خط بنام عامر خاکوانی صاحب


محترم عامر صاحب!

میں اس خط کے توسط سے آپ کی خدمت میں چند گزارشات، سوالات اور شکوے رکھنا چاہتا ہوں اور یہ امید کرتا ہوں کہ آپ اسے پڑھ کر موجودہ ملکی سیاست کے منظر نامے پر ان سوالات اور موضوعات کو موضوع سخن بنائیں گے جو میری دانست میں اپنے حالیہ سیاسی تجزیوں میں بدقسمتی سے دانستہ یا نا دانستہ طور پہ آپ نے نظر انداز کر دیے۔

اپنی بات آگے بڑھانے سے پہلے میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں پچھلے 17 سال سے آپ کی تحریروں کا قاری اور آپ کے دلنشیں، سادہ لیکن جرات آمیز اسلوب کا مداح ہوں۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں ٹو پارٹی سسٹم رائج تھا اور تحریک انصاف نے ابھی ٹیک آف نہیں کیا تھا۔

آپ نے 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کو سپورٹ کیا۔ اور تحریک انصاف کی حکومت کے آخری سال میں ان کی پالیسیوں پر تنقید کا سلسلہ شروع کیا۔ آپ کی بیشتر باتوں سے مجھ جیسے اور بہت سے تحریک انصاف کے حامی متفق تھے اور ہیں۔ آپ سے آخری مرتبہ جو بالمشافہ ملاقات ایکسپو سنٹر میں ہوئی ان دنوں ابھی عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش نہیں ہوئی تھی لیکن اپوزیشن اس کی تیاری میں مصروف تھی۔ اس ملاقات میں آپ سے کچھ باتیں بے تکلفی میں ہوئیں جن کا تذکرہ یہاں مناسب نہیں لیکن دو چیزوں نے مجھے بہت حیران کیا۔ ایک یہ کہ اگرچہ عثمان بزدار کی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب تعیناتی کے عمران خان کے فیصلے کے مجھ سمیت بہت سے تحریک انصاف کے ووٹرز خلاف تھے اور ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہیں پنجاب کا صوبہ کسی متحرک سیاسی کارکن (جیسے میاں اسلم اقبال) کے حوالے کر نا چاہیے تھا جو اتنے بڑے صوبے کے چیلنجز سے صحیح طور پہ نبردآزما ہو سکتا لیکن آپ بزدار کی بطور وزیراعلیٰ تعیناتی کے معاملے کو بہت زیادہ پرسنل لیول تک لے گئے۔ شاید اس کی وجہ عثمان بزدار کا جنوبی پنجاب سے تعلق ہے اور آپ اور جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے دیگر صحافی یہ سمجھتے ہیں کہ بزدار کی غلط چوائس کی وجہ سے آئندہ کے لیے سرائیکی وسیب سے وزارت اعلیٰ کے انتخاب کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا۔

صورت حال کچھ یوں تھی کہ آپ کے فیس بک پر یا ذاتی ملاقات میں جب بھی عمران کی کسی پالیسی پہ بات ہوتی تو آپ گھوم پھر کے عثمان بزدار پہ بات ختم کرتے ہوئے باقی تمام مثبت باتوں کو یکسر نظر انداز کر دیتے۔ دوسری چیز جس نے مجھے حیران کیا وہ آپ کی پی ڈی ایم کی ان گیارہ جماعتوں سے بہترین گورننس کی توقع تھی میں نے آپ کی توجہ ان بارہ جماعتوں کے مختلف سیاسی نظریات، اہداف، مقاصد اور ان سے جڑے چیلنجز کی طرف دلوانے کی کوشش کی تو آپ نے ایک ہی سانس میں بتایا کہ ذیشان میاں! ان موجودہ نا اہلوں سے آنے والی حکومت بہتر ہی پرفارم کرے گی کیونکہ وہ تجربہ کار لوگ ہیں۔ میں خاموش ہو گیا حالانکہ یہ بات اس وقت بھی ناقابل فہم تھی کہ جب آپ اتنی جماعتوں کے نمائندگان کو حصہ بقدر جثہ دینے کی تگ و دو میں لگے ہوں گے تو کیا کابینہ بنائیں گے اور کیا گورننس کریں گے۔ خیر انہی دنوں جب عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو آپ نے عمران خان کے اوپر کالم لکھا جس میں اس کو ہٹلر سے تشبیہ دے ڈالی۔ میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ آپ کے اس کالم سے میرے اور مجھ جیسے کتنے تحریک انصاف کے ووٹرز کے جذبات مجروح ہوئے اور سخت مایوسی ہوئی۔

اس مایوسی کی کئی وجوہات ہیں۔ عمران خان نے اپنے دور میں ہٹلر کی اصطلاح اس نریندر مودی کے لیے استعمال کی جس نے کشمیر کی ریاست کا حق خود مختاری چھین لیا۔ جس نے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا اور جس نے اپنے دور اقتدار میں بھارتی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے۔ حقیقی ہٹلر نے مذہبی تعصب کی بنیاد پر لاکھوں یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جبکہ دوسری جانب عمران خان نے کبھی مذہبی بنیاد پر کسی غیر مسلم یا اقلیت کے خلاف کوئی تفریق نہیں کی۔ عمران خان کے دامن پہ کسی سانحہ ماڈل ٹاؤن، سانحہ بلدیہ ٹاؤن کسی ناظم جوکھیو اور نقیب اللہ محسود کے خون کے چھینٹے نہیں۔ اس نے کبھی اپنے سیاسی مخالفین کی طرح راؤ انوار، عزیز بلوچ، عابد باکسر اور عمر ورک جیسے اجرتی قاتل اپنی صفوں میں شامل نہیں کیے لیکن افسوس آپ کے قلم نے اس عمران خان کو ہٹلر ٹھہرا دیا جس نے کبھی کوئی قانون نہیں توڑا، جس کی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سب سے زیادہ کردار کشی کی گئی لیکن اس نے کبھی پلٹ کر کسی کی ذاتیات پر بات نہیں کی۔ افسوس کہ آپ کے کالم کے دو روز کے بعد وہ شہباز شریف بھی عمران خان کو ہٹلر کہتے پائے گئے جن کو سانحہ ماڈل ٹاؤن پر بننے والے جسٹس باقر نجفی نے 14 مظلوم نہتے مرد اور عورتوں کا قاتل قرار دیا۔

روزاول سے آپ نے عمران خان کی حکومت کے خلاف سازش کے بیانیے اور اس دھمکی آمیز مراسلے کو یہ کہہ کر جھٹلا دیا کہ اس خط کو عمران نے اپنے حق میں خوب استعمال کیا لیکن آپ نے آج تک اس خط کی صداقت، اس کے جزئیات، آس کی غیر معمولی دھمکی آمیز اور غیر سفارتی زبان، اس میں عمران خان اور تحریک عدم اعتماد کے ذکر پر کسی قسم کا کوئی تجزئیاتی رد عمل دیا ہی نہیں۔ آپ کے قارئین یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ امریکی سفارت خانے کی طرف سے اپوزیشن لیڈران کے ساتھ جس غیر معمولی رفتار سے آخری چند مہینوں میں ملاقاتیں کی گئیں وہ ایک اتفاق تھا؟ اور بڑے اپوزیشن لیڈروں کو تو چھوڑیے کیا اس سے پہلے کبھی کسی امریکی سفارتکار نے راجہ ریاض کے لیول کے ایم این ایز اور مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی عظمیٰ کاردار جیسی ایم پی ایز سے ملاقاتیں کیں؟ کیا ایسی ملاقاتوں کی مثال پاکستان کی تاریخ میں پہلے ملتی ہے۔ کیا یہ بھی اتفاق تھا کہ امریکی سفیر جس بھی تحریک انصاف کے رکن کو ملا خواہ وہ علیم خان ہو یا راجہ ریاض ہو یا عظمیٰ کاردار ہو، یا ملتان سے ایم پی اے سلمان ہو یہ سب تحریک انصاف سے منحرف ہو کر لوٹے بن گئے؟ کیا یہ بھی کمال اتفاق تھا کہ یہی امریکی سفارتکار عمران خان کے خلاف اسمبلیاں تحلیل کرنے کے عدالتی فیصلے سے دو دن پہلے جب سعد رضوی سے ملتا ہے تو اس ملاقات کے اگلے روز سعد رضوی اعلان کر دیتا ہے کہ اگر آئین کے خلاف (عمران کے حق میں ) فیصلہ آیا تو تحریک لبیک سڑکوں پر آ جائے گی۔

آپ کا عمران خان پر ایک بہت بڑا اعتراض یہ تھا کہ اسے سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کر کے حکومت چھوڑ کر گھر چلے جانا چاہیے تھا۔ آپ سے معذرت کے ساتھ کہ وقت نے ثابت کیا کہ آپ کا یہ مشورہ اور تجزیہ درست نہیں تھا اور عمران خان کے آخری لمحے تک اس بیرونی سازش کے سامنے کھڑے ہو جانے سے وہ تمام ادارے ایکسپوز ہو گئے جو اس سازش میں آلہ کار بنے۔ اگر عمران خان اپنے خلاف ایک طے شدہ سکرپٹ کے آگے گھٹنے ٹیک کے گھر چلا جاتا تو کیا کسی کو پتہ چلتا کہ ایک بدنام زمانہ شخص جس کی سپریم کورٹ کے احاطہ میں داخلے پر پابندی تھی اس کی درخواست پر عدالتیں رات 12 بجے کھل جائیں گی۔ قیدی گاڑیاں وزیر اعظم ہاؤس کے باہر پہنچ جائیں گی۔ تحریک انصاف کے صف اول کے لیڈران کے نام ای سی ایل پر ڈالے جانے کی خبریں چل جائیں گی۔ آپ نے محض ایک سطر لکھ کر عدالتوں کے رات 12 بجے کھل جانے کی ایک کمزور اور عجیب تاویل پیش کی کہ پورا سسٹم ایک بڑے خطرے کی حد تک جا کر واپس لوٹا۔ وہ خطرہ کیا تھا؟ بس یہی کہ ایک ادارے کے سربراہ کو اپنی نوکری کے چلے جانے خطرہ تھا اور ایک فیک نیوز پر ایک پہلے سے بنائی ہوئی درخواست پر جس پر مارچ کی تاریخ لکھی تھی، رات کے 12 بجے عدالتی دربار لگایا گیا کہ آرمی چیف کو برطرف کرنے سے روکا جا سکے۔

وہ رات تو گزر گئی اور عمران خان ایک ڈائری ہاتھ میں تھامے وزیر اعظم ہاؤس سے باہر نکل آیا لیکن ادارے آج تک اپنی صفائیاں دے رہے ہیں اور جو ناقابل تلافی نقصان ان کی ساکھ کو پہنچا اس کا ازالہ ممکن نہیں۔ یہاں ایک اور بات قابل غور ہے کہ جن کو نواز شریف اینڈ کمپنی نے سر عام گالیاں دیں، تذلیل کی ان کو کبھی ماضی میں جوابی امیج بلڈنگ کمپین چلانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ آج ایسا کیا ہے کہ عمران خان نے تو کسی کا نام نہیں لیا۔ لیکن زبردست کمپین چلنے کے باوجود امیج مزید نیچے جا رہا ہے؟ آج یہ سوال زبان زدعام ہے کہ جو عدالت اسمبلیاں تحلیل ہونے پر سو موٹو ایکشن لے سکتی تھی وہ حقیقی عوامی نمائندوں کی سر عام بولیاں لگنے کے مکروہ کھیل پر کیوں خاموش رہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments