جنرل حمید گل ‘چوکیداروں کا چوکیدار’

محمد حنیف - صحافی و تجزیہ کار


وطن عزیز پر جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے، اور کب نہیں آتی، تو ہمارے کچھ دوست مرحوم جنرل حمید گل کو یاد کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ آج کل پی ٹی آئی والے بھائی ان کو بہت یاد کر رہے ہیں۔ یاد کرنا بنتا بھی ہے۔

جنرل گل فرما گئے تھے کہ جو اپنے آپ کو نیوٹرل کہتا ہے وہ بدمعاش ہے۔ یہ بھی فرما گئے تھے کہ جب امریکہ آخرکار افغانستان میں شکست کھائے گا تو پاکستان میں ایک کٹھ پتلی حکومت لائے گا۔

جنرل حمید گل کا یہ بھی قول بہت مشہور ہے کہ پہلے ہم نے امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دی تھی اور اب امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں امریکہ کو شکست دیں گے۔ جنرل صاحب کا دماغ مجاہد کا لیکن دل کسی شاعر کا تھا۔

وہ رہتے تو ریٹائرڈ جنرلوں کی کسی کالونی کے کسی بنگلے میں تھے لیکن ساری عمر ان کا دل جلال آباد کے باہر کسی غار میں اٹکا رہا۔

بقول ان کے افغانستان کی آزادی ان کی زندگی کا مشن تھا۔ اس مشن کو مکمل کرتے کرتے وہ دنیا میں کمیونزم کو بھی شکست دے گئے۔

ان کو لگتا تھا کہ انھوں نے سوویت یونین کی سابقہ ریاستوں اور مشرقی یورپ کو بھی ماسکو سے آزادی دلائی۔ تاہم گوروں نے اپنے مسیحا کی وہ قدر نہیں کی جیسی کرنی چاہیے تھی۔ ہاں دیوارِ برلن گرنے کے بعد جرمنوں نے انھیں دیوار کا ایک پتھر تحفے میں دیا تھا۔

مجھے بھی ایک دفعہ ایک جرمن نے 60 یورو میں دیوار برلن کا ٹکڑا بیچنے کی کوشش کی تھی، لیکن میں نے کہا کہ یہ پتھر کا ٹکڑا اپنے پاس رکھو، ہمارے دل میں جنرل حمید گل بستے ہیں۔

فاتح سوویت یونین بننے کے بعد جنرل حمید گل کو امید تھی، بلکہ یقین تھا کہ وہ پاکستانی فوج کے سپہ سالار بنیں گے۔ تاہم نئی نئی جمہوریت ٹائپ حکومت آئی تھی اور انھیں ٹیکسلا میں فوجی ساز و سامان بنانے والے بڑے کمپلیکس کا سربراہ بنا دیا گیا تھا۔

انھیں لگا کہ یہ کام ان کے شایانِ شان نہیں ہے۔ کمیونزم کو شکست دینے والا بہادر جنرل اب کسی فیکٹری میں بیٹھ کر ٹینک توپوں کی مرمت کرے گا۔

انھیں لگا کہ انھیں کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے۔ انھوں نے فوج چھوڑ دی اور ساری زندگی علمی جہاد کرتے گزاری۔ امت کی نشاط ثانیہ کا خواب دیکھتے اور فتح مبین کی بشارتیں سناتے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

آج بھی لوگ ان کے روحانی باپ اور چیف جنرل ضیا الحق کو اتنا یاد نہیں کرتے جتنا حمید گل کو کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنی شہرت (جسے حاسدین بدنامی کہیں گے) آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر کمائی۔

مجھے علم نہیں کہ کہیں تحریری طور پر آئی ایس آئی چیف کی ذمہ داریوں اور حدود کا تعین کیا گیا ہے یا نہیں، لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ اندرونی اور بیرونی سازشوں سے ملک کو محفوظ رکھنا اور ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے خود سازشیں کرنا اور کروانا ان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

حمید گل اور ان کے بعد آنے والے آئی ایس آئی کے سربراہوں نے اپنے ذمے کئی اور فرائض بھی لے لیے۔

الیکشن جتوانا، الیکشن ہروانا، حکومت بنانا، بنا کر گرانا، ہمارے ذہنوں پر پہرے دینا، میڈیا پر کیا چلنا ہے، کتنا چلنا ہے اس پر نظر رکھنا، بندے غائب کروانا، پھر غائب کر کے مکر جانا، یقینی بنانا کہ انصاف اندھا ہو تو ہو لیکن بہرہ نہ ہو اور اپنی عزت اپنے ہاتھ کا خیال رکھے۔

جنرل ر حمید گل

یہ اب مان لیا گیا ہے کہ یہ سب آئی ایس آئی کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ تاہم سب سے بنیادی ذمہ داری وہی ہے، ملک کی حفاظت۔ اور چونکہ نہ فوج ہو گی تو نہ ملک ہو گا، اس لیے فوج کی حفاظت اور سپہ سالار کے بغیر فوج کس کام کی، تو اپنے سپہ سالار کی حفاظت۔

17 اگست 1988 کو ملک میں اتنی ہی سیاسی بے یقینی تھی جتنی آج ہے، لیکن ملک کی باگ ڈور جنرل ضیا کے ہاتھ میں تھی اور جنرل حمید گل اتنے ہی طاقتور آئی ایس آئی چیف تھے جتنا کوئی ہو سکتا ہے۔ سازشوں کی ہوائیں چل رہی تھیں۔

جنرل حمید گل کے سپہ سالار کا طیارہ بہاولپور سے اڑا، جہاز میں پاکستان کے سینیئر ترین جنرل اور امریکی سفیر موجود تھے، جہاز تباہ ہو گیا یا کر دیا گیا، پاکستان کی اعلیٰ ترین قیادت چند ہی منٹوں میں شہید ہو گئی۔

شاید ہی اسلامی دنیا کی سب سے بڑی فوج کو اتنے بڑے سانحے یا سازش کا سامنا کرنا پڑا ہو۔

اپنے چیف کی حفاظت جنرل حمید گل کی ذمہ داری تھی۔ وہ اس ذمہ داری میں بری طرح ناکام رہے، لیکن انھوں نے اپنے ادارے یا قوم کو کبھی سوری نہیں کہا۔ اپنی آنکھوں میں ایک شریر چمک کے ساتھ کہتے رہے کہ امریکیوں نے کروایا ہے۔

کسی کو کبھی یہ جرات نہ ہوئی پوچھنے کی کہ امریکی سازش کو ناکام بنانا کسی کی ذمہ داری تھی؟ چوکیداروں کے چوکیدار کی۔ اور وہ جنرل حمید گل تھے۔ جب سپہ سالار نہ بنائے جانے پر ناراض ہوئے تو بھی یہ نہ کہتے رہتے کہ مجھے امریکیوں نے نہیں بننے دیا کیونکہ وہ مجھ سے ڈرتے ہیں۔

آپ نے بھی ایسے تھانیدار دیکھیں ہوں گے جو جائے وقوعہ کا معائنہ کر کے اعلان کر دیتے ہیں کہ چوروں کا کام لگتا ہے۔

شاید کبھی کبھی ہمیں اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ ہمیں ایک ایسا جنرل ہمارا مسیحا کیوں بنے جو اپنے چیف کی چوکیداری نہ کر سکا؟ اور ہم یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ جو اپنے چیف کو نہ بچا سکا، نہ ان کے قاتلوں کا کچھ کر سکا وہ ہمارے ملک کی اور ہمارے مستقبل کی حفاظت کیسے کرے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments