موسیقی کا نیا البم گل مہر سے


فنون لطیفہ تہذیب و تمدن کا اہم جزو ہیں۔ قصہ گوئی، شاعری، مصوری، بت تراشی اور موسیقی تخلیق کے وہ پہلو ہیں جن کا مادہ انسان کے خمیر میں ہمیشہ سے پایا جاتا ہے۔ اور اس کے شواہد آثار قدیمہ نے ان غاروں سے دریافت کیے ہیں کہ جو انسان کا ابتدائی مسکن تھے۔ ان غاروں میں کھدے ہوئے رقص کے خاکے بتاتے ہیں کہ قبل از تاریخ کا انسان بھی رقص کرتا تھا جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ گاتا بھی ہو گا۔ اور اس کی گائیکی میں یقیناً ایک قسم کا بنیادی ربط اور ردھم بھی پایا جاتا ہو گا۔

یہ ہی وجہ ہے کہ فنون لطیفہ میں موسیقی کو ہمیشہ سے نمایاں درجہ حاصل رہا ہے۔ یہ ہی وہ قدیم اور موثر ذریعہ ہے کہ جس میں انسان کے لطیف جذبات بڑی خوبی سے اپنا اظہار پاتے ہیں۔ ہماری موسیقی نا صرف قدیم تاریخی ورثہ رکھتی ہے بلکہ برصغیر میں مختلف اقوام کے ثقافتی اور تمدنی اختلاط کی وجہ سے گوں نا گوں آہنگ سے آراستہ اور خوشبووں سے معطر بھی ہے۔ لہاذا اس سلسلے میں ضروری امر یہ ہے کہ ہم اپنے اس بے پایاں ثقافتی ورثہ سے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ اسے محفوظ رکھنے کا جتن بھی کریں۔

شمائلہ رحمت کے نئے البم ”گل مہر سے“ کا حال ہی میں ایک پر تکلف تقریب میں اجرا ہوا۔ جس میں فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے اور اسے سراہنے والوں کی بڑی تعداد نے شمولیت اختیار کی۔ مجھے بھی موسیقی کا یہ البم سننے کا موقع ملا۔ جو علی عباس زیدی کے شعری مجموعے ”ڈھلتی رات کے سناٹے“ سے منتخب غزلوں اور تشریح طلب الفاظ سے مرصع ہے۔ اور شمائلہ کی ان سادہ اور حسین دھنوں سے مزین ہے جو جدید و بعید سے ہم آہنگ موسیقی کی عمدہ مثال پیش کرتا ہے۔

اس البم میں ایک طرف شمائلہ کی بے حد سادگی سے دل موہ لینے والی پر سکون آواز کا جادو سر چڑھ کے بولتا ہے۔ تو دوسری طرف علی عباس زیدی کے پر تکلف اشعار بڑی خوبی سے اپنا مفہوم پاتے ہیں۔ اور یہی امتزاج اس البم کی نمایاں خوبی ہے۔ جو جدید موسیقی کو نا صرف قابل سماعت بناتا ہے۔ بلکہ جدید موسیقی کو ترتیب دینے والوں کے لیے بھی ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر قرطاس پہ کاغذی پیراہن اوڑھے خاموشی سے پڑے تشریح طلب الفاظ کو با معنی آہنگ دینا مقصود ہو۔ تو بسا اوقات سادہ گائیکی سروں کے کلاسیکل زیر و بم پر نا صرف سبقت لے جاتی ہے بلکہ مفید بھی ثابت ہوتی ہے۔ اور یہی وہ مقصد ہے جو شمائلہ رحمت کے البم ”گل مہر سے“ کو موسیقی کے دیگر البمز سے ممتاز کرتا ہے۔ اور اسی مقصد نے میرے اندر اس البم پر مضمون لکھنے کی تحریک بھی پیدا کی۔

کہتے ہیں کہ موسیقی روح کی غذا ہے۔ یہ محاورہ ایک عرصے کے بعد شمائلہ کے البم ”گل مہر سے“ پہ صادق آیا ہے۔ وگرنہ آج کل جس قماش کی موسیقی ترتیب پا رہی ہے وہ تو صرف food poisoning کا ہی سبب بنتی ہے۔

میرا خیال ہے کہ موسیقی صرف وہی قابل قبول ہو سکتی ہے جو دل بستگی اور مشغلے کی خاطر نشاط انگیز محفلیں سجانے کے ساتھ ساتھ ان الفاظ کے معنی و مفہوم کی ترسیل و اشاعت کا باعث بھی بنے جنھیں شاعر خون جگر دے کر رقم کرتا ہے۔ اس نقط نظر سے دیکھا جائے تو شمائلہ کی گائیکی ”گل مہر سے“ میں علی عباس زیدی کے بلند پرواز خیال اور سامعین سے انصاف کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ علی عباس زیدی کی خلوت نشین سرگوشیوں کو آہنگ بخشتی ہے۔

ارتقا کے نا گزیر مراحل کے دوران جہاں تہذیب و تمدن اور ثقافت میں رد و بدل جنم لیتے ہیں۔ وہاں عموماً دو طرح کی قوتیں برسر پیکار دکھائی دیتی ہیں۔ ایک جو روایات کو اس کی قدیم حالت میں برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ اور دوسری جو قدماؑ کو جدت سے یکسر بدل دینا چاہتی ہیں۔ لیکن قطعہ نظر اس بات کے۔ قابل ذکر وہ تہذیبی اور ثقافتی کاوشیں ہوتی ہیں۔ جو مثبت روایات کو تشکیل نو کے ذریعے جدید اور بعید سے ہم آہنگ کرتی ہیں۔

اور یوں انھیں معدوم ہونے سے بچا لیتی ہیں۔ اور یہی ممد و موثر تحریک ہمیں موسیقی کے نئے البم ”گل مہر سے“ کے اجرا میں دکھائی دیتی ہے۔ جہاں ایک طرف شاعر علی عباس زیدی کے شعری مجموعے سے منتخب کی گئی غزلیں سماعت کو بال و پر بخشتی ہیں۔ تو دوسری طرف شمائلہ کی مدھر آواز اور ترتیب دی گئی سادہ دھنیں سماع باندھ دیتی ہیں۔ ”گل مہر سے“ میں ہماری روایتی موسیقی جدید سنگم پر محو رقص ہے۔ اور اسی لحاظ سے میں اسے منفرد کام سمجھتا ہوں۔

بس ایک مشکل جو اردو پڑھنے والوں کو ”گل مہر“ کے صحیح تلفظ کے ساتھ ادائیگی میں پیش آئی۔ اس کا ذکر بھی کیے دیتے ہیں۔ گل مہر سے کا ٹائٹل چوں کہ رومن اردو میں لکھا گیا ہے۔ لہذا یہ ان لوگوں کے لیے تو آسانی پیدا کرتا ہے جو اردو پڑھنا نہیں جانتے۔ لیکن ان لوگوں کے لیے جو اردو پڑھنا جانتے ہیں یہی رومن اردو میں لکھا ہوا ٹائٹل کافی تکلیف کا باعث ہے۔ مثال کے طور پہ ایک صاحب نے ہم سے کہا۔ بھائی تم نے شمائلہ کا نیا البم ”گل مہر سے“ سنا۔ اس لفظ کی ادائے گی کے دوران ان صاحب نے گل اور مہر کے درمیانی عرصے میں ایک تاسف بھرا توقف بھی کیا۔ لہاذا ان کے تلفظ اور توقف سے یہ تاثر ابھرا جیسے ان پر کسی گل کا مہر واجب لادا ہو۔

لہاذا ہماری تجویز ہے کہ اگر ”گل مہر سے“ کا ٹائٹل اردو میں بھی میم کے اوپر پیش کے ساتھ لکھ دیا جائے تو ان مرد حضرات کو پشیمانی سے بچایا جا سکتا ہے جنھوں نے ابھی تک اپنی بیگمات کا مہر ادا نہیں کیا ہے۔ یہ معاملہ اگرچہ فنون لطیفہ کا تو نہیں لیکن ہمارے ہاں رائج شرعی لطائف میں سے ایک لطیف معاملہ ضرور ہے۔

اب ایک ایسے حسین اتفاق کا ذکر جس کا انکشاف ہم پر دوران مضمون ہوا۔ وہ یہ کہ 2021 میں شمائلہ رحمت حسین نے موسیقی کا البم ”جانی“ ریلیز کیا تھا۔ جس میں انھوں نے جون ایلیا کی سوز دل سے رقم محبت بھری شاعری کو بڑی خوبی سے نبھایا تھا۔ اور اب 2022 میں انھوں نے اپنے موسیقی کے البم ”گل مہر سے“ میں علی عباس زیدی کی غزلیں گنگنائی ہیں۔ یہاں حسن اتفاق یہ ہے کہ جون ایلیا اور علی عباس زیدی نا صرف دیرینہ دوست تھے بلکہ ایک دوسرے سے بہت قریب بھی تھے۔

علی عباس زیدی کی جون ایلیا سے قربت کا اندازہ اس بات سے لگائیے۔ کہ انھوں نے اپنے دوست کی نسبت سے اپنے ایک صاحب زادے کا نام جون رکھا جو جون عباس زیدی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ جبکہ جون ایلیا کی محبت کا اظہار ہمیں علی عباس زیدی کے شعری مجموعے ”ڈھلتی رات کے سناٹے“ میں شامل اس مضمون میں دکھائی دیتا ہے جو انھوں نے جونی جی کی حیثیت سے اپنے بے تکلف دوست علی عباس زیدی کے لیے لکھا۔

شمائلہ رحمت حسین، جون ایلیا اور علی عباس زیدی یہ سہ گوشہ مثلث بھی کیا خوب اتفاق ہے۔

اس مضمون کی تکمیل اس وقت تک ممکن نہیں کہ جب تک ان شخصیات کا ذکر نا آ جائے کہ جنھوں نے علی عباس زیدی کی مشترکہ میراث کو ان کی خلوت گاہ سے اٹھا کر ہر دل عزیز محفل موسیقی کی زینت بنا دیا۔ علم و ادب اور فن سے محبت رکھنے والی ان ہی شخصیات کی در پردہ کاوشوں کے نتیجے میں موسیقی کا یہ معیاری البم ”گل مہر سے“ ہم تک پہنچا۔ ان میں سر فہرست جون عباس زیدی ہیں۔ یہ اس البم کے شاعر علی عباس زیدی کے صاحب زادے بھی ہیں۔

انھوں نے 2020 میں اس کام کا بیڑا اٹھایا۔ جس میں انھیں اپنے دیرینہ دوست ڈاکٹر فیض رحمان کی گراں قدر اور مفید معاونت بھی حاصل رہی۔ اسی کے ساتھ ساتھ علی عباس زیدی کے ایک اور صاحب زادے مظفر عباس زیدی کا ذکر بھی اہمیت کا حامل ہے۔ جنھوں نے اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود اپنے والد کے قائم کردہ ادارے نو بہ نو کو نا صرف جاری رکھا بلکہ علم و ادب اور فن کی ترویج و اشاعت اور اس کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنے تئیں کوشاں رہے۔

تخلیق کار خواہ کتنا ہی گوشہ نشین کیوں نا ہو۔ لیکن اس کی تخلیق چوں کہ سانجھی ہوا کرتی ہے لہاذا ہاتھ پاؤں نکال ہی لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے مندرجہ بالا سطور میں علی عباس زیدی کی ادبی میراث کو مشترکہ قرار دیا ہے۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس میراث کے اصل حق دار کہلاتے ہیں۔ علی عباس زیدی کے سب سے چھوٹے صاحبزادے یاور عباس زیدی انھیں میں سے ایک ہیں۔ اعلی تعلیم یافتہ، علم و ہنر میں یکتا اپنے والد کی طرح حساس طبیعت کے مالک اور سچے آرٹسٹ۔ اپنے والد کی نظریاتی میراث کا بوجھ ڈھونے اور علم و ہنر اور فنون لطیفہ سے محبت کی خاطر درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔ اور ایک دن اپنے والد کی طرح بہت جلد بڑی خاموشی سے رخصت ہو گئے۔

آخر میں ”گل مہر سے“ کے شاعر علی عباس زیدی کے شعری مجموعے ڈھلتی رات کے سناٹے سے چند اشعار۔ جو یقیناً کافی نہیں بس ایک اشارہ سمجھیے۔

رفیقو ہم تو بس سوکھے ہوئے پھولوں کو چنتے ہیں
کہ اگلی فصل گل کے بیج انھیں کے پاس ہوتے ہیں
محبتوں کو عبادت بنا دیا میں نے
یہ عیب ہے کہ ہنر کچھ پتا نہیں چلتا
برف دلوں کی عدالت میں وہ نالش کرتا پھرتا ہے
اک بچہ جو سب کے جوتے پالش کرتا پھرتا ہے
بات کو بڑھنے نا دو حد ادب رنے دو
چند الفاظ کو تشریح طلب رہنے دو
کسی کو سوچنا اک سلسلہ ہے
بہت ہی خوبصورت مشغلہ ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments