تصویروں کا رنگ محل اور اَن کہی کہانی


عید کی سہانی صبحیں، رنگ و نور کی باراتیں، محرم کے سوگوار دن، سوز خوانی، تعزیے، میلہ چراغاں، داستانوں کے زندہ کردار، بھاٹی لوہاری کے باہر براجمان عطائی، لذیذ پکوان، مٹن کڑائیاں، داس کلچے کی خوشبو، گرمی کی دوپہریں، سردیوں کے رت جگے، تصویروں کا نگارخانہ آباد ہے اور جن کے درمیان ایک نوجوان حیران ہے۔ کون سا چہرہ اور منظر اس کی چشم کشا سے اس کے دل و دماغ کے سیلو لائیڈ پر نقش ہوتا ہے۔ اور پھر وہ اسے تصویر کی صورت کیسے دیتا ہے۔

فوٹو جرنلزم میں اپنے کام کے باوصف اپنی پہچان بنانے والے تصویر گر مصروف عمل تھے۔ وہ جان چکے تھے کہ اس فن کو پیشہ کیسے بنانا ہے کہ فن کاری کے تقاضے کسی طور متاثر نہ ہوں۔

رنگ محل لاہور کی پیچیدہ گلیوں کے درمیان ایک محلے میں متوسط طبقے کا ایک خاندان رہائش پذیر ہے۔ جس کا ایک نوجوان دوران طالب علمی نصابی کتب سے بے گانہ ہو کر لفظوں کی بجائے تصویروں کو غور سے دیکھ رہا ہے۔ وہ سوچ رہا ہے کہ تصویر کیسے بنتی ہے۔ کوئی منظر، کوئی چہرہ، ہجوم یا فرد تصویر میں کیسے ڈھلتا ہے۔ اس سوال کے جواب کی تلاش اسے کیمرہ اٹھانے پر مجبور کرتی ہے۔ اس کے بھائی کو جب اس کے شوق کی خبر ملتی ہے۔ تو وہ اسے کہتا ہے تم اسے باقاعدہ سیکھو اور اپنا ذریعہ روزگار بناؤ۔ محض شوق کے لیے اپنا وقت برباد نہ کرو۔ تب راحت علی ڈار کے قدم اپنے استاد کی جانب گامزن ہوتے ہیں جو اس کے بھائی کے دوست ہیں۔

مجید میر جب راحت علی ڈار سے ملتے ہیں تو انہیں اس کے تصویر کشی کے شوق کی حدت کی تپش کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میڈیا کی چکاچوند نہیں تھی۔ صبح اخبار فروش اخبارات گلی محلوں میں موجود خریداروں کو دینے آتے۔ کچھ تصویریں، کچھ خبریں اخبارات کی زینت ہوتی تھیں۔ نہ چینلز نہ واٹس ایپ، سیا و سفید کی صحافت عام تھی۔ بعد ازاں رنگین ایڈیشن آئے۔

راحت علی ڈار نے مجید میر سے فوٹوگرافی کا سبق لینا شروع کیا۔ مینوئل کیمرے ابھی ڈیجیٹلائز نہیں ہوئے تھے۔ راحت علی ڈار تو تصویر کشی کے فن کا آرٹسٹ بننے نکلا تھا۔ شوق کی تکمیل کے لیے وسائل ناکافی تھے نہ ہی جیب خرچ اس قدر تھا کہ یہ فن فیس ادا کر کے سیکھا جائے۔

راحت علی ڈار نے کسی طور اپنے شوق کی لو کو مدھم نہیں ہونے دیا۔ اس نے بطور فوٹو جرنلسٹ پہلی باقاعدہ ملازمت روزنامہ ”سیاست“ میں کی اور خبر و تصویر کے باہمی ربط کو اپنے انداز سے دیکھنے کی جستجو کی۔ سیاسی و سماجی تبدیلیوں، آویزشوں اور محلاتی سازشوں کے دور کا آغاز ہو چکا تھا۔ سماج کی بنت بدل رہی تھی۔ راحت علی ڈار کی تصویروں میں تاریخ منتقل ہو رہی تھی۔ بہت ساری نظریں اس پر مرکوز ہو چکی تھیں۔ رنگ محل لاہور کا نوجوان راحت علی ڈار اپنا رنگ جما چکا تھا۔

دو عہد ساز فوٹو جرنلسٹ اظہر حسین جعفری (مرحوم) اور راحت ڈار

راحت علی ڈار نے روزنامہ ”سیاست“ کے بعد روزنامہ ”نوائے وقت“ اور پھر انگریزی صحافت کا رخ کیا۔ فرنٹیئر پوسٹ، ویو پوائنٹ، دی نیشن، نیوز لائن اور بی بی سی اردو میں کام کیا۔ 1994 ء میں ”دی نیوز آن سنڈے“ کو جوائن کیا۔

80 ء کی دہائی کا آغاز ہوا۔ ضیاء الحق کی آمریت کا آغاز ہو چکا تھا۔ ایک نئے سیاسی دور کی شروعات تھیں۔ 1986 ء میں راحت علی ڈار نے بے نظیر بھٹو کے جلوسوں کی کوریج کی۔ بے نظیر بھٹو اپنی جلاوطنی ختم کر کے جب لاہور ائرپورٹ پر اتری تو ایک جم غفیر اس کے استقبال کے لیے موجود تھا۔ راحت علی ڈار بھی اپنے کیمرے کے ساتھ وہاں موجود تھا۔ اس قدر ہجوم تھا کہ مال روڈ تک آتے آتے راحت علی ڈار کے کپڑے پھٹ چکے تھے مگر اس کا کیمرہ چلتا رہا اور لمحہ لمحہ تصاویر بنتی رہیں۔

بے نظیر بھٹو کی پہلے حکومت کا خاتمہ ہوا تو وہ اسلام آباد میں لانگ مارچ اور جلسہ سے خطاب کے لیے آتی ہیں۔ لاہور سے ایک ٹیم اسلام آباد روانہ ہوتی ہے۔ جس میں راحت علی ڈار بھی شامل ہے۔ بے نظیر بھٹو ایک پجارو گاڑی میں بیٹھی ہوئی تھی۔ پولیس نے اس گاڑی کی چابیاں نکال لیں۔ دوسری پجارو آئی۔ اس کو پنکچر کر دیا گیا۔ تیسری پجارو آئی بے نظیر بھٹو اپنے رفقاء کے ساتھ اس میں بیٹھ کر تیزی سے نکل گئی۔ راحت علی ڈار ایک سوزکی ڈبے میں سوار تھا۔

وہ کہتا ہے کہ ”ہم نے بے نظیر بھٹو کی پجارو کے ساتھ چلنا شروع کر دیا۔ راستے میں بیریئر لگے ہوئے تھے جس کو بے نظیر بھٹو کی گاڑی توڑتی چلی گئی۔ ایک جگہ خاردار تاریں بچھائی ہوئی تھی۔ وہاں بے نظیر بھٹو کی گاڑی رک گئی۔ بے نظیر بھٹو گاڑی سے باہر آ گئیں۔ بے نظیر بھٹو نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ“ کیا میں آپ کی گاڑی میں بیٹھ سکتی ہوں۔ ”میں نے کہا“ یہ میرے لیے خوشی کی بات ہو گی۔ ”اس وقت میں فوٹوگرافر سے سیاسی ورکر بن چکا تھا۔

میں بے نظیر بھٹو اور ان کے ساتھیوں کو اپنی گاڑی میں لے کر چل پڑا۔ بے نظیر بھٹو کے ساتھ غلام مرتضیٰ جتوئی، افتخار گیلانی اور دیگر انکلز تھے۔ میں ڈرائیونگ سیٹ پر تھا راستے میں بے نظیر نے میری بابت پوچھا۔ اسی اثنا میں ایک دوسری گاڑی آ گئی اور بے نظیر اس میں بیٹھ کر چلی گئیں۔ دوسرے دن اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ بے نظیر بھٹو لاہور کے فوٹو جرنلسٹ راحت علی ڈار کی گاڑی میں بیٹھ کر پولیس سے بچ کر نکلی۔

راحت علی ڈار نے مزید کہا کہ یہاں میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس دن راولپنڈی میں بہت گرفتاریاں ہوئیں۔ میں پل پل کی خبر اپنے اخبار کو بھجواتا رہا۔ میں فوٹوگرافر سے جرنلسٹ بن چکا تھا۔ اس لیے کہ ہم اگر خود کو“ ٹوفو جرنلسٹ ”کہتے ہیں تو غلط نہیں ہے۔

بے نظیر بھٹو نے دوسرے دن راحت علی ڈار کو فون کیا اور اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ”جب بھی کوئی ضرورت ہو تو مجھ سے رابطہ کر لینا اور ہمیشہ جمہوریت کی منزل کو پانے کے سفر میں تم ہمارے قافلے میں شریک رہنا۔“ بات آئی گئی ہو گئی۔ راحت ڈار نے کبھی اس واقعہ کو ”کیش“ نہیں کیا۔ کیونکہ اسے اپنے کام سے محبت تھی۔ وہ چاہتا تو پیپلز پارٹی کی حکومت میں ایوارڈ پانے کی جستجو کر سکتا تھا لیکن اس کے ضمیر نے گوارا نہیں کیا۔

راحت ڈار کی تصویروں کی انڈیا میں نمائش ہو چکی ہے کچھ دوسرے ممالک میں اس کی بنائی گئی تصاویر کا نگارخانہ سجایا گیا۔ وہ اپنے سفر سے مطمئن ہے۔ کیمرہ اس کے کندھے پر لٹکا ہوتا ہے اور وہ کسی نہ کسی لمحے اس کا رخ درختوں کی جانب موڑتا ہے۔ دیکھنے والا سوچتا ہے ”یہ کیا کر رہا ہے“ کس کی تصویر بنا رہا ہے۔ درختوں پر نگاہ جاتی ہے تو ایک خوبصورت پرندہ اٹکھیلیاں کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے مگر اب وہ راحت ڈار کے کیمرے میں مقید ہو کر ’فیمس‘ ہو چکا ہے۔ تب پریس کلب کے باہر ایک شور اٹھتا ہے۔ کوئی جلوس آیا ہے اور راحت ڈار چائے چھوڑ کر بھاگتا ہے۔ ”میں آنا یار جائیں ناں“ کہتا ہوا اور گیٹ سے باہر ہو جاتا ہے۔

اپنے فن میں تقریباً نصف صدی کا سفر طے کرنے والے راحت ڈار کے نام کسی بھی حکومت نے کوئی ایوارڈ نہیں دیا ہے۔ اس حوالے سے جب اس سے پوچھا گیا تو اس کا جواب صرف ایک مسکراہٹ ہے اور یہ کہنا تھا، آپ دوستوں، میرے قارئین اور وہ ادارے جہاں میں نے کام کیا، ان سب کی محبتیں میرا حقیقی اعزاز ہے۔ تب میں سوچتا ہوں ایک خوبرو اداکارہ اوائل سفر میں حکومت سے ایوارڈ کیسے حاصل کر لیتی ہے۔ صدر پاکستان بھی چپ چاپ اس کے ہاتھوں میں ایوارڈ تھما دیتے ہیں۔ قطعی نہیں پوچھتے بی بی تم نے ایسا کون سا تیر مارا ہے جو کسی کے جگر کے آر پار ہوا۔

ایوارڈ کے لیے لابنگ سفارش عام ہے۔ نواز شریف حکومت کے ایک پسندیدہ جگتیے ادیب نے اداکار علی اعجاز سے کہا تھا کہ ”اگر میں تمہیں پرائیڈ آف پرفارمنس دلوا دوں تو کیا ملنے والی انعامی رقم میں سے آدھی رقم مجھے دو گے؟“ علی اعجاز نے جواب دیا ”فیر توں ایوارڈ اپنے کول ای رکھ تے نالے دس ایہو جئے کنے ایوارڈ کنوں کنوں دواں چکا ایں۔“ (پھر تو ایوارڈ اپنے پاس ہی رکھ اور ساتھ بتا دے کہ اس جیسے کتنے ایوار کس کس کو دلوا چکا ہے)۔

راحت ڈار ان دنوں اپنی تصاویر پر مشتمل کتاب کی تیاری میں مصروف ہے۔ کتاب کی اشاعت اس کی زندگی کا نیا سنگ میل ہو گا۔

لیکن آخری نہیں۔
1 ’دانشمند لئی غور ضرور یارو‘
دل دماغ سے پنجابی۔ وگدی اے راوی
شاعر، محقق اور دانشور اکرم شیخ
2 صوفی ازم سے وجودیت تک
پنجابی پینوراما میں خاموش چاکر
شاعر، محقق اور دانشور اکرم شیخ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments