تتلیاں


تتلی کا لفظ سنتے ہی ذہن میں خوبصورت رنگ ابھر آتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس کے تصور میں یہ لفظ کوئی اور عکس بناتا ہو۔ دنیا بھر میں تتلی کو مختلف انداز سے دیکھا جاتا ہے اور اس سلسلے میں عجیب و غریب توہمات اور رسوم و رواج کا امتزاج بھی ملتا ہے۔

Lafcadio Hearn ایک یونانی نژاد مصنف تھا اور جاپانی ادب کو مغرب میں متعارف کرانے کا سہرا س کے سر باندھا جاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جاپان میں تتلی کو انسانی روح کا عکس تصور کیا جاتا ہے چاہے وہ شخصیت زندہ ہو یا مر چکی ہو جاپانی لوگوں میں یہ بھی مانا جاتا ہے کہ اگر کوئی تتلی آپ کے مہمان خانے میں داخل ہو جائے اور بانس سے بنی کسی سطح پر بیٹھ جائے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کی کوئی بہت ہی عزیز ہستی آپ سے ملنے کے لیے آنے والی ہے۔

روم میں ایک ایسا مجسمہ پایا جاتا ہے جس میں ایک مردہ شخص کے منہ سے تتلی باہر نکل رہی ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ اہل روم یقین رکھتے ہیں کہ روح منہ کے راستے جسم سے علیحدہ ہوتی ہے۔ میانمار کے زیر تسلط علاقے ناگا اور مانی پور میں اب بھی کچھ عقیدت مند تتلیوں کو اپنے آبا و اجداد کی روحیں خیال کرتے ہیں۔ کچھ تہذیبیں تتلیوں کو آواگان یا تناسخ کے تصور سے بھی جوڑتی ہیں اور کچھ کا خیال میں تتلیاں مخنث ہونے کی علامت ہیں کیونکہ وہ ایک لاروے کی شکل میں جنم لینے کے بعد تبدیل ہوتے ہوتے تتلی کی جون اپنا لیتی ہیں جو ان کے اصل کو چھپا لیتی ہے۔ فلپائن میں اگر کسی کو گھر میں سیاہ تتلی یا پتنگا دکھائی دے جائے تو اسے یقین ہو جاتا ہے کہ عنقریب خاندان کا کوئی فرد مرنے والا ہے۔ امریکہ کی کئی ریاستوں میں تتلی کو قومی حشرات الارض کا درجہ حاصل ہے۔ الغرض تتلی کا وجود کہیں نہ کہیں ہماری زندگیوں میں موجود ہے۔

اردو ادب میں بھی تتلی حسن، رنگ اور نازک احساسات کی ترجمانی کرتی ہے۔ پروین شاکر کا شعر ہے :
تتلیاں پکڑنے میں دور تک نکل جانا
کتنا اچھا لگتا ہے پھول جیسے بچوں پر
سراج فیصل خان نے تتلی کے حوالے سے کیا خوبصورت جذبہ بیان کیا ہے ؛
کتابوں سے نکل کر تتلیاں غزلیں سناتی ہیں
ٹفن رکھتی ہے میری ماں تو بستہ مسکراتا ہے

مصطفی زیدی کی فکری اپج انسانی زندگی کا وہ رنگ بیان کرتی ہے جو سب نے کسی نہ کسی موڑ پر دیکھا ہوتا ہے۔ وہ تتلی کو ایک خوبصورت سراب کے پیرہن میں دیکھتے ہیں ؛

تتلیاں اڑتی ہیں اور ان کو پکڑنے والے
سعیٔ ناکام میں اپنوں سے بچھڑ جاتے ہیں
عارف عبدالمتین کہتے ہیں، تتلیاں رنگوں کا محشر ہیں کبھی سوچا نہ تھا
ان کو چھونے پر کھلا وہ راز جو کھلتا نہ تھا!

اپنی بات بیان کرنے کے لیے میں نے بڑی لمبی تمہید باندھی ہے۔ آپ سب کو تتلیوں کے بارے میں تاریخ و ادب کے حوالے دے کر اپنی عقل و دانش کا مظاہرہ ہر گز مطلوب نہیں ہے۔ صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ کچھ تتلیاں ہمارے وجود میں بھی قید ہیں۔ انہیں آزاد ہو جانے دیں۔ آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ رومانویت میں جب محبت کا جذبہ سرشار کردے تو اس کے اظہار کے لیے کہا جاتا ہے butterflies in my stomach۔

ایسی بہت سی تتلیاں ہیں جنہیں ہم لاروے کے خول میں ہی مار دیتے ہیں۔ جنہیں ہم جنم لینے، پر پھیلانے، اڑنے اور رنگ بکھیرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ درست ہے کہ فکر معاش نے ہم سب کے لطیف احساسات کو ملیا میٹ کر دیا ہے لیکن ایک کوشش کر کے دیکھیں۔ دفتر جاتے ہوئے آسمان پر اڑتے پرندے کو دیکھ کر مسکرانے کی کو شش کریں۔ سڑک کی دھول اور تارکول کی سختی کی پروا نہ کرتے ہوئے ننھے سے سبزے کو دیکھ کر امید باندھ لیں۔ سواری نہ ملے تو مسکرا کر لفٹ کے لیے انگوٹھا کھڑا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

جیب خالی ہے اور تنخواہ ملنے میں دیر ہے۔ اپنے وسائل پر اکتفا کرنے کے بجائے دو نفل حاجت کے پڑھ لیں اور معاملہ مالک کل کے سپرد کر دیں۔ مجھے یاد آیا کہ جب کبھی میری زندگی میں ایسا وقت آیا اور بچوں کی کسی ضرورت کو پورا کرنا دوبھر ہو گیا تو میں سکون سے بچوں کو سامنے بٹھا کر کہتی ”بیٹا میں نے اللہ میاں کو چیک بھیج دیا ہے، جیسے ہی کیش ہو گا میں آپ کو بازار لے جاؤں گی“

آج بھی میرے بچے اس توکل کی نعمت کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ ہم سب کو ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ بحیثیت انسان جہد مسلسل اور تگ و دو ہمارا کام ہے، جو ہمیں ہر حال میں کرنا ہے لیکن اپنی محنت کو اپنے اہل خانہ اور اقارب کے لیے احسان مت سمجھیں۔

مالی دا کم پانی دینا، بھر بھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھل پھل لانا، لاوے یا نہ لاوے

آپ نے نیک نیتی سے اپنا فرض نبھا دیا اب مالک کو اپنا کام کرنے دیں۔ آپ صرف اپنے ارد گرد اڑتی تتلیوں کے رنگوں سے لطف اٹھائیے۔ دیکھئے تو غروب آفتاب کا منظر کس قدر دلفریب ہے۔ آج گھر میں بنی دال کس قدر ذائقہ دار تھی، اوہو میونسپلٹی والوں نے بالآخر کوڑا اٹھا ہی لیا ورنہ اس اتوار کو ہم سب گھر والے یہ کام خود کرنے والے تھے۔ بجلی نے تنگ کر رکھا ہے لیکن ہم بھی استری شدہ کپڑے پہن کر ہی باہر نکلتے ہیں، پرانی استری اور کب کام آئے گی، چولہے پر گرم کرو اور کپڑوں کی سلو ٹیں دور کر لو۔

پچھلے سال آم کا پودا لگایا تھا، اس ساون میں دو گنا بڑا ہو گیا ہے۔ چھوٹی چھوٹی تتلیاں آپ کے آس پاس ہی ہیں۔ آسمان پر اڑتے بادل، زمیں کو گود میں پھیلا سبزہ، بارش کی بوندیں، باورچی خانے سے آتی تازہ روٹی کی مہک، ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس، بھاپ اڑاتی گڑ والی چائے کا گھونٹ، سر درد کی گولی، کسیلا جوشاندہ، بیوی کا نخرہ یا شوہر کی بے جا اکڑ، بچوں کا بے وقت شور، گھر سے نکلتے ہوئے اماں کی دعاؤں کا حصار، دیر سے آنے پر ابا کی باز پرس کا ڈر، آپس کی رنجشوں کے درمیان بہن بھائیوں کی خیریت پوچھتے رہنا، دوستوں اور سہیلیوں کے چٹکلے، محدود وسائل کے باوجود اونچے اونچے خواب دیکھنا اور منصوبے بنانا، مشکل وقت میں اک دوسرے کا حوصلہ بننا، بے تکے لطیفوں پر ہنسنا، آئینے میں خود کو ستائش بھری نظروں سے دیکھنا، توانا اور بیماریوں سے محفوظ جسم، رات کی بھر پور نیند، نور بصارت سے روشن آنکھیں۔ یہ سب مختلف رنگوں کی تتلیاں ہیں۔ آپ ان میں اپنی مرضی کے رنگ بھی بھر سکتے ہیں۔ آج ہم اپنی خوشیوں کو سبز رنگ سے رنگیں گے۔ سبز رنگ آزادی کا رنگ۔

اسما احمد زبیری
Latest posts by اسما احمد زبیری (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments