انسان یا مشینیں


“ہم سب ”کے پیج پر کالمز کے بالکل آغاز میں ایک مضمون پر نظر پڑی، جس میں“ملتان میں ایک مرد طوائف یا عصمت فروش ”کا ذکر کیا گیا ہے، یاد آیا کہ یہ مضمون اس سے قبل بھی“ ہم سب ”کے پیج پر جگہ پا چکا ہے، اور اب موضوع کی“ کشش ”کے پیش نظر اسے پھر سے ان صفحے پر جگہ دی گئی ہے، حالانکہ میرے نقطہ نظر سے یہ ایک دلچسپ ذاتی مشاہدہ یا کسی دوست سے سنا گیا ایک واقعہ ہی تو ہے لیکن یہ مضمون، اس موضوع کی وسیع پیمانے پر درحقیقت کیفیت اور پس پردہ المناکی کا احاطہ کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔

جیسے معصوم بچوں کو جنس سے پہلی پہلی آگاہی بہت پرکشش اور پراثر محسوس ہوا کرتی ہے، چاہے وہ ایسے کسی تجربے سے خود گزریں یا کسی دوست یا سہیلی سے اس کی ایسی تفصیل سنیں، جس میں کہانی کے خالی مقامات کو راوی نے اپنی رنگین ناتمام خواہشات کے رنگ بھر کر اسے ایک نیا اور اپنی خواہش کے مطابق تاثر دے دیا ہو۔ پھر تو مشہور شاعر میر تقی میر کے لیے بھی یہی اصطلاح استعمال کی جا سکتی ہے، اگر میر صاحب کی خود نوشت کا مطالعہ کیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے، وہ بھی نوجوانی میں ایک نواب صاحب کے بچوں کو پڑھانے پر مامور ہوئے، تو نواب صاحب کی نظر انداز شدہ اور جنسی طور پر غیر مطمئن بیگم نے نوجوان میر صاحب سے تعلقات استوار کر لیے ، اور وہ خاتون بھی گاہے بگاہے میر صاحب کو معقول رقم کے علاوہ تحائف بھی دیا کرتی تھیں، ان کے کھانے پینے کا خصوصی خیال رکھا کرتی تھیں، یہ التفات میر صاحب کے دل میں بہت شدت سے اثر انداز ہوا، اور میر صاحب اپنی نوجوانی کی سادگی اور معصومیت میں اس تعلق سے توقعات وابستہ کر بیٹھے، جس توقعات نے بعد میں زندگی بھر ان کو بہت دکھ پہنچایا، اور وہ عمر میں میر صاحب سے بڑی جہاندیدہ، تجربہ کار نواب بیگم کی طرف سے قائم کئیے گئے جنسی تعلق کو محبت سمجھ بیٹھے، بعد میں کوئی اور بہتر انتخاب مل جانے پر نواب بیگم نے میر صاحب کو“ بچوں کو پڑھانے اور ان کی تعلیم و تربیت ”کے کام سے جواب دے دیا، لیکن اس واردات دل کا اثر میر صاحب کی، شخصیت اور شاعری پر تا زندگی موجود رہا۔

لہذا اس مضمون کی تشریح اور تفصیل کے مطابق کیا، میر صاحب کو بھی اس واقعے کے حوالے سے“ مرد طوائف ”یا میل پراسٹیچیوٹ کہا جاسکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں مختلف وجوہات کی بنا پر دور قدیم سے لے کر اب تک اس پیشہ یا صنعت کا وجود موجود رہا ہے، گو وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ اس پیشے کی اشکال اور طریقے تبدیل ہوتے رہے، لیکن بنیادی مقصد فریقین کی طرف سے وہی رہا جسے اس پیشہ یا صنعت کی مبادیات کہا جا سکتا ہے، ایک تو وہی دور قدیم سے کسی نہ کسی شکل میں برقرار اس پیشہ کا روایتی انداز ہے، جو مخصوص علاقوں تک محدود ہوا کرتا تھا، اور کسی حد تک اب بھی ہے، کیونکہ ان مخصوص علاقوں میں اس دھندے سے نسل در نسل وابستہ افراد کی ذہنی اور سماجی و ثقافتی ساخت ہی ایسی بن چکی ہوتی ہے، کہ انھیں اس میں کچھ بھی عجیب یا غیر مناسب نہیں لگتا، لہذا دیگر عورتوں کی اس دھندے کے لیے خرید و فروخت کے ساتھ ساتھ یہ حضرات بغیر کسی ضمیر کی خلش کے اپنی رشتہ دار خواتین کو بھی اس پیشہ میں استعمال کرتے ہیں، اور ان کے سماج میں اس روئیے کو بالکل بھی قابل اعتراض یا نامناسب نہیں سمجھا جاتا۔

یہ افراد بھی عام گفتگو میں اپنے پاس موجود دھندے میں مصروف یا اس کے قابل عورتوں کو“ مشین ”کی اصطلاح سے ذکر کرتے ہیں لہذا محدود اور روایتی معنوں میں اس لفظ کا اس صیغے کے بارے میں استعمال کا آغاز بھی یہیں سے ہوا کیونکہ اس کاروبار میں تمام تر تبدیلیوں کے اور وسعت کے باوجود اس علاقے اور یہاں موجود اس پیشہ سے آبائی طور پر وابستہ افراد پر مبنی سماج کو آج بھی اس پیشہ اور اس سے جڑی“ اخلاقیات اور طور طریقوں کا بنیادی ماخذ سمجھا جاتا ہے۔

ایسے تو ناجائز جنسی تعلقات کی بہت سی مثالیں اور شکلیں پائی جاتی ہیں، لیکن پھر بھی آج کے جدید سماج میں اس پیشہ کی مختلف صورتوں کے ساتھ ساتھ، شوگر ڈیڈیز اور متمول عشاق کی تعداد، نجی نوعیت کے گھریلو یا نیم گھریلو جنس پر مبنی تعلقات کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ بلکہ یہ کام تو اپنی وسعت کے لحاظ سے، اب ایک ”صنعت“ کا درجہ اختیار کر چکا ہے، قارئین اس عنوان یعنی ”مشین“ کے لفظ سے یہ سمجھ بیٹھے ہوں گے، کہ یہ مضمون آلات پر مبنی کسی آہنی مشین کے ذکر پر مبنی ہو گا، لیکن یہ مضمون ”مشین“ کے بارے میں تو ہے، لیکن مذکورہ مشین بظاہر گوشت پوست سے بنی ہوئی، جیتی جاگتی، جذبات اور خواہشات کی حامل ایک ایسی مشین ہے، جو دراصل ظاہری طور پر، بالکل عام عورتوں کی ہی طرح کی گوشت پوست سے بنی ہوئی ہے، لیکن جسے یہ سماج ایک بے رحم اور کسی بھی قسم کے جذبات سے عاری ایک پرزے کی طرح ایک مہیب اور بدشکل صنعت یا کارخانے میں نصب کر دیتا ہے، جہاں تنصیب کے بعد یہ بدنصیب انسانی مشینیں رفتہ رفتہ اپنے تمام انسانی خصائص سے محروم بنا دی جاتی ہیں، اور بالآخر وہاں عام عورت جیسی ایک ماں، بہن، بیٹی یا بیوی کی جگہ ایک لتھڑی ہوئی، فرسودگی، بیماریوں، مایوسی، عدم تحفظ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار بنتی ہوئی کسی نازک انسانی جذبے یا احساس سے محروم اور عاری ہو کر ایک مشین بن کر رہ جاتی ہے۔

اس ”صنعت“ میں ”برسر کار“ خواتین کو ان کے منتظمین یا مالکان آج بھی باقاعدہ طور پر ”مشین“ کے نام سے ہی پکارتے ہیں۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ یہ پیشہ ور ”ماہرین و منتظمین“ صرف ایک مقام ہولڈ کرتے ہیں، اور ان کا کام پولیس وغیرہ کو مینیج کرنا ہوتا ہے، باقی کچھ مشینیں تو دوسرے شہروں سے آ کر باقاعدہ طور پر ان کے ساتھ ہی کل وقتی طور پر قیام پذیر ہوتی ہیں، اور کچھ تعداد مضافات سے صبح کام پر آتی ہے، اور رات گئے اپنے گھروں کو واپس چلی جاتی ہیں۔

اس ”صنعت“ یا دھندے کے بہت سے رنگ اور ڈھنگ ہیں، کچھ ”باشعور اور کسی حد تک تعلیم یافتہ خواتین آزادی سے پرائیویٹ طور پر اپنے گھروں سے بھی اس“ صنعت یعنی انڈسٹری کا حصہ ہوتی ہیں، یہ ان اڈے والوں کی طرف سے کارکنان کے مالی و جسمانی استحصال سے بھی محفوظ رہتی ہیں، اور ملاقاتیوں میں بھی بہتر اور پسندیدہ انتخاب کی سہولت بھی ان کو میسر ہوا کرتی ہے، عام طور پر ان کے بچے اچھے سکولوں میں زیر تعلیم ہوتے ہیں، اور ان کا معیار زندگی بھی بظاہر کچھ بہتر ہوتا ہے کسی کسی کے پاس گاڑی بھی ہوتی ہے، اور یہ عام طور پر شہروں کے پوش علاقوں میں رہائش پذیر ہوتی ہیں، لیکن آہستہ آہستہ ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھتے بڑھتے ناقابل برداشت ہونے لگتا ہے اور اب ان کا اختیار انتخاب بھی مجبوراً وسیع سے وسیع تر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

اسی طرح اس صنعت میں ایک اور قابل ذکر کلاس بھی پائی جاتی ہے، یہ چھوٹے قصبات اور دیہات سے تلاش روزگار یا حصول تعلیم کے سلسلہ میں شہروں کی طرف آئی ہوئی لڑکیاں یا خواتین ہوتی ہیں، جو عموماً ملازمت پیشہ خواتین کے پرائیویٹ اور دیگر ہاسٹلز میں قیام پذیر ہوتی ہیں، اور ساتھ میں کوئی چھوٹی موٹی جاب بھی کرتی ہیں، ان میں سے کچھ ساتھ مزید تعلیم بھی حاصل کر رہی ہوتی ہیں، لہذا شہروں میں قیام و طعام و بود و باش کے خرچ کو اپنی قلیل تنخواہ سے پورا کرنا ممکن نہیں ہوا کرتا لہذا ان خواتین کی بھی ایک تعداد ایسے آسان کام میں ملوث ہو جایا کرتی ہے، لیکن ان کا دائرہ احباب خالصتاً عوامی نہیں ہوتا، لہذا یہ اپنے دوستوں سے آغاز کرتی ہیں، اور پھر نوبت دوستوں سے، دوستوں کے دوستوں، اور پھر آگے ان کے دوستوں تک پہنچ جاتی ہے، یوں عموماً یہ ایک مخصوص کلاس اور سرکل میں روبہ کار رہتی ہیں، یہ کلاس عام طور پر اس صنعت کے ضروریات اور مارکیٹ میں مقابلے کی سخت صورتحال اور کچھ ذاتی اعتماد اور احساس تحفظ کے تحت اپنی دوستوں کو بھی مختلف براہ راست یا بالواسطہ طریقوں سے اپنے ساتھ ان کاموں میں ملوث کرتی ہیں، اور اس مقصد کے لیے کبھی کبھی ان نئے شکاروں کو ہاتھ میں رکھنے کے لیے منشیات کا عادی بھی بنا دیا جاتا ہے، اور اس کے بعد ان کا اس پیشہ سے چھٹکارا حاصل کرنا ناممکن ہو جاتا ہے، حتٰی کہ ان کی جوانی ڈھلنے لگتی ہے، حالات تبدیل ہونے لگتے ہیں، لیکن تب ان بدقسمت روحوں کا مقام اور ورکنگ انوائرمنٹ بھی تبدیل ہو جاتی ہے، یہ اعلی حلقوں اور عالیشان پارٹیوں اور گاڑیوں سے ہوتی ہوئی اکثر نیم ویران سڑکوں اور بس سٹاپس پر پہنچ جاتی ہیں، لیکن ان کے لیے اس کام سے نکلنا اب ممکن نہیں رہتا، اور یوں آہستہ آہستہ یہ بدنصیب مشینیں فرسودگی کا شکار بنتے بنتے ناکارہ ہو کر رزق خاک ہو جایا کرتی ہیں، یہ کلاس اپنی زندگی کے تلخ واقعات و تجربات کی تلخی کے زیر اثر کسی آپریشن ٹیبل پر لیٹے بیہوشی کی دوا کے زیر اثر، سن ہوئے مریض کی طرح بظاہر بے حسی کا شکار نظر آتی ہیں، ان کو کسی پر بھی اعتبار نہیں رہتا۔

میرے ذاتی نقطہ نظر کے مطابق ہر انسان بھی اپنی شخصیت میں ایک ضخیم، دلچسپ اور سبق آموز کتاب کی طرح ہوتا ہے، اور اس کتاب کو بھی پڑھنے کے لیے عام کتب کی طرح ان کو بھی خریدنا یا کرائے پر لینا، اور پھر اس کے مطالعے کو وقت دینا ضروری ہوتا ہے، تب ہی ہم اس عموماً المیہ فکشن پر مبنی کتاب کا مطالعہ کر سکتے ہیں، اپنی زندگی میں گزرے ایسے بہت سے دردناک اور عبرتناک مشاہدات میں سے کچھ واقعات قارئین کے ساتھ کبھی ضرور شیئر کروں گا، جس سے شاید ان کو بھی کچھ نظر انداز شدہ انسانوں کی دردناک، افسوسناک اور عبرتناک زندگی سے کچھ تعارف حاصل ہو جائے۔

لہذا یہ موضوع اتنا لذیذ یا محدود نہیں، جتنا ”ہم سب“ پر بار دیگر شائع شدہ اس تحریر میں ذکر کیا گیا ہے۔ اس موضوع اور اس کی بدشکل اور بے رحم حقیقتوں سے آگاہی انسانیت کے مخفی اور پوشیدہ گوشوں سے متعارف کرواتی ہے، اور اس بارے میں سوچ کا زاویہ بدل دینے کا باعث بنتی ہے بشرطیکہ کہیں انسانیت کی کوئی رمق باقی ہو یا وہ خود اس صنعت سے تعلق رکھنے والا کوئی ”صنعتکار“ نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments