پاکستان کا تابناک معاشی مستقبل: چند تجاویز


(سینیٹ کے بجٹ سیشن میں سینیٹر تاج حیدر کی تقریر کا مکمل متن)

سینیٹ کے حالیہ بجٹ سیشن کے آخری دن 23 جون 2022 کو مجھے موجودہ بجٹ پر لب کشائی کا موقع ملا۔ قواعد کے مطابق جب میرے حصے کے بیس منٹ مکمل ہو گئے اور محترم چیئرمین نے وقت کے خاتمے کی جانب میری توجہ دلائی تو میں اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ اس بیس منٹ میں دونوں جانب کے محترم اراکین نے میری گزارشات توجہ سے سنیں اور ان کی پذیرائی کی۔

بیس منٹ کے دورانیہ میں تقریر کے تقریباً پچیس فیصد نکات ہی پیش کرنا ممکن تھا۔ مجھے تشنگی رہ گئی کہ کاش وقت میسر ہوتا اور میں تمام نکات کو معزز اراکین کے سامنے پیش کر سکتا۔

محترم سینیٹر کامل علی آغا ہمیشہ سے میرے مشفق اور مہربان رہے ہیں۔ جب اجلاس ختم ہونے پر ہم ایوان سے باہر نکلے تو انہوں نے میری مزید حوصلہ افزائی کی اور مشورہ دیا کہ مجھے یہ تقریر چھپوانی چاہیے۔ میں خود بھی کسی راستے کی تلاش میں تھا۔ کامل علی آغا صاحب کی شفقت اور حوصلہ افزائی کے بعد میں نے منتشر نکات کو یکجا اور مرتب کیا اور اب یہ کتابچہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔

میں جذباتی طور پر نہیں بلکہ منطقی طور پر گہرے تجزیے کے بعد اس نتیجے تک پہنچا ہوں کہ پاکستان کا مستقبل تابناک ہے اور یہ کامیابی اور تابناکی اب قریب آ چکی ہے۔

بھلا جس ملک کے عوام کا سیاسی شعور جمہوری جد و جہد کے شہیدوں کی قربانیوں کے طفیل آج کی بلند ترین سطح پر ہو۔ اور جہاں کی حوصلہ مند بچیاں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی روشن مثال کو مینارہ روشنی بنا کر اپنا اور اپنے ملک کا مستقبل تعمیر کرنے کے لئے صدیوں کی جاہلیت کی دیواریں توڑ کر اپنے گھروں سے نکل چکی ہوں اس ملک کا مستقبل تابناک کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔

محترم چیئرمین

میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے اس ایوان میں ماضی کے مرثیے بہت سن لئے۔ میں اس روایت سے گریز کرتے ہوئے آج حال اور مستقبل کے روشن مواقع پر کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

ہماری پارلیمنٹ لاجز میں لاجز کے درمیان ایک چھوٹا سا پارک ہے جہاں بچے عام طور پر فٹ بال کھیلتے ہیں۔ چند روز قبل میرا وہاں سے گزر ہوا۔ بچے زور شور سے فٹبال کھیل رہے تھے۔ دو ٹیمیں تھیں۔ فٹ بال کو زبردست کک (KICK) لگائے جا رہے تھے لیکن میدان میں کسی طرف بھی کوئی گول پوسٹ نہیں بنایا گیا تھا۔ میں نے جب اس بات کی نشاندہی بچوں سے کی تو انہوں نے سوری کہا اور کہا کہ تاج حیدر انکل ہم تو بس یوں ہی کھیل رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ بیٹا ہماری ریاست کا کھیل بھی بغیر کسی گول یا مقصد کے چل رہا ہے اور ہماری دونوں ٹیمیں بھی ایک دوسرے کو بڑے زبردست زبانی کک (KICK) مار رہی ہیں۔ بچوں نے قہقہے لگائے اور میں واپس چلا آیا۔

جناب عالی، میں سمجھتا ہوں کہ فیصلہ سازی کرنے کے لئے سب سے بہتر طریقہ آپس میں مشاورت ہے۔ ان فیصلوں پر عمل کرنے کے لئے آپس کے تعاون سے بڑھ کر اور کوئی طاقت نہیں ہے۔ اور بامعنی مشاورت اور باہمی تعاون کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کے لئے خوش اخلاقی سے بڑھ کر کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔

غصہ، انا، تعصب، نفرت جو سب سے بڑا نقصان ایک فرد یا جماعت یا معاشرے کو پہنچاتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔ کسی بھی کامیاب حکمت عملی کی بنیاد ٹھوس زمینی حقائق پر رکھی جاتی ہے۔ اس کے بجائے ہم اپنی مرضی کے حقائق ایجاد کرلیتے ہیں اور ان کو اتنی مرتبہ اور اتنی شدت سے دہراتے ہیں کہ خود ان حقائق کو ایجاد کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ حقائق خود انہوں نے ہی ایجاد کیے تھے۔ ایجاد کردہ حقائق کی بنیاد پر بنائی کوئی بھی حکمت عملی کامیاب اور دیر پا ثابت نہیں ہو سکتی۔

شاید ہم نے ایک طویل عرصہ جذباتیت میں گزار دیا ہے۔ ہم ایک جذباتی قوم بن چکے ہیں۔ وقت ہے کہ ہم جذباتیت کو ترک کر کے عقلیت کا راستہ اختیار کریں۔

our inherent emotionalism has to be replaced with well informed rationalism,
Mr. Chairman.

میری آج کی گزارشات میں ہمیشہ کی طرح میری کوشش ہوگی کہ کسی کو زبانی کک (KICK) نہ مارے جائیں بلکہ کچھ قومی مقاصد کی نشاندہی کی جائے اور ان کو حاصل کرنے کے طریقہ کار پر تجاویز دی جائیں۔

چند روز قبل محترم احسن اقبال نے ایک پروگرام میں کہا کہ This is an unusual time۔ ہمارے بہت سے دوسرے دوست ان ہی یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کو ٹی وی چینلوں اور تقاریر میں دہراتے رہے ہیں۔ الفاظ کی حد تک میں بھی محترم احسن اقبال سے سے متفق ہوں۔

ہمارے محترم جناب احسن اقبال ان الفاظ کو ہمیں در پیش مشکلات کے پس منظر میں ادا کر رہے تھے۔ لیکن ان ہی کے ان الفاظ سے میرا مطلب اور میرا پیغام کچھ اور ہے۔

عشق کے درد مند کا طرز کلام اور ہے

جناب عالی، This is an unusal time اس لئے کہ ستر سالہ جد و جہد کے بعد ہمارے عوام نے ایک پرامن اور آئینی جد و جہد کے بعد پاکستان کے اسٹیبلشمنٹ کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ وہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر اپنے فرائض سر انجام دیں گے اور سیاست میں دخل اندازی نہیں کریں گے۔

This is an unusual time کیونکہ پاکستان میں مختلف اور متضاد نظریات رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے ایک وسیع قومی اتحاد بنا یا ہے۔ اور قوت اخوت عوام سے تاریخ کی سب سے بڑی دھاندلی سے بنائی جانے والی حکومت کو راستے سے ہٹا کر ایک وسیع البنیاد قومی حکومت بنائی ہے۔ ہمیں یہ طعنے نہ دیجئے کہ کل تک تو آپ ایک دوسرے کے مخالف تھے۔ وقت اور تاریخ جب آگے بڑھتے ہیں تو اللہ کی رحمت سے کل کے دشمن آج کے بھائی بھائی بن جاتے ہیں۔ اور آپس میں اخوت اور یگانگت پیدا کرنے کا اس سے بہتر کیا طریقہ ہے کہ خیر کے کاموں میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا جائے۔

This is an unusual time کیونکہ پاکستان میں ایک آزاد الیکشن کمیشن کے کرائے گئے ضمنی انتخابات میں ریاست کی جانب سے مداخلت یا دھاندلی کا ایک بھی الزام سامنے نہیں آیا ہے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ بلوچستان میں مقامی حکومتوں ہی کے سہی لیکن اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیر انتخابات ہوں گے۔

تھوڑے ہی عرصے قبل یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ کہ ہماری عدلیہ آئین کے مطابق ایسے فیصلے کرے گی جن کی پوری دنیا میں پذیرائی کی جائے گی اور پاکستان کے چیف جسٹس کا نام ان کے اس تاریخی فیصلے کی بنیا پر دنیا کے سب سے زیادہ با اثر افراد میں شمار کیا جائے گا۔

پاکستان کے عوام نے برسوں کا سفر دنوں میں طے کیا ہے اور یہ فتوحات صرف اور صرف ہماری سیاسی جماعتوں کے اتحاد اور قوت اخوت عوام سے حاصل ہو سکی ہیں۔

This certainly is an unusal time and we have to build upon these grand victories of the People of Pakistan.

مفکر پاکستان علامہ اقبال کے لفظوں میں اب ہم طائر زیر دام نہیں ہیں۔ اب ہم طاہر بام ہیں اونچی اڑانیں جس کا مقدر ہیں۔

صحراست کہ دریاست تہہ بال و پر ماست

جناب عالی غم و اندوہ اور یاس و نا امیدی ہمارے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ ماضی یقیناً افسوسناک تھا لیکن ہم کب تک ماضی کے مرثیے سناتے رہیں گے۔ ہمیں پاک سرزمین کے نظام کی تعمیر نو قوت اخوت عوام سے کرنی ہے۔ ہمیں اپنی معاشی پالیسی، معاشی منصوبہ بندی اور میزانیوں کا ایک واضح رخ متعین کرنا ہے وہ رخ جو ہمارے عوام کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کی جانب ہمیں لے جائے۔

آج کل ہر جگہ یہ کہا جا رہا کہ سیاسی استحکام کے ذریعے معاشی استحکام آتا ہے۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ سیاسی استحکام صرف اور صرف معاشی استحکام کے ذریعے آتا ہے۔ میری پارٹی نے بار بار کی دھاندلی کے باوجود سیاسی استحکام اور سسٹم کی بقا کی خاطر دھاندلی زدہ اسمبلیوں کو قبول کیا۔ لیکن سیاسی استحکام صرف ایک خواب رہا۔ ملک کی معاشی حالت روز بروز گرتی چلی گئی اور عوام کے حالات زندگی بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ میں اپنی اس قومی حکومت کو انتباہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ہمارے میزانیے اور معاشی پالیسی کا رخ چند برسوں کے اندر اندر ملک سے غربت، بیماری اور جہالت کے خاتمے کی جانب نہیں موڑا گیا تو ہمارا آئین، ہماری منتخب اسمبلیاں اور ہماری جمہوریت سب کچھ خطرے میں پڑ جائے گا۔

تسلیم کر لیجیے کہ ہم ایک پسماندہ ملک ہیں اور ہمیں دوسرے ملکوں سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ آخر دوسروں سے سیکھنے میں ہمارا کیا نقصان ہے۔ لیکن ہماری تمام تر توجہ دوسروں سے امداد اور قرضے حاصل کرنے پر ہے۔ ہم ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں کہ فٹافٹ ایف اے ٹی ایف ہم سے راضی ہو گیا۔ چین سے قرض مل گیا۔ آئی ایم ایف کی نظر کرم بس ہماری جانب ہونے ہی والی ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ کبھی کسی ایک بھی ملک نے کسی دوسرے ملک کے سہارے پر ترقی نہیں کی ہے۔

ہمیں دوسروں کی جانب دیکھنے کے بجائے اپنے انسانی وسائل اور اپنے قدرتی وسائل کو ترقی دے کر اپنے ملک کو ترقی دینی ہوگی۔ ہماری شہید بی بی صاحبہ نے جب TRADE NOT AID کی بات کی تھی تو وہ انسانی تاریخ کی ایک کھلی حقیقت کی جانب اشارہ کر رہی تھیں۔ باہمی اور گہری مشاورت کے ذریعے ہمیں منصوبہ بندی، پالیسی سازی اور میزانیے بنانے ہوں گے جن کی مدد سے ہم مختصر ترین مدت میں ملک سے غربت، بیماری اور جہالت کا خاتمہ کرسکیں۔

ہمیں اپنی فکر کی کرم خوردہ کھڑکیوں پر لگے ہوئے زنگ آلود تالے کھولنے ہوں گے۔ سوچنے اور عمل کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا۔ اور ہم دیکھیں گے کہ ہمارے پاس ملک کو ترقی دینے اور عوامی مقاصد حاصل کرنے کے بہت سے راستے موجود ہیں۔ میں اس وقت دوسروں کو الزام دینے یا وزارت خزانہ کے بابو لوگوں کے مشتبہ اعداد و شمار کی تائید یا تنقید کرنے کے بجائے ان امور اور تجاویز پر بات کروں گا جو ہمارے میزانیے میں موجود نہیں ہیں لیکن جن کے بغیر ملک کو ترقی دینا یا اپنے عوام کو خوشحالی دینا ناممکن ہو گا۔

ہمارا بنیادی معاشی مسئلہ ہماری production اور ہماری consumption میں روز بروز بڑھتا ہوا فرق ہے۔ ہمیں بنیادی فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا ہم ملکی معیشت کو اسی پرانے ڈھب یعنی قرض لیتے رہو اور درآمدات کرتے رہو پر چلائیں گے یا پھر ہم ملکی پیداوار کو بڑھانے، سادگی اور کفایت شعاری سے گزارہ کرنے، سماجی انصاف اور معیشت کو ترقی دینے کا ماڈل اپنائیں گے؟

کیا ہماری مجموعی قومی پیداوار اشرافیہ کے منافع سے تشکیل دی جائے گی یا ہم اجرتوں میں اضافہ کر کے عوام کی قوت خرید کو بڑھائیں گے اور سرمائے کو گردش میں رکھ کر اپنی مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ کریں گے؟

کیا ہم صرف ٹیکسوں کی شرح کو گھٹانے بڑھانے کے گورکھ دھندے میں پھنسے رہیں گے یا اپنی مجموعی پیداوار میں اضافہ کر کے ٹیکسوں کی قلیل شرح سے بھی اپنے ریونیو میں قابل قدر اضافہ کر لیں گے؟

کیا ہم ملک میں بیروزگاری پیدا کر کے اپنی افرادی قوت کو دوسرے ملکوں کی معیشتوں کو فروغ دینے کے لئے باہر بھیجتے رہیں گے اور ان وطن بدر ہونے والے اور اپنے خاندانوں کو چھوڑ کر جانے والوں کے بھیجے ہوئے زرمبادلہ پر بغلیں بجاتے رہیں گے یا نئے مواقع روزگار پیدا کر کے بچھڑے ہوؤں کو واپس لائیں گے اور اس افرادی قوت کے بل بوتے پر اپنی ملکی معیشت اور برآمدات کو فروغ دیں گے؟

آج اگر ہماری ترسیلات زر ہماری برآمدات سے آگے نکل چکی ہیں تو یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ ہم خود کچھ نہیں کر رہے اور صرف ان کمر توڑ مشقت کرنے والے وطن بدر لوگوں کی کمائی پر عیاشی کر رہے ہیں۔ یہ فخر کرنے کی بات نہیں ہے۔ فکر اور شرمندگی کی بات ہے۔

کیا ہم اپنی production cycle کی inputs پر ٹیکس لگا کر اپنی پیداواری لاگت کو زیادہ، پیداوار کو مقابلے کی منڈی میں مہنگا اور پیداوار کے حجم کو کم کرنے کی موجودہ پالیسی چلاتے رہیں گے یا ہم inputs کو سستا کریں گے اور پیداواری حجم کو بڑھا کر کہیں زیادہ ریونیو اکٹھا کریں گے اور مقابلے کی منڈی میں اپنی جگہ بنائیں گے؟

آئیے ہم ایسے چند بنیادی آپشنز پر غور کریں جو ہماری آسان دسترس میں ہیں لیکن جو نظر انداز کیے جاتے رہے ہیں۔

ہمارے بڑے معیشت کے پانچ سالہ منصوبے بناتے تھے جو ہماری معیشت کے ہر شعبے پر محیط ہوتے تھے۔ ریاست کے macro control کے تحت نجی شعبے کو تمامتر سہولتیں مہیا کی جاتی تھیں۔ روزگار کے مواقع سرکاری اور نجی شعبے میں پیدا ہوتے تھے۔ ملکی پیداوار اور ریونیو میں اضافہ ہوتا تھا۔

بہت سے دوسرے ملکوں نے ہمارے ان پانچ سالہ منصوبوں سے بہت کچھ سیکھا۔ ہم نے پانچ سالہ منصوبے بنانے کا کامیاب طریقہ ترک کر دیا۔

منصوبہ بندی بڑے غور و خوض اور گہری باہمی مشاورت سے کیجئے۔ معیشت کے مختلف شعبوں کی منصوبہ بندی میں قریبی رابطہ اور لچک قائم کیجئے کیونکہ صرف ایک یا دو شعبوں پر توجہ اور ترقی مرکوز کرنے سے عدم توازن اور انتشار پیدا ہو گا۔ جتنا وقت درکار ہے لیجیے۔ لیکن پھر اس پر عملدرآمد کرنے میں ایک دن بھی ضائع نہ کیجئے۔ اس کام کے لئے ہمیں کوئی بھی قرضہ لینے یا اضافی اسٹاف رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

معیشت کے استحکام کی بنیادی ضرورت : سستی اور بلا وقفہ توانائی

ہم ملک بھر میں نصب شدہ تھرمل پاور پلانٹس میں بڑی مقدار میں درآمدی کوئلہ استعمال کر رہے ہیں۔ وزیر خزانہ کے مطابق کوئلے کی درآمدی قیمت 300 ڈالر فی ٹن سے زیادہ ہے اور مزید بڑھ رہی ہے۔ تھر کی کوئلے کی کانوں میں ابتدائی اخراجات کی وجہ سے پہلے فیز میں کوئلے کی پیداواری قیمت 61 ڈالر فی ٹن رہی۔ دوسرے فیز میں یہی قیمت گھٹ کر 42 ڈالر فی ٹن پر آ گئی۔ اب توسیع کے تیسرے فیز میں جب کہ کوئلے کی سالانہ پیداوار 3.8 ملین ٹن کی ابتدائی سطح سے بڑھ کر 12 ملین ٹن تک پہنچ چکی ہے تھر کے کوئلے کی پیداواری لاگت 27 ڈالر فی ٹن آ رہی ہے۔ تھر کے کوئلے کو پاکستان کے کونے کونے تک پہنچانے کے لئے صرف اسلام کوٹ اور چھور کے درمیان 105 کلو میٹر طویل ریلوے لائن بچھانی ہے جس کی لاگت صرف 32 بلین روپے آ رہی ہے۔ چار یا پانچ ارب چھور اور میرپور خاص کے درمیان ریل کی پٹری کی حالت بہتر بنانے میں خرچ ہوں گے۔ فیزبلٹی تیار ہے۔ تھر کا کوئلہ پاکستان کے کونے کونے میں پہنچایا جاسکتا ہے اور بڑی مقدار میں برآمد کیا جاسکتا ہے۔ سستی ترین بجلی پیدا کیجئے۔ زر مبادلہ بچاہیے اور کمائیے۔

اس پراجیکٹ کو وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور نجی شعبہ مل کر آسانی کے ساتھ قلیل ترین مدت میں مکمل کر سکتے ہیں۔ وفاقی حکومت اپنا حصہ موجودہ بجٹ میں ڈال دے تو بہت بڑی پیش رفت کی جا سکتی ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہو گا کہ تھر کے کوئلے کی سالانہ پیداوار بڑھا کر تیس ملین ٹن سے زیادہ کی جائے گی۔ کوئلے کی پیداواری لاگت مزید کم ہوگی اور صوبائی حکومت، نجی شعبہ اور پاکستان ریلویز کثیر منافع کمائیں گے۔ مزید یہ کہ سستی بجلی پیدا ہونے کی وجہ سے گردشی قرضے (Circular debt) سے جان چھوٹے گی۔

مجھے تین روز قبل ریلویز کے وفاقی سیکریٹری نے بتا یا ہے کہ یہ منصوبہ بہت جلد شروع کیا جاسکتا ہے۔ دو روز قبل سندھ کے وزیر توانائی کی ان سے میٹنگ بھی ہوئی ہے۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ وفاق کی جانب سے مطلوبہ رقم کو وفاقی بجٹ میں شامل کیا جائے۔

سندھ حکومت نے چین کے اشتراک سے تھر کے کوئلے سے یوریا فرٹیلائزر بنانے کی پراجیکٹ پر کام کرنا شروع کیا ہے۔ سستے ترین کوئلے کی بہت کم مقدار کو کول گیس میں تبدیل کر کے اس میتھین گیس سے یوریا بنایا جائے گا اور ملک بھر کی یوریا کی ضروریات پوری کرنے کے بعد یہ یوریا برآمد کیا جائے گا۔ ریلوے لائن کی تعمیر کے بعد حکومت سندھ اس پراجیکٹ کو کوئلے کی کان کے نزدیک شروع کر سکتی اور خطیر رقم بچا سکتی ہے۔

ہماری گیس کی پائپ لائنوں سے 30 فیصد گیس ضائع ہو رہی ہے۔ 3 فیصد سے زیادہ ضیاع پر لیکج بند کرنے کی کارروائی کی جاتی ہے۔ 2012 میں لیکج 8 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ ہماری حکومت نے لیکیج کو کم کرنے کے لئے عالمی بینک سے 100 ملین ڈالر کا قرض لیا تھا۔ حکومت بدلنے کے بعد یہ قرضہ استعمال نہیں ہوا اور رقم واپس ہو گئی۔ لیکیج بند کرنے کی نئی ٹیکنالوجی نہایت آسان اور کم قیمت ہے۔ جہاں جہاں سے زیادہ لیکیج ہو رہی ہو پائپ لائن کے ان ٹکڑوں میں پلاسٹک کی قسم کا ایک ٹیوب داخل کر دیا جاتا ہے جو پھیل کر پائپ لائن کے سوراخوں کو اندر سے بند کر دیتا ہے۔ خدارا بجٹ میں دو چار ارب روپے مختص کیجئے تاکہ جن لائنوں سے بہت زیادہ لیکج ہو رہی ہے پہلے مرحلے میں اس لیکیج کو بند کیا جا سکے۔

آئین کے Article 172 ( 3 ) کے تحت آئین کے مطابق فیصلہ کر کے گیس اور تیل کے ذخائر کی نصف ملکیت ان وسائل کو پیدا کرنے والے صوبوں کو دی جائے۔ ابھی آج صبح ہی کے اخباروں میں سندھ میں گیس کی ایک نئی دریافت کی خبر چھپی ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکومت سندھ یا دوسرے صوبے جہاں تیل اور گیس کی پیداوار ان کی اپنی ضرورت سے زیادہ ہو رہی ہے ان کو ان کا آئینی حصہ کیوں نہیں دیا جا رہا؟ اور ان کی پیداوار پر آئین کے واضح آرٹیکل 158 کے تحت ان کا پہلا حق کیوں نہیں تسلیم کیا جا رہا ہے؟

یہ سمجھنا کہ آئین کی پاسداری کرنے میں کسی ایک کا فائدہ یا کسی دوسرے کا نقصان ہو گا ایک انتہائی غلط تصور ہو گا۔ آئین کا تیل اور گیس کے ذخائر کی مشترکہ مالکی کا آرٹیکل 172 ( 3 ) اس اہم ترین شعبے میں ایک مثبت پارٹنرشپ کا تصور پیش کرتا ہے اور ہر شراکت کی طرح اس شراکت میں بھی صوبوں اور وفاق کی کوشش یہی ہو گی کہ تیل اور گیس کی پیداوار کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے۔ نیز یہ بھی کوشش ہوگی کہ جو ساز و سامان یا لیباریٹریز ملک میں موجود ہیں ان کا بہتر سے بہتر استعمال کیا جائے۔ صوبے تیل اور گیس کے نئے ذخائر کی exploration اور production میں بھر پور حصہ لے سکیں گے اور دس سال سے جو کام تعطل کا شکار ہے اور انتہائی سست روی سے کیا جا رہا ہے اس کو پوری توجہ اور محنت کے ساتھ شروع کیا جا سکے گا۔ یقین مانئے کہ سندھ کے ساحلوں پر shale گیس کے بہت بڑے ذخائر موجود ہیں جن کو ترقی دی جا سکتی ہے۔ بلوچستان کے ساحلوں پر ہم وقفے وقفے سے دیکھتے ہیں کہ سمندر میں نئے جزیرے نمودار ہو جاتے ہیں جن کی وجہ زیر زمین گیس کے پریشر میں ایک دم اضافہ بتائی جاتی ہے۔ جب یہ گیس آہستہ آہستہ فضا میں خارج ہوجاتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ جزیرہ بھی سطح سمندر کے نیچے غائب ہوجاتا ہے۔ اگر قدرت ہمیں خود بتا رہی ہے کہ تہہ میں کوئی گیس کا ذخیرہ موجود ہے تو پھر بھی ہم کیوں جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے ان عوامل سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔

ہم درآمدی تیل پر پٹرولیم لیوی، ایکسائز ڈیوٹی، سیلز ٹیکس، سبسڈی اور پتہ نہیں کن کن جھمیلوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ اور روز پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کرتے ہیں۔ All Pakistan CNG Association جس کے پاس LNG درآمد کرنے کا لائسنس بھی موجود ہے اپنے سرمائے سے LNG درآمد کر کے ملک میں موجود 2300 سے زیادہ CNG اسٹیشنوں سے لاکھوں سے زیادہ کاروں اور دوسری گاڑیوں کو جن میں CNG KIT پہلے سے نصب ہیں 170 روپے فی لیٹر کے نرخ سے CNG فراہم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن ہم موقر اخبارات کی نشاندہی کرنے کے باوجود اس پر فیصلہ کرنے میں سستی کر کے ملک میں ایندھن کا بحران پیدا کر رہے ہیں۔

All Pakistan CNG Association کو اپنے پیسوں سے گیس درآمد کرنے اور اس کو اپنے گیس اسٹیشنوں سے فروخت کرنے کی اجازت دے دی جائے تو اس سے نہ صرف صارفین کو سستی گیس مل سکے گی، کرائے کم ہوں گے۔ بلکہ اندازے کے مطابق پٹرول کی درآمد میں کمی کر کے سالانہ 2.1 بلین ڈالر کا زر مبادلہ بھی بچایا جا سکے گا۔

ہم گوادر اور اس سے ملحقہ دوسرے علاقوں میں ایران سے 100 MW بجلی درآمد کر رہے ہیں۔ ہم پاک ایران گیس پائپ لائن کے رکے ہوئے منصوبے کو جاری کر کے سستی گیس کیوں نہیں درآمد کر سکتے۔ تقریباً دس سال قبل صدر زرداری نے اس پراجیکٹ کا افتتاح کیا تھا۔ پائپ لائن پاکستان کی سرحد تک بچھائی جا چکی ہے۔ پاکستان میں اس سے آگے پائپ لائن کی تعمیر کرنے کے مقصد سے Gas Infrastructure Development Cess کے نام سے ایک ٹیکس بھی لاگو کیا گیا تھا جس میں کثیر سرمایہ جمع کیا گیا۔ ہم اپنے ملک کی ترقی کے لئے سامراجی طاقتوں پر انحصار نہیں کر رہے لیکن ہمیں ترقی کرنے سے روکنے کے لئے یہ طاقتیں پابندیاں کیوں لگا رہی ہیں۔ اب ملک میں ایک قومی حکومت ہے۔ عوام متحد ہیں۔ اپنے جائز اہداف کو حاصل کرنے کے لئے دباؤ کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments