عمران خان کو حد میں رکھنے کی ضرورت اور ٹی ٹی پی سے مذاکرات


لانگ مارچ کا بڑا شور تھا اور عمران خان بڑھکیں لگا رہے تھے کہ وہ 20 لاکھ لوگ اسلام آباد لے کر آئیں گے۔ تحریک انصاف کی تمام قیادت یہ دعوے کر رہی تھی کہ پچیس مئی کو پورا ملک جام کر دیا جائے گا اور حکومت کی گردن پر انگوٹھا رکھ کر انتخابات کی تاریخ لی جائے گی۔ لیکن پھر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے خوف سے پنجاب کی پی ٹی آئی کی لیڈر شپ لانگ مارچ والے روز مکمل طور پر غائب ہو گئی۔ ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں بھی چلیں کہ تحریک انصاف کے وسطی اور بالائی پنجاب سے تعلق رکھنے والے متعدد رہنما خرچ اور خواری سے بچنے کے لیے خود گرفتاری دینے کی خواہش کا اظہار کرتے رہے۔

پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی آبادی ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہے تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی اپنے لیڈر کی کال پر وہاں سے دو ہزار لوگ بھی باہر نکالنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے عوام تحریک انصاف کے احتجاج سے بالکل لا تعلق رہے اور وہاں سے مٹھی بھر افراد بھی حقیقی آزادی کے حصول کی خاطر اسلام آباد کی طرف عازم سفر نظر نہیں آئے۔ کے پی سے بھی لوگوں کی قابل ذکر تعداد نے مارچ میں شرکت نہیں کی۔

حالانکہ کے پی کے میں گزشتہ آٹھ سال سے تحریک انصاف حکومت میں ہے اور اس لانگ مارچ میں عوام کو لانے کے لیے صرف کے پی کے ہی نہیں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کے وسائل بھی بے دریغ استعمال کیے گئے۔ اس کے باوجود مارچ کے شرکاء کی تعداد زیادہ سے زیادہ 10 سے 15 ہزار کے درمیان تھی۔ ذرائع کے مطابق عمران خان اسلام آباد میں داخل ہونے سے قبل ہی مارچ کے شرکاء کی تعداد سے بہت مایوس ہو چکے تھے اور وہ حکومت سے کوئی فیس سیونگ ملنے کی تلاش میں تھے۔

شام تک اسلام آباد کی سڑکوں پر تحریک انصاف کے چند سو لوگ بھی نہیں تھے اور اس بار اتحادی حکومت عمران خان کو کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں تھی لیکن پھر سپریم کورٹ کی طرف سے تحریک انصاف کی عزت بچانے کے لیے حکم آ گیا۔ معزز عدالت کے حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے جب حکومت نے سکیورٹی کی خاطر کھڑی کی گئی رکاوٹیں ہٹائیں تو پی ٹی آئی کے اس مردہ لانگ مارچ میں جان پڑ گئی۔ تحریک انصاف کے بعض شرپسند عناصر کھلی چھٹی ملنے کے بعد پولیس اور رینجرز کے جوانوں پر حملہ آور ہو گئے اور پولیس کی کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔

اس پھسپھسے مارچ کو سرخیوں میں بہت بڑا احتجاج دکھانے کی خاطر 27 سے زائد پولیس اور رینجرز کے جوانوں کو زخمی کرنے کے ساتھ املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ خود عمران خان عدالتی حکم کو روندتے ہوئے کنٹینر سے بار بار یہ اعلان کرتے رہے کہ تحریک انصاف کے کارکن ڈی چوک پہنچیں۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو احتجاج کی رعایت دینے کے باوجود ڈی چوک آنے کی اجازت نہیں دی تھی اور عمران خان کا یہ اعلان نہ صرف عدالت کے حکم کی کھلی خلاف ورزی بلکہ توہین عدالت کی دانستہ کوشش تھی۔

اس سب کے باوجود کوئی متاثر کن اجتماع اسلام آباد میں جمع نہیں ہوا اور مزید ہزیمت سے بچنے کے لیے عمران خان حکومت کو چھ دن کی مہلت دے کر واپس پشاور فرار ہو گئے۔ تادم تحریر چھ دن کی یہ مہلت ختم ہو چکی ہے اور اب تک حکومت نے تحریک انصاف کے مطالبات تسلیم کیے ہیں اور نہ ہی خان صاحب دوبارہ عدلیہ اور اسٹبلشمنٹ کی طرف سے سپورٹ کی یقین دہانی ملنے تک اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کی ہمت کرنے کے موڈ میں نظر آ رہے ہیں۔

میں کافی عرصہ سے لکھ رہا ہوں عمران خان صاحب کی فین فالونگ محض سوشل میڈیا تک محدود ہے۔ تحریک انصاف کا ایک سو چھبیس دن کا دھرنا اور دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں کامیابی ریاست کی مقتدر قوتوں کے پراجیکٹ کا حصہ تھی۔ عدم اعتماد تحریک پیش ہونے کے وقت بھی میں نے لکھا تھا کہ بعض وجوہات کے سبب مقتدر قوتوں کے لیے اپنا یہ پراجیکٹ جاری رکھنا فی الحال ممکن نہیں رہا مگر تحریک انصاف کی اقتدار سے فراغت کے بعد بھی اداروں کی طرف سے عمران خان کی سپورٹ جاری رہے گی۔

بد قسمتی سے گزشتہ کچھ عرصے میں اعلی عدلیہ کے بعض اقدامات اور حالیہ سیاسی منظرنامے سے اس تاثر کو مزید تقویت ملی ہے۔ نہایت ادب سے عرض ہے زیادہ عرصہ یہ ڈبل گیم جاری رکھنا اب ممکن نہیں ہو گا۔ معیشت کا تابوت نکالنے کے بعد اب عمران خان کی منفی ذہنیت قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ اداروں کو اب لازما فیصلہ کرنا پڑے گا کہ پراجیکٹ دوبارہ شروع کرنے کے لیے لاڈلے کو بچانا ہے یا ملکی مفاد کو۔ جنہوں نے اپنے کندھے پیش کیے لاڈلے کو اوقات میں رکھنا بھی ان کا ہی کام ہے کہ زبان کو لگام دیں اور جو بربادی ہو چکی اس کی بحالی کے لیے ہونے والے اقدامات اور سیاسی استحکام میں رکاوٹ نہ بنیں۔ ورنہ اس ڈبل گیم سے پراجیکٹ بچ سکے گا اور نہ ملکی مفاد۔

بڑی خوش آئند خبر ہے کہ ایک مرتبہ پھر ٹی ٹی پی اور ریاست پاکستان کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ ہوا ہے۔ امریکا کی افغانستان میں موجودگی اور اشرف غنی کی حکومت میں ہمیں شکایت تھی کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی۔ اطلاعات کے مطابق حالیہ مذاکرات افغان طالبان کی سرپرستی میں ہوئے ہیں لہذا یہ سوال پیدا ہونا فطری بات ہے کہ یہ کیسی دوست حکومت ہے جس نے ہمارے تمام دشمنوں کو جیلوں سے رہائی دے دی ہے اور ہم سے بھی اصرار ہو رہا ہے کہ اپنے اسی ہزار بچوں کے قاتلوں کو بلا مشروط معاف کر دیا جائے۔

یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آ رہی کہ تحریک طالبان اس وقت اگر واقعی کمزور پوزیشن میں ہے تو پھر آخر اس سے مذاکرات کی کیا جلدی ہے اور اتنی عجلت کا مظاہرہ کیوں کیا جا رہا ہے۔ اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ کوئی بھی ریاست ہمیشہ حالت جنگ میں نہیں رہ سکتی اور ہر جنگ کا اختتام مذاکرات پر ہی ہوتا ہے۔ تحریک طالبان اگر واقعی شدت پسندی چھوڑ کر ملکی آئین کے احترام کا حلف اٹھانا چاہتی ہے تو فبہا۔ اس صورت تحریک طالبان کو قومی دھارے میں لانے کے طریقہ کار پر ضرور غور ہونا چاہیے۔

تاہم یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس تنظیم کی مذموم کارروائیوں کی قیمت کسی مخصوص ادارے یا طبقے نے نہیں بلکہ پوری قوم نے ادا کی ہے لہذا اس متعلق کوئی بھی فیصلہ چند اشخاص کے بجائے قوم کی اجتماعی دانش کو بروئے کار لاکر پارلیمنٹ میں بحث کے بعد ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے اہم چیز یہ دیکھنے والی ہوگی کہ آج تک ٹی ٹی پی کے ساتھ جتنے معاہدے ہوئے، اس مہلت کا فائدہ اٹھا کر اس نے پہلے سے زیادہ قوت حاصل کرلی۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ٹی ٹی پی نے اپنے دیرینہ موقف سے ایک انچ بھی رجوع نہیں کیا۔

پتہ نہیں اب کس ضمانت کی بنیاد پر امید کی جا رہی ہے کہ ٹی ٹی پی دوبارہ دہشتگردانہ سرگرمیوں سے تائب ہو جائے گی۔ آخری بات یہ کہ کاش تمام کالعدم تنظیمیں بشمول ٹی ٹی پی واقعی قومی دھارے میں شامل ہو جائیں اس کے بعد ستر سال سے رائج ملکی داخلی اور خارجی پالیسیوں سے بھی رجوع کر لیا جائے تو ہمارے بیشتر مسائل ہمیشہ کے لیے حل ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments