امریکہ میں آباد ایشیائی امریکی: “ماڈل اقلیت”، ذہنی امراض اور خودکشی کا مثلث


یہ واقعہ ہے امریکی ریاست مشی گن کے ایک شہر ٹرائے کی پرسکون اور خاموش بستی کا جہاں مخلوط امیگرنٹ اور مقامی قومیت سے تعلق رکھنے والے کھاتے پیتے گھرانے آباد ہیں۔ اس پرسکون بستی کی فضا میں ارتعاش اس وقت پیدا ہوا جب اس سال مارچ کی پہلی تاریخ کو ایک روح فرسا واقعہ پیش آیا جس نے خاص کر پاکستانی کمیونٹی کو ہلا کے رکھ دیا۔ مختلف ذرائع سے ملنے والی خبروں کے مطابق صبح کے گیارہ بجے ایک کونڈو میں رہنے والے باون سالہ پاکستانی شاہد نے پہلے اپنی 39 سالہ بیوی مہ وش کے سینے پہ گولی ماری جو خوف کے عالم اور اسی زخمی حالت میں پڑوس کے کونڈو میں مدد کے لیے بھاگی۔ لیکن طیش سے بے قابو شاہد نے اس پر بس نہیں کیا۔ اس نے اس کے بعد بالائی منزل پہ جا کے بیڈ روم میں اپنی چھ سالہ بیٹی کو گولی مار کے ہلاک کر دیا۔ اس دوران جب پڑوس سے پولیس کی مدد کے لیے فون کیا جا رہا تھا، شاہد گھر سے نکل کر اپنی گاڑی میں کہیں جا چکا تھا۔ جب پولیس نے اس کے سیل فون پہ اس سے بات کی تو اس نے کہا وہ اپنے کو پولیس کی تحویل میں دینے کے لیے واپس آ رہا ہے۔ شاہد پارکنگ لاٹ میں واپس آ کر گاڑی سے اترتا ہے اور اس سے پہلے کہ پولیس اسے اپنی حراست میں لے وہ اپنے سر پہ گولی مار کے خود کو ہلاک کر لیتا ہے۔ نجی اطلاعات کے مطابق شاہد گھریلو مسائل کے سبب ڈپریشن سے گزر رہا تھا۔

پریا کی کہانی

انیس سالہ پریا کا تعلق ہندوستانی گھرانے سے تھا۔ گو وہ امریکہ میں پلی بڑھی مگر اس کے والدین دہلی سے تعلیم حاصل کر کے امریکہ میں آن بسے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ پریا ڈاکٹر بن کر والدین کا نام روشن کرے اور پھر ایک پرتعیش زندگی گزارے۔ پریا کا باپ ڈاکٹر تھا جبکہ ماں اپنے دو بچوں کی تعلیم کے پیچھے مصروف رہتی۔ خاص کر پریا کے ایک ایک لمحہ کی خبر رکھتی تھی۔ اس کے کیا گریڈز آرہے ہیں، اس کی سرگرمیاں کیا ہیں۔ حتی کہ جب وہ باتھ روم میں بھی ہوتی تو وہ باہر اس کے نکلنے کی منتظر رہتی۔ کہ کہیں وہ اپنا وقت ضائع نہ کر دے۔ انہیں اس کے وقت کی قیمت اور تعلیم پہ لگائی لاگت کا بخوبی اندازہ تھا، جو ڈاکٹر بننے کی صورت میں کیش ہوتا۔ لیکن افسوس اس کڑی نگرانی کے باوجود اس کے والدین کو اس بات کی خبر نہیں ہو سکی تھی کہ پریا کس ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ اس کا پتہ انہیں اس وقت ہوا کہ جب ایک دن وہ باتھ روم سے باہر نہ نکلی۔ اس کی والدہ اسے آوازیں دیتی رہ گئی مگر اندر پریا خواب آور گولیاں کھا کے ہمیشہ کے لیے سو گئی اور اس کے ساتھ ہی اس کے والدین کا بیٹی کے ڈاکٹر بننے کا سپنا بھی۔

لیوک تنگ کی کہانی

لیوک تنگ کا تعلق چین سے امریکہ بسنے والے امیگرنٹ گھرانے سے تھا۔ وہ مشہور زمانہ یونیورسٹی ہارورڈ کا ذہین طالب علم تھا۔ سب اس کی علمیت کی مثالیں دیتے اور رشک کرتے۔ پھر اچانک اس کے رویہ میں تبدیلی آنے لگی۔ اس کے ساتھ ہی اس کا روشن مستقبل اندھیرے میں ڈوبتا نظر آنے لگا۔ اس نے کسی سے بھی دلکی کیفیت کا اظہار نہ کیا۔ مگر ایک دن اٹھارہ برس کی عمر میں اس نے خودکشی کرلی۔ وہ ڈپریشن کا شکار تھا۔ جس کا دل اس کے والدین کو بھی نہ ہو سکا۔ اس کی موت کے بعد اس کے سوگوار والدین نے لوکنگ فار لیوک looking for Luke ڈوکیومنٹری بنائی تاکہ ذہنی امراض کے متعلق آگہی ہو سکے۔

شاہد، پریا اور لیوک کی کہانیوں میں تین باتیں مشترکہ ہیں۔ وہ سب ایشین امیگرنٹ یا ایشیائی مہاجر گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ (ایسے امیگرنٹس امریکہ میں ”ماڈل اقلیت“ تصور کیے جاتے ہیں ) ، سب ذہنی مریض یا دباؤ کا شکار تھے۔ اور سب نے بجائے مدد مانگنے کے خودکشی کا راستہ اختیار کیا۔ ان تینوں خواص کا مثلث ایک سنجیدہ مسئلہ ٔ اور ہم سب کی توجہ کا متقاضی ہے۔

میں امریکی ریاست مشی گن میں رہتی ہوں۔ اور میرا تعلق بھی اسی گروہ سے ہے جو گو بظاہر ماڈل اقلیت گردانا جاتا ہے لیکن اس گروہ کے لوگوں میں ذہنی امراض خاموش وبا کی طرح ہیں اور لوگ اپنے نفسیاتی اور ذہنی مسائل سے وابستہ دباؤ کو اس سے متعلق اسٹگما کی وجہ سے کسی پیشہ ورانہ مدد اور علاج کے بجائے خاموشی سے مر جانے یا خودکشی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایشیائی سماج میں طبی امراض کے لیے تو ہمدردی کا جذبہ ہے لیکن ذہنی امراض معاشرتی تہمت تصور کیے جاتے ہیں۔ لہٰذا اسٹگما کے سبب لوگ اظہار نہیں کرتے۔

ماڈل مانورٹی یا ”مثالی اقلیت“ کیا ہے؟

امریکہ میں ماڈل اقلیت کی اصطلاح ایشیائی امریکنوں کے لیے استعمال کی جاتی جن کو آبادی کے اوسط سے زیادہ سماجی اور اقتصادی طور پہ کامیاب سمجھا جاتا ہے۔

ماڈل اقلیت کی اصطلاح کو ماہر عمرانیات ولیم پیٹرسن نے 1966 میں نیویارک ٹائمز میگزین میں امریکہ میں جاپانی امریکیوں کی ”کامیابی کی کہانی“ کے بارے میں اپنے مضمون میں متعارف کرایا تھا۔ کہ جنہوں نے شدید نسل پرستی اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنے کے باوجود (بشمول دوسری جنگ عظیم کے دوران نظربندی) ۔ نے اس طرح کامیابی حاصل کی جو دیگر اقلیتی گروہوں مثلاً ایفرو امریکی، مقامی امریکن اور سفید فام وغیرہ کو حاصل نہیں تھی۔ ماڈل اقلیتوں کے گروپ میں بیس قومیتیں شامل ہیں جن میں چین، کوریا، جاپان، انڈیا، پاکستان وغیرہ شامل ہیں۔

گو بظاہر ماڈل اقلیت کی یہ اصطلاح مثبت لگتی ہے مگر دراصل یہ ایک دقیانوسی، تفریقی، سیاسی پروپیگنڈا اور مضر نظریہ ہے۔ اور اس کا مقصد اس مخصوص گروہ کے ساتھ تفریقی رویہ رکھ کے انہیں ان مراعات سے دور کرنا ہے۔ جو سفید نژاد امریکی اکثریت کو حاصل ہے۔ اس نظریہ کے مطابق کچھ خصوصیات اس گروہ کے افراد سے جوڑ دی گئی ہیں۔ مثلاً

ان کے بچے تعلیم میں بالخصوص حساب اور سائنس میں بہترین ہوتے ہیں۔ اور ڈاکٹر اور اعلی پیشوں سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اور زیادہ تعلیم یافتہ اور پیسے والے ہوتے ہیں۔

سپر اسمارٹ اور سخت محنتی ہوتے ہیں۔ ملازمت کے دوران کسی قسم کے احتجاج میں شامل ہو کر مسئلہ نہیں پیدا کرتے۔

ان سب مفروضات میں کم ہی سچائی ہے۔ لیکن اس کا منفی اثر وہ بوجھ ہے جو سماجی توقعات کی صورت اس گروہ کے افراد خود سے وابستہ کرلیتے ہیں۔ مثلا

1۔ مجھے کامیاب ہونا ہے۔
2۔ مجھے بہت امیر ہونا ہے۔
3۔ تعلیم میں ہمیشہ اے گریڈ خاص کر حساب اور سائنس میں بہترین ہونا ہے۔
4۔ مجھے فرمانبردار رہنا ہے۔
5۔ ملازمت میں ہمیں کسی قسم کے جھگڑوں اور احتجاج کے بجائے تابع داری سے رہنا ہے۔
6۔ ذہنی امراض اور نفسیاتی پریشانیوں کا اظہار کر کے اپنی کمزوری کو نہیں ظاہر کرنا ہے۔ اور اس پر قوت ارادی سے قابو پانا ہے۔

اس ماڈل رویہ کا اثر یقیناً بہت نقصان دہ ہے۔ خاص کر ذہنی صحت کے حوالے سے۔ انسان کی ذہنی صحت کا براہ راست تعلق اس کی جسمانی صحت سے ہے۔ حتی کے اگر حاملہ عورت اسٹریس سے گزر رہی ہو تو اس کے اندر پیدا ہونے والے اسٹریس ہارمون مادر شکم میں بچے کو متاثر کرتے ہیں۔

امیگریشن اپنے تئیں ایک ٹراما ہے جو اسٹرس، انگزائٹی اور ڈپریشن وغیرہ کا سبب بنتا ہے۔ امیگرنٹس کو اسکول اور ملازمت پہ عام امریکیوں کے مقابلے میں تفریقی رویہ کے علاوہ سماجی تنہائی اور عدم تعاون کا سامنا ہے جس کا اثر ان کی ذہنی صحت پہ مایوسی، غم اور غصہ، تشدد اور اسٹرس کی صورت انہیں متاثر کرتا ہے۔

کچھ تو ماڈل اقلیت ہونے کی وجہ سے سماجی توقعات کا بوجھ اور کچھ اپنے سماج میں ذہنی امراض سے شرمساری کا رویہ رہا ہو گا جس کی بناء پہ شاہد، پریا اور لیوک نے کھل کے مدد لینے کے بجائے اپنی زندگیوں کو فرسودہ مفروضات کی نذر کر دیا۔ حالانکہ درحقیقت ایشیائی امریکن میں بھی گھریلو تشدد، الکوحل اور منشیات کا استعمال ہے۔ تحقیق کے مطابق ہر چار میں سے ایک شخص ذہنی بیماری سے گزرتا ہے۔ ایشیائی اس سے مبرا نہیں۔ ان میں بھی ذہنی امراض کی شرح وہی ہے جو سفید فام کی ہے البتہ باوجود وسائل ہونے کے ذہنی امراض کے علاج کے لیے مدد لینے کی شرح سفید نژاد امریکنوں سے تین گنا کم ہے۔

یہ تو معاملہ تھا ذہنی امراض کا اب اگر ہم خودکشی کے کیسز کا موازنہ کریں تو ذہنی امراض کے علاج سے اجتناب کا براہ راست اثر خودکشی کے ارتکاب پہ ہے۔ سی ڈی سی کے مطابق امریکہ میں خودکشی سے ہونے والی اموات کا نمبر دس ہے۔ جبکہ ایشیائی امریکن نوجوانوں ( 15 سے 24 سال ) میں خودکشی سے ہونے والی اموات کی وجہ نمبر ون یا سرفہرست ہے۔ باوجود اس کے کے ہندو اور مذہب اسلام میں خودکشی کی منادی ہے۔ اس تناسب میں کمی کا امکان اس مسئلہ ٔ پہ تفکر اور عمل کیے بغیر ممکن نہیں۔

تو پھر اس کا کیا تدارک ہو؟
1۔ ضروری ہے کہ اس سلسلے میں معاشرہ میں ذہنی امراض کے متعلق آگہی پیدا کی جائے۔
2۔ کمیونٹی مراکز میں سیمینار اور گروپ ڈسکشن کیے جائیں۔
3۔ کلچر سے مطابقت رکھنے والی سروسز فراہم کی جائیں۔
4۔ ذہنی امراض سے متعلق اسٹگما کے رکاوٹ کو کم کیا جائے۔
5۔ ذہنی امراض کو ایسے ہی قبول کیا جائے جیسے دوسرے عوارض مثلاً کینسر، دل کی بیماری ذیابیطس وغیرہ
6۔ مرض کو چھپایا نہ جائے۔
7۔ ذہنی مریضوں کے لیے اصطلاحات میں تمسخر اور تضحیکی رویہ کی حوصلہ شکنی ہو۔
8۔ ماڈل اقلیت کے پروپیگنڈا مفروضہ کو چیلنج کیا جائے۔
9۔ تشہیری اداروں کو بروئے کار لایا جائے اور ڈرامے، فلمز اور ادب میں متعلقہ موضوعات کو نمائندگی ملے۔
10۔ ایشیائی نسل کی مستحق اور قابل افراد کو اداروں کی سربراہی دے جائے۔ آرٹ کے مختلف اداروں ٹی وی اور ہالی وڈ کی فلموں میں ایشیائی فنکاروں کی نمایندگی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments