ارونا آصف علی: ہندوستان چھوڑ دو تحریک کی ’ہیروئن‘ جو اپنے نظریات کی بنا پر شوہر سے دور ہوئیں

وقار مصطفیٰ - صحافی و محقق، لاہور


آصف علی کو ارونا سے بہت محبت تھی۔ اِسی محبت کے اظہار میں آصف اپنی بیوی ارونا پر غزلیں کہتے مگر ارونا اپنے شوہر کی اُردو شاعری نہ سمجھ پاتیں کیونکہ دونوں کے پس منظر جو مختلف تھے۔

ارونا 16 جولائی 1909 کو بنگالی برہمن والدین، امبالیکا دیوی اور اوپیندر ناتھ گنگولی کے ہاں پیدا ہوئیں۔ والدین نے اُن کا نام ارونا گنگولی رکھا۔ پیدا تو وہ برطانوی پنجاب کے علاقے کالکا (اب ہریانہ) میں ہوئیں مگر تعلیم لاہور کے سیکرڈ ہارٹ کانونٹ اور پھر نینی تال کے آل سینٹس کالج میں حاصل کی۔

صحافی رچیرا گھوش نے لکھا ہے کہ ارونا ابھی نوعمری سے بمشکل ہی باہر آئی تھیں کہ آصف علی سے ایک اتفاقیہ ملاقات نے ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل دی۔

عمروں میں دو دہائیوں کا فرق

جنوری 1928 میں آصف علی کی ملاقات ارونا گنگولی سے الہٰ آباد میں ہوئی۔ دونوں پہلی ہی ملاقات میں ایک دوسرے کی محبت کا شکار ہو گئے۔ اس ملاقات کے دوسرے دن صبح لان میں ٹہلتے ہوئے آصف علی کی شادی کی تجویز ارونا نے خوشی سے منظور کر لی۔

’شیردل ارونا آصف علی‘ نامی کتاب میں لکھا ہے کہ ’ارونا نے اسلام بھی قبول کر لیا اور ان کا نام کلثوم زمانی رکھا گیا اور دہلی کے عالم اور ادیب احمد سعید نے دونوں کا نکاح پڑھا دیا۔‘

شادی کی شدید مخالفت

واضح سماجی، ثقافتی اور مذہبی فرق کی وجہ سے ارونا اور آصف علی کے خاندانوں کے علاوہ سیاسی حلقوں میں اس شادی کی مخالفت ہوتی رہی۔

آصف علی 41 سال کے تھے اور ارونا محض 18 سال کی۔ مگر گھوش کے مطابق ارونا اور آصف علی کا نظریہ اور ذوق اس قدر یکساں تھا کہ عمر میں 21 سال کے فرق کے باوجود وہ شادی کے بندھن میں بندھنے کے لیے پُرعزم تھے۔

اپنی سوانح عمری میں ارونا لکھتی ہیں کہ ’جب ستمبر 1928 میں آصف اور میں نے شادی کی تو میرے والد زندہ نہ تھے۔ میرے چچا ناگیندر ناتھ گنگولی جو خود کو میرا سرپرست سمجھتے تھے، نے رشتہ داروں اور دوستوں سے کہا کہ اُن کے لیے میں مر چکی ہوں۔‘

شورش کاشمیری نے کتاب ’چہرے‘ میں لکھا کہ ’اُن (آصف علی) کی ارونا سے شادی قومی سیاست میں ایک حادثہ تھا۔ بالخصوص ہندو نیشنلسٹ اس پر بہت جزبز ہوئے۔ ایک طوفان اٹھا اور نکل گیا۔‘

دونوں نے ایک دوسرے کو عزت دی

آصف اور ارونا شادی کے بعد دہلی آ گئے۔ ارونا نے سسرالی گھر کو اپنے ذوق کے مطابق سجا لیا۔

گھوش لکھتی ہیں کہ آصف علی نے پرانی دہلی کے کوچہ چیلاں علاقے میں اپنا آبائی گھر چھوڑ کر پوش سول لائنز علاقے میں جانے کا ارادہ کیا تو ارونا نے انکار کر دیا کیونکہ وہ انھیں اُن کی والدہ اکبری بیگم سے الگ نہیں کرنا چاہتی تھیں۔

اُردو کے صاحبِ طرز ادیب اور صحافی ملا واحدی نے ’میرے زمانے کی دلی‘ میں لکھا ہے کہ ’بارہا ایسا ہوا کہ میں آصف علی کے پاس بیٹھا ہوں۔ ارونا آصف علی کسی کام سے تشریف لائیں اور فرش پر آصف علی کے قدموں میں بیٹھ گئیں۔ آصف علی ناراض ہوئے کہ یہ کیا حرکت ہے۔ پھر وہ آصف علی کے حکم کی تعمیل میں کرسی پر بیٹھ گئیں۔‘

دھان کی کتاب ’ارونا آصف علی‘ کے حوالے سے خلیق انجم لکھتے ہیں کہ ’آصف علی کو ارونا سے دلی محبت تھی۔ جب بھی وقت ملتا اُن پرغزلیں کہتے۔ پریشانی اس وقت ہوتی جب ارونا اپنے شوہرکی غزلوں کو نہ سمجھ پاتیں۔ یوں ارونا نے اپنی ساس اکبری بیگم سے اُردو سیکھنا شروع کی اور بہت جلد انھیں اُردو بولنے اور سمجھنے میں مہارت حاصل ہو گئی۔‘

سیاست کے خار زار میں

شادی کے وقت ارونا ایک گھریلو خاتون تھیں۔

گھوش کا کہنا ہے کہ اُن کی ازدواجی زندگی بڑی حد تک پُرامن تھی۔ تاہم اس جوڑے نے بچے پیدا کرنے سے گریز کیا۔

آصف علی کی صحبت، تربیت اور گھر کے ماحول نے اُن میں زبردست سیاسی شعور اور قوم پرستی کے جذبات پیدا کر دیے۔ آصف علی ان تین وکلا میں سے ایک تھے جنھوں نے بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی بٹوکشوردت کا دفاع کیا تھا۔ ان دونوں افراد نے کونسل ہاؤس (موجودہ پارلیمنٹ) میں آٹھ اپریل 1929 کو بم پھینکا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

کماؤں کی ‘برہمن’ لڑکی جو پاکستان کی خاتونِ اول بنی

جب ایک شہزادہ عام سی لڑکی کے لیے بارات لے کر پاکستان آیا

محمد علی جناح: معاملہ ایک روپیہ تنخواہ اور دو بار نمازِ جنارہ کا

آصف علی نے اپنی اہلیہ کو ورجینیا وولف، برنارڈ شا اور کارل مارکس جیسے مصنفین سے متعارف کروایا۔ آصف چونکہ کٹر کانگریسی تھے سو انھوں نے ارونا کو بھی پارٹی میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔ اپنے جوش اور ولولے کی وجہ سے وہ جلد ہی کانگریس کی ایک اہم رکن بن گئیں۔

تقریر پر بغاوت کا مقدمہ

خلیق انجم لکھتے ہیں کہ سنہ 1930 میں 1857 کی بغاوت کی اہمیت پر ایک شعلہ فشاں تقریر سے اُن کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوا۔

’بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا اور ایک سال کی سزا دے کر انھیں لاہورجیل بھیج دیا گیا۔ کچھ مہینے بعد گاندھی کے ساتھ معاہدے کے تحت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔ لیکن ارونا کو بدستور جیل میں رکھا گیا۔‘

’اُن کی ساتھی قیدیوں نے بھی اس پر رہا ہونے سے انکار کر دیا۔ گاندھی اور ڈاکٹر انصاری کے تار پر وہ عورتیں تو جیل چھوڑنے پر مان گئیں لیکن پورے ہندوستان میں ارونا کی قید پر اتنا زبردست احتجاج ہوا کہ حکومت کو مجبور ہو کر انھیں رہا کرنا پڑا۔‘

ہندوستان چھوڑ دو تحریک کے دوران مظاہرین پر آنسو گیس کا ایک منظر

ہندوستان چھوڑ دو تحریک کے دوران مظاہرین پر آنسو گیس کا ایک منظر

’جب ارونا جیل سے باہر آئیں تو اُن کے استقبال کو بڑی تعداد میں اہم لوگ موجود تھے جن میں خان عبد الغفارخان بھی شامل تھے۔‘

سنہ جلد ہی 1932 کی ستیہ گرہ تحریک میں ارونا کو پھر گرفتار کر لیا گیا۔

انجم کے مطابق ’انھیں جیل میں رکھا گیا اور 200 روپے جرمانہ بھی کیا گیا۔ ارونا نے جرمانہ دینے سے انکار کر دیا تو پولیس ان کے گھرمیں گھس گئی اور وہ بیش قیمت ساڑھیاں لے گئی جو آصف علی نے اپنی بیوی کو تحفے میں دی تھیں۔‘

’دہلی جیل میں سیاسی قیدیوں کے ساتھ بہت بُرا برتاؤ کیا جاتا تھا۔ ارونا نے اس برتاؤ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بھوک ہڑتال کر دی اور بھوک ہڑتال اس وقت تک جاری رکھی جب تک جیل کے ذمے داروں نے سیاسی قیدیوں کے مطالبے منظور نہیں کر لیے۔ چوںکہ حکومت کو یہ مطالبے تسلیم کرنے پر ارونا نے مجبور کیا تھا اس لیے حکومت نے ارونا کو سزا کے طور پر انبالے کی اس جیل میں بھیج دیا جو مردوں کے لیے تھی اور عمر قید کی سزا پانے والے قیدی وہاں مقید تھے۔ اس قید خانے میں وہ تنہا عورت تھیں۔‘

’اس کے خلاف پورے ملک میں زبردست ہنگامہ ہوا اور حکومت چندوں بی بی نام کی ایک عورت کو بھی اس جیل میں بھیجنے پر مجبور ہو گئی۔‘

ان واقعات کا ارونا کی صحت پر بُرا اثر تو پڑا لیکن حکومت نے اپنے ہتھکنڈوں سے انھیں ہیروئن بنا دیا۔ جب وہ چھ مہینے بعد جیل سے رہا ہو کر دہلی واپس آئیں تو بہت بڑی تعداد میں آزادی کے متوالے انھیں سٹیشن سے گھر تک ایک جلوس میں لائے۔ وہ ایک کھلی گاڑی میں بیٹھی تھیں اور راستے بھر انھیں پھولوں کے ہار پہنائے گئے۔‘

اگلے دس سال تک ارونا نے سیاست میں حصہ نہیں لیا۔

’حالات پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ ہمیں رام راج نہیں بلکہ مغل عہد اور خاص طور پر اکبر بادشاہ کے زمانے کی خصوصیات حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ وہ اس نتیجے پر بھی پہنچیں کہ شمالی ہند میں لسانی مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ اُردو اور دیو ناگری دونوں رسم الخط استعمال کیے جائیں۔‘

اسی دوران اُن کی ملاقات جے پرکاش نرائن اور رام منوہر لوہیا سے ہوئی تو ان کا رجحان سوشلزم کی طرف ہو گیا۔

سنہ 1942 میں برطانوی حکومت کے خلاف ’ہندوستان چھوڑ دو‘ تحریک کے شروع ہونے پر کانگریس ورکنگ کمیٹی کے اراکین کو قلعہ احمد نگرمیں قید کر دیا گیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد، پنڈت جواہر لال نہرو اور آصف علی کو جیل میں تین سال تک ایک ہی ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا۔ آصف علی ایک بار میانوالی جیل میں بھی قید رہے۔‘

مصنف پرمود کپور کے مطابق گاندھی کی ’کرو یا مرو‘ کی پکار آزادی کے حصول کے لیے ارونا کی سیاسی سوچ اور عمل کے مطابق تھی۔

اُن کے مطابق آٹھ اگست 1942 کو کانگریس کی ’ہندوستان چھوڑ دو‘ قرارداد کے بعد تمام سرکردہ رہنماؤں کی گرفتاری سے نوجوان سوشلسٹ (ارونا ) کا جذبہ کم نہیں ہوا۔ بلکہ اگلے دن یعنی نو اگست کو انھوں نے بقیہ اجلاس کی صدارت کی اور بمبئی (اب ممبئی) کے گووالیا ٹانک میدان (اب آزاد میدان) میں جھنڈا لہرا کر انگریزوں کی مزید نفی کی۔

گھوش کے مطابق کئی دہائیوں بعد سنہ 1992 میں ہندوستان چھوڑ دو تحریک کی گولڈن جوبلی تقریب کے دوران، ارونا آصف علی، تب ایک کمزور 83 سالہ خاتون، نے اسی مقام پر جھنڈا لہرا کر اس تاریخی واقعے کو دہرایا۔

کانگریس اورآصف علی سے سیاسی اختلاف اور روپوشی

گرفتاری سے بچتے ہوئے ارونا روپوش ہو گئیں۔ اس روپوشی کے زمانے میں اُن کے سیاسی نظریات میں ایسی تبدیلی آئی کہ وہ کانگریس اور آصف علی دونوں سے دور ہوتی گئیں۔

ارونا نے سیاسی میدان میں اپنے شوہر ہی سے نہیں مولانا ابولکلام آزاد، مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو سے بھی اختلاف کیا۔

دھان نے لکھا ہے: ’وہ اپنے سیاسی مقاصد میں مخلص تھیں۔ اکثر ایسا ہوتا کہ انھیں اپنے بزرگ سیاست دانوں سے اختلاف کرنا پڑا۔‘

پرمود کپور لکھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ اُن کی جائیداد برطانوی حکومت نے ضبط کر لی تھی انھوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا، زیر زمین رہیں اور سوشلسٹ رام منوہر لوہیا کے ساتھ کانگریس کے ماہانہ میگزین ’انقلاب‘ کی ایڈیٹنگ جاری رکھی۔

’زیر زمین جانے کے بعد انھوں نے بمبئی سے کانگریس ریڈیو کے ذریعے وائس آف کانگریس کی نشریات کو شروع کر دیا۔ یہ ایک خفیہ ریڈیو سٹیشن تھا جس نے ارونا کے زیر زمین جانے کے دو ہفتوں کے اندر کام شروع کر دیا تھا۔ یہ ہندوستان چھوڑ دو تحریک کے دوران 20 اگست 1942 اور اسی سال دسمبر کے درمیان کام کرتا رہا۔‘

’کانگریس ریڈیو نے سرکاری آل انڈیا ریڈیو کے ذریعے پھیلائے جانے والے برطانوی پراپیگنڈے کا مقابلہ کیا، جسے کانگریس کے رہنما طنزیہ طور پر ’اینٹی انڈیا ریڈیو‘ کہتے۔ اسی کے ذریعے، ارونا نے ہندوستان کے نوجوانوں کو ایک کال جاری کی کہ وہ تشدد اور عدم تشدد پر فضول بحثوں سے گریز کریں اور انقلاب میں شامل ہوں۔‘

انھیں اور ان کے ساتھیوں جیسا کہ جے پرکاش نارائن اور رام منوہر لوہیا کو ’گاندھی کی سیاسی اولاد، لیکن کارل مارکس کے حالیہ طالب علم‘ کہہ کر پکارا گیا۔

کانگریس کے کئی لیڈروں نے انھیں خود کو حکومت کے حوالے کرنے کی ترغیب دی۔ یہاں تک کہ مہاتما گاندھی نے کہا کہ ’میں آپ کی ہمت اور بہادری کی داد دیتا ہوں۔ آپ ایک ہڈیوں کا ڈھانچا بن چکی ہیں۔ باہر آئیں اور خود کو حکومت کے حوالے کر دیں۔‘ لیکن وہ سخت جان تھیں۔

دھان نے لکھا ہے کہ اس نوجوان سیاسی رہنما کا خیال تھا کہ اگر آزادی کے لیے انقلاب لانا ہے تو لانا چاہیے۔ یہ خاتون اتنی بہادر تھیں کہ قومی تحریک کے بعض ممتاز ترین رہنماؤں سے اختلاف کر سکتی تھیں۔

عبداللہ ہارون کے ہاں سندھ میں بھی چھپی رہیں

حسن مجتبیٰ کے مطابق بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ اپنی روپوشی کے اکثر دن ارونا آصف علی نے سندھ اور کراچی میں عبداللہ ہارون کے گھر میں گزارے تھے جہاں سے انھوں نے تحریک جاری رکھی۔

وہ بالآخر 1945 کے آخر میں کسی وقت منظر عام پر آئیں جب انگریزوں نے ان کے سر پر انعام واپس لے لیا تھا۔

دھان نے ارونا کو پہلی بار لاہور کے ایک جلسے میں دیکھا تھا۔

اپنی کتاب ’دی ہیروئن آف نائنٹین فورٹی سیون‘ میں یوں بیان کیا ہے کہ ’پھولوں سے سجی ایک ٹیکسی لاہور کے بریڈلا ہال کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوئی اور رُکی تو اس میں سے ارونا آصف علی اُتریں۔ وہ کھدر کی ساڑھی باندھے ہوئے تھیں۔ اُن کے کاندھوں پر ایک اونی شال بے ترتیبی سے پڑی ہوئی تھی۔ اپنی سیاسی زندگی میں زیر زمین رہی تھیں، جس کا اثر ان کی صحت پر نظر آ رہا تھا۔ مسکراتی ہوئی ہال میں داخل ہوئیں۔‘

کم آمیز، کتابوں کی عاشق تھیں۔ ایسے نرم اور خوب صورت اندازمیں بولتی تھیں کہ سننے والے کے دل میں ان کی بات اتر جاتی تھی۔ وہ بنیادی طور پر سوشلسٹ تھیں اور شاید اس لیے ہر ایک سے بات کرنا پسند کرتیں۔

بحری بغاوت کی حمایت پر گاندھی سے اختلاف

پرمود کپور اپنی کتاب ’1946 رائل انڈین نیوی میوٹینی: لاسٹ وار آف انڈیپنڈنس‘ میں لکھتے ہیں کہ ہندوستان میں برطانوی حکومت کے خلاف 1946 کی بحری بغاوت میں رائل انڈین نیوی کے 20,000 نان کمیشنڈ ملاحوں نے حصہ لیا۔ وہ آزاد ہند فوج کی بہادری سے متاثر تھے۔ بغاوت کی وجہ سے گاندھی اور ارونا آصف علی اور سردار پٹیل اور نہرو کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے۔

کتاب میں لکھا ہے کہ ارونا آصف علی غیر کمیونسٹ پارٹیوں کے ان چند سیاست دانوں میں سے ایک تھیں جنھوں نے باغیوں کی کُھل کر حمایت کرنے کی ہمت کی۔

جی این ایس راگھون کے ساتھ مل کر لکھی اپنی کتاب ’ریسرجنس آف انڈین ویمن‘ میں ارونا نے کانگریس کی عمر رسیدہ قیادت پر یوں تنقید کی کہ ’بوڑھے اور تھکے ہوئے کانگریسی رہنما جنھیں انگریزوں نے 15 جون 1945 کو جیل سے رہا کیا، ایک نئی جدوجہد کے موڈ میں نہیں تھے۔‘

بغاوت پر انھوں نے گاندھی سے کھلے عام اختلاف کیا۔ وہ ’فوجی گشت کے غیر مشروط خاتمے اور شہری آزادیوں پر عائد پابندیوں کو فوری طور پر ہٹانے کے حق میں تھیں۔‘

آزادی کے بعد

وندنا مینن لکھتی ہیں کہ سنہ 1948میں ارونا نے کانگریس چھوڑ کر سوشلسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔

پچاس کی دہائی کے اوائل میں وہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی رکن بن گئیں۔ انھوں نے سی پی آئی کے خواتین ونگ نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن (این ایف آئی ڈبلیو) کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ سنہ 1956 میں، خروشیف، سٹالن جھگڑے کے بعد انھوں نے سی پی آئی چھوڑ دی۔ سنہ 1958 میں دہلی کی پہلی خاتون میئر منتخب ہوئیں۔‘

وہ بائیں بازو جھکاؤ رکھنے والا پیٹریاٹ اخبار اور نئی دہلی میں ہفتہ وار میگزین لنک چلاتی تھیں۔

ارونا دلتوں کے حقوق کی حمایت اور ’غیرضروری صنعت کاری‘ کی مخالفت کرتی تھیں کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ یہ ماحولیاتی انحطاط اور سماجی بیگانگی کا باعث بنے گا۔ خواتین کی بہتری کے لیے انھوں نے بہت کام کیا۔

وہ سنہ 1964 میں دوبارہ کانگریس میں شامل ہو گئیں، حالانکہ وہ فعال سیاست سے دستبردار ہو چکی تھیں۔ ایمرجنسی کی ناقد ہونے کے باوجود وہ اندرا گاندھی کے قریب رہیں۔

ارونا آصف علی کی وفات 29 جولائی 1996 کو نئی دہلی میں 87 سال کی عمر میں ہوا۔

ارونا کو قوم پرستوں اور بائیں بازو دونوں نے عزت دی۔ سنہ 1964 میں انھیں بین الاقوامی لینن امن انعام ملا۔ سنہ 1992 میں پدم وبھوشن اور سنہ 1997 میں بعد از مرگ ’بھارت رتن‘ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

انھیں نہرو ایوارڈ بھی دیا گیا۔ سنہ 1998 میں حکومت نے اُن کے لیے ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ جنوبی دہلی میں ایک اہم سڑک کا نام ان کی یاد میں ’ارونا آصف علی مارگ‘ رکھا گیا۔


مگر آپ کہیں گے آصف علی کا کیا بنا۔

سیاسی اختلافات کی بنیاد پر پیدا ہونے والی ارونا کی آصف علی سے دوری اُن کی وفات تک قائم رہی۔

آصف علی امریکا میں انڈیا کے پہلے سفیر بنے تو فرقہ ورانہ تنقید کا شکار رہے۔ انھیں واپس بلا کر اڑیسہ کا گورنر بنایا گیا اور پھر سوئزرلینڈ میں انڈیا کا سفیر۔

اپنی یادداشتوں میں آصف علی نے اکثر ارونا سے اپنی جدائی کا ذکر بہت دردناک انداز میں کیا ہے۔

یکم اپریل 1953 کو ارونا ان سے ملنے سوئزرلینڈ کے شہر برن پہنچیں۔ اس کے دوسرے ہی دن آصف علی کی وفات ہو گئی۔

کسی نے لکھا: ’وہ ارونا کی آمد کا شدت سے انتظار کر رہے تھے اور خوشی کی بات یہ تھی کہ انھوں نے کچھ وقت ساتھ گزارا اور انتقال اس وقت کیا جب وہ ان کے ساتھ تھیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments