فوج کے خلاف مہم: تیروں کے مارے میرا کلیجہ تو چھن گیا
فرش زمیں پر اتنی رعونت بجا نہیں
نامہرباں عرش بریں ہو گیا تو پھر؟
کہتے ہیں یہ یہاں بھی دار الحساب ہے۔
سارا حساب اپنا یہیں ہو گیا تو پھر؟
بے خوف ہو گئے ہو فصیلیں اٹھا کے تم
یہ پورا شہر غرق زمیں ہو گیا تو پھر؟
اظہر تمہارے ساتھ ہیں کاغذ کے لشکری
اس بات کا عدو کو یقیں ہو گیا تو پھر؟
سوشل میڈیا پر کاغذ کے لشکریوں نے افواج پاکستان کے خلاف غیر مصدقہ، ہتک آمیز اور اشتعال انگیز مہم جوئی کا جو سلسلہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں اوتھل کے قریب پاک فوج کے ہیلی کاپٹر کو پیش آنے والے حادثے کے بعد شروع کیا وہ اس رعونت کی ایک جھلک تھی جو پچھلے کچھ عرصے سے جاری ہے۔
اس حادثے میں کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی، میجر جنرل امجد حنیف، بریگیڈیئر محمد خالد، پائلٹ میجر محمد سعید، معاون پائلٹ میجر محمد طلحہ منان اور نائیک مدثر فیاض نے جام شہادت نوش کیا۔
بلوچستان میں اس بار غیر معمولی سیلابی صورتحال نے قیامت صغریٰ بپا کی جس میں ہزاروں مکانات سیلاب کی نذر ہو گئے، سینکڑوں افراد سیلابی پانی کی بھینٹ چڑھ گئے اور مال مویشی بھی پانی بہا کر لے گیا۔
ناگہانی آفات میں پاک فوج کے جوان اور افسران ہمہ وقت متاثرین کی مدد کے لیے تیار رہتے ہیں۔ غیر معمولی حالات کے باعث کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی خود بھی سیلاب میں پھنسے ہم وطن متاثرین کی امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے نکل پڑے۔ ان کے ہیلی کاپٹر کو موسمی خرابی کے باعث حادثہ پیش آیا جس پر پوری قوم غمزدہ تھی۔ کاغذی لشکریوں نے یہ وقت منفی پراپیگنڈے کے لیے چنا اور فوج کی اعلیٰ قیادت کو براہ راست نشانہ بنایا۔
من گھڑت اور فیک نیوز کا سہارا لے کر حقائق مسخ کیے گئے اور اس حادثے کو سوچا سمجھا منصوبہ قرار دیا گیا۔ سوشل میڈیا ٹرولز نے شہداء کے لیے بھی ایسی زبان استعمال کی جس سے نہ صرف شہداء کے ورثاء کی دل آزاری ہوئی بلکہ فوج کے مقتدر ادارے کی توہین بھی ہوئی۔ کاغذ کے یہ لشکری ہر قسم کی اخلاقیات سے عاری نظر آئے۔ اس بریگیڈ نے پچھلے کچھ عرصے سے ہر اس شخص اور ادارے کو نشانہ بنایا جو انہیں اپنے زعم کے مطابق ان کی راہ میں مزاحم ہوتا ہوا نظر آیا اور یہ سب کچھ آزادی اظہار کے نام پر کیا گیا۔
آزادی اظہار رائے کا ہر ذی شعور قائل ہے لیکن اس سے مادر پدر آزادی مراد نہیں ہونی چاہیے۔ ایسا لگتا ہے کہ دانستہ یا نادانستہ عالمی سازش کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ مہم جوئی کی گئی اور بیرونی دشمنوں کا کام آسان کیا گیا۔ کسی فرد، سیاسی پارٹی یا گروہ کو اس بات کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ وہ اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے گمراہ کن اور بے بنیاد پراپیگنڈا کر کے ملک کے اداروں اور اس کی سالمیت سے کھیلے۔
اس ضمن میں سابق حکمران پی ٹی آئی کا نام سامنے آیا ہے، کچھ لوگ گرفتار بھی کیے گئے ہیں اور ان میں سے ایک نے اس مہم کو چلانے کا اعتراف بھی کیا ہے اور اپنی غلطی مان لی ہے۔ یہ اور اس جیسی دوسری منفی مہمات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ملک ”فری فار آل“ ہے۔ جو جس کا من چاہے وہ کر گزرے۔ اگر ایسے لوگوں کی ٹرولنگ سے ڈر کر راہ راست اقدام سے پہلو تہی کی گئی تو مستقبل میں ریاست پاکستان اور اس کے اداروں کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
اقتدار سے محروم ہونے والی جماعت کے بارے میں یہ شنید یہ بھی ہے کہ اس نے ”ہائبرڈ وار“ کے نام پر سوشل میڈیا کے لیے صرف ایک صوبے میں جہاں وہ گزشتہ آٹھ سال سے حکمران ہے 1000 سے 1500 تک نوجوان اس کام کے لیے بھرتی کیے جنہیں 25,25 ہزار تنخواہ دی جا رہی ہے وہی لوگ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بناتے اور چلاتے ہیں۔ اس بات کی بڑے پیمانے پر تحقیقات ہونی چاہیے کہ ایسی گمراہ کن مہمات کے پس پردہ کون کون لوگ ہیں جن کی ہدایات پر وہ یہ سب کچھ کر رہے ہیں انہیں کٹہرے میں لاکر قرار واقعی سزا دی جانی چاہیے۔ کہ
خاطر نشاں اے صید فگن ہوگی کب تری۔
تیروں کے مارے میرا کلیجہ تو چھن گیا ہے۔
کے مصداق گزشتہ سات عشروں میں جو کام پاکستان اور اس کے سالمیت کے دشمن نہ کرسکے وہ ان لوگوں نے لمحوں میں کر دیا۔
فوج اور عوام کے درمیان نفرت کی لکیر کھینچنا پاکستان کے دشمنوں کا پرانا خواب ہے جس کی تعبیر کے لیے وہ کوشاں ہیں۔ ان کے لئے آسانیاں پیدا کرنا کیا ملک دشمنی نہیں؟
جب اقتدار میں آنے اور اقتدار سے جانے والے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں پر نظر ڈالنے کے بجائے اداروں کو مورد الزام ٹھہرائیں اور ٹرولز کے ذریعے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلائیں تو قوم کو بھی اس پر نظر رکھنی چاہیے کہ جو لوگ اقتدار کی خاطر اداروں کی تضحیک کرتے ہیں کیا انہیں ایوان میں منتخب کر کے بھیجنا چاہیے۔ جنہیں کرسی کے حصول کے بعد نہ عوام کی پرواہ ہوتی ہے، نہ ہی ملک اور اس کے اداروں کی۔
سوال یہ بھی ہے کہ جہاں سول ادارے اپنا وجود رکھنے کے باوجود ناگہانی آفات میں کوئی کردار ادا نہ کر سکیں وہاں زمانہ امن میں افواج پاکستان کے جوان اور افسران اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر متاثرین کی جان بچانے کے لئے سرگرم عمل رہتے ہیں اور پھر زمانہ جنگ میں ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی محفوظ بنانے کے لئے ٹینکوں کے سامنے اپنے سینوں پر بم باندھ کر شہید ہو جاتے ہیں اور ملک کی سالمیت پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ معرکہ چونڈہ ہماری تاریخ کا وہ سنہرا باب ہے جب میجر طفیل شہید اور ان کے جوانوں نے سینے پر بم باندھ کر وطن کے دفاع کے لئے دشمن کے ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر ایک پاکستان کی عسکری تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔
انہی کی قربانیوں کا ثمر ہے کہ ہم آج آزادی کا سانس لے رہے ہیں۔ ان کے لہو سے جو تاریخ رقم ہوئی اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ جنرل سرفراز شہید اور اس قبیل کے وہ لوگ جنہوں نے مادر وطن کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا یہ دھرتی ان کے مقدس لہو کی مقروض ہے۔ سلام ان ماؤں، بہنوں، سہاگنوں اور ان کے بچوں کو جنہوں نے اپنے لخت جگر، بھائی، شوہر اور اپنے والد قربان کر کے اس دیس کو دشمنوں کی دستبرد سے محفوظ کر رکھا ہے۔
حکومت اور انٹیلی جنس اداروں کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے والوں کو بے نقاب کریں چاہے ان کا تعلق کسی بھی جماعت، تنظیم یا گروہ سے ہو انہیں کیفر کردار تک پہنچا کر عبرت کا نشان بنایا جائے تا کہ آئندہ کسی کو ملک کی سلامتی کے اداروں کو بدنام کرنے کی جرات نہ ہو۔ ”کاغذ کے لشکریوں“ کی رعونت خاک میں ملے اور فصیلیں اٹھا کر بے خوفی سے اعدائے پاکستان کا کام آسان کرنے والوں کی منفی مہم جوئی کا مکمل سد باب کیا جا سکے۔
- معیشت اور اشرافیہ: قرض کی پیتے تھے مے - 17/03/2024
- غزہ اور رمضان: لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے - 16/03/2024
- بھٹو ،سپریم کورٹ کا فیصلہ:حق جو حقدار تک نہیں پہنچا - 09/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).