ناکام ریاست کسے کہتے ہیں؟


”امریکا اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی اور عسکری قوت ہی نہیں ’بلکہ اس کی خارجہ پالیسی میں کسی بھی کمزور ملک کو اپنی خواہشات کے حساب سے ڈھالنے کی قوت موجود ہے۔ جہاں تک اخلاقیات کا تعلق ہے‘ اس قوت کا دوسرے ممالک کے معاملے میں کسی قسم کا کوئی اخلاقی اصول موجود نہیں ہے۔“ یہ حقیقی الفاظ نوم چومسکی کے ہیں۔ جو حد درجہ قابل احترام ’لائق فلسفی اور امریکی سیاسی دانشور ہے۔

نوم چومسکی امریکا کی پالیسیوں کے متعلق لا تعداد کتابیں لکھ چکا ہے۔ اس میں چومسکی کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ”ایڈم اسمتھ نے لکھا تھا کہ دنیا کے تمام وسائل ہمارے لیے ہیں اور دوسروں کے لیے کچھ بھی نہیں۔“ چومسکی امریکی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں بہت بہادری سے ہر وہ خامی تسلیم کرتا ہے ’جس پر بات کرنی از حد مشکل ہے۔

وہ یہ بھی کہتا ہے کہ امریکا اپنے اخلاقی اصول خود وضع کرتا ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی مصنوعی بات نہیں ہے۔ چومسکی یہ بھی لکھتا ہے کہ امریکا پوری دنیا میں مصنوعی طرز کی جمہوریت کو ہی پنپنے دیتا ہے۔ بلکہ وہ کئی کمزور ملکوں میں جمہوری نظام کو برآمد (export) بھی کرتا ہے۔ ذمے داری سے عرض کر رہا ہوں کہ چومسکی کی سطح کا سیاسی دانشور کم از کم ہمارے ملک میں نہیں ہے۔ اور دوسری بات اور ’وہ دنیا کی محنتی ترین نسل یعنی یہودیت سے تعلق رکھتا ہے۔

چومسکی جو لکھتا ہے بلکہ لکھ رہا ہے ’جو کہہ رہا ہے‘ کم از کم ہمارے خطے میں اس کے متعلق سمجھ بوجھ حد درجہ کم ہے۔ بین الاقوامی طاقتوں کی عملی قوت اور فکری سوچ کو ہمارے چند معتبر سیاستدان حد درجہ منفی بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ وہ تنقید صرف اس لیے کرتے ہیں کہ دنیا کی یہی مقتدر قوتیں انھیں اقتدار میں لے آئیں۔

چومسکی کے خیالات اور افکار پر بحث نہیں کرنا چاہتا۔ اس لیے بھی کہ فی الحال مجھے اس کی تمام کتابیں پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔ مگر صرف ”Failed States“ ہی کھنگال لیں تو آپ کو ہماری داخلی سیاست ’ریاستی اداروں اور معیشت کا ربط معلوم ہو جائے گا۔

طالب علم کی نظر میں پاکستان موجودہ صورت حال میں ایک ناکام ریاست بن چکی ہے۔ ہمارا ملک انتہائی سرعت سے ترقی کے ماڈل سے گرتا ہوا اب بدقسمتی کی اس دلدل میں دھنس چکا ہے ’جس صورت میں اس کی سالمیت سمیت ہر عنصر داؤ پر لگ چکا ہے۔

ہمارے ہاں اس مشکل بات کو تسلیم کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ شاید ہم مشکلات کو کسی بھی طور پر حل کرنے یا کسی سطح پر مسائل کو ختم کرنے میں عملی دلچسپی نہیں رکھتے۔ ہمارے قائدین ہمیں حقیقت بتانے کے بجائے ’ذاتی دولت اور اقتدار کو محفوظ رکھنا مقدم سمجھتے ہیں۔

ملک کا کوئی ادارہ اب قوم کو بہتری کی طرف لے جانے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ اس وقت ملک کے تمام اداروں کی ناکامی کے ثبوت موجود ہیں۔ یہ بربادی ایک دو سال میں نہیں ’بلکہ یہ پانچ سے چھ دہائیوں کی بدعملی ہے جس کی بدولت آج ہم تقریباً معدوم ہونے کے نزدیک ہیں۔

مجبوری یہ ہے کہ سیاسی تاریخ کے مہروں کا تجزیہ کیے بغیر کچھ بھی نہیں لکھ سکتے۔ ہمارے ملک میں میڈیا کے کسی شعبہ بلکہ نظام کے کسی کونے میں حقیقی معاملات کا تجزیہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ سچ کہنے اور بولنے پر پابندی ہے۔

سچ کو چھپانے کی اس ترکیب کو ”ملکی مفاد“ کہا جاتا ہے۔ اصل نکتہ تو یہ ہے کہ حقیقت کو بتانا ہی اصل قومی مفاد ہے اور فریضہ بھی۔ 1970 کے الیکشن کے نتائج پر غور کیجیے۔ کیا بنگالیوں کو اقتدار ان کی عوامی طاقت کے حساب سے نہیں ملنا چاہیے تھا؟ سوچیے۔ مجیب الرحمن کو وزیراعظم بنانے کی سب سے زیادہ مخالفت کس نے کی تھی۔ جنرل یحییٰ خان کی بداعتدالیاں اپنی جگہ ثابت ہیں۔ مگر ذوالفقار علی بھٹو نے انتقال اقتدار کو الیکشن نتائج کے حساب سے تسلیم کرنے سے مکمل انکار کر دیا تھا۔ یہ غیر معمولی انکار کس بین الاقوامی طاقت کے حکم پر کیا گیا، اس کے شواہد موجود ہیں۔

برا نا منائیے گا۔ بھٹو کے متعلق منفی بات لکھنا ہرگز ہرگز ان کی سیاسی جماعت پر تنقید نہیں ہے۔ یہ ایک تجزیہ ہے جس کی گنجائش موجود ہے۔ بھٹو سے پہاڑ جیسی غلطیاں کروائی گئیں یا سرزد ہوئیں۔ سوچ کر جواب دیجیے کہ وہ کس طاقت نے کروائی۔ ہم ’بھٹو کے عمدہ کپڑوں‘ طرز خطابت اور جوش و جذبہ کی درست تعریف کرتے ہیں۔ مگر کیا اس ذہین آدمی نے واقعی ملک کے مسائل کسی حد تک حل کر دیے تھے۔ جس آئین کی بات کی جاتی ہے وہ تو ایک دن بھی اصل حالت میں نافذ نہیں رہا۔ ہم شروع دن سے امریکی دائرہ اثر میں رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔

کسی بھی طور سے دیکھیے تو بھٹو صاحب کے پانچ برس دور حکومت میں مسائل بڑھتے رہے۔ آخری دو ماہ میں کمزوری کی یہ حالت تھی کہ دائیں بازو کا مطالبہ نہ ہونے کے باوجود ’پاکستانی معاشرے کو اس طرح کی قانونی پابندیوں میں جکڑ گئے جس نے پورے سماج میں سماجی بے ترتیبی پھیلا دی۔ بعد ازاں جنرل ضیاء الحق کے پاس وہ فکری استطاعت نہیں تھی کہ وہ کسی قسم کے جدت پسند فیصلے کرتے۔ مگر وہ شخص امریکا کی قوت کو سمجھتا تھا۔ اور اسے بھرپور اندازہ تھا کہ امریکا‘ اسلام پسندی کا سیاسی نعرہ لگوا کر پورے کرہ ارض پر طاقت کی مرکزیت بدل دے گا۔ مگر ضیاء الحق بھرپور طریقے سے توازن کھو گیا۔

اس نے قومی مفادات کو پس پشت ڈال دیا۔ افغانستان میں جو کچھ ہوا ’وہ تو چلیے کافی حد تک پتہ ہے۔ مگر جس منافقت انگیز مذہبی رویہ کو اس نے پروان چڑھایا۔ وہ آج بھی ہمارے لیے سوہان روح ہے۔ امریکا سے ضیاء الحق‘ ملک کے لیے وہ فوائد حاصل کر سکتے تھے جو جاپان ’ویت نام یا ساؤتھ کوریا نے کیے۔ مگر ضیاء الحق حد درجہ ادنیٰ معاملات میں اس طور پھنسے کہ نہ امریکی حمایت کو برقرار رکھ پائے اور نہ ہی ملک کو بھرپور ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر پائے۔ ناکام جمہوریت کے دس برس میں بے نظیر بھٹو‘ امریکی طاقت کی استطاعت کا بھرپور ادراک کرتی تھیں۔ مگر وہ بھی صرف اسے اقتدار کے حصول کے لیے استعمال کر پائیں۔ نواز شریف بھی اسی ذہنی اور فکری ’گو مگو کی صورت حال کا شکار رہے۔

ان دونوں کو ایک بات مکمل طور پر واضح تھی کہ امریکی مفادات کا مقامی تحفظ سیاست دان نہیں بلکہ ریاستی ادارے کرتے ہیں۔ اور آج بھی یہی صورت حال ہے۔ پرویز مشرف کو وہ حالات مل چکے تھے کہ امریکا سے ہر وہ فائدہ لے سکتے تھے جس سے ملک اقتصادی طور پر مستقل بنیادوں پر کامیاب ہو جاتا۔ مگر انھوں نے بین الاقوامی قوتوں سے ذاتی فائدہ اٹھانا شروع کر دیا۔ ملک کو پھر افغانستان کی مستقل بدامنی کے حوالے کر کے خاموش ہو گئے۔ ضیاء الحق اور پرویز مشرف امریکا سے وہ قومی فائدے کیوں نہیں لے سکے ’جو جاپان یا دیگر ملکوں نے لیے۔ مسئلہ صرف ذاتی فوائد کو حاصل کرنے کا ہے۔ موجودہ صورت حال میں بھی یہ معاملہ بالکل سو فیصد ذاتی فوائد کے اردگرد ہی گھومتا نظر آتا ہے۔

موجودہ سیاسی ’ریاستی اور عدالتی اداروں کی باہمی کشمکش تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تو کرپشن کے معاملے کو جس طرح پاکستان میں پیش کیا جاتا ہے۔ وہ جوہری طور پر طاقتور ملکوں کے زاویہ سے متضاد ہے۔

لندن میں ہر ملک کی کرپٹ اشرافیہ کی لوٹی ہوئی دولت موجود ہے۔ برطانوی حکومت نہ صرف ان لوگوں کے سرمایہ کو محفوظ رکھتی ہے بلکہ ان تمام لٹیروں کو شہریت بھی عطا کرتی ہے۔ دراصل امریکا اور اس کے حلیف ہمارے جیسے ممالک میں کرپشن کو بالکل برا نہیں سمجھتے۔ چین کا نام لکھنا بھول گیا۔ چینی کمپنیاں ’سب سے زیادہ کمیشن دیتی ہیں۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن‘ امریکا کی طاقت کو بہتر طریقے سے سمجھتے ہیں۔ ان کو پاکستان کے معاملات میں عام لوگوں کی حمایت کافی حد تک حاصل ہے۔ درست ہے کہ یہ اپنا ذاتی فائدہ مقدم رکھیں گے۔

اور ہوتا بھی ایسے ہی ہے۔ مگر کیا یہ امریکا سے بہتر تعلقات کو پاکستان کی بہتری کے لیے استعمال کریں گے یا نہیں۔ اس پر موجودہ نازک صورت حال میں کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ ان کے برعکس خان صاحب نے حد درجہ غیر متوازن بیانیہ اپنا لیا ہے۔ جو ہمارے قومی مفادات کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ ہر وقت ’امریکا کے متعلق منفی تقاریر سے وہ خود تو اقتدار سے محروم ہو ہی چکے ہیں۔ مگر اب وہ اس بیانیے کو عوام میں کامیابی سے عام کر رہے ہیں۔ انھیں قطعاً فکر نہیں کہ غیر ملکی طاقتیں ہمارے لیے مزید کتنے مسائل پیدا کر سکتی ہیں۔ اگر آپ کو معاملات کی تہہ تک پہنچنا ہے۔ تو نوم چومسکی کی ”ناکام ریاستیں“ پڑھ لیجیے۔ ٹھنڈ پڑ جائے گی۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments