پاکستان کا تابناک معاشی مستقبل: چند تجاویز


انسانی تہذیب کے ارتقا میں ایک دور کانسی کا دور تھا جس کے بعد لوہے کا دور آیا۔ بالکل جس طرح کانسی کے دور کے خاتمے اور لوہے کے دور کے آغاز سے دنیا بدل گئی تھی اسی طرح دنیا سے fossil fuels اور 4 stroke انجنوں کا دور ختم ہو کر شمسی توانائی اور الیکٹرک گاڑیوں کا دور شروع ہو رہا ہے۔ سورج جو ہوا کی طرح امیر اور غریب سب کے لئے یکساں طور پر اور بلا معاوضہ چمکتا ہے اور جو اس وقت غریب ملکوں پر امیر ملکوں کی بہ نسبت زیادہ چمکتا ہے اور حکیم آئن سٹائن کی photovoltaics کی دریافت کے نتیجے میں انسانیت کے لئے ترقی کے نئے اور ہموار راستے کھول رہا ہے۔

جو تہذیبیں لوہے کے دور میں داخل ہو گئیں وہ فتح مند ہوئیں۔ کانسی کے دور سے چپکے رہنے والے تباہ و برباد ہو گئے۔ اگر ہم بھی ایک ایسی عمارت میں بیٹھ کر جس کو سات سال قبل سولر پلانٹ چین کی جانب سے تحفے کے طور پر ملی تھی اور جو ہر ماہ ایک کروڑ روپے سے زیادہ کی بجلی اسلام آباد کی الیکٹرک سپلائی کمپنی کو بیچ رہی ہے اسی fossil fuels کے دور سے چپکے رہے اور پیٹرولیم لیوی اور ایکسائز ڈیوٹی جیسی لغویات پر ہی سر مارتے اور آپس میں لڑتے رہے تو ہم بھی تباہی کے راستے پر جا رہے ہوں گے۔

ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں اب تک 42 سے زیادہ سولر پارک لگ چکے ہیں۔ 2245 MW گنجائش کا دنیا کا سب سے بڑا سولر پارک ہماری ہی سرحد کے پار جودھپور کے قریب لگا ہوا ہے۔ 1.3 بلین ڈالر کی لاگت سے قائم کیا گیا یہ پارک جو کہ 0.6 ملین ڈالر فی میگا واٹ کی حیران کن طور پر قلیل لاگت ہے 3.2 سینٹ فی یونٹ کے حساب سے بجلی فروخت کرتا ہے۔ اس کی maintenance روبوٹ کرتے ہیں۔ تربیلہ ڈیم میں ہر ڈیم کی طرح flow کے حساب سے بجلی کی پیداوار کم زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ سال بھر میں جودھپور کے نزدیک ویران صحرا میں واقع یہ سولر پارک تربیلا سے زیادہ بجلی پیدا کرتا ہے۔

کراچی میں چار روز قبل ایک گیس اسٹیشن پرelectric vehicles کے لئے شمسی توانائی پر چلنے والا ایک rapid charging hub لگا یا گیا ہے جو چار منٹ کے اندر اندر بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو چارج کر سکتا ہے۔ ملک کے دوسرے علاقوں موجودہ پیٹرول اسٹیشنوں کے اندر ہی ایسے چارجنگ اسٹیشن کیوں نہیں لگائے جا سکتے اور پیٹرولیم لیوی اور 4 اسٹروک انجنوں کو کیوں خدا حافظ نہیں کہا جاسکتا۔ اور موجودہ بجٹ میں اس مقصد کے لئے رقومات کیوں نہیں مختص کی جا سکتیں۔

تھر اسلام کوٹ ریلوے، KCR، ML 1 اور کئی دوسری موجود بین الصوبائی ریلوے لائنیں ہم کیوں سستی شمسی توانائی اور سستے الیکٹرک انجنوں پر نہیں چلا سکتے اور کون سا ترقیاتی بینک ایسا ہے جو ہمیں اس کام کے لئے جس میں اس قدر بچت ہو رہی ہے قرض فراہم نہیں کرے گا؟

آخر ہم بلوچستان کے چھوٹے سے چھوٹے اور دور افتادہ ترین گاؤں میں سولر پلانٹ لگا کر بجلی کیوں نہیں فراہم کر سکتے؟ ہم کیوں وہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا نہیں کر سکتے؟ ہم کیوں اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ قرضہ ملے گا تو نیشنل گرڈ چند شہروں تک پہنچائیں گے اور راستے میں تیس فیصد بجلی کو transmission losses کی نذر کر دیں گے۔ ہم کیوں بلوچستان کے عوام کے لئے ایک جامع electrification program نہیں بنا رہے ہیں؟

ہمارے صنعتی علاقوں میں سستی بجلی فراہم کرنے کے لئے صوبائی حکومتوں اور اس علاقے میں واقع صنعتوں کے مالکان کے اشتراک سے مطلوبہ گنجائش کے سولر پارک کیوں نہیں بنائے جا سکتے۔ ہمارے صنعت کار وقت پر برآمدات فراہم کرنے کے لئے ائر پورٹ اور ائر لائنیں بنا رہے اور چلا رہے ہیں۔ سستی بجلی صنعتوں کے لئے بالکل ایسے ہی ہے جیسے انسانی جسم میں گردش کرتا ہوا خون۔ میری تجویز ہے کہ چند منتخب صنعتی علاقوں میں سولر پارک بنانے کی ابتدا کریں اور صنعتوں کو سستی اور بلا لوڈ شیڈنگ کے بجلی فراہم کریں۔

کم از کم ایک چھوٹی سی ابتدا کریں۔ اس سال کے بجٹ میں جو رقم آپ نے سرکاری دفاتر اور سرکاری عمارتوں کے بجلی کے بلوں کے لئے مختص کی ہے اس کا نصف آپ اخراجات کے بجٹ سے نکال کر ڈیولپمنٹ بجٹ میں ڈال دیں اور تمام سرکاری دفتروں اور عمارات پر شمسی توانائی کے یونٹ لگانا شروع کریں۔ بجلی discos کو فروخت کریں۔ بجلیٔ کے بلوں پر ہونے والے خرچے کو بجلی کی فروخت سے حاصل ہونے والی کمائی میں بدل دیں جیسا کہ آپ کی پارلیمنٹ کی بلڈنگ گزشتہ سات سال سے کر رہی ہے۔

اہم ترین زرعی شعبہ

پاکستان میں زرعی اصلاحات مزید موخر نہیں کی جا سکتیں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے 1974 میں اسی پارلیمنٹ سے زرعی اصلاحات کا قانون منظور کرا یا تھا جس پر ضیا دور میں عملدرآمد روک دیا گیا۔ محترم عابد حسین منٹو کی اپیل ایک طویل عرصے سے سپریم کورٹ میں زیر غور ہے۔ صوبوں کو ساتھ بٹھائیے اور اس قانون پر سب کا اتفاق رائے حاصل کر کے سپریم کورٹ میں داخل کر کے ملک میں زرعی اصلاحات کیجئے تاکہ جو ہمارے لئے غذا پیدا کرتے ہیں ان کے بچے راتوں کو بھوکے نہ سویا کریں۔

ایک زرعی ملک میں ہمیں اگر یہ پتہ نہ ہو کہ ہمیں کون سی فصل کتنی مقدار میں چاہیے۔ ہمارے پاس کوئی زرعی منصوبہ نہ ہو اور ہر ایک اپنی مرضی سے جو چاہے جہاں چاہے وہاں لگا تا رہے۔ ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ مطلوبہ فصل لگانے کے لئے کون سا علاقہ موزوں ہے اور پانی، کھاد اور بیج کی فراہمی کے لئے کیا انتظامات کرنے ہیں۔ کھاد اور بیج اور پھر تیار فصل کی کیا قیمت مقرر کرنی ہے یا یہ معلوم نہ ہو کہ کسی بھی اچھی فصل کو اگانے کے لئے کتنے زرعی قرضے جاری کرنے ہیں تو یہ بات افسوسناک ہے اور جو زرعی شعبے میں موجود انتشار کی نشاندہی کرتی ہے۔

زراعت کے لئے بنیادی ضرورت آبپاشی کے پانی کی ہے۔ پانی کی صوبوں کے درمیان تقسیم کے معاہدے میں ہم نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا تھا کہ آبی ذخیروں کو اس طرح آپریٹ کیا جائے گا کہ صوبوں کی آبپاشی کی ضرورتوں کو ترجیح دی جائے گی۔ بد قسمتی سے آبی ذخائر کے آپریشن میں بجلی پیدا کرنے کو ترجیح دی جا رہی ہے اور صوبوں کی آبپاشی کی ضرورتوں کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔

کسی بھی آبی ذخیرے سے بجلی اتنی ہی بنے گی جتنا اس میں ذخیرہ شدہ پانی ہے۔ بلکہ اگر پانی کو مستقل چھوڑتے رہنے کے بجائے جب ضرورت نہ ہو تو ذخیرہ کرنے اور جب ضرورت ہو اس وقت چھوڑنے کے نتیجے میں سطح آب کی بلندی کی وجہ سے پہلے سے زیادہ بجلی پیدا ہوگی۔ اہمیت اسی بات کی ہے کہ پانی کو کس وقت ذخیرہ کیا جائے اور کس وقت چھوڑا جائے۔ اس بات کا جواب بھی سیدھا سادہ ہے کہ آبی ذخیرے سے پانی اس وقت اور اس صوبائی ٹائم ٹیبل کے ساتھ چھوڑا جائے جب صوبوں میں فصلوں کو پانی کی ضرورت ہو۔

شاید ہمارے آبی ذخیرے اور ہماری لنک کینالیں دنیا میں وہ واحد آبی ذخیرے ہیں جن کے لئے کوئی operational criteria نہیں بنایا گیا ہے۔ ہم ربیع کے آخر میں جب فصلوں کو پانی کی ضرورت نہیں ہوتی بجلی بناتے رہتے ہیں۔ تربیلا اس سال جنوری فروری مارچ میں 80 دن تک ڈیڈ لیول پر رہا اس لئے کہ جتنا پانی دریا میں آ رہا تھا ہم اس کو ذخیرہ کرنے کے بجائے اس سے بجلی بناتے رہے تھے۔ اپریل کے پہلے ہفتے میں جب ہمیں کپاس بونے کے لئے پانی کی ضرورت تھی تو نہ ہمارے پاس پانی تھا نہ شدید گرمی کے موسم میں ہمارے پاس بڑھی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لئے بجلی تھی۔ اور اب پھر سیلاب آنے والا ہے۔ فصلوں کے لئے وقت پر پانی کی کمی صرف ہماری بد انتظامی اور منصوبہ بندی کے فقدان کا نتیجہ ہے۔

مختلف فصلوں کے لئے امدادی قیمتوں کا اعلان اس وقت کرنا جب کسان اپنی پیداوار کو آڑھتی یا سود خور کے ہاتھ بیچ چکے ہوں صرف آڑھتیوں اور سود خوروں کی جیبیں بھرتا ہے۔ لیکن اگر فصل بونے سے مہینہ بھر پہلے مناسب امدادی قیمتوں کا اعلان کر دیا جائے تو پھر ہمارے کسان فصل زیادہ رقبے پر کاشت کریں گے۔ کسان اچھے بیج اور درست مقدار میں کھاد کا بندوبست کریں گے اور ہماری فی ایکڑ پیداوار اور مجموعی پیداوار میں اضافہ ہو گا۔ ہم تجربہ کرچکے ہیں کہ اپنی پہلی ہی تقریر میں جناب یوسف رضا گیلانی کی جانب سے گندم کی امدادی قیمتوں میں اضافے کے اعلان نے ایک ہی فصل میں پاکستان کو گندم کی درآمد کرنے والے ملک سے برآمد کرنے والا ملک بنا دیا۔

حالات چاہے اچھے ہوں یا برے اگر مناسب پیش بندی کرلی جائے اور محنت کشوں کو پیداوار بڑھانے کے مواقع دیے جائیں تو برے حالات سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ 2010 میں سندھ سیلاب کے پانیوں میں ڈوب گیا تھا۔ کوئی نوے لاکھ سیلاب متاثرین کو عارضی کیمپوں میں رکھنا پڑا تھا۔ اللہ محترم ایدھی صاحب اور سیلانی فاؤنڈیشن کو اجر دے انہوں نے زیادہ تر کیمپوں میں راشن اور پکی ہوئی خوراک پہنچانے کا انتظام کیا۔ ہماری گنے کی فصل تو نہ صرف بچ گئی بلکہ پہلے سے بہتر ہوئی لیکن کپاس کی فصل کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔

جب ربیع کی فصل کے بونے کا وقت آیا تو زمین میں سیلاب کے پانی کی نمی موجود تھی۔ اس موقع پر جناب قائم علی شاہ وزیر اعلی سندھ نے فیصلہ کیا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں رہنے والے ہر خاندان کو بیس ہزار روپے کی کیش امداد دی جائے اور وہاں کے کسانوں کو ربیع کی فصل بونے کے لئے بیج اور کھاد مفت دیے جائیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سندھ میں ہماری گندم کی فصل میں اس سال تقریباً ساٹھ فیصد اضافہ ہوا۔ دیگر فصلوں کی پیداوار میں بھی بہت بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ یہ سلسلہ اسی طرح آگے کی جانب بڑھتا رہا۔ 2014 میں جب تھر میں قحط سالی کا سامنا ہوا تو ہمارے گوداموں میں اتنی گندم موجود تھی اور ہم سندھ میں اتنی گندم پیدا کر رہے تھے کہ ہم نے تھر کی سولہ لاکھ کی آبادی میں سے تیرہ لاکھ افراد کو دو سال تک گندم مفت میں فراہم کی۔ سینیٹر جام مہتاب ڈاہر اس زمانے میں سندھ کے وزیر خوراک تھے اور تھر کے حالات کا مقابلہ کرنے میں ان کی انتظامی صلاحیتوں اور مستقل سپلائی لائن تشکیل دینے کی اہلیت کا بہت بڑا حصہ ہے۔

لیکن اب جب میں نے کپاس کی امدادی قیمتیں بڑھانے کے لئے محترم جام مہتاب اور جناب سلیم مانڈوی والا کے ساتھ مل کراس سال مارچ کے آخر میں سینیٹ سیکریٹیریٹ میں adjournment motion جمع کرایا تو لمبے عرصے کی تاخیر کے بعد وہ موشن کوئی رول لگا کر واپس کر دیا گیا۔ جناب عالی اس رول کی قیمت پاکستان کو اربوں ڈالر کا زر مبادلہ خرچ کر کے ادا کرنی پڑے گی۔ نوکر شاہی سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مسائل کو حل کرنے میں تعاون کیا جائے اور مختلف حیلوں بہانوں سے قو می اور عوامی نوعیت کے کاموں میں رکاوٹ نہ کھڑی کی جائے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر یہ ایوان امدادی قیمت بڑھانے کا عندیہ دیتا تو دو دن میں کپاس کی امدادی قیمت 8000 روپے فی من مقرر کرنے کا اعلان کر دیا جاتا۔ اور کسان بڑی آسانی نے پانچ ملین گانٹھیں مزید پیدا کر کے کپاس کی درآمد پر خرچ ہونے والے زر مبادلہ میں سے پانچ بلین ڈالر بچا کر دیتے۔

جناب عالی بلوچستان ہمارا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ بلوچستان میں غذائی پیداوار بڑھانے کے بے انتہا مواقع موجود ہیں۔ مجھے ماہرین نے بتا یا ہے کہ کپاس کے لئے بلوچستان کی آب و ہوا منا سب ترین ہے۔ صرف ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ پچاس سال سے فائلوں میں پڑے آبی ذخائر کے منصوبوں پر فائلوں کی گرد جھاڑ کر کام شروع کیا جائے۔ ہنگول ڈیم کا چالیس سال سے رکا ہوا منصوبہ اس سستی اور بلوچستان کو نظر انداز کیے جانے کی پالیسی کا جیتا جاگتا شاہکار ہے۔

بلوچستان کو اگر گدو بیراج اور سکھر بیراج سے اس کے حصے کا پورا پانی مل بھی جائے تو بھی صوبہ بلوچستان کا صرف ایک کونا ہی سیراب ہو گا۔ بلوچستان کو اس کے حصے کا پانی دینے کے لئے مطلوبہ انفراسٹرکچر کی تعمیر کا بھرپور مطالبہ کرتے ہوئے میں بلوچستان میں نئے زیر زمین آبی ذخائر کی دریافت کی ضرورت کی جانب ایوان کی توجہ دلاؤں گا۔ بہت بڑے زیر زمین آبی ذخائر وہاں موجود ہیں۔ میری تجویز ہے کہ بلوچستان کے زیر زمین آبی ذخائر کی نشاندہی اور تحقیق کے لئے hydrogeological study کی مطلوبہ رقم اسی بجٹ میں مختص کی جائے۔

بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں سمندر کے پانی کو صاف کر کے لوگوں کو سہولت دینا اور اس پانی کو آبپاشی کے لئے استعمال کرنا خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز کر سکتا ہے۔ خصوصاً اگر اربوں ڈالر کی خوردنی تیل کی درآمد کو replace کرنے کے لئے پام آئل دینے والوں درختوں کی کاشت کی جائے تو ہم تین چار سال کے عرصے میں پام آئل برآمد کرنے والے ملکوں کی صف میں شامل ہوسکتے ہیں۔ گوادر کے مشرق میں ساحل سمندر پر نصب دو ملین گیلن روزانہ گنجائش کی سمندری پانی کو صاف کر کے پینے کے قابل بنانے کے لئے آر او پلانٹ صرف ایک ماہ چلا کر بند کر دی گئی۔ کئی سال پہلے جب سینیٹ کی سی پیک کمیٹی نے گوادر کا دورہ کیا تھا تو ہم یہ پلانٹ بھی دیکھنے گئے تھے۔ سینکڑوں آر او پلانٹس کو لگوانے کے تجربے کے پس منظر میں میں نے یہ کہا تھا کہ اس پلانٹ کا کچھ نہیں بگڑا تھا۔ میں نے وہیں سے سندھ میں آراؤ پلانٹس نصب کرنے والی نجی کمپنی سے بات کی تھی کہ وہ بلا معاوضہ اس پلانٹ کو آن کر چلائیں۔ وہ بخوشی راضی ہو گئے۔ ہفتہ بھر بعد گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چئیر مین اپنی ٹیم کے ساتھ کراچی تشریف لائے۔ چار دن بعد کی تاریخ بھی طے ہو گئی جب اس کمپنی کے انجنیئروں کو گوادر جاکر کام شروع کرنا تھا۔ کراچی کی اس میٹنگ کے اگلے ہی دن چیئرمین گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا تبادلہ کر دیا گیا۔ تبادلے کی ایک وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ گوادر کے رہنے والوں کے لئے جو ہر ماہ 45 کروڑ کا پانی خرید کر میرانی ڈیم سے لا یا جاتا ہے اتھارٹی کے چئیر مین میرے ساتھ مل کر اس کاروبار کو تباہ کرنے کی سازش کر رہے تھے۔

اسی میٹنگ میں ہمیں بتایا گیا کہ گوادر میں ایک ایک لاکھ گیلن روزانہ کی گنجائش کے دو آر او پلانٹ ڈبوں میں بند پڑے ہیں۔ ہم نے تجویز پیش کی کہ ہم ان دونوں پلانٹس کو ٹریلروں پر نصب کر کے اور کوسٹل ہائی وے پر دونوں رخوں پر چلا کے ساحل سمندر پر واقع گاؤں کو پینے اور آبپاشی کا پانی فراہم کر سکتے ہیں۔ اس سے قبل گوادر ہی میں پہلی میٹنگ کے دوران وزیر اعلی سندھ جناب مراد علی شاہ کا ذہن جانتے ہوئے میں نے پیشکش کی تھی کہ سندھ حکومت گوادر کے عوام کو تحفے کو طور کم گنجائش کے دس آر او پلانٹس دے گی جن کو گوادر کے مغربی اور مشرقی ساحلوں پر سندھ کے ٹیکنیشین مناسب جگہوں پر نصب کریں گے تاکہ ہمارے بھائیوں کو پینے کا پانی وافر مقدار میں مل سکے۔

جناب چیئرمین پہاڑی پر واقع فائیو سٹار ہوٹل کی اپنی آر او پلانٹ ہے۔ بندرگاہ کی اپنی آر او پلانٹ ہے۔ چینی ماہرین نے بھی اپنی چار لاکھ گیلن یومیہ کی آر او پلانٹ لگائی ہے جس کا پانی وہ گوادر کو مناسب قیمت پر فروخت کرنے کو تیار ہیں۔ ہمارے بھائی مرحوم میر حاصل خان بزنجو نے اس پلانٹ کا افتتاح اس پلانٹ کا پانی خود پی کر کیا تھا۔ کیا وجہ کہ گوادر کی ہماری بہنوں بیٹیوں کو ایک ایک مہینے سڑکوں پر دھرنا دینا پڑتا ہے پھر بھی ان کو پینے کا پانی نہیں ملتا۔ اب سنا جا رہا ہے کہ پانچ ملین گیلن یومیہ گنجائش کی آر او پلانٹ خریدی جا رہی ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ جو لوگ نصب شدہ پلانٹ کو نہیں چلا رہے۔ جو پلانٹس کو برسوں سے بند ڈبوں سے نہیں نکال رہے وہ اتنی بڑی گنجائش کی آر او پلانٹ کو کیوں اور کیسے چلائیں گے۔ مقصد شاید صرف اس پلانٹ کی خریداری ہے اس کو چلانا نہیں ہے۔

ہم عوام کو سہولت پہنچانے کی غرض سے آٹے اور دوسری ضروری اشیا پر سبسڈی دیتے ہیں۔ یہ کام ہم BISP کی گرانٹ بڑھا کر اور درمیانہ افراد کو بیچ میں سے نکال کر بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔ سبسڈی ہمیں جیسا کہ حکومت سندھ نے اپنے اس بجٹ میں اعلان کیا ہے کھاد، بیج اور کیڑٖے مار دواؤں پر دینی چاہیے تاکہ ہماری غذائی پیداوار زیادہ سے زیادہ بڑھائی جا سکے اور تمام ملک میں غذائی اجناس کی قیمتیں کم ہوں۔ ہم الٹا ان اشیا پر ٹیکس لگا کر پیداواری لاگت کو بڑھا رہے ہیں۔

میں حکومت سندھ کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اپنے غریب نواز بجٹ میں صحت اور تعلیم کے لئے مختص رقوم میں مثالی اضافہ کیا ہے۔ مفت علاج کی سہولت سے تمام ملک اور بیرون ملک سے آنے والے مریض فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ تعلیم معاشرے میں مساوات قائم کرتی ہے اور غریب کے بچے کو موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ امیر بچوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھ سکے۔

گزشتہ تین چار سال سے HEC کے بجٹ میں کمی کی جا رہی ہے۔ یہ کمی اس بجٹ میں بھی موجود ہے اور اس کو صرف 65 ارب کر دیا گیا ہے۔ میں سندھ سرکار کو مبارک باد دیتا ہوں کہ انہوں نے سندھ میں موجود سرکاری شعبے کی یونیورسٹیوں کے لئے اپنے بجٹ میں 21 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے۔ یہ رقم اس رقم سے کہیں زیادہ ہے جو HEC سندھ کی یونیورسٹیوں کو فراہم کرتا ہے۔

صحرائے تھر آج سر سبز ہے۔ مون سون کے بادل اب ساحل گجرات سے خلیج فارس کے رخ میں نہیں مڑتے بلکہ تھرپارکر کا رخ کرتے ہیں اور تھر کی ہریالی میں اضافہ کر کے جاتے ہیں۔ صرف اس لئے کہ وہاں ہم نے جدید علم اور ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے۔ نمکین پانی کو بہترین پینے کے پانی میں تبدیل کرنے کے لئے صحرا میں Reverse Osmosis ٹیکنالوجی پر صرف پانچ ارب خرچ کر کے 800 پلانٹس نصب کیے گئے ہیں جو سولر انرجی پر چل رہے ہیں۔ انسانوں اور مویشیوں کے لئے لاکھوں گیلن پینے کا پانی روزانہ مہیا کیا جا رہا ہے۔

آج کراچی کے تقریباً ہر محلے میں لوگوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی دکانوں میں آر او پلانٹ لگا رکھے ہیں اور شہریوں کو 25 لیٹر پینے کا صاف پانی صرف 20 روپے میں فراہم کیا جاتا ہے۔ خود میرے دفتر اور گھر میں بھی یہی پانی استعمال ہوتا ہے۔ کراچی میں کتنے ہی ادارے ایسے ہیں جنہوں نے واٹر بورڈ کے بے تحاشا بلوں اور ان کے نخروں سے نجات پانے کے لئے اپنے اپنے اداروں میں آر او پلانٹ لگا لئے ہیں۔

کراچی میں سرکاری شعبے میں 60 سے زیادہ آر او پلانٹ نصب کیے گئے ہیں جن میں سے کئی ایسے ہیں جو سمندر کے پانی کو صاف کرتے ہیں۔ ایک دس لاکھ گیلن یومیہ کا آر او پلانٹ مسرور ائر فورس بیس پر لگا ہوا ہے جو سمندر کے پانی کو پینے کے پانی میں تبدیل کر رہا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم چولستان میں یا بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں لوگوں کو صاف پانی کیوں نہیں فراہم کر سکتے۔

میں تجویز دوں گا کہ ملک بھر میں اور خاص طور پر ایسے علاقوں میں جہاں پینے کے پانی کی قلت ہے عوام کو آر او پلانٹس کے ذریعے پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کے لئے وفاقی حکومت بجٹ میں رقومات مختص کرے اور اتنی ہی رقومات صوبائی حکومتیں اپنے اپنے بجٹ میں مختص کریں۔

تھر میں دوسرا معجزہ نمکین پانی سے فصلیں اگانے کا ہوا ہے جس سے دس لاکھ درختوں اور جانوروں کے چارے کے علاوہ ہر قسم کی پیداوار حاصل کی جا رہی ہے۔ ابتدا میں کراچی یونیورسٹی، ٹنڈو جام یونیورسٹی اور سنجیانگ یونیورسٹی نے وہاں پائلٹ پراجیکٹس کی تھیں۔ اس کے بعد صوبائی حکومت نے PARC کے ساتھ ایک MOU پر دستخط کیے جس کے بعد عمر کوٹ میں ایک مثالی فارم قائم کیا گیا جس میں مختلف فصلیں نمکین پانی سے اگائی جا رہی ہیں اور مقامی لوگوں کو نمکین پانی سے فصلیں اگانے کی تربیت دی جا رہی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ کہ ہم نہ صرف اس کامیابی کو پورے ملک میں لے جا سکتے ہیں بلکہ ہماری جو زمینیں سیم اور تھور کی وجہ سے بیکار ہوئی ہیں ان کو بھی bio۔ saline زراعت کے ذریعے زیر کاشت لایا جاسکتا ہے۔

پندرہ سو ایکڑ پر بنائی ہوئی گورانو کی نمکین پانی کی مصنوعی جھیل میں ہم ماہرین کے مشورے سے آٹھ آٹھ اور دس دس کلو کی مچھلیاں پال رہے ہیں۔ یہ ریگستان میں پالی گئی مچھلیاں ہیں جن کو دیکھے بغیر بسا اوقات یقین کرنا مشکل ہوتا ہے۔

PARC کا قانون ان کو اپنی ریسرچ عام کسانوں کو فروخت کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور ان کے کام کو صرف ایک چار دیواری میں محدود کر دیتا ہے۔ کیا علم کو قید کرنا دانشمندی ہے؟ قانون میں مناسب ترمیم کے ذریعے جو ریسرچ کا خزانہ PARC کے پاس موجود ہے ہم اس کو اپنے کسانوں تک پہنچا سکتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments