آزادی اور بے وطنی کے بیچ پون صدی


آپ کا نیاز مند پیدا ہوا تو لہو کی لکیر کھنچے 17 برس گزر چکے تھے، بے گھری کے نشان ابھی باقی تھے۔ منٹو نے پہلے سے آزادی اور بٹوارے کی حکایت لکھ رکھی تھی، کچھ کے لئے سب لٹ گیا تھا اور کچھ کے لئے ’کھول دو‘ کی سکینہ تک رسائی کا پروانہ مل گیا تھا۔ پنجاب ہی نہیں، بنگال میں بھی بٹوارہ ہوا تھا۔ شرمندگی ہے کہ بنگال کے بٹوارے کی چبھن بہت بعد میں امیتابھ گھوش کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوئی۔ برن کے مضافاتی گاﺅں Uettligen میں اپنے ہی بوئے Linton Tree کی چھدری چھائوں میں آپ کے نیاز مند نے کئی کتابیں پڑھ ڈالیں۔ رابرٹ ہیرس کا Archangel، Miriam Gebhardt کی کتاب Unspoken Crimes اور امیتابھ گھوش کا Shadow Lines۔ کلفت میں یہ وقفہ مہربان دوست Regula Altiok کی شفقت تھا۔ ربع صدی گزر گئی۔ سوچا تھا کہ اپنے عہد کے المیے پر کم از کم ایک ناول تو لکھ لوں گا۔ یہ اعزاز نشتر کالج ملتان کا وہ بوڑھا طالب علم ارشد وحید لے اڑا۔ Other Days کے عنوان سے کیا بساط بچھائی ہے۔ ابھی inch by inch اورman by man چکھ رہا ہوں۔ تفصیل سے بات کرنا ہو گی۔ ارشد وحید ان رجال میں سے ہیں جو اپنی نسل کی روبکار تاریخ کے صفحات پر ثبت کیا کرتے ہیں۔
عمر عزیز کی چھٹی دہائی کا اواخر آن پہنچا۔ اب کوئی خواب نیم روز باقی ہے، کسی کامیابی کی خواہش ہے اور نہ کسی منصب کی آرزو۔ یہ سب پیچھے رہ گیا۔ دوستوں کی محبت کا قیمتی اثاثہ سلامت رہے، کسی تلخی میں بھی اب کوئی معنی نہیں۔ یہ قیدی پرندوں کی رہائی کا وقت ہے ۔ یہ استعارہ احمد مشتاق نے کہیں 60 اور 70 کی دہائی میں برتا تھا۔ احمد مشتاق تارک وطن ہوئے مگر اردو ادب کے صفحہ اول پر موجود رہے۔ فراق نے کہا تھا، پچھلے میں بھی وہ آنکھ کہیں جاگ رہی ہے۔ اب جاگتی آنکھ کے دیکھنے کو کیا باقی رہا ہے۔ وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔ اگیتی اور پچھیتی ایسی فصل کٹی ہے کہ کھیتی تڑخ گئی ہے۔ بھارت میں شمیم حنفی، شمس الرحمن فاروقی، کراچی میں آصف فرخی اور اختر بلوچ، ملتان میں قاضی عابد اور خالد سعید…. باغ میں خاک اڑائے گی صبا میرے بعد… برادر مکرم حبیب اکرم اپنی عربی دانی کی مدد سے نیاز مند کا پھلکا ہی کیوں نہ اڑائیں، ہمیں تو کوئے ملامت کا طواف کرنا ہے، Auden اورDylan Thomas کے بغیر آج کا دکھ کیسے سمجھیں۔ ڈیلن تھامس کے ابا کی آنکھیں ختم ہو گئی تھیں۔ اور اس نے کہا، Good men, the last wave by…. ایسے نہیں ہوتا۔ بصیرت بصارت سے آگے کا معاملہ ہے۔ دنیا نیک لوگوں سے کبھی خالی نہیں ہوتی۔ کہیں کہیں وقت کے کچھ وقفے ظالم ہوتے ہیں۔
جب ہماری نسل نے شعور سنبھالا تو 1971 میں ملک کی آبادی چھ کروڑ بیس لاکھ بتائی گئی۔ آبادی زیادہ تھی مگر اس کا اپائے ممکن تھا۔ آج 23 کروڑ کا مداوا مشکل ہو گیا۔ ہمارے ملک میں آبادی کے معاملات پر جید ترین عالم ڈاکٹر نظام الدین ہیں۔ ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ (میری محسن) کی زندگی دراز ہو، مجھے ان کی ذہنی دیانت پر بھروسہ نہیں۔ تاہم ہر دو علما سے مشاورت میں مضائقہ نہیں۔ آج کا اصل موضوع تو 1947 کے بعد پون صدی میں افتادگان خاک کے معیار زندگی میں بہتری ہے۔ آزادی اس لیے مانگی تھی کہ ملک کے وسائل عوام پر خرچ ہوں گے۔ کچھ بڑی بات نہیں تھی۔ شرح خواندگی دیکھنا تھی۔ متوقع اوسط عمر دیکھنا تھی۔ فی کس آمدنی کا تعین کرنا تھا۔ دوران زچگی مرنے والی ماﺅں اور شیر خوار بچوں کی شرح اموات کا تخمینہ لگانا تھا۔ 75 برس میں جو قرضے لیے تھے، معلوم کرنا تھا کہ وہ کہاں خرچ ہوئے۔ چوبیس برس ملک کا آدھا حصہ کالونی بنائے رکھا، اس کا کسی کو حساب دینا تھا۔ پاکستان آدھا رہ گیا تو دفاعی بجٹ پر نظرثانی کرنا تھی۔ تعلیم کو اس قابل بنانا تھا کہ ہمارے بچے اپنے ہم عمر طالب علموں سے مسابقت کر سکیں۔ تھر، پنج گور ، باجوڑ اور راجن پور کی بہنوں کو تحفظ دینا تھا۔ یہ سب نہیں ہو سکا۔

نواب پور کے ’دکھوں کی چادر‘ میں سامنے آنے والی بہادر مسیحی بہن کی جگہ پہ مفروضہ ریٹائرڈ فوجی قوی خان کے مکالمے حقیقت کا حصہ نہیں تھے۔ دستور کے آرٹیکل 25 کے باوجود اقلیتیں برابر کی شہری نہیں ہو پائیں۔ ہم ایک آزاد مملکت کے نصب العین میں ناکام ہوئے ہیں۔ قومی ترانوں کی ذمہ داری نیم خواندہ اہل کاروں نے اٹھا لی تو موسیقی برباد ہو گئی۔ شاکر علی، اقبال حسین اور کولن ڈیوڈ راندہ درگاہ ہو گئے۔ اینا مولکا کی مصوری اجتماعی تصویر کا حصہ نہیں بن سکی۔ بلوچستان کی مائیں گمشدہ بیٹوں کی تصویریں اٹھائے کھڑی ہیں۔ سیاسی تقسیم کی صف بندی واضح ہے۔ ایک جملے میں پوری کہانی بیان ہو سکتی ہے۔ ریاست نے شہری کو رعایا بنا دیا ہے۔ ریاست نے عوام کے خلاف جرائم کئے ہیں۔ ملا، ریاستی اہلکار اور جرائم پیشہ سیاسی اداکاروں نے گٹھ جوڑ کر لیا ہے۔ جمہوریت ناکام ہوئی ہے۔ جمہوریت ناکام ہو جائے تو تحفظ، ترقی اور انصاف کا سہ جہتی ڈھانچہ منہدم ہو جاتا ہے۔

آزادی کے یہ 75 برس رائیگانی کی کہانی ہیں۔ چار نسلوں کی اذیت اور سیاسی شعور سے بیگانگی کی حکایت ہیں۔ معیشت کے اشاریوں کو میرے اور آپ کے جنون سے تعلق نہیں۔ ہم بین الاقوامی بھیک منگے ہیں۔ اگر کچھ بناتے ہی نہیں تو بیچیں گے کیا؟ ایوب خان نے قرضے کی معیشت متعارف کرائی تھی۔ اب اس قرضے کا سود دینا دشوار ہو رہا ہے۔ بھارت میں زرمبادلہ کے ذخائر 573ارب ڈالر اور بنگلہ دیش میں 48 ارب ڈالر ہیں۔ پاکستان کے سٹیٹ بینک میں زرمبادلہ آٹھ ارب سے کم ہو گیا ہے۔ ہے اب بھی وقت زاہد، ترمیم زہد کر لے۔ آزادی کے 75 برس بعد بھی ترانے ہی گانا ہیں تو اسلام آباد کی اس الماری سے استفادہ کر لیا جائے جہاں قومی کردار کی شہادتیں محفوظ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments