پرستار


تحریر: آئزک بشواس سنگر۔
مترجم: جاوید بسام۔

پہلے مجھے اس کی جانب سے ایک طویل ستائشی خط ملا۔ دوسری باتوں کے علاوہ اس نے اعتراف کیا تھا کہ میری تحریروں نے اسے خود شناسی میں مدد کی ہے۔ پھر اس نے فون کیا اور ہم نے ملاقات کا دن طے کیا۔ بعد ازاں پھر فون کی گھنٹی بجی، پتا چلا کہ اس دن اس نے ایک اور میٹنگ پہلے ہی طے کر رکھی تھی اور ملاقات کی دوسری تاریخ تجویز کی۔ دو دن بعد ایک لفظی ٹیلی گرام آیا۔ معلوم ہوا کہ ہماری مجوزہ ملاقات کے دن اسے اپنی فالج زدہ خالہ کے پاس جانا ہے۔

مجھے اتنا طویل اور اتنی شاندار انگریزی میں لکھا ہوا ٹیلیگرام پہلے کبھی نہیں ملا تھا۔ پھر ایک اور کال آئی، ہم نے ایک نئی تاریخ مقرر کی۔ ہماری پچھلی ٹیلی فون گفتگو کے دوران میں نے تھامس ہارڈی کے کام سے رغبت ظاہر کی تھی۔ جلد ہی ایک پیغام رساں تھامس ہارڈی کے جمع شدہ کام کی ایک شاندار طباعت والی کتاب لے کر آیا۔ میری مداح کا نام ایلزبتھ ابیگوئل ڈی سولر تھا۔ اس کی ماں کا کہنا تھا کہ یہ ایک عورت کے لیے عام نام نہیں ہے۔

مقررہ دن آ پہنچا۔ میں نے اپنے اپارٹمنٹ کو صاف کیا اور اپنے تمام مخطوطات اور وہ خطوط جن کا جواب دینا ضروری نہیں تھا۔ لانڈری کی ٹوکری میں رکھ دیے۔ میری مہمان نے گیارہ بجے آنا تھا۔ گیارہ بج کر پچیس منٹ پر ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ الزبتھ ابیگوئل ڈی سولر بلند لیکن مایوسی آواز میں کہہ رہی تھی۔ ”آپ نے غلط پتا دیا ہے! یہاں ایسی کوئی عمارت نہیں ہے!“

معلوم ہوا اس نے غلطی سے مغرب کے بجائے مشرق لکھا تھا۔ میں نے دوبارہ اسے تفصیل سے بتایا کہ میرا گھر کیسے تلاش کیا جائے۔ جب وہ مغربی پہلو سے میری گلی میں پہنچے تو گیٹ کے ساتھ عمارت کا نمبر لکھا نظر آئے گا، گیٹ صحن میں کھلتا ہے۔ جہاں اس کو ایک دوسرے نمبر کا داخلی دروازہ تلاش کرنا ہو گا۔ جو میں نے اسے دیا تھا اور گیارہویں منزل تک آنا ہو گا۔ بدقسمتی سے مسافر لفٹ استعمال کے قابل نہیں۔ لہذا اسے مال بردار لفٹ استعمال کرنا پڑے گی۔ الزبتھ ابیگوئل نے میری تمام ہدایات دہرائی، لیکن ان کے پاس انھیں لکھنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ جب وہ اپنے پرس میں پنسل اور کاغذ ڈھونڈ رہی تھی آپریٹر کی آواز نے ایک اضافی سکہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔ الزبتھ کے پاس مزید سکے نہیں تھے، گھبراہٹ میں اس نے ٹیلیفون بوتھ کا نمبر پکارا۔ جہاں سے کال کر رہی تھی۔

میں نے فوراً کال کی، لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ بظاہر لگتا تھا کہ اس نے مجھے غلط نمبر دیا تھا۔ میں نے شیلف سے ایک کتاب نکالی اور جہاں سے کھلی وہی سے پڑھنے لگا۔

چونکہ اس کے پاس میرا پتا اور فون نمبر تھا، اس لیے میں مطمئن تھا کہ وہ جلد یا بدیر یہاں پہنچ جائے گی۔ ابھی میں نے آدھا صفحہ ہی پڑھا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے ریسیور اٹھایا۔ کسی کے کھانسنے، بڑبڑانے اور کھنکارنے کی آوازیں سنائی دیں۔ بالآخر جب کال کرنے والے نے اپنی آواز پر قابو پا لیا تو اس نے کہا۔ ”میرا نام اولیور لیسلی ڈی سولر ہے۔ میں اپنی بیوی سے بات کرنا چاہتا ہوں۔“

” آپ کی بیوی نے پتا غلط لکھا تھا۔ اس نے ابھی فون کیا ہے۔ بس وہ کسی بھی وقت یہاں پہنچنے والی ہے۔“

”آپ کو پریشان کرنے کی معذرت چاہتا ہوں، دراصل ہماری بیٹی اچانک بیمار ہو گئی ہے۔ وہ بری طرح کھانس رہی ہے اور اس کا دم گھٹ رہا ہے۔ اسے دمہ کا دورہ پڑا ہے۔ الزبتھ اس کیفیت میں کوئی خاص قطرے دیتی ہے، لیکن مجھے وہ نہیں مل رہے۔ میں بہت پریشان ہوں۔“

”ڈاکٹر کو بلائیں! ایمبولینس کو فون کریں!“ میں چلایا۔
”ہمارا ڈاکٹر ڈیوٹی پر نہیں ہے۔ معذرت، ذرا انتظار کریں۔“ وہ بولا۔
میں نے کچھ دیر انتظار کیا، لیکن لیسلی ڈی سولر واپس نہیں آیا۔ میں نے فون بند کر دیا۔ جب آپ

لوگوں کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے، اچانک پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ میں نے خود کو ملامت کی۔ ”کارروائی ایک گناہ ہے۔“ میرے ذہن میں کسی مقدس ہندوستانی کتاب کا قول گردش کرنے لگا، شاید بھگوت گیتا یا دھماپادا؟ لیکن یہ مجھے یاد نہیں آیا۔ اگر خدا نہ کرے لڑکی کو دم گھٹنے سے کچھ ہوجاتا ہے تو میں بالواسطہ طور پر قصوروار ہوتا۔

دروازے پر زوردار دستک ہوئی۔ میں نے دوڑ کر دروازہ کھولا تو کندھوں تک سنہرے بالوں والی ایک نوجوان عورت کو پھولوں اور چیریوں سے سجی تنکوں والی ٹوپی پہنے کھڑے دیکھا، جو ان دنوں پہنی جاتی تھی جب میں لڑکا تھا۔ اس نے لمبی آستینوں والا سفید بلاؤز پہنا ہوا تھا جس کے کالر پر لیس لگی تھی۔ اسکرٹ کا رنگ سیاہ تھا۔ اس پر کڑھائی کی گئی تھی۔ پیروں میں بٹنوں والے پمپ شوز تھے۔ اس نے کہنی تک سفید دستانے پہنے ہوئے تھے۔

اگرچہ باہر دھوپ نکلی ہوئی تھی، لیکن اس کے پاس ربن اور کمانوں والی چھتری تھی اور وہ ایسی لگ رہی تھی جیسے کسی البم کی تصویر سے باہر نکلی ہو۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے پیچھے دروازہ بند کرتی میں نے کہا۔ ”آپ کے شوہر نے ابھی فون کیا تھا۔ میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتا، لیکن آپ کی بچی کو دمہ کا دورہ پڑا ہے۔ اس کا ڈاکٹر سے رابطہ نہیں ہو رہا، نہ وہ یہ جانتا ہے کہ دوائی کہاں رکھی ہے۔“

مجھے یقین تھا کہ وہ فوراً فون پر جھپٹے گی، جو دالان میں میز پر پڑا تھا، لیکن اس کے برعکس اس نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور اس کا چہرہ خوشی سے جگمگا اٹھا۔

”اچھا، یہ آپ ہیں!“
پھر اس نے مجھے سرخ ربن سے بندھے چمکدار سیاہ کاغذ میں لپٹی ہوئی کوئی چیز دی اور بولی۔

”فکر نہ کریں، جب میں گھر سے باہر ہوتی ہوں تو وہ ہمیشہ ایسا کرتا ہے۔ وہ میری عدم موجودگی برداشت نہیں کر سکتا۔ بس حسب معمول اعصابی تناؤ۔“

”اور بچی کا کیا ہو گا؟“

”بی بی اپنے والد کی طرح ضدی ہے۔ وہ بھی نہیں چاہتی کہ میں گھر چھوڑوں۔ وہ اس کی سابقہ ​​بیوی کی بیٹی ہے۔“

”اندر آئیے۔ تحفہ دینے کا شکریہ۔“

”اوہ، آپ نے میری زندگی کے خلا کو بھر دیا ہے، میں خود کو بالکل نہیں سمجھتی تھی۔ میں نے ایک دن کتابوں کی دکان پر آپ کا ایک ناول دیکھا اور اس کے بعد آپ کی کوئی کتاب نہیں چھوڑی۔ میرا خیال ہے کہ میں آپ کو پہلے بتا چکی ہوں کہ میں کلینڈیو سے ہوں اور میرے نانا ربی تھے۔ جبکہ ددھیال کے آبا و اجداد مہم جو تھے۔

ہم نشست گاہ میں چلے آئے۔ وہ پتلی دبلی، درمیانے قد کی سفید ہموار جلد والی (جو اب بالغوں میں نایاب ہے ) عورت تھی۔ اس کی آنکھیں پیلی رنگت کے ساتھ ہلکی نیلی تھیں، اس کی ناک کافی لمبی، ہونٹ تنگ اور ٹھوڑی پتلی اور کٹی ہوئی تھی۔ اس نے کوئی میک اپ نہیں کیا تھا۔ عام طور پر مجھے کسی شخص کا چہرہ دیکھتے ہی اس کا اندازہ ہوجاتا ہے، لیکن اس بار میں قطعی طور پر کچھ نہیں کہہ سکا۔ وہ زیادہ صحت مند نہیں تھی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اس کی شخصیت متاثر کن اور غیر مذہبی ہے۔ اس کی انگریزی مجھے غیر امریکی لگ رہی تھی۔ میں نے اسے صوفے پر بٹھایا اور پیکٹ کھولا۔ اس میں سے ایک ڈائی وینشن ٹیبلٹ (پیشن گوئی کا آلہ) نکلا، جو بلاشبہ قیمتی لکڑی اور ہاتھی دانت سے بنی دستکاری تھی۔

”میں نے آپ کی کہانیوں سے اندازہ لگایا ہے کہ آپ کو غیب دانی سے دلچسپی ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ ایک مناسب تحفہ ہو گا۔“

” تم مجھے بہت اہمیت دے رہی ہو۔“
”آپ اس کے مستحق ہیں۔“

ہم گپ شپ کرتے رہے۔ پھر میں ذاتی سوالات کرنے لگا۔ اس نے خوشی اسلوبی سے جواب دیے۔ اس کے والد ایک ریٹائرڈ وکیل تھے۔ انھوں نے الزبتھ کی ماں کو طلاق دے دی تھی۔ اب وہ دوسری عورت کے ساتھ سوئٹزرلینڈ میں رہتے تھے۔ والدہ گنٹھیا میں مبتلا تھی اور ایریزونا منتقل ہو گئی تھیں۔ جہاں ان کا ایک اسی سالہ دوست رہتا تھا۔ الزبتھ کی اپنے شوہر سے ملاقات کالج میں ہوئی تھی۔ جہاں وہ فلسفہ پڑھاتا تھا۔ وہ ایک شوقیہ ماہر فلکیات بھی تھا اور آدھی رات رصد گاہ میں ستاروں کو دیکھتے ہوئے گزارتا تھا۔

”وہ یہودی ہے؟“ میں نے پوچھا۔

” نہیں، وہ عیسائی ہے، انگلستان میں پیدا ہوا، حالانکہ وہ باسکی نسل سے تعلق رکھتا ہے، شادی کے فوراً بعد ذہنی دباؤ کا شکار ہو گیا تھا۔ اس نے نوکری چھوڑ دی اور کروٹن آن ہڈسن (گاؤں کا نام) سے چند میل کے فاصلے پر ایک گھر میں رہنے لگا ہے۔ وہ مکمل متولی بن گیا ہے اور ان دنوں علم نجوم اور شماریات پر ایک کتاب لکھ رہا ہے۔“ یہ کہہ کر اس کے چہرے پر ان لوگوں کی سی دانشمندانہ مسکراہٹ چلی آئی جو بہت پہلے ایسے تمام انسانی افعال کو فضول سمجھ چکے ہوں۔

میں نے اس سے پوچھا کہ وہ اپنے گھر میں سارا دن کیا کرتی رہتی ہے؟

”پاگل ہوتی رہتی ہوں۔ لیسلی پورا دن یا ہفتے بھر خاموش رہتا ہے، صرف بی بی بات کرتی ہے۔ وہ اسکول نہیں جاتی۔ لیسلی اسے خود پڑھاتا ہے۔ اب ہم اب میاں بیوی کی حیثیت سے نہیں رہتے۔ کتابیں میرے لیے وجود کا جوہر ہیں۔ جب میں خود سے مخاطب کوئی کتاب پاتی ہوں تو وہ میری زندگی کا اہم واقعہ بن جاتا ہے۔“

”گھر کی دیکھ بھال کون کرتا ہے؟“

”کوئی نہیں، ہمارا ایک پڑوسی ہے۔ پہلے وہ کسان تھا۔ اکیلا رہتا ہے۔ وہ ہمارے لیے کھانا خریدتا ہے اور کبھی کبھی پکا بھی دیتا ہے۔ ایک سادہ آدمی، لیکن اپنے تئیں ایک فلسفی۔ ویسے وہ ہمارا ڈرائیور بھی ہے۔ لیسلی اب گاڑی نہیں چلاتا۔ ہمارا گھر ایک پہاڑی پر ہے اور نہ صرف سردیوں میں بلکہ جب بارش ہوتی ہے تو راستے پر بہت زیادہ پھسلن ہوجاتی ہے۔“

میری مہمان خاموش ہو گئی۔ میں پہلے ہی اس حقیقت کا عادی ہوں کہ مجھے خط لکھنے یا میرے پاس آنے والوں میں سے بہت سے لوگ سنکی، بے چین اور کھوئی ہوئی روح ہوتے ہیں۔ الزبتھ ابیگل میری بہن جیسی لگ رہی تھی۔ چونکہ اس کا تعلق بھی کلینڈیو سے تھا اور اس کے نانا ربی تھے، اس لیے وہ میری بہت دور کی رشتہ دار ہو سکتی تھی۔ کلینڈیو ان جگہوں سے زیادہ دور نہیں ہے جہاں میرے آبا و اجداد کی نسلیں رہتی تھیں۔

میں نے پوچھا۔ ”بی بی اپنی والدہ کے ساتھ کیوں نہیں رہتی؟“
”اس کی ماں نے خودکشی کرلی تھی۔“

فون کی گھنٹی بجی اور میں نے ایک بار پھر شناسا کھانسی اور ہکلانے کی آواز سنی۔ میں نے فوری طور پر الزبتھ کو بلایا۔ وہ آہستہ آہستہ اور ہچکچاتے ہوئے آئی، اس کی شکل سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ سب کچھ پہلے سے جانتی تھی کہ کیا ہونے والا ہے۔ اس نے شوہر کو بتایا کہ قطرے کہاں رکھے ہیں اور تیز لہجے میں اسے مزید پریشان نہ کرنے کو کہا۔ پھر وہ دیر تک کچھ سنتی رہی اور غصے سے جواب دیا۔ ”کیا؟ نہیں، نہیں۔“ اور پھر بے چینی سے کہا۔ ”مجھے نہیں معلوم۔“ وہ کمرے میں واپس آ کر دوبارہ صوفے پر بیٹھ گئی۔

”یہ ان کی عادت ثانیہ بن گئی ہے۔ جوں ہی میں کہیں جاتی ہوں۔ بی بی کے سینے میں درد شروع ہوجاتا ہے اور اس کا پدر فون کر کے میرے اعصاب کو ہلانے لگتا ہے۔ اسے کبھی دوا کے قطرے نہیں ملتے کیونکہ وہ خود جان بوجھ کر ان حملوں کو اکساتا ہے۔ اس بار میں نے اسے نہیں بتایا تھا کہ میں کہاں جا رہی ہوں، لیکن وہ میری جاسوسی کر رہا ہے۔ میں آپ سے کچھ سوال کرنا چاہتی تھی لیکن سب میرے ذہن سے نکل گئے۔ ہاں، خدا کے لیے مجھے بتائیں یہ کلیڈنیف کہاں ہے؟ وہ مجھے نقشے پر نہیں مل رہا۔“

”وہ لوبلن کے آس پاس کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔
تم کبھی وہاں گئی ہو؟ ”

”ہاں، جب میں نے گھر چھوڑا تو کسی نے مجھے بتایا کہ وہاں ایک استاد کی آسامی خالی ہے۔ میں نے ابھی ایک سبق ہی پڑھایا تھا کہ اسکول انتظامیہ اور میں بغیر کچھ کہے اس نتیجے پر پہنچے کہ میں بطور استاد کام نہیں کر سکتی۔ اگلے دن میں وہاں سے چلی آئی۔“

”یہ کب ہوا تھا؟“
”بیس کی دہائی میں، میرے نانا جب دنیا میں نہیں تھے۔ ان کا انتقال تیرہویں سال میں ہوا تھا۔“
اگرچہ مہمان کی کہانی سے مجھے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی، لیکن میں نے توجہ سے سنی۔

اس بات پر یقین کرنا مشکل تھا کہ صرف ایک نسل نے اسے، اس ماحول اور کلینڈیو کی طرز زندگی سے الگ کر دیا ہے۔ اس کا چہرہ کسی اینگلو سیکسن ماڈل جیسا لگتا تھا۔ جس کی ثقافت اس نے اپنا رکھی تھی۔

ڈیڑھ بج گیا تھا۔ میں نے مہمان کو کھانے کی دعوت دی، لیکن اس نے انکار کیا اور کہا میں صرف چائے پی سکتی ہوں، لیکن اگر آپ کھانا چاہیں تو میرا ساتھ دے گی۔ ہم کچن میں چلے گئے۔ میں نے چائے بنائی اور اسے بسکٹ پیش کیے اور اپنے لیے روٹی کے ساتھ کاٹیج پنیر لیا۔ ہم ایک شادی شدہ جوڑے کی طرح ایک دوسرے کے سامنے میز پر بیٹھ گئے۔ ایک کاکروچ میز کے اس پار چلتا ہوا گیا، لیکن الزبتھ اور میں نے اسے پریشان نہیں کیا۔ میرے اپارٹمنٹ میں موجود کاکروچوں کو شاید معلوم تھا کہ میں سبزی خور ہوں اور ان کی نسل سے نفرت نہیں کرتا۔ جو انسان سے کئی سو ملین سال پرانی ہے اور بلاشبہ اس سے زیادہ زندہ رہے گی۔

الزبتھ نے دودھ کے ساتھ زیادہ پتی والی چائے لی اور میں نے لیموں کے ساتھ کم پتی کی۔ چائے کا گھونٹ لینے سے قبل میں نے چینی کا ایک ٹکڑا اپنے دانتوں کے درمیان رکھ لیا، جیسا کہ بلگورائی اور کلینڈیو میں رواج تھا۔ الزبتھ نے بسکٹوں کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ اس لیے میں نے آہستہ آہستہ وہ سب خود کھا لیے۔ اب ہمارے درمیان قربت کی فضا قائم تھی اور کسی تمہید کی ضرورت نہیں رہی تھی۔

میں نے اپنا سوال سنا۔ ”تم نے اس کے ساتھ سونا کب چھوڑا؟“
الزبتھ شرما گئی، لیکن شرم نے اس کے چہرے کے آدھے حصے کو ڈھانپا تھا، آہستہ آہستہ وہ بھی معدوم ہو گئی۔
”جو میں آپ کو بتاؤں گی۔ آپ اس پر یقین نہیں کریں گے۔“
”میں آپ کی ہر بات پر یقین کرتا ہوں۔“
”میں جسمانی طور پر کنواری ہوں۔“
اس نے کہا اور اپنے الفاظ پر حیران ہونے لگی۔

یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ میں اس بات سے زیادہ حیران نہیں ہوں، میں نے اطمینان سے کہا۔ ”کیا آپ نے کبھی اس بارے میں ڈاکٹر سے مشورہ کیا؟“

”نہیں۔“
”نفسیاتی تجزیہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟“
”لیسلی اور میں اس پر یقین نہیں رکھتے۔“
”کیا آپ کو مرد کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی؟“ میں نے اپنی بے باکی پر حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
اس نے چائے کا کپ اٹھا کر چسکی لی۔

”بہت زیادہ، لیکن میں کبھی کسی ایسے مرد سے نہیں ملی جس کے ساتھ میں رہنا چاہتی ہوں۔ یہ لیسلی سے ملنے سے پہلے تھا۔ جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا تو سوچا کہ لیسلی میرے لیے بنا ہے، لیکن اس نے کہا کہ تمھیں شادی ہونے تک انتظار کرنا ہو گا۔ مجھے یہ بیوقوفی لگ رہی تھی، لیکن ہم نے انتظار کیا اور جب شادی کرلی تو کئی بار کوشش کی، لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا تھا کہ کلیڈنوسکی ربی اس کی اجازت نہیں دے رہے، کیونکہ لیسلی ایک غیر یہودی ہے۔

”کیا آپ دونوں سنیاسی ہیں؟“

”سنیاسی؟ مجھے کوئی اندازہ نہیں۔ میں خوابوں میں ایک پرجوش عاشق ہوں۔ میں نے فرائیڈ، جنگ اور سٹیکل کو پڑھا ہے، لیکن وہ میری کوئی مدد نہیں کرسکے۔ یہ ایسا ہے جیسے کسی ڈیبک

(یہودی عقیدے کے مطابق زندہ شخص میں داخل ہونے والی مردہ شخص کی روح) نے مجھ پر قبضہ کر لیا ہے۔ مگر آپ کی تحریروں نے مجھ کو نیا جنم دیا۔ جب میں نے آپ کی کتابیں پڑھنا شروع کیں تو خواب میں آپ کو اپنے محبوب کے طور پر دیکھنے لگی اور آپ نے باقی سب کی جگہ لے لی۔ ”

الزبتھ نے چائے کی چسکی لی اور مسکرا کر بولی۔ ”پریشان مت ہوں، میرے یہاں آنے کا ایسا کوئی مقصد نہیں ہے۔“

میرا حلق خشک ہو رہا تھا۔ میں نے دبی آواز میں کہا۔ ”مجھے اپنے تصورات کے بارے میں بتاؤ۔“

”ہم ایک ساتھ وقت گزارتے ہیں، ساتھ سفر کرتے ہیں۔ آپ مجھے پولینڈ لے گئے اور ہم نے آپ کے بیان کردہ دیہاتوں کا دورہ کیا۔ میں تصور میں آپ کی بالکل یہی آواز اور لہجہ سنتی تھی۔ واقعی یہ بہت حیرت انگیز ہے۔“

”تمھاری محبت ناقابل فہم ہے۔“ میں نے اس کی سوچ کی پرواز سے خجل ہوتے ہوئے کہا۔

الزبتھ نے سر جھکا کر غور کیا۔ ”کبھی کبھی میں ان تصورات کے ساتھ سو جاتی ہوں اور وہ خواب بن جاتے ہیں۔ میں پرہجوم شہر دیکھتی ہوں، میں یدش سنتی ہوں۔ اگرچہ میں یہ زبان نہیں جانتی، لیکن خواب میں سب کچھ سمجھتی ہوں۔

اگر مجھے اس پر یقین نہیں ہوتا کہ وہاں بہت عرصے پہلے سب کچھ تباہ ہو چکا ہے تو میں یہ دیکھنے جاتی کہ میرے خواب حقیقت سے کیسے مطابقت رکھتے ہیں۔ ”

” ہاں اب وہ بہت مختلف جگہ ہے۔“

”ماں اکثر مجھے اپنے والد کے بارے میں بتاتی ہے۔ وہ میری نانی کے ساتھ اس وقت امریکہ آئی تھیں جب وہ آٹھ سال کی تھیں۔ نانا نے پچھتر سال کی عمر میں اٹھارہ سالہ لڑکی سے شادی کرلی تھی۔ اس شادی سے میری والدہ پیدا ہوئیں۔ چھ سال بعد نانا کا انتقال ہو گیا۔ انہوں نے مقدس متون کی بہت سی تشریحات چھوڑی تھیں۔ ان کا پورا خاندان جرمنوں کے ہاتھوں مارا گیا اور تمام مخطوطات کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا۔ میری نانی اپنے ساتھ عبرانی میں ایک کتابچہ بچا لائی تھیں، جسے وہ چھپوانے میں کامیاب ہوئی اور جو یہاں دالان میں میرے پرس میں ہے۔ شاید آپ کو اس پر ایک نظر ڈالنے میں دلچسپی ہو؟“

”ضرور۔“

”اتنی دیر میں برتن دھوتی ہوں۔ جب تک آپ یہاں بیٹھ کر اس کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ میں ابھی دادا جی کی کتابچہ لاتی ہو۔“

میں میز پر ٹھہرا رہا۔ الزبتھ میرے لیے ایک پتلا کتابچہ لے کر آئی جس کا نام ”موردکی کا احتجاج“ تھا۔ سرورق پر مصنف نے اپنا شجرہ نسب دیا ہے۔ اس کے مطابق میں واقعی اپنے مہمان سے کئی صدیوں پہلے خونی رشتوں سے جڑا ہوا تھا۔ ہم دونوں ربی موشے اسرلیس سے تعلق رکھتے تھے جس نے کتاب ”گہرائیوں کا کھولنے والا“ لکھا تھا۔

کتاب کے پیلے صفحات اتنے خشک تھے کہ جب میں انھیں پلٹتا تو کنارے جھڑنے لگتے۔
الزبتھ سنک میں پلیٹیں اور کپ دھو رہی تھی۔
”اس میں کیا لکھا ہے؟“ اس نے پوچھا۔

الزبتھ کو مختلف ربیوں کے درمیان اختلافات کے بارے میں کچھ سمجھانا مشکل تھا، لیکن پھر بھی مجھے کچھ باتیں بتانے کے لیے مل گئیں۔

میرے بولنے کے دوران ہی اس کی آنکھیں چمک اٹھیں اور وہ چلائی۔ ”ناقابل یقین!“

فون کی گھنٹی بجی اور میں الزبتھ کو چھوڑ کر دالان میں آیا۔ ایک بار پھر لیسلی ڈی سولر تھا۔ آپ کی بیوی کو فون پر بلاؤ؟ میں نے پوچھا۔ ”نہیں، مجھے آپ سے ذاتی طور پر کچھ باتیں کرنی ہیں۔“

”ہاں، میں سن رہا ہوں۔“

اولیور لیسلی ڈی سولر نے دوبارہ کھانس کر اپنا گلا صاف کیا۔ ”میری بیٹی بی بی آج دورے سے مرتے مرتے بچی ہے۔ ہمارا پورٹر نامی ایک پڑوسی ہے۔ وہ ہمارا دوست ہے۔ اسے کسی ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا مل گئی تھی۔ اب وہ سو رہی ہے۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میری بیوی جسمانی اور ذہنی طور پر بیمار ہے۔ وہ پہلے بھی دو بار خودکشی کی کوشش کرچکی ہے۔ دوسری بار اس نے نیند کی گولیوں کی اتنی خوراک لی تھی کہ اسے تین دن تک مصنوعی تنفس پر رکھا گیا۔

وہ آپ کے بارے میں اچھی رائے رکھتی ہے۔ حتی کہ آپ کو اپنے خاص انداز میں پسند کرتی ہے۔ مگر میں آپ کو متنبہ کرتا ہوں کہ آپ اس کی کسی بھی طرح حوصلہ افزائی نہ کریں۔ ہماری شادی انتہائی ناخوشگوار ہے اور میں بنیادی طور پر اس کے باپ کا روپ دھارتا جا رہا ہوں۔ کیونکہ اس کے والد نے اسے اور اس کی ماں کو بچپن میں ہی چھوڑ دیا تھا۔ اس کے والد کی بے حسی نے اس میں ایک طرح کی سرد مہری کو جنم دیا ہے۔ جس نے ہماری زندگی کو ایک ڈراؤنا خواب بنا دیا ہے۔

اس سے کسی قسم کا وعدہ مت کیجئیے گا۔ کیونکہ وہ صرف خوابوں کی دنیا میں رہتی ہے۔ اسے نفسیاتی تجزیہ کی ضرورت ہے، لیکن وہ ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتی۔ مجھے امید ہے کہ آپ ایک ذمہ دار شخص کی طرح برتاؤ کریں گے۔ وہ خواب آور گولیوں پر رہتی ہے۔ میں فلسفہ پڑھاتا تھا، لیکن شادی کے بعد مجھے یونیورسٹی چھوڑنی پڑی۔ خوش قسمتی سے میرے والدین امیر ہیں۔ وہ ہماری مدد کرتے ہیں۔ میں اس کی وجہ سے اتنا پریشان ہوں کہ میری طبیعت بھی خراب رہنے لگی ہے۔

وہ ان عورتوں میں سے ہے جو مردوں کی تمام طاقت چرا لیتی ہیں۔ اگر خدا نہ کرے آپ اس کے ساتھ تعلق جوڑتے ہیں تو آپ کا لکھنے کا ہنر اس کا پہلا شکار ہو گا۔ اگر وہ سولہویں صدی میں ہوتی تو یقیناً جادوگرنی سمجھ کر جلادی جاتی۔ ان سالوں میں جب میری اس سے آشنائی ہوئی ہے۔ میں کالے جادو پر یقین کرنے لگا ہوں۔ یہ یقیناً ایک نفسیاتی رجحان ہے۔ ”

”میں نے سنا ہے کہ آپ علم نجوم پر کتاب لکھ رہے ہیں؟“

”بکواس! کیا اس نے یہ بات کہی ہے؟ میں نیوٹن کی زندگی کے آخری تیس سالوں اور اس کے مذہبی عقائد کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ آپ یقیناً جانتے ہوں گے کہ نیوٹن کے مطابق کشش ثقل ایک خدائی قوت ہے، خدائی طاقت کا خالص اظہار۔ روئے زمین پر اب تک کا سب سے بڑا سائنسدان بھی گہرا صوفیانہ مزاج رکھتا تھا۔ چونکہ کشش ثقل کائنات کو کنٹرول کرتی ہے، اس لیے آسمانی اجسام اپنے تمام مظاہر میں نامیاتی اور روحانی دنیا کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ اس نقطہ نظر اور روایتی علم نجوم کے درمیان ایک گہری خلیج ہے۔“

”آپ کی بیوی کو بلاؤ؟“ میں نے پوچھا۔

”نہیں اور اسے مت بتائیے گا کہ میں نے فون کیا تھا۔ وہ مجھ پر کوئی خوفناک الزام لگا دے گی۔ ایک دن اس نے مجھ پر چاقو سے حملہ کیا تھا۔“

لیسلی اولیور سے گفتگو کے دوران الزبتھ نظر نہیں آئی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اسے دو پلیٹیں اور دو گلاس دھونے میں اتنا وقت کیوں لگا، پھر میں نے سوچا کہ شاید وہ میری گفتگو میں خلل ڈالنا نہیں چاہتی۔

میں نے فون بند کیا اور واپس کچن میں گیا۔ الزبتھ وہاں نہیں تھی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ کیا ہوا ہے۔ ایک تنگ راہداری، باورچی خانے سے شب خوابی کے کمرے تک جاتی تھی۔ جہاں میز پر دوسرا فون رکھا تھا۔ میں نے راہداری کا دروازہ کھولا الزبتھ دہلیز پر کھڑی تھی۔

”میں غسل خانے میں تھی۔“ اس نے شرمندہ ہو کر کہا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اپنا دفاع کر رہی ہے۔

میں نے سوچا شاید وہ ٹھیک کہہ رہی ہے، لیکن وہ کیسے جان سکتی تھی کہ یہ دروازہ اس طرف جاتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں غصہ اور چالاکی کی آمیزش تھی۔ میں نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ وہ کس قسم کی عورت ہے۔ آخر میں نے فیصلہ کیا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے۔ اس نے اپنا اعتبار کھو دیا تھا۔ میں نے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھے۔ اس کا چہرہ کسی بے شرم لڑکی کا چہرہ لگ رہا تھا جو کیک چوری کرتے یا اپنی ماں کے لباس میں ملبوس پکڑی گئی ہو۔

” تم معصوم بننے کی کوشش کر رہی ہو۔“ میں نے کہا۔

”ہاں، میں نے سب سنا ہے اور اب میں کبھی اس کے پاس واپس نہیں جاؤں گی۔“ اس نے مستحکم لہجے میں کہا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس نے وہ ماسک اتار دیا جو کئی سالوں سے پہنا ہوا تھا۔ وہ شوخ اور جوان نظر آ رہی تھی۔ اس نے اپنے ہونٹوں کو ایسے کھینچا جیسے مجھے چومنے والی ہو۔ میرے اندر جذبات سر ابھارنے لگے۔ میں اس کی طرف جھکا اور ہماری آنکھیں اتنی قریب ہو گئیں کہ مجھے اس کی آنکھ کی گہرائی میں صرف نیلا رنگ نظر آیا۔ ہم نے ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چھوا، لیکن بوسہ نہیں لیا۔ میرے گھٹنے اسے دبا رہے تھے۔ وہ پیچھے ہٹنے لگی۔ میں نے اسے تھوڑا سا دھکیلا، اچانک مجھے لیسلی کی آواز سنائی دی۔ ”خبردار! یہ ایک جال ہے!“

پھر فون کی گھنٹی بجی۔ میں اتنی تیزی سے اس سے الگ ہوا کہ وہ گرتے گرتے بچی۔ ایک فون کال ہمیشہ میرے اندر شدید اضطراری ردعمل پیدا کرتی ہے۔ میں اکثر اپنا موازنہ پاولوف کے کتے سے کرتا ہوں۔ ایک لمحے کے لیے میں ہچکچایا کہ سونے کے کمرے کی طرف جاؤں یا راہداری کی طرف؟ آخر میں راہداری کی طرف بھاگا۔ الزبتھ میرے پیچھے تھی۔ میں نے فون اٹھایا تو اس نے فون چھیننے کی کوشش کی، مجھے یقین تھا کہ اس کا شوہر دوبارہ فون کر رہا ہے، لیکن ایک بوڑھی خاتون کی رعب دار آواز سنائی دی:

” کیا الزبتھ آپ کے ساتھ ہے؟ میں اس کی ماں ہوں۔“

پہلے تو میں اس کی بات نہیں سمجھا۔ میں مہمان کا نام بھول گیا تھا، لیکن ایک لمحے کے بعد مجھے ہوش آیا۔ ”ہاں، وہ یہاں ہے۔“

میرا نام مسز ہاروی لیمکن ہے۔ مجھے اپنے داماد ڈاکٹر لیسلی ڈی سولر کا فون آیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ بیمار بچی کو چھوڑ کر تمہارے پاس چلی آئی ہے۔ میں تم کو خبردار کرنا چاہتی ہوں کہ میری بیٹی ذہنی طور پر صحت مند نہیں ہے اور نہ اپنے اعمال کی پوری طرح ذمہ دار ہے۔ ڈی سولر اور میں نے اس کے علاج پر بہت خرچ کیا ہے، لیکن بدقسمتی سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ وہ تینتیس سال کی عمر میں بھی بچی ہے۔ اگرچہ میں یہ بات تسلیم کرتی ہوں کہ وہ غیر معمولی طور پر ذہین ہے اور میرے خیال میں بہت شاندار شاعری کرتی ہے۔

آپ ایک مرد ہیں اور میں جانتی ہوں کہ جب ایک جوان اور خوبصورت عورت مرد کی تعریف کرتی ہے تو وہ بہک سکتا ہے۔ آپ اس سے لگاؤ نہ ظاہر کریں۔ ورنہ آپ خود کو ایسی کہانی میں پائیں گے جس سے آپ کبھی نہیں نکل پائیں گے۔ اس کی وجہ سے مجھے نیویارک چھوڑنا پڑا۔ جو مجھے دل سے عزیز ہے اور اب خود کو ایریزونا میں زندہ دفن کر رہی ہوں۔ میری بیٹی نے آپ کی اتنی تعریف کی ہے کہ میں نے آپ کی کتابیں انگریزی اور یدش میں پڑھنا شروع کردی ہیں۔ میں ربی کی بیٹی ہوں اور یدش اچھی طرح جانتی ہوں۔ میں آپ کو بہت سی دلچسپ باتیں بتا سکتی ہوں اور آپ سے مل کر مجھے بے حد خوشی ہوگی۔ میں وقتاً فوقتاً نیویارک آتی ہوں۔ بہرحال میں آپ کو مقدس چیزوں کا واسطہ دیتی ہوں کہ میری بیٹی کو اکیلا چھوڑ دیں۔ ”

جب اس کی ماں بول رہی تھی، الزبتھ میرے قریب کھڑی خوف، الجھن اور تجسس سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ پھر اس نے قریب آنے کی کوشش کی لیکن میں نے اسے اپنے آزاد ہاتھ سے پیچھے کر دیا۔ میرے ذہن میں غیر ارادی طور پر کسی اسکول کی لڑکی کی تصویر ابھر آئی۔ جسے استاد اس کے والدین کی موجودگی میں ڈانٹتے ہیں اور اس میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ ان الزامات کی تردید کرسکے۔ مسز ہاروی اتنی اونچی آواز میں بول رہی تھی کہ الزبتھ نے یقیناً ہر لفظ سنا ہو گا۔

ابھی میں جواب دینے ہی والا تھا کہ وہ آگے بڑھی، مجھ سے فون چھین لیا اور ہذیانی انداز میں چیخ کر کہا۔ ”ماں! میں تمھیں کبھی معاف نہیں کروں گی! کبھی نہیں! تم اب میری ماں نہیں رہی اور میں تمہاری بیٹی نہیں! تم نے مجھے اس ذہنی مریض کے ہاتھ بیچ دیا ہے۔ مجھے تمھاری اور تمھارے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔ جب بھی قسمت مجھے خوشی کا کوئی موقعہ دیتی ہے، تم سب کچھ بگاڑ دیتی ہو! تم میری سب سے بڑی دشمن ہو! میں تمہیں مار دوں گی! تم کتیا، کسبی اور چور ہو۔ تم پیسوں کے لیے اسی سالہ کمینے کے ساتھ سوتی ہو! میں تم پر تھوکتی ہوں! میں تم پر تھوکتی ہوں!“

اس کے ہونٹوں سے جھاگ نکلنے لگے۔ اس نے تشنجی کیفیت میں درد سے کراہتے ہوئے دیوار کو پکڑا۔ میں اس کی مدد کے لیے بڑھا، لیکن میرے پاس وقت نہیں تھا۔ وہ ایک دھماکے کے ساتھ فرش پر گر گئی، فون بھی گر گیا تھا۔ اسے دورہ پڑ رہا تھا۔ پہلے اس کے جسم نے تن کر ایک خوفناک محراب بنائی۔ پھر اس کے ہاتھ تیزی سے نیچے آئے اور فرش پر ٹکرائے۔ جیسے نیچے سے میرے پڑوسی کو اشارہ دے رہے ہوں۔ اس کا چہرہ ٹیڑھا ہو رہا تھا، میں نے سانسوں کی گھرگھراہٹ سنی، اس کا دم گھٹ رہا تھا۔ بظاہر یہ مرگی کا دورہ تھا۔ میں نے فون اٹھایا اور چیخا۔ ”مسز لیمکن! آپ کی بیٹی کو دورہ پڑ رہا ہے!“

لیکن رابط ٹوٹ چکا تھا۔ ایمبولینس کو بلانا ضروری تھا۔ لیکن میرا فون خراب ہو گیا تھا۔ کھڑکی کھول کر مدد کے لیے چیخوں؟ لیکن گیارہویں منزل سے سڑک کے شور میں کون سنے گا؟ میں جلدی سے کچن میں گیا، گلاس میں پانی انڈیلا اور الزبتھ کے چہرے پر چھڑکا۔ وہ دردناک آواز میں دھاڑی جس سے تھوک اڑ کر میرے ماتھے پر آیا۔

میں پھرتی سے اٹھا، دروازہ کھول کر باہر نکلا اور پڑوسی کا دروازہ پیٹ ڈالا۔ مگر دروازہ نہیں کھلا۔ مجھے اس کی دہلیز پر رسالوں اور خطوط کا ڈھیر نظر آیا۔ میں اپنے گھر میں واپس جانے کے لیے گھوما، اچانک مجھ پر خوفناک انکشاف ہوا کہ دروازہ بند ہو چکا ہے اور چابی اندر ہے۔ میں نے اپنے کندھے سے دروازہ کھولنے کی کوشش کی، لیکن افسوس میں ان بڑے لوگوں میں سے نہیں ہوں جو ایسا کر سکتے ہیں۔

تب مجھے یاد آیا کہ نیچے لابی میں بلڈنگ کے دفتر کے میں اضافی چابی ہوتی ہے۔ میں وہاں سے ایمبولینس کو بھی فون کر سکتا تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ اگر الزبتھ میرے اپارٹمنٹ میں مر گئی تو اس کی والدہ اور شوہر میرے ساتھ کیا کریں گے۔ وہ مجھ پر قتل کا الزام بھی لگا سکتے تھے۔ میں نے مال بردار لفٹ کا بٹن دبایا، لیکن وہ مصروف تھی، تیر کے نشان سے لگتا تھا کہ سترہویں منزل پر رکی ہوئی ہے۔ میں تیزی سے سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔

میں دل ہی دل میں اپنے جنم دن کو کوس رہا تھا۔ اسی وقت لفٹ نیچے جانے کی آواز آئی۔ لابی میں دو آدمیوں نے ایک صوفہ رکھ کر سامنے کا دروازہ بند کر رکھا تھا، سترہویں منزل سے کوئی گھر چھوڑ رہا تھا۔ ہال کے فرش پر جابجا، فرنیچر، گلدانوں اور کتابوں کے بنڈلوں کے ڈھیر لگے تھے۔ میں نے گزرنے کے لیے راستہ صاف کرنے کا کہا، لیکن مزدور بہرے بن گئے۔ میں نے سوچا، میں اس دورے سے بچ نہیں پاؤں گا، اچانک مجھے یاد آیا کہ چھٹی منزل پر ایک ٹائپسٹ رہتا ہے۔

وہ اکثر میرے مسودات ٹائپ کرتا تھا۔ وہ یا گھر کا کوئی فرد ایمبولینس کو اور چابیوں کے بارے میں دفتر کو فون کرنے میں میری مدد کر سکتا ہے۔ میں تیزی سے چھٹی منزل پر پہنچا۔ میرا دل دھڑک رہا تھا اور جسم پر پسینہ بہہ رہا تھا۔ میں نے ٹائپسٹ کے دروازے کی گھنٹی بجائی، کسی نے جواب نہیں دیا۔ میں دوبارہ نیچے اترنے ہی والا تھا کہ زنجیر لگے لگے ذرا سا دروازہ کھلا اور ایک آنکھ دکھائی دی۔ پھر ایک عورت کی آواز آئی۔ ”تم کیا چاہتے ہو؟“

میں نے ہانپتے ہوئے بے ربط ٹکڑوں میں اپنی بات سمجھانے کی کوشش کی کہ کس طرح ایک انسانی جان کو خطرہ ہے۔ اس کی نظر آنے والی واحد آنکھ میں مجھے واضح غصہ اور بیزاری نظر آ رہی تھی۔

”میں گھر کی مالکن نہیں ہوں۔ وہ بیرون ملک گئے ہیں۔ میں اس کی کزن ہوں۔“

”میں آپ سے مدد مانگ رہا ہوں۔ یقین کریں میں ڈاکو نہیں ہوں۔ آپ کا بھائی میرے تحریریں ٹائپ کرتا ہے، شاید آپ نے میرا نام سنا ہو گا؟“

میں نے اخبار کا نام اور اپنی چند کتابوں کے نام لیے، لیکن اس نے میرے بارے میں کچھ نہیں سنا تھا۔

کچھ ہچکچاہٹ کے بعد بالآخر اس نے کہا۔ ”پھر بھی میں آپ کو اندر آنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ آپ یہیں ٹھہریں میں آفس فون کرتی ہوں۔ آپ نے کیا نام بتایا؟“

میں نے اپنا نام اور اپنے اپارٹمنٹ کا نمبر دہرایا اور شکریہ ادا کیا۔ اس نے دروازہ بند کر دیا۔ میں نے سوچا ابھی دروازہ کھلے گا اور وہ مجھے بتائے گی کہ آفس میں فون کر دیا ہے، لیکن سات منٹ گزر گئے اور کوئی نہیں آیا۔ میں دکھی اور خاموش کھڑا انسانی تلخ رویوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ ہم سب حالات کے کتنے غلام ہیں۔ ذرا سی غلط فہمی اور اب سب کچھ الٹا ہو گیا۔ خلاصہ یہ کہ اس صورت حال سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ آپ کو رنگ رلیاں منانا چھوڑ دینا چاہیے اور اسباب و اثرات کی زنجیر کو توڑ کر ہمت کے ساتھ موت کا سامنا کرنا چاہیے جو کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔

مزید پانچ منٹ گزر گئے، مگر دروازہ نہیں کھلا۔ میں یہ سوچتے ہوئے نیچے کی طرف بھاگا۔ اگر میرے پاس لامحدود طاقت ہوتی تو میں اس پتھر دل عورت کے ساتھ کیا کرتا۔ جب میں لابی میں پہنچا، صوفہ باہر لے جایا جا چکا تھا۔ میں نے ہاؤس کمیٹی کے چیئرمین مسٹر براؤن کو دیکھا اور اسے اپنی حالت زار کے بارے میں بتایا۔ اس کی نگاہوں سے حیرت کا اظہار ہو رہا تھا۔ وہ بولا۔ ”نہیں، کسی نے فون نہیں کیا۔ آئیں میں آپ چابی دیتا ہوں۔“

مال بردار لفٹ خالی تھی۔ میں گیارہویں منزل پر اپنے اپارٹمنٹ میں آیا۔ الزبتھ پراگندہ حالت میں بغیر جوتوں کے گیلے بالوں کے ساتھ صوفے پر بے حال پڑی تھی۔ اس کے چہرے پر زردی نمایاں تھی۔ میں نے بمشکل اسے پہچانا۔ وہ ادھیڑ عمر لگ رہی تھی، تقریباً پچاس سال کی۔ میں نے اس کے سر کے نیچے تولیہ رکھا۔ اس نے میری طرف اس بیوی کی خاموش ملامت بھری نظروں سے دیکھا۔ جس کا شوہر اسے بیمار اور تنہا چھوڑ کر خود تفریح کرنے چلا گیا ہو۔ میں نے ہذیانی آواز میں کہا۔ ”ڈئیر الزبتھ! اپنے شوہر کے گھر جاؤ! میں ان مہم جوئیوں کے لیے بہت بوڑھا ہوں۔“

اس نے میری باتوں پر غور کیا اور دھیمے لہجے میں بولی۔ ”اگر آپ چاہتے ہیں تو میں چلی جاؤں گی، لیکن لیسلی کے پاس نہیں۔ آج اس سے اور ماں کے ساتھ میرا تعلق ختم ہو گیا۔ میں اس دنیا میں اکیلی ہوں۔“

”تم کہاں جاؤں گی؟“
”ہوٹل میں۔“

”تم کو سامان کے بغیر کمرہ نہیں ملے گا۔ اگر تمھارے پاس پیسے نہیں ہیں تو میں اس کا انتظام کر سکتا ہوں۔“

”میرے پاس چیک بک ہے، لیکن میں آپ کے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتی؟ میں زیادہ صحت مند نہیں ہوں، لیکن مجھے کوئی بڑی بیماری نہیں ہے بلکہ اعصابی کمزوری ہے اور یہ ان لوگوں کی وجہ سے ہے۔ میں ٹائپ کر سکتی ہوں، شارٹ ہینڈ لے سکتی ہوں۔ اوہ میں بھول گئی۔ آپ یدش میں لکھتے ہیں۔ میں یدش کچھ عرصے میں سیکھ لوں گی۔ میری والدہ جب کوئی بات چھپانا چاہتی تو میری نانی سے یدش میں بات کرتی تھیں۔ میں بہت سے الفاظ سمجھتی ہوں۔ میرے پاس ویجیٹیرین فوڈ کی ایک کتاب بھی ہے۔ میں آپ کے لیے مزیدار کھانے بنا سکتی ہوں۔“

میں نے خاموشی سے اسے دیکھا۔ ہاں وہ یقینی طور پر میری رشتہ دار تھی۔ ہمارے آبا و اجداد کے جین ہم دونوں میں منتقل ہوئے تھے۔ ایک لمحے کے لیے مجھے خیال آیا کہ ہماری زندگی مل کر اچھی گزر سکتی ہے۔ مگر دوسرے ہی لمحے میں اس نازیبا خیال پر ششدر رہ گیا۔ وہ میری محرم تھی، ہمارا اس طرح رہنا مجھے بے حیائی کے گڑھے میں ڈال دیتا۔

”یہ یقیناً پرکشش لگتا ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ ناممکن ہے۔“ میں نے کہا۔

”کیوں؟ آپ کا خیال کرنے والا نہیں ہونا چاہے؟ آپ نوکرانی نہیں رکھ سکتے؟ میں سب کچھ کروں گی۔ گھر کی صفائی اور کھانا پکانا۔ آپ کا اپارٹمنٹ کتنا گندا ہو رہا ہے اور آپ شاید کھانا باہر کھاتے ہیں۔ اگرچہ میں اپنے گھر میں کچھ نہیں کرتی کیونکہ مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، لیکن میری ماں نے مجھے گھریلو معاشیات کی تعلیم دلوائی ہے۔ میں بلا تنخواہ کام کروں گی۔ میرے والدین بہت امیر ہیں۔ میں ان کی اکلوتی بیٹی ہوں۔ مجھے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔“

میں جواب دینے ہی والا تھا کہ دروازے پر زوردار دستک ہوئی اور اسی وقت ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔

میں نے فون اٹھایا اور کہا کہ دروازے کی گھنٹی بج رہی ہے، پھر اسے کھولنے کے لیے تیزی سے بڑھا۔ دروازے پر اولیور لیسلی ڈی سولر کھڑا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا، لمبا اور پتلا دبلا آدمی، لمبی گردن اور لمبے چہرے والا، اس کے گنجے سر کے گرد بے رنگ بالوں کی پتلی جھالر سی تھی۔ وہ پلیڈ سوٹ ( چیک دار فلالین کپڑا) اور ایک سخت کالر والی قمیض میں ملبوس تھا۔ جس میں ایک پتلی ٹائی بہت چھوٹی گرہ کے ساتھ بندھی تھی۔

ایسا لگتا تھا کہ وارسا ڈینڈیز نے ایک بار یہ لباس پہنا تھا۔ میں نے اس کی طرف دیکھ کر سر ہلایا اور فون پر واپس چلا گیا۔ مجھے یقین تھا کہ فون الزبتھ کی ماں کا ہو گا، لیکن اس کے بجائے میں نے ایک سخت مردانہ آواز سنی جس نے میرا نام پکارا اور تصدیق کرنے کا مطالبہ کیا کہ یہ میں ہی ہوں۔ اس کے بعد اس نے متاثر کن سرکاری لہجے میں کہا۔ ”میرا نام ہاورڈ ولیم مون لائٹ ہے اور میں مسز ہاروی لیمکن کی نمائندگی کرتا ہوں جو مسز الزبتھ ڈی سولر کی والدہ ہیں، میں یقین کرتا ہوں کہ آپ۔“

میں نے قطع کلامی کی۔ ”لیسلی ڈی سولر یہاں موجود ہے۔ وہ تم سے بات کرے گا!“

میں دروازے پر پہنچا، جہاں میرا نیا مہمان مہذب انداز میں اندر آنے کی اجازت کا منتظر کھڑا تھا۔ میں چلایا۔ ”مسٹر ڈی سولر! آپ کی بیوی کو آئے دو گھنٹے بھی نہیں گزرے اور یہ گھر پاگل خانہ بن گیا ہے! مجھے فون پر دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ پہلے تمھاری، پھر تمہاری ساس کی اور اب اس کے وکیل کی۔ تمھاری بیوی کو مرگی کا دورہ پڑا تھا۔ مجھے یہ کہنا اچھا تو نہیں لگتا، لیکن میں تمھاری بیوی، تمھاری ساس، تمھارے وکیل اور یہ ساری افراتفری یہاں نہیں چاہتا۔ مجھ پر احسان کرو اور اسے گھر لے جاؤ ورنہ میں۔“

یہاں میں رک گیا۔ میں کہنا چاہتا تھا کہ میں پولیس کو بلا لوں گا، لیکن الفاظ میرے حلق میں اٹک گئے۔ میں نے الزبتھ کو ٹیلی فون ریسیور میں کچھ بڑبڑاتے ہوئے دیکھا اس کی نظریں مجھ پر اور بن بلائے مہمان پر جمی تھیں۔ جو عجیب پتلی آواز میں جو اس کی شکل سے میل نہیں کھاتی تھی کہہ رہا تھا۔ ”میرا خیال ہے کہ کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔ میں وہ شخص نہیں ہوں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ میرا نام جیفری لیوشٹس ہے۔ میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں ادب کا پروفیسر ہوں اور آپ کا بہت بڑا مداح ہوں۔ آپ کے پڑوس میں میرا ایک دوست رہتا ہے۔ آج جب میں اس سے ملاقات کے لیے آیا تو اس نے بتایا کہ آپ یہاں رہتے ہیں۔ میں فون کرنا چاہتا تھا، لیکن فون بک میں آپ کا نام نہیں ملا۔ لہذا میں نے سوچا کہ دروازے پر دستک دوں۔ معذرت، ایسا لگتا ہے کہ میں نے آپ کو پریشان کیا ہے۔“

”آپ نے بالکل پریشان نہیں کیا۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ میرے قاری ہیں، لیکن یہاں واقعی کچھ ناقابل تصور ہو رہا ہے۔ آپ کتنے دنوں تک نیویارک میں ہیں؟“

”ایک ہفتے تک۔“
”کیا آپ کل آسکتے ہیں؟“
”بالکل۔“
”تو پھر کل گیارہ بجے۔“
”بہت خوب، یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے، دخل اندازی کے لیے دوبارہ معذرت۔“ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔

الزبتھ کی نظریں خاموشی سے مجھ پر جمی تھیں۔ میں چند قدم آگے بڑھا اور بولا۔ ”معذرت! تم ایک شاندار عورت ہو، لیکن میں تمہارے شوہر، تمہاری ماں اور اب اس کے وکیل سے نہیں لڑ سکتا۔ آخر اسے فون کرنے کی کیا ضرورت تھی؟“

”وہ سب پاگل ہیں۔ میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ میں آپ کو پریشان نہیں کروں گی۔ آج جو کچھ ہوا اس نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ میرے لیے ایک ہی راستہ ہے۔ میں صرف یہ بتانا چاہتی ہوں کہ آپ نے غلط تشخیص کی ہے۔ یہ مرگی نہیں ہے۔“

”پھر کیا ہے؟“

” ڈاکٹر خود نہیں جانتے۔ وہ کسی قسم کی حساسیت کہتے ہیں۔ یہ شاید مجھے ہمارے مشترکہ اجداد سے وراثت میں ملی ہے۔ ویسے اس کتاب کا نام کیا ہے؟“

”گہرائیوں کا انکشاف کرنے والا“
”آپ نے گہرائیوں میں کیا دریافت کیا؟“
”محبت رائیگاں نہیں جاتی۔“ میں نے کہا۔ حالانکہ میں نے اس کی ایک سطر بھی نہیں پڑھی تھی۔ ”
”کیا وہ بتاتا ہے کہ ہمارے خواب، ہماری خواہشات، ہماری محبت کہاں جاتی ہے؟“
”وہ کہیں ٹھہر جاتی ہیں۔“
”کہاں گہرائیوں میں؟“
”آسمانی محفوظ شدہ دستاویزات میں۔“ میں نے کہا۔

”یہاں تک کہ آسمان بھی ایسی محفوظ شدہ دستاویزات کے لیے چھوٹے ہیں۔ اچھا، میں چلتی ہوں۔ اوہ خدا! پھر کوئی فون کر رہا ہے۔ براہ کرم جواب نہ دیں۔“

میں نے فون اٹھایا، لیکن خاموشی چھائی رہی۔ ”لیسلی ہو گا۔ یہ اس کا ہی احمقانہ انداز ہے۔“ میں نے کہا۔
”گہرائیوں کو تلاش کرنے والا دیوانگی کے بارے میں کیا لکھتا ہے؟“
” سب کچھ۔“

”خیر یہ جانے کا وقت ہے۔ اگر میں پاگل نہ ہوئی تو شاید آج ہی ہوٹل سے آپ کو دوبارہ فون کروں گی۔“ الزبتھ نے کہا۔

اس نے مجھے دوبارہ فون نہیں کیا اور نہ ہی خط لکھا۔ وہ اپنی خوشنما چھتری اور نانا کا بظاہر وہ واحد بچ جانے والا کتابچہ میرے اپارٹمنٹ میں چھوڑ گئی تھی۔ جس کی واپسی کا اس نے کبھی مطالبہ نہیں کیا۔ یہ بات میرے لیے ایک معمہ بنی ہوئی ہے، لیکن اس دورے سے جڑا ایک اور راز جلد ہی کھل گیا۔ میں نے اپنے ٹائپسٹ سے ملاقات کی اور کزن کے نامناسب رویے کی شکایت کی۔ ٹائپسٹ مسکرا کر بولا۔ ”آپ نے غلط دروازے پر دستک دی تھی۔ میں چھٹی منزل پر نہیں بلکہ پانچویں منزل پر رہتا ہوں۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments