رباعیاتِ عمر خیام کے لندن میں بنے دو مرصع نسخے کیسے برباد ہوئے؟

ٹم سٹوکس - بی بی سی نیوز


Digital colourisation of first Great Omar
سفید و سیاہ تصویروں پر مبنی رباعیاتِ عمر خیام کی کلیات کا بچ جانے والا نسخہ جسے سنہ 2001 میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے رنگین بنایا گیا ہے
دنیا کی سب سے زیادہ خوبصورت انداز میں مزیّن کردہ کتابوں میں سے ایک اپریل سنہ 1912 میں لندن سے نیویارک بھیجی گئی تھی۔ عمر خیام کی رباعیات کی جواہرات سے جڑی ہوئی اس جلد کو ٹائی ٹینِک نامی معروف بحری جہاز پر روانہ کیا گیا تھا، لیکن ٹھیک 110 برس پہلے یہ جہاز اپنے پہلے ہی سفر میں بحر اوقیانوس میں ڈوب گیا؟

سنہ 1930 کی دہائی کے آخر میں اُسی طرح کی ایک نئی کتاب اس سے بھی زیادہ اخراجات کے ساتھ تیار کی گئی تھی، لیکن اسے بھی جرمن طیاروں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران لندن پر فضائی بمباری کر کے جلا دیا۔ برطانوی دارالحکومت اس اچانک حملے کے دوران شدید بمباری کا نشانہ بنا اور تقریباً تباہ ہو گیا تھا۔

جامع العلوم عالم، عمر خیام کی شاعری کی اس غیر معمولی مجلد پیش کش کے پیچھے جو نوجوان تھا وہ جلد ہی انگلینڈ کی ایک سمندری تفریح گاہ میں ڈوب کر ہلاک ہو گیا۔

کیا کوئی عمر خیام کی کتاب کو تیسری مرتبہ اُسی عظمت اور منقش انداز میں تیار کرنے کی سرمایہ کاری کرے گا؟

‘جتنی زیادہ قیمت ہو گی میں اتنا ہی خوش ہوں گا۔‘

سنہ1911 میں فرانسِس سنگورسکی نے ایک جلد سازی پر کام ختم کیا جس کو تیار کرنے کے لیے وہ دو سال سے لندن کے مرکزی علاقے ہولبورن ورکشاپ میں سخت محنت کر رہا تھا۔

یہ ایک حیران کن کام تھا جسے دیکھ کر ہر کوئی دنگ رہ جاتا تھا۔

16 انچ لمبی اور 13 انچ چوڑی اس کتاب کو 1,050 جواہرات سے مزیّن کیا گیا تھا جس میں خاص طور پر کٹے ہوئے یاقوت، پکھراج اور زمرد بھی شامل تھے۔ اس کی تخلیق میں تقریباً 100 مربع فٹ (9 مربع میٹر) سونے کا ورق اور چمڑے کے تقریباً 5,000 ٹکڑے استعمال کیے گئے تھے۔

سنگورسکی نے اس کتاب کی جلد کے نقش و نگاری کے ایک ایک حصے پر بہت جانفشانی سے کام کیا تھا۔ ایک موقع پر اس نے کسی سے انسانی کھوپڑی مستعار لی تاکہ وہ اسے اپنے فنکارانہ تصور میں درست طریقے سے پیش کر سکے۔ یہاں تک کہ اس نے لندن کے چڑیا گھر کے ایک ملازم کو ایک زندہ چوہے کو سانپ کو کھلانے کے لیے رشوت دی تاکہ وہ خود سے اس بھیانک منظر کو دیکھنے کا تجربہ کرسکے اور ویسا ہی منظر اپنے فن پارے میں پیش کرسکے۔

لندن کے مقبول اخبار، ‘ڈیلی مرر’ نے اس کتاب کی مزیّن جلد تیار ہو جانے کے بعد کہا تھا کہ ‘اب تک کی تیار کردہ جلدوں کا سب سے ‘قابل ذکر نمونہ’ ہے۔ جبکہ دوسروں نے اسے صرف ایک ‘حیرت انگیز کتاب’ قرار دیا تھا۔

اس جلد پر بہت زیادہ قیمت کا ٹیگ لگایا گیا تھا۔ جلد ساز سنگورسکی اور اس کے کاروباری پارٹنر جارج سٹکلف کو پہلے ہی سے زیورات سے بھری جلدیں بنانے کی وجہ سے کافی شہرت حاصل تھی۔

شیفرڈس، سنگورسکی اور سوٹکلف کے مینیجنگ ڈائریکٹر، روب شیفرڈ، بتاتے ہیں کہ ‘حقیقی جوہرات سے جڑی ہوئی کتابوں کی جلدیں روسی شاہی خاندان کے لیے جواہرات سے فیبراژ (ایک کمپنی) کے بنے مُزیّن سنہری انڈوں کی طرح تھیں۔’ ایڈورڈین دور (یعنی 1900 سے لے کر 1914 تک کے دور) میں ان دونوں افراد کی قائم کردہ کمپنی 21ویں صدی میں بھی یہی کام کر رہی ہے۔

‘ان کے کام کا میعار اتنا اعلیٰ تھا کہ جس کی آج کوئی نقل بنانا کافی مشکل ہوگا کیونکہ اس دور میں نازک فن مسلسل زوال کا شکار ہے۔ ان دنوں میں یہ فن اپنے عروج پر تھا۔ اس لیے وہ دونوں غیر معمولی طور پر باصلاحیت کاریگر تھے۔’

اِن دونوں کی سنہ 1897 میں کسی ادارے میں شام کی کلاسوں میں ملاقات ہوئی تھی جہاں کاریگروں کے ایک گروہ کو بہترین تربیت دی گئی تھی جو آرٹس اینڈ کرافٹس موومنٹ کے ولیم مورس کے پاس واپس گئے تھے اور وہیں ان کی ملاقات ٹی جے کوبڈن سینڈرسن سے بھی ہوئی جو اس گروپ میں شامل تھا۔ وہ ایک ایسا شخص تھا جس نے ہیمرسمتھ پل پر سے اپنے ہی ٹائپ فیس کے بلاکس (رسم الخط) دریائے ٹیمز میں پھینک کر اپنا کیریئر اس لیے ختم کر دیا تھا تاکہ کوئی اس کے کام کی نقل نہ کر سکے۔

سنگورسکی اور سٹکلف کا کام نہ صرف باقی رہا بلکہ نمایاں بھی رہا اور انھوں نے برطانوی بادشاہ ایڈورڈ ہفتم سمیت کئی بڑے افراد کے لیے کتابوں کی شاندار جلدیں تیار کرنے کے ٹھیکے حاصل کیے۔

(From front to back) Francis Sangorski, George Sutcliffe and Dalton Rye (a pupil) in 1903

Shepherds, Sangorski & Sutcliffe
فرانسِس سنگورسکی اور جارج سٹکلف (درمیان میں) نے جلد سازی کا کاروبار اکتوبر سنہ 1901 میں شروع کیا تھا۔

سنہ1907 میں سنگورسکی نے ‘سوتھران’ کی کتابوں کی دکان کے مینیجر جان سٹون ہاؤس سے ملاقات کی، جسے سنہ 1761 میں قائم کیا گیا تھا اور آج بھی یہ ادارہ اسی کام سے وابستہ ہے۔ سنگورسکی نے اسے ایک کتاب کے بارے میں اپنی خواہش سے آگاہ کیا جو کہ 12ویں صدی میں شائع ہوئی تھی۔

سنگورسکی نے اس سے پہلے عمر خیام کے مشہور رباعیات کے کچھ نسخوں کی جلد سازی کی ہوئی تھی۔ اس عظیم کاریگر اور فنکار نے کہا کہ اس بار وہ تین موروں پر مشتمل ایسا شاہکار بنانا چاہتا ہے جسے وہ جواہرات سے آراستہ کرے گا اور جسے ’پہلے کبھی کسی نے نہ دیکھا ہو گا۔‘

کافی قائل کرنے کے بعد سٹون ہاؤس اُسے یہ کام دینے پر راضی ہو گیا۔ اس نے اپنے باس ہنری سیسل کو بتائے بغیر اسے یہ کام دینے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ اس کے خیال میں سیسل اِس منصوبے کی مخالفت کرتا۔

سٹون ہاؤس نے اس کام کی تکمیل کے لیے یہ ہدایات دیں۔

‘یہ کرو اور اچھی طرح کرو۔ اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ جو کچھ آپ کو پسند ہے اسے جلد کا حصہ بنائیں (بائنڈنگ کریں)، اس کے لیے جو چاہیں وصول کریں- جتنی زیادہ قیمت ہوگی میں اتنا ہی خوش ہوں گا- صرف یہ بتاتے ہوئے کہ آپ کیا کرتے ہیں، اور آپ اس کے لیے جو کچھ وصول کریں گے وہ نتیجہ کے اعتبار سے درست ثابت ہو گا، اور جب کتاب ختم ہو جائے گی تو یہ دنیا کی سب سے بڑی جدید دور کی جلد ہوگی۔

‘صرف یہی رہنما اصول ہدایات کا حصہ تھے۔’

اس سے زیادہ شاندار جلد پہلے کبھی تیار نہیں ہوئی

Great Omar back

Shepherds, Sangorski & Sutcliffe
سنگورسکی نے جلد کے کور اور اس پر سانپ اور انسانی کھوپڑی کا ڈیزائن سوچنے کے لیے کئی ماہ صرف کیے

یہ کتاب چھ مختلف پینلز پر مشتمل تھی، سامنے اور پیچھے کے پینل (سر ورق اور پشت ورق)، کتاب کی جلد کے اندر کی طرف آرائشی استر، اور آخر کے دو صفحات جو موروں، پودوں، کھوپڑیوں اور ایرانی نقش و نگاری کے نمونوں سے مزیّن ہیں جو زندگی اور موت کی علامت ہیں۔

دونوں پینلوں کے لیے، بکرے کی کھال کے سینکڑوں ٹکڑوں کو تیار کرنے اور کاٹنے کی ضرورت تھی، متعدد جواہرات میں سے ہر ایک کو ان کے اپنے الگ الگ سانچے کے اندر رکھنا پڑتا تھا، اور تمام سطحوں پر سونے کے پیچیدہ کام میں ہفتوں صرف کیے جاتے تھے۔

شیفرڈ کہتے ہیں کہ ‘یہ کام کا سب سے غیر معمولی حصہ تھا۔ اس وقت کا بہت اہم کام تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب بادشاہ ایڈورڈ کے دور میں انگلینڈ میں جنگ کے شروع ہونے سے پہلے کا جوش و خروش بڑھ رہا تھا۔‘

سٹون ہاؤس بھی اس سے متاثر ہوا، اس نے اسے ‘کسی بھی دور میں یا کسی بھی ملک میں ڈیزائن یا کتاب کی جلد سازی کے بہترین اور قابل ذکر نمونے’ کے طور پر بیان کیا۔


رباعیاتِ عمر خیّام

Omar Khayyám

  • فلسفی، ریاضی دان، ماہر فلکیات اور شاعر جن کا دور سنہ 1048 عیسوی اور سنہ 1131 عیسوی کے درمیان تھا اور وہ موجودہ ایران میں رہتے تھے۔ ان کے بڑے کارناموں میں اپنے وقت کا سب سے درست شمسی کیلنڈر بنانا شامل ہے، لیکن ان کی موت کے طویل عرصے بعد وہ اپنی شاعری کے لیے زیادہ مشہور ہوئے، جو چار مصرعوں پر مشتمل رباعی کی صورت میں لکھی گئی تھیں۔
  • ڈاکٹر سعید طالع جوئی، جو کہ سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی میں فارسی ادب کے ماہر ہیں، رباعی کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'یہ رباعی ایرانی شناخت کے لا اداری پہلو کی عکاسی کرتے ہے، جس سے بہت سے لوگ ناواقف ہیں، اور جو کہ روحانیت کی طرح فعال اور گہری ہے۔'
  • ڈاکٹر طالع جوئی کہتے ہیں کہ ان رباعیوں میں فنا، عصبیت، اختصار اور وجود کی بے ترتیبی کے ساتھ ساتھ 'خود پر قابو نہ رکھ پانے کی تلخ سمجھ' اور 'زندگی کے سارے جنون کا ادراک کرنا اور اسے فراموش کردینےجیسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
  • عمر خیام سے منسوب شاعری کے ایک مجموعے کا انگریزی میں ترجمہ 19ویں صدی کے وسط میں ایڈورڈ فٹز جیرالڈ نے کیا۔ رباعیات کا پہلا ایڈیشن تو مقبول نہ ہوا لیکن دو آئرش اسکالرز نے اس پر مزید کام کیا جنھوں نے اس کام کو وسیع پیمانے پر مقبول کرانے میں مدد کی۔
  • ترجمہ شدہ ورژن کے ماہرین، سینڈرا میسن اور بل مارٹن، اسے 'دنیا بھر میں سب سے مشہور انفرادی نظموں میں سے ایک' سمجھتے ہیں۔

تباہی اس کتاب کا پیچھا کرتی نظر آتی ہے

اب جبکہ ہنری سیسل اس کتاب کی ناقابل یقین تخلیق اور اس کے پیچھے کی گئی غیر معمولی کوششوں سے واقف تھا، سوتھرنز نے کتاب کو ایک ہزار برٹش پاؤنڈ میں فروخت کے لیے پیش کیا، جو کہ آج کے ایک لاکھ بیس ہزار پاؤنڈ (ایک لاکھ 44 ہزار ڈالر) کے برابر بنتے ہیں۔

اِس بُک شاپ کے مینیجنگ ڈائریکٹر کرس سانڈرز کا کہنا ہے کہ ‘یہ سوتھران کے سٹاک میں موجود کسی بھی چیز سے تین گنا زیادہ مہنگی تھی۔ میرے خیال میں یہ برطانیہ کی مارکیٹ کے لیے بہت مہنگی کتاب تھی۔’

اور یہ صرف قیمت ہی مسئلہ نہیں تھا، کچھ لوگ تو ایڈورڈین دور میں اِس چمک دمک پر حیران تھے۔

لندن کی تاریخی کتابوں کی دکان کے ایک مالک بینجمن میگس کا کہنا ہے کہ ‘میرا خیال ہے کہ عمر کی کلیات کو شاید بعض لوگوں نے ایک پرانی اور بوسیدہ سی کتاب کے طور پر سوچا ہوگا، یہ بہت مشکل تھا۔ یہ بہت ہی نو دولتیوں والی جلد تھی اور پرانے زمانے کی روایتی اشرافیہ شاید اس چمکدار نسخے کو دیکھ کر اس پر کافی شرمندہ تھی۔’

اس رائے کا اظہار کرنے والے اس دور کے بادشاہ ایڈورڈ ہفتم کے ونڈسر کیسل میں لائبریرین سر جان فورٹسکیو بھی تھے۔ وہ ان اولین لوگوں میں سے تھے جنھیں رباعیاتِ عمر خیام کی اس جلد کو خریدنے کا موقع دیا گیا تھا، لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ بعد میں وہ اس کتاب کو خرید نہ پانے کے واقعہ کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی ناکامی قرار دیتے ہیں، ایک ایسا کام جسے انھوں نے ‘بالکل نامناسب، غیر موثر اور غیر اہم پایا، اور میرے نزدیک یہ ذاتی طور پر ایک اہم پریشانی ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

ٹائٹینک کے زندہ بچ جانے والے چھ ’گمنام‘ مسافروں کی کہانی

نجومی، ریاضی دان یا شاعر، عمر خیام کی وجہ شہرت کیا؟

الگورتھم علمِ ریاضی میں کہاں سے آیا؟

گیبریل ویلز نامی نیویارک کا ایک ڈیلر سنہ 1911 کے موسم گرما میں لندن آیا ہوا تھا اور اس جلد کے ڈیزائن سے زیادہ متاثر ہوا۔ اس نے کتاب کے لیے آٹھ سو پاؤنڈ کی پیشکش کی۔

سوتھرنز نے اسے مسترد کر دیا جس نے اسے بتایا کہ وہ اسے نو سو پاؤنڈ میں فروخت کرسکتا ہے۔ ویلز نے انکار کر دیا اور جلد ہی امریکہ واپس چلا گیا۔ برطانیہ میں دلچسپی کے فقدان کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ عمر خیام کی رباعیات کی اس جلد کو امریکہ لے جانا چاہیے، جہاں کتابوں کا کاروبار زیادہ منافع بخش تھا۔

لیکن جب یہ جلد وہاں پہنچی تو امریکی کسٹم حکام کے ساتھ اس کی ڈیوٹی کے بارے میں تنازع کھڑا ہو گیا اور بجائے اس کے کہ عمر خیام کی رباعیات کو لندن واپس بھیجا جاتا سوتھرنز نے یہ رقم ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ مہینوں گزر گئے، ابھی تک کوئی خریدار نہیں مل سکا۔

سٹون ہاؤس نے بعد میں لکھا کہ ‘تباہی اس کتاب کا پیچھا کرتی نظر آتی ہے۔’

سانڈرز کہتے ہیں کہ ‘سٹون ہاؤس کو اپنے مالک کو راضی رکھنے کے لیے عمر خیام کی اس کتاب کو فروخت کرنا پڑا، جس سے اس نے کتاب کی تیاری کرواتے وقت کوئی مشورہ نہیں کیا تھا، اور اس لیے مایوسی میں اسے گیبریل ویلز کو نو سو پاؤنڈ میں فروخت کرنے کی پیش کش کی اور پھر ساڑھے چھ سو پاؤنڈ میں فروخت کے لیے پیش کیا۔’

ویلز خریدنے پر تیار نہ ہوئے۔

‘اس پر سیسل کو غصہ آیا اور اُس نے اس کتاب کو نیلامی کے ذریعے جلد سے جلد فروخت کرنے کا مطالبہ کیا۔’

اور اس طرح 29 مارچ 1912 کو یہ کتاب سوتھبیز کے نیلام گھر میں بغیر کسی ریزرو قیمت کے نیلام کر دی گئی۔ گیبریل ویلز کے ایجنٹ نے 405 پاؤنڈ کی بولی کے بدلے اسے حاصل کر لیا۔

‘اس کی بہترین جگہ سمندر کی تہہ میں تھی’

RMS Titanic

اس وقت کے عظیم مسافر بردار بحری جہاز ٹائی ٹینِک نے اپنے پہلے سفر کا آغاز 12 اپریل سنہ 1912 کی دوپہر کو برطانوی بندرگاہ ساوتھیمپٹن سے کیا

عمر خیام کی رباعیات کی مزیّن جلد امریکہ واپس جانے کے لیے تیار تھی۔ یہ کتاب 6 اپریل کو کسی اور جہاز سے بھیجی جانی تھی لیکن تھوڑی سی تاخیر کی وجہ سے رہ گئی، اور اس کے بجائے اسے اگلے جہاز’ٹائی ٹینِک’ کے ذریعے روانہ کیا گیا۔

میگس کا کہنا ہے کہ ‘سوتھران کی چیز بہت دلکش ہے۔ وہ ہدایات جو اس لڑکے نے دی جس نے اسے کمیشن کیا کہ اس کی ‘کوئی حد نہیں ہے’- بالکل اسی طرح جیسے ٹائی ٹینِک کی بھی کوئی حد نہیں تھی۔

‘اسے اتنا بڑا بنائیں جتنا آپ کر سکتے ہیں’، قطع نظر اس کے کہ ایسا کرنا عملی طور یا عقلی طور پر درست بھی ہے یا نہیں۔’

ٹائی ٹینِک کی تباہی جس میں 1500 سے زیادہ مسافر ہلاک ہوئے یقیناً 20 ویں صدی کے سب سے مشہور واقعات میں سے ایک ہے، پھر بھی اس کے بارے میں بہت کم معلوم ہے کہ اس جہاز پر عمر خیام کی کتاب کے ساتھ کیا ہوا۔

مسٹر شیفرڈ کا خیال ہے کہ رباعیات عمر خیام کی یہ مزیّن جلد کتابیات کے ایک ماہر ہیری ایلکنز وائیڈنر کی حفاظت میں تھی۔ 27 سالہ نوجوان اور اس کے والدین، جن کا تعلق پنسلوانیا کے دو امیر ترین خاندانوں سے تھا، ٹائی ٹینِک کے سب سے نمایاں مسافروں میں شامل تھے۔

میگس کے مطابق، ‘کتاب پر ڈیوٹی بہت زیادہ ہوتی، اس لیے اسے اپنے بازو کے نیچے رکھنے کے لیے کہا جا سکتا تھا۔’ میگس نے کہا کہ وائیڈنر، گیبریئل ویلز کو جانتا تھا۔ اِس ہوشیار بک ڈیلر نے پہلے ہی پریس میں اپنی نفرت کے بارے میں بات کہہ دی تھی کہ اسے اِس کی درآمد پر ٹیکس ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔

کتابیں جمع کرنے کا شوقین، وائیڈنر لندن میں کتاب خریدنے کے بعد امریکہ واپس آ رہا تھا۔

ٹائی ٹینِک ہسٹوریکل سوسائٹی کے آفیشل مورخ ڈان لنچ کے مطابق تباہی کی رات وائیڈنر نے ‘ٹائی ٹینِک’ کے کپتان ایڈورڈ سمتھ کے اعزاز میں جہاز کے ‘لا کارٹے’ ریستوران میں عشائیہ دیا۔ جب وہ کھانا کھا رہے تھے تو خطرے کے پیغامات بھیجے جا رہے تھے کہ برف کے تودے نظر آ رہے ہیں جہاں سے جہاز کو گزرنے میں مشکل پیش آسکتی ہے۔

ایڈورڈ سمتھ اور وائیڈنر کے ساتھ پنسلوانیا ریل روڈ کے مسٹر اور مسز جان بی تھائر بیٹھے ہوئے تھے۔ فلاڈیلفیا کے ایک اور امیر جوڑے مسٹر اور مسز ولیم ای کارٹر اور میجر آرچیبالڈ ڈبلیو بٹ، امریکی صدر ولیم ایچ ٹافٹ کے فوجی معاون بھی ان کے ساتھ تھے۔

جب جہاز آئس برگ سے ٹکرایا تھا تو کھانے کی یہ تقریب ختم ہو چکی تھی۔ ہیری وائیڈنر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ برف کے ٹکڑے سے ٹکراتے وقت وہ تمباکو نوشی کے لاؤنج میں موجود تھے۔

اپنے والد کی طرح کتابوں کے اس شوقین کی قسمت میں بھی بچنا نہیں تھا۔

Illustration of sinking of Titanic

آج سے پورے ایک سو دس برس قبل، وائیڈنر کی ماں اور اس کی نوکرانی ان 713 افراد میں شامل تھیں جنھیں جہاز کے ڈوبنے کے بعد پانی میں تیرتے ہوئے بچا لیا گیا تھا

اس جہاز میں عمر خیام کی رباعیات سے بھی زیادہ قیمتی اشیا تھیں جو ڈوب گئی تھیں۔ دیگر قیمتی اشیا میں میری-جوزف بلونڈیل کی پینٹنگ ‘لا سرکاسین او بین’ بھی شامل تھی، جس کی اُس وقت کی قیمت ایک لاکھ ڈالر تھی جو کہ آج کے لحاظ سے تیس لاکھ ڈالر بنتی ہے۔ اس کے علاوہ پہلی فلائٹ مشین کا ایک انجن بھی اسی جہاز پر تھا، جسے امریکہ کے ایرو کلب کے لیے بھیجا جا رہا تھا۔

لنچ کا کہنا ہے کہ عمر خیام کی رباعیات ڈوب جانے والی ان قیمتی اشیا میں سے ایک ہے جو شاید کافی معروف تھی، جیسا کہ والٹر لارڈ کی کتاب ‘اے نائٹ ٹو ریممبر’ کے دیباچے میں اس کے ذکر سے ظاہر ہوتا ہے، جس کی بنیاد پر جیمز کیمرون کی سنہ 1997 کی بلاک بسٹر فلم بنائی گئی تھی۔

جہاں تک بحری جہاز کے ڈوبنے کے 110 سال بعد کتاب کی ممکنہ حالت کا تعلق ہے، لنچ جو ملبے کے نیچے غوطہ لگاتے رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ ‘یہ مکمل طور پر اس بات پر منحصر ہے کہ یہ کتنی اچھی طرح سے پیک کی گئی تھی اور اسے جہاز میں کہاں رکھا گیا تھا۔

‘جہاز میں اک بار کھل جانے کے بعد، بشرطیکہ پانی میں اس کی پیکنگ کھل گئی ہو، تو سمندر کے تہہ میں اس کا چمڑا تو گل گیا ہوگا لیکن اس میں جڑے ہوئے قیمتی پتھر یقناً باقی رہ جائیں گے۔’

اور وہاں تہہ میں عمر خیام کی رباعیات غالباً اب بھی پڑی ہے، تقریباً ڈھائی میل سمندر کی سطح کے نیچے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر کوئی اس کے ڈوب جانے پر افسردہ تھا۔

سر جان، جو بادشاہ کے شاہی لائبریرین تھے، اعلان کیا کہ بحر اوقیانوس کی تہہ یقینی طور پر ‘اس کے لیے بہترین جگہ’ تھی۔

‘اس کی زندگی تو اب شروع ہوئی تھی’

دنیا بھر کے اخبارات میں ‘ٹائی ٹینِک’ کی ان ہزاروں کہانیوں میں سے ایک عمر خیام کی کتاب کا مقدر تھا۔ سینڈرز کہتے ہیں کہ ‘سب عمر خیام کی عظیم رباعیات کی کتاب میں اپنی سرمایہ کاری کھو بیٹھے تھے۔’

اگرچہ دوسری عالمی جنگ کے اچانک حملے میں سوتھران کے اکاؤنٹس کی تباہی کا مطلب یہ ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ کاروبار کس حد تک متاثر ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ عمر خیام کی کتاب کے نقصان کے نتیجے میں مالی حالات خراب ہو گئے تھے۔

سانڈرز کا کہنا ہے کہ ‘سنگورسکی اور سٹکلِف کے ساتھ سوتھرن کے تعلقات اخراجات اور ادائیگیوں کے تنازعات کی وجہ سے خراب ہو گئے تھے۔’

مزید سانحہ ٹائی ٹینِک کے ڈوبنے کے صرف 10 ہفتے بعد ہونا تھا۔

فرانسس سنگورسکی یکم جولائی سنہ 1912 کو انگلینڈ کے جنوبی ساحل پر اپنی بیوی اور اپنے چار بچوں کے ساتھ چھٹیاں گزار رہے تھے جب انھوں نے سسیکس کے ‘سیلسی بل’ میں سمندر میں نہانے کا پروگرام بنایا تھا۔

ایک پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق، وہ پانی کی کسی بڑی لہر میں پھنس گیا تھا۔ سنگورسکی کے ساتھ سمندر میں موجود ایک شخص نے اس مشہور جلد ساز (بک بائنڈر) کو بچانے کی کوشش کی، جو تیر نہیں سکتا تھا، لیکن جب اس نے رونے کی آواز سنی تو اپنی خاتون ساتھی کی مدد کے لیے اُسے چھوڑ دیا۔

37 سالہ سنگورسکی کی لاش ڈیڑھ گھنٹے بعد ملی۔

اسے لندن کے شمالی علاقے میں سینٹ میریلی بون قبرستان میں دفن کیا گیا جو اب ایسٹ فِنچلی قبرستان کہلاتا ہے، اس کی قبر کا کتبہ اس کے ساتھی سٹکلف نے ڈیزائن کیا تھا۔

جان سٹون ہاؤس نے اس شخص اور اس کے فن دونوں کے نقصان پر سوگ منایا۔ اس نے لکھا تھا کہ ‘ایک عظیم ماہر کاریگر کے طور پر اس کے لیے زندگی ابھی شروع ہوئی تھی۔’

اس کی جتنی حفاظت کرتے ہیں، آپ اسے اتنا ہی خراب کرتے ہیں

سنگورسکی اور سٹکلف اپنے شریک بانی کے کھو جانے کے باوجود انھوں نے اپنا کاروبار جاری رکھا۔ جو آج بھی جاری ہے۔

سنہ 1924 میں جارج سٹکلف کے بھتیجے سٹینلے برے نے اس کاروبار میں بطور اپرینٹِس شمولیت اختیار کی۔

آٹھ سال بعد اس نے کمپنی میں عمر خیام کے فن پارے کے لیے سنگورسکی کی اصل ڈرائنگ اور ٹولنگ پیٹرن دیکھے اور اس عظیم فن پارے کے کام کو دوبارہ بنانے کا فیصلہ کیا۔

شیفرڈ، جنھوں نے اپنی کتاب ‘دی سینڈریلا آف دی آرٹس (The Cinderella of the Arts) میں اس کمپنی کے بارے میں لکھا ہے، کہتے ہیں کہ ‘میرے خیال میں وہ بنیادی طور پر اپنے چچا کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔’

دفتر اور گھر میں کام کرتے ہوئے سٹینلے نے سنہ 1930 کی دہائی میں دوسرے جواہرات سے مزیّن رباعیاتِ عمر خیام کی نئی جلد تیار کرنے کے لیے سخت محنت کی۔ جن دنوں عالمی جنگ نے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا یہ جلد اُنہی دنوں میں مکمل ہوئی تھی۔

یہ فیصلہ کیا گیا کہ کتاب کو بم حملوں سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے اور اس لیے اسے حفاظتی مواد میں لپیٹ کر لندن سٹی (مرکزی لندن) کی فور سٹریٹ میں ایک محفوظ تجوری میں رکھ دیا گیا۔

فور سٹریٹ شہر کی پہلی سڑک تھی جسے جرمن بمباروں نے نشانہ بنایا۔ سنہ 1940 اور سنہ 1941 کے بعد کے فضائی حملوں نے علاقے کی تقریباً تمام عمارتوں کو زمین بوس کر دیا۔

ملبے کو بالآخر صاف کر دیا گیا اور وہاں سے سٹینلے برے کی رباعیاتِ عمر خیام کی جلد کے فن پارے والی سیف برآمد ہوئی، جسے بظاہر نقصان نہیں پہنچا تھا۔

لیکن جب سیف کو کھولا گیا تو ایک تباہ شدہ سیاہ مائع کی صورت میں یہ شکستہ جلد برآمد ہوئی۔ آگ کی تپش نے چمڑے کو پگھلا کر صفحات کو جلا دیا تھا۔

Fore Street, 31 December 1940

‘کرِپلیج’ کا احاطہ جہاں فور سٹریٹ واقع تھی (تصویر)، یہ احاطہ ہوائی بمباری سے اتنی بری طرح تباہ ہو گیا تھا کہ جب 1951 میں اس جگہ کے رہائشیوں کا اندراج کیا گیا تو صرف 51 افراد سامنے آئے تھے

میگس کہتے ہیں کہ ‘بنیادی طور پر اس جلد کی اتنی زیادہ حفاظت کے اہتمام کی وجہ سے اسے شدید نقصان پہنچا۔ لہذا کتاب کی تباہی تقریباً ان کوششوں کا نتیجہ تھا کہ جو اسے محفوظ رکھنے کے لیے کی گئی تھیں- یہ طریقہ محفوظ نہیں تھا- یہ بات مجھے بھی دلچسپ لگتی ہے، کیونکہ آپ جتنا زیادہ اس کتاب کی حفاظت کرنے کی کوشش کریں گے آپ اتنا ہی اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

‘تو آپ ٹائی ٹینِک کی طرح سوچتے ہیں۔ ‘ممکنہ طور پر اس کتاب کو امریکہ بھیجنے کا سب سے محفوظ طریقہ کیا ہے؟ یقیناً ڈوبنے کے خطرے سے محفوظ جہاز اسے بھیجنے کا سب سے محفوظ طریقہ ہے؟’ اور اس طرح یہ کتاب شعوری طور پر آپ کے خلاف سازش کرتی ہے اور آپ جتنا زیادہ کوشش کریں گے، نتیجہ اتنا ہی برا ہو گا۔‘

یقیناً لندن کے سوہو میں پولینڈ سٹریٹ پر کمپنی کا احاطہ جنگ کے دوران تباہ کاریوں سے قدرے محفوظ رہا، باوجود اس کے کہ ایک بار ایک میٹر کے فاصلے پر ایک بم گرا تھا۔

جس وقت برطانیہ دشمن کے حملوں کا نشانہ بنا ہوا تھا تو اُس وقت سٹینلے نے رباعیات کی جلد کو نقصان پہنچنے کا خدشہ محسوس کیا تھا، اگرچہ اس نے اپنے تبصرے میں کہا تھا کہ ‘اگر میں یہی سب کچھ کھونے جا رہا ہوں، تو میں خوش قسمت ہوں گا۔’

‘یہ ایک قسم کی علامت بن گیا’

Stanley Bray working on third Great Omar (10 September 1947)

سٹینلے برے نے عمر خیام کی رباعیات کی تیسری جلد کو سجانے میں تقریباً 4000 گھنٹے صرف کیے

کتاب کی دو تباہ شدہ جِلدوں اور برسوں کے کھوئے ہوئے کام نے رباعیاتِ عمر خیام کے لیے سٹینلے برے کے جوش و جذبے کو کم نہیں کیا اور جیسا کہ برطانیہ نے سنہ 1945 میں نازیوں کے خلاف یورپ میں جنگ کی فتح کا جشن منایا، اس نے تیسری کتاب پر کام شروع کر دیا۔

بہت سے جواہرات جو پچھلی جلد سے بچ گئے تھے انھیں دوبارہ استعمال کیا گیا۔

سنگورسکی اور سٹکلف کمپنی کو چلانے کے کام نے سٹینلے برے کے کتاب کی تیاری کے کام کو محدود کردیا تھا، اس لیے سنہ 1980 کی دہائی میں اس کی ریٹائرمنٹ کے لیے کتاب کی جلد سازی کا یہ پروجیکٹ اس کے لیے زیادہ اہم بن گیا۔ لیکن ایک اندازے کے مطابق 4000 گھنٹے کی محنت کے بعد رباعیاتِ عمر خیام کے تیسرے نسخے کی تزئین کا کام مکمل ہو گیا۔

میگس کے لیے سٹینلے برے کے اس تیسرے نسخے کی تکمیل میں کوئی ایسی بات ہے جسے وہ بہت رومانوی قرار دیتے ہیں۔

‘حقیقت یہ ہے کہ سٹینلے برے نے اسے دوبارہ بنایا، دو بار – اس وقت وہ پیسہ کمانے کے لیے ایسا نہیں کر رہا تھا، یہ کچھ اور ہے، یہ ایک قسم کی علامت بن گیا ہے۔

‘یہ ایسا ہے جیسے انتہائی زوال پذیر، پرتعیش، سرمایہ دارانہ کتاب اپنے آپ سے آگے نکل گئی ہے اور حقیقی معنوں میں انمول بن گئی ہے، ایک ایسی چیز بن گئی جو آپ اپنا جواز ہے۔’

برے نے رباعیاتِ عمر خیام کے تیسری مزیّن جلد کو برٹش لائبریری کو عطیہ کردیا تھا۔ دسمبر سنہ 1995 میں ان کی موت نے اس جلد کو ایک ‘طویل زندگی کے کام کی یادگار’ کے طور پر بیان کیا۔

سنہ 2004 میں سٹینلے برے کی بیوہ آئرین کی موت کے بعد رباعیاتِ عمر اور اس سے متعلقہ مواد کو مستقل طور پر برٹش لائبریری کے حوالے کردیا گیا۔ یہ کتاب لائبریری کے ذخیرے میں موجود ہے، حالانکہ اس تک رسائی کی اجازت شاذ و نادر ہی دی جاتی ہے۔

فی الحال ایسا لگتا ہے کہ اس نسخے پر کسی نحوست کا سایا نہیں پڑا ہے۔

سٹینلے برے نے خود کبھی بھی اس خیال کے بارے میں زیادہ نہیں سوچا تھا، ویسے بھی ڈیزائن کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ ‘میں ذرا بھی توہم پرست نہیں ہوں، حالانکہ وہ کہتے ہیں کہ مور تباہی کی علامت ہے۔’

شیفرڈ کے بقول، ‘کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مور کے پنکھ موت کا شگون ہیں لیکن سٹینلے برے بڑھاپے تک زندہ رہے۔’

‘درحقیقت اس کتاب نے (سٹینلے برے کو) زندہ رکھا۔’

‘یہ آپ کے ساتھ نہیں آئے گی’

Francis Sangorski's grave

سنگورسکی کی قبر کے کتبے پر اس کا نام بمشکل پڑھا جا سکتا ہے

ایسٹ فِنچلی قبرستان میں پچھلی صدی کے عظیم جلد ساز، فرانسس سنگورسکی کی قبر تلاش کرنا مشکل ہے۔

دوسرے پتھروں کے درمیان ایک درخت کے نیچے، اس کی قبر پر نصب کتبہ شاندار نقش و نگار پر موسمیاتی اثرات کی وجہ سے اب پڑھے جانے کے قابل نہیں رہا ہے- جیسے کہ بحر اوقیانوس کی تہہ میں پڑے رہ جانے کی وجہ سے یہ بہت خراب ہو چکا ہو۔

میگس کے لیے رباعیات عمر خیام کی کہانی عمر خیام کے نظریات کی بدولت صاف و شفاف نظر آتی ہے، جس نے ایک ماہر جِلد ساز کو ترغیب دی کہ وہ عمر خیام جیسے شاعر اور فلسفی کے کام کو سونے، جواہرات اور چمڑے کی جلد میں مزین کر کے امر بنا دے۔

‘ایک طرح سے یہ کامل ہے، اس میں اس کی کہانی سے بھی بڑی ایک اور کہانی پنہا ہے کیونکہ اِن رباعیات کے متن کا کچھ حصہ اس کے بارے میں ہے کہ ‘یقینی طور پر جب آپ کو یہ مل جائے تو اسے پڑھیں، اپنی زندگی سے لطف اندوز ہوں، لیکن جان لیں کہ یہ ختم ہو جائے گی، اس حقیقت سے آگاہ رہیں’- یہ ایک طرح کی بد دعا ہے۔

میگس کہتے ہیں کہ ‘یہ وہی کچھ ہے جو عظیم عمر خیام آپ سے کہہ رہے ہیں۔’

‘اگر آپ کو اسے پڑھنے کا موقع ملے تو پھر کیوں نہیں؟ ضرور پڑھیں۔ لیکن یہ جان لیں کہ آپ مر جائیں گے اور ‘یہ آپ کے ساتھ نہیں آئے گی’۔

تمام تصاویر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments