالت نے ملک غلام جیلانی اور الطاف گوہر کی رہائی کے احکامات بھی جاری کیے۔

مارشل لا کا خاتمہ

معرف قانون دان حامد خان کے مطابق اس کیس میں جہاں دوسو کیس میں اپنائے گئے اس استدلال کو ختم کیا گیا جس کی بنیاد پر مارشل لا کو جواز دیا گیا تھا وہیں اس کے نتیجے میں ایک مسئلہ پیدا ہونے کا خدشہ بھی تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار یحییٰ خان سے منتقل ہوا تھا۔ عدالت نے یحییٰ خان کو غاصب قرار دے کر ان کے جاری کردہ قوانین کو بھی کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے بعد ایک آئینی بحران پیدا ہوگیا تھا کیوں کہ اس وقت ملک ان مارشل لاقواعد کی بنیاد پر ہی چل رہا تھا۔ اب سوال یہ تھا اگر عدالت ان قوانین کو ہی ختم کردے گی تو حکومت باقی کیسے رہے گی۔

یہی وجہ تھی کہ حکومت کی نمائندگی کرنے والے یحییٰ بختیار دوسو کیس میں تسلیم شدہ اصولوں کو برقرار رکھوانے کی کوشش میں تھے کیوں کہ یہی حکومت کو حاصل قانونی اختیارات کی بنیاد تھے۔

اس صورتِ حال میں عدالت نے ماضی کے ان تمام اقدامات اور انتظامی فیصلوں کو طے شدہ امور قرار دے دیا جن پر نظر ثانی یا دوبارہ بحث ضروری نہیں تھی۔ اس کے علاوہ عدالت نے بھٹو حکومت کو مستقبل میں عوامی مفاد اور قراردادِ مقاصد کی روح کے مطابق اقدامات کی اجازت بھی دی۔

سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج اور معروف وکیل رشید اے رضوی کے مطابق عدالت کے اس فیصلے کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے لیے مارشل لا اٹھانے کے لیے فضا ساز گار ہوئی اور اسی لیے 20 اپریل کو اس فیصلے کا اجرا اور مارشل لا کا خاتمہ ساتھ ساتھ ہوا۔

تاریخ کا المیہ

رشید اے رضوی کہتے ہیں کہ یہ بھی تاریخ کا المیہ ہے کہ عاصمہ جیلانی کیس میں آئینی اعتبار سے جو بڑی پیش رفت ہوئی تھی وہ زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکی۔ ان کے بقول 1977 میں جب آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے منتخب وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا تو اس کے خلاف عدالت میں چلنے والے نصرت بھٹو کیس میں ایک بار پھر دوسو کیس کے اصولوں کی بنیاد پر فوجی اقتدار کو جواز فراہم کردیا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ بھی دل چسپ بات ہے کہ عاصمہ جیلانی کیس میں اے کے بروہی کیلسن کی تھیوری کے مطابق بلامزاحمت اقتدار پر قبضے یا انقلاب کے خلاف دلائل دے رہے تھے اور یحییٰ بختیار اس کا دفاع کررہے تھے۔ 1977 میں اے کے بروہی اپنی ماضی کی پوزیشن کے برعکس حکومت کے حق میں دلائل کے لیے دوسو کیس کا سہارا لے رہے تھے جب کہ یحییٰ بختیار نصرت بھٹو کے وکیل کی حیثیت سے اس کی مخالفت کررہے تھے۔

قانون دان رشید اے رضوی کے مطابق سابق جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر قابض ہونےکے بعد ظفر علی شاہ کیس میں بھی عدالتوں نے نظریۂ ضرورت کو جواز بنایا اور بالآخر 2009 میں سپریم کورٹ کے 14 ججوں نے سندھ بار ایسوسی ایشن کیس میں مشرف کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دے کر نظریۂ ضرورت کا درست معنوں میں خاتمہ کیا۔

حامد خان اپنی کتاب ‘اے ہسٹری آف جوڈیشری ان پاکستان’ میں لکھتے ہیں کہ عاصمہ جیلانی کیس کے فیصلے میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے کو غاصب تو قرار دیا گیا لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ یہ فیصلہ اس ‘غاصب’ کی موجودگی میں آتا۔

جسٹس(ر) رشید اے رضوی کا کہنا ہے کہ اس کیس میں یحییٰ خان کو صرف غاصب قرار دینا کافی نہیں تھا بلکہ ان کے اقدامات بھی کالعدم ہونے چاہیے تھے۔

جب کہ ‘ججنگ دی اسٹیٹ’ میں پاؤلا نیوبرگ نے لکھا ہے کہ یہ کیس 1973 کے آئین کی مںظوری سے پہلے طے ہوا تھا۔ اس لیے ان کے نزدیک اس کیس نے پاکستان میں عدلیہ کی آزادی کے لیے آئین سازی سے پہلے ہی ایک بڑی مثال قائم کردی تھی۔

عاصمہ جہانگیر کی شخصیت

جسٹس رشید اے رضوی کا کہنا ہے کہ عاصمہ جہانگیر کی شخصیت پر اس کیس کا بڑا گہرا اثر پڑا تھا۔ ان کے بقول عاصمہ نے بہت کم عمر میں اپنے والد کی رہائی کے لیے آئینی و قانونی جنگ لڑی تھی۔ اُس وقت جانے والی اور آنے والی دونوں حکومتیں ملک غلام جیلانی اور الطاف گوہر کے خلاف تھیں۔ ایسے حالات میں ایک نوجوان لڑکی نے جس طرح حالات کا مقابلہ کیا، اس کی مثال کم ملتی ہے۔

ان کے بقول ابتدائی عمر میں اپنے عہد کے ممتاز ترین قانون دانوں کو دلائل دیتے ہوئے سننا اور بنیادی حقوق سے متعلق تصورات میں پختگی نے عاصمہ کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کیاتھا۔

ملکی تاریخ کے اہم واقعات ‘پاکستان کرانیکل’ کی صورت میں مرتب کرنے والے محقق عقیل عباس جعفری نے عاصمہ جیلانی کیس پر معنی خیز تبصرہ کیا ہے کہ یہ وہ ‘کلمۂ حق’ ہے جو اس وقت بلند کیا گیا جب ‘جابر سلطان’ موجود نہیں تھا۔

البتہ 50 سال بعد اس کیس کے بعد کی تاریخ اور عاصمہ جہانگیر کی جدوجہد پر نظر ڈالی جائے تو یہ اندازہ بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ اس فیصلے نے بے باکی سے اپنا مؤقف بیان کرنے والوں اور فوجی آمروں کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے حوصلے بلند کیے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments