“پاکستان میں “خونی انقلاب


پاکستان میں ایک ”خونی انقلاب“ کی نوید کچھ روز پہلے شیخ رشید صاحب نے دی وہ عموماً ایسی بے پر کی اڑایا کرتے اور سیاسی ”پیشن گوئیاں“ بھی کرتے رہتے ہیں جس کی حیثیت نہیں ہوتی۔

میرا مشاہدہ اور مطالعہ ہے کہ کوئی بھی انقلاب دائمی نہیں ہوتا اور نہ ہی مسئلہ کا واحد حل انقلاب ہی ہے۔ اگر کبھی کوئی انقلاب برپا ہوا اور کامیابی سے بھی ہمکنار ہو گیا تو یہ صرف اس کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے اور اکثر اوقات وقت گزرنے کے ساتھ وہی انقلاب استعمار کی علامت بن جاتا ہے جیسا کہ انقلاب روس کے بعد ہوا۔ وہاں کے مطلق العنان حکمران زار کی تین سو سالہ ”بورژوائی“ سماج کو لینن کے بالشویک انقلابیوں نے اٹھا کر باہر پھینک دیا اور ایک ”پرولتاری“ معاشرے کی بنیاد ڈالی۔

دنیا کو ایک نئے فلسفے سے روشناس کرایا گیا اور ایک ”سرخ سویرا“ کی نوید سنائی۔ نیا ادب تخلیق ہوا اور شاعری کے اصلوب بھی بدلے لیکن وہی نظام جس کو انقلاب کے بانی کارل مارکس، مارشل اور روسو نے انسانیت کے لئے آئیڈیل قرار دیا تھا صرف ستر سال میں اپنی موت آپ مر گیا اور عظیم سویٹ یونین ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دوبارہ کیپٹل ازم کی راہ پر چل نکلا اسی روس میں لینن اور اسٹالن کے مجسمے مسمار کر دیے گئے اور وہ تمام نظریے اور فلسفے باطل ٹھہرے جو ایک ”غیر طبقاتی نظام“ کی حمایت میں دیے گئے۔

کچھ ایسا ہی کمیونسٹ چین میں ماوزے تنگ کے سرخ انقلاب کے ساتھ ہوا اور ان کا ایک ”کلاس لیس سوسائٹی“ کا فلسفہ پچاس سال بھی نہ چل سکا اب چین بھی ایک سرمایہ دارانہ نظام کو اپنائے ہوئے ہے اور آج کی دنیا کی معیشت میں ایک بڑا نام ہے۔

چند دہائی پہلے ایران میں خمینی صاحب نے ”اسلامی انقلاب“ کا نعرہ بلند کیا لیکن کیا وہ اپنے مقاصد پورے کر پائے اس پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

تاریخ سے ثابت ہے کہ انقلاب کے نقیب گزرتے وقت کے ساتھ خود ہی سب سے بڑے استعمار بن جاتے ہیں اور پھر ان سے جان چھڑانا اور بھی زیادہ مشکل ہو جاتا ہے وہی انقلابی جو بڑے بڑے نعرے اور سماج میں بہتری لانے اور تبدیلی کی بات کرتے تھے ایک نئے روپ میں سامنے آتے ہیں اور ظلم و استبداد کی نئی داستانیں رقم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

کسی بھی ”انقلاب“ کے لیے چند بنیادی باتوں کا ہونا انتہائی ضروری ہے جس میں اولیت پرخلوص اور نظریاتی لیڈر شپ ہے جس پر کسی قوم کو مکمل اور اندھا اعتماد ہو۔ دوسرا بڑا محرک زبان اور قومیت ہے۔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں یک لسانیت اور قومیت ہی تھی۔ پاکستان کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو بھٹو صاحب کے بعد کوئی لیڈر ایسا نہیں ہوا جس کی چاروں صوبوں میں پذیرائی ہو ان کے بعد بہت حد تک بینظیر مرحومہ میں یہ صلاحیت نظر آئی لیکن وہ بیچاری اپنے شوہر اور نا اہل و موقع پرست پارٹی لیڈرز کے سامنے ڈھیر ہو گئیں۔ ان کی المناک موت کے بعد ایک شاندار اور نظریاتی جماعت گمنامی اور تباہی کے کنارے پہنچ گئی۔

دوسری کسی سیاسی جماعت یا کسی لیڈر میں اتنا دم خم نظر نہیں آتا کہ پوری قوم اس کی تقلید کرسکے۔

عمران خان صاحب ایک امید بن کر سامنے آئے ضرور لیکن ان کی قلابازیاں اور ناقص حکمت عملی ان کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہو سکتی ہے مزید یہ کہ ان کے پاس مخلص اور نظریاتی کارکن بھی نہیں جو گھر گھر جاکر اور عوام میں رہ کر اپنے نظریات کا پرچار کرسکیں۔ خانصاحب کی پارٹی میں کوئی عوامی سطح کا رہنما بھی نہیں صرف چند سرمایہ دار اور ٹیکنوکریٹس ہیں جو کسی بھی فکری اور معاشی انقلاب کے لئے کافی نہیں۔ ہاں سوشل میڈیا پر اس پارٹی میں ضرورت سے زیادہ متحرک کارکن اور دھرنے کی شوقین حضرات و خواتین کی ان کے پاس کمی نہیں لیکن وہ ایک بامقصد عوامی تحریک چلانے کے اہل ہرگز نہیں۔

صرف فوج سے ہی امیدیں لگا لینا بھی عبث ہو گا۔ فوج بھی اسی معاشرے کا ایک حصہ ہے اور اس میں شامل افراد میں بھی وہی خوبیاں اور برائیاں ہیں جو باقی دوسروں میں ہیں۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری فوج کی ٹریننگ۔ کلچر اور مزاج کولونیل ہے۔ فوج پوری طرح نیشنل آرمی کے تصور پر بھی پوری اترتی نظر نہیں آتی۔ اسے ایک پروفیشنل آرمی ہی کہا جا سکتا ہے جس میں ایک مخصوص علاقہ اور قوم کی اکثریت ہے جو خود کو ایک عام شہری سے افضل و برتر مخلوق سمجھتی ہے اور ”بلڈی سویلین“ کو کسی خاطر میں نہیں لاتی۔

سیاستدانوں کی کرپشن اور اسکینڈلز کو تو خوب اچھالا جا تا ہے جبکہ وہ خود کو ایک مقدس گائے کی طرح ہر قسم کے الزامات سے بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ فوج نے اپنی آئینی اور روایتی ذمے داریوں کے علاوہ رئیل اسٹیٹ اور دیگر نفع بخش تجارتی ادارے چلانے کا کام بھی شروع کر دیا ہے۔ اس وقت ملک عزیز میں سو سے زیادہ کمرشل ادارے فوج کے اپنے ہیں یا اس کے زیر انتظام چل رہے ہیں اس بارے میں محترمہ عائشہ صدیقہ کی کئی برس قبل لکھی کتاب آرمی انکورپوریٹڈ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

دوسری اہم بات یہ بھی کہ فوج اور اس کے افسران کا اپنا مزاج تو انتہائی انگریزی زدہ ہے لیکن اس نے اپنے ”مخصوص مفادات یا شاید کسی“ اسٹریٹیجی ”کے تحت ملک میں مذہبیت اور شدت پسندی کو بڑھاوا دیا جہادی کلچر اور لشکروں کی پشت پناہی کی جس کی وجہ سے پوری قوم کشت و خون میں نہا گئی۔ عالمی سطح پر پاکستان کو ایک
Rogue State
اور دہشتگردوں کی جنت قرار دیا جانے لگا۔ ہمارے تمام پڑوسی ہم سے نالاں ہیں۔ افغانستان اپنی بربادی کی وجہ پاکستان کو ٹھہراتا ہے اور ہم خود افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت لانے کے چکر میں کہیں کے نہ رہے۔ جنرل حمید گل مرحوم کی ”Strategic Depth Doctrine“ اپنے ہی ہم وطنوں کے لیے عذاب بن گئی اور اب تو اس سے نکلنے یا واپسی کا کوئی راستہ بھی نظر نہیں آتا۔ ہمارے ہزاروں جوان اور معصوم عوام آگ و خون کے دریا میں نہلا دیے گئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

” تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن“
اب ذرا نظر ڈالیں کہ وطن عزیز میں ہونے والی ایک

اور انقلابی تھیوری پر جسے نام نہاد ”دینی انقلاب یا شریعت کے نفاذ“ سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ فی الوقت تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں سب سے بڑی مجتمع قوت یہی علماء اور شدت پسند عناصر بنتے جا رہے ہیں جو عوام الناس کی جہالت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مذہب اور جذباتیت کے ذریعے کسی نہ کسی طور اقتدار پر قبضہ کرلینا یا کسی بھی طرح اس میں سے اپنے حصے کا کیک ضرور حاصل کرلینا چاہتے ہیں وہ اپنے اس ”ایجنڈے“ کی تکمیل کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں مزید یہ کہ وہ اپنی اس جدوجہد کو کوئی بھی ”مقدس“ نام دے سکتے ہیں مثلاً نظام شریعت، نظام مصطفے، دین کا نفاذ وغیرہ وغیرہ۔

ایک بات تو طے ہے کہ الیکشن اور ووٹ کے ذریعے تو یہ لوگ نہ پہلے کبھی ایوانوں میں پہنچ پائے اور نہ ہی آئندہ کبھی ان کو عوام منھ لگائیں گے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے پاس اسٹریٹ پاور اور ایک Nuesance value ہے اور اسے وہ بخوبی استعمال کرنے کا ہنر بھی خوب جانتے ہیں۔ ان شدت پسند عناصر کو انارکی اور افراتفری ہی سوٹ کرتی ہے تاکہ بیک ڈور یا کسی مخصوص سیٹ اپ جیسے مارشل لاء کے ذریعے اقتدار میں شامل ہو سکیں جیسا کہ

جماعت اسلامی ماضی میں بارہا کرتی رہی ہے اور وہ ہر مارشل لا کا حصہ رہی ہے۔ مذہبی سیاسی جماعتوں نے اس مقصد کے لیے میدان پہلے ہی ہموار کر لیا ہے اور وہ شدت پسند نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد تیار کرچکے ہیں جو ان کے ایک اشارے پر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ملک میں مسلکی اور فقہی اختلاف اتنا زیادہ گہرا وسیع کر دیا گیا ہے کہ ہر فرقہ دوسرے کو کافر اور واجب القتل قرار دیتا ہے۔ کوئی کسی کو برداشت نہیں کر سکتا۔ شدت پسندوں اور مذہبی سیاسی جماعتوں کی اصل قوت مدرسوں کے نادار بچے، متوسط اور غریب خاندانوں کے نوجوان اور خواتین ہیں جنہوں نے معاشی ناہمواریوں اور ناقص تعلیم کی باعث شاید مذہب میں پناہ ڈھونڈھ لی ہے اور وہ شریعت کے نفاذ کے پر فریب نعروں کے سراب میں ان عناصر کے معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔

گاؤں دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں جا بجا قائم مدرسوں نے عوام کے نچلے اور غریب طبقے کو چند معمولی مراعات کے بدلے اپنا یرغمال بنا رکھا ہے جبکہ متوسط کلاس کو میڈیا نے شدت اور جنون کی راہ پر لگایا۔ چینلز پر دکھائے جانے والے مذہبی اجتماعات اور رسومات کو گلیمرئز اور کمرشلائز کیا گیا اور بے شمار مذہبی پروگرامز اور قسم قسم کے حلیوں اور مختلف رنگوں اور لچکے گوٹوں سے آراستہ ٹوپیوں سے مزین مضحکہ خیز حلیوں میں مختلف مکاتب فکر کے مبلغین ایک دوسرے پر تبرے بازی کرتے دکھائے جاتے ہیں اور اینکر پرسن اختلافات کو مزید ہوا دیتے اور چینل کی ریٹنگ بًڑھاتے نظر آتے ہیں جس سے مزید نفاق اور تقسیم پیدا ہو رہی ہے۔

ہمارے اطراف آج جتنی خواتین حجاب میں اور نوجوان داڑھی اور ٹخنے سے اونچی شلوار میں نظر آتے ہیں پہلے کبھی نہیں تھے۔ کیا ہم یا ہمارے والدین کسی طرح کم یا بہتر مسلمان نہ تھے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اگر آج واقعی دین زیادہ پڑھا، سمجھا اور اس پر عمل کیا جا رہا ہے تو پھر اس کے مثبت اثرات معاشرے اور روز مرہ کی زندگی میں نظر کیوں نہیں آرہے۔ اس بظاہر تمام تر پاکبازیوں کے معاشرہ روز بد سے بدتر اور پستی کی طرف کیوں جا رہا ہے۔ یہ چاروں طرف لوٹ مار، قتل و غارتگری، ملاوٹ و جعلسازی کیوں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم پچھلے کل سے بہتر انسان اور مسلمان ہوتے۔

عجب اتفاق ہے کہ اکثر جرائم پکڑے جانے والے افراد داڑھی اور ٹوپی والے ہی ہوتے ہیں۔ مجھے خدانخواستہ داڑھی یا ٹوپی سے کوئی بیر نہیں خود میرے والد مرحوم اور دوسرے بزرگ بھی متشرع تھے۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم نے ہر چیز کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنے کی روش اپنا لی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ مولوی صاحب، قاری صاحب اور حافظ صاحبان کو دیکھ کر لوگ احتراماً کھڑے ہو جاتے تھے اور اب یہی حضرات ہر بڑے جرم اور دہشتگردی میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ معاشرے کا تانہ بانا ہی بکھر کر رہ گیا ہے۔ کس سے شکوہ کریں اور کس کو مورد الزام ٹھہرائیں۔ کچھ سمجھ نہیں آتا۔

موجودہ دور میں صرف اور صرف تعلیمی انقلاب کے ذریعے ہی جمہوری انقلاب اور روشن خیالی آ سکتی ہے جس کے ذریعے ہی ملک میں عدم برداشت اور

جیو اور جینے دو کے اصول کو بڑھاوا مل سکتا ہے جو کسی طور ریاست سے مذہب کو الگ کرے اور ملائیت اور انتہا پسندی کو نکیل ڈال سکے۔

تعلیمی ایمرجنسی وقت کا اہم تقاضا ہے آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ حکومتی سطح پر تمام

غیر ضروری اخراجات اور دفاع پر بے تحاشا خرچ کو کم سے کم کر کے وہ سارا پیسہ صرف اور صرف تعلیم پر خرچ کیا جائے اور ملک کے بہترین دماغ اور اعلی تعلیمی شخصیات کو آگے لایا جائے جو پرائمری لیول سے ہی بچوں کے نصاب اور ان کی ذہنی تربیت کی نگرانی کریں۔ میڈیا پر زیادہ سے زیادہ تعلیمی اور علمی سرگرمیاں کو دکھایا جائے اور طلبا میں مسابقت اور صحتمند مباحثے کو عام کیا جائے۔ کالج اور یونیورسٹیوں میں کھیل اور طلبا یونین کو فروغ دیا جائے تاکہ نچلی سطح سے سیاسی رہنما آگے آ سکیں جو معاشرے کے مسائل سے واقفیت بھی رکھتے ہوں اور ان کے پاس اس کے حل کا ادراک بھی ہو۔

میڈیا پر دکھائے جانے والے بیہودہ شوز اور لایعنی مذاکرات ختم کر کے ایسے پروگرامز ترتیب دیے جائیں جس سے قومی ہم آہنگی، یک جہتی، رواداری اور برداشت کا سبق ملے۔ ہر قسم کی شدت پسندی اور نفاق پر مبنی مباحثوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ تعلیم ہی ایک واحد ذریعہ ہے جو ہمیں اس جہالت کے اس عمیق غار سے نکال کر آگے لے جا سکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کرے گا کون۔

خدا کرے میری ارض پاک پہ اترے۔
ایک ایسی فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
انوار احمد
10 اکتوبر 2017
ھیگرز ٹاؤن۔ میری لینڈ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments