مدیر نگار اسلم الیاس رشیدی صاحب سے ایک بات چیت


(بانی نگار ویکلی اور نگار ایوارڈ الیاس رشیدی صاحب کی 25 ویں برسی کے موقع پر)

نگار ویکلی 1948 سے جاری ہوا۔ اس میں ریاض شاہد، حبیب جالبؔ، ابراہیم جلیس، طفیل احمد جمالی، حمایت علی شاعرؔ، علی سفیان آفاقی ؔ، بشیر نیاز، کلیمؔ عثمانی، یاسین گوریچہ، مسرورؔ انور، حمید کاشمیریؔ، اے۔ حمید، اسد جعفری اور یونس ہمدمؔ لکھتے رہے۔ پھر ایک زمانہ آیا کہ کسی کی تحریر کا نگار میں لگنا اعزاز کی بات سمجھی جاتی۔ کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان میں سالانہ 120 فلمیں بنتی تھیں جو گھٹ کر صرف 25 رہ گئیں۔ سندھی فلمیں تو بننا بالکل ہی بند ہو گئیں۔

ان پچیس فلموں میں پنجابی، پشتو اور اردو سب شامل ہیں۔ اب گنتی کی چند فلموں میں ایوارڈ کیسے ہو؟ لہٰذا ملٹی نیشنل کمپنیوں سے اس ایوارڈ کو بھلا کس جواز کے تحت اسپانسر کیا جا سکتا تھا۔ عوام تو نگار ایوارڈ کے نہ ہونے پر فکر مند ہیں، حقیقت یہ ہے اس خراب فلمی صورت حال پر بھی نگار کسی نہ کسی طرح بغیر رکے مسلسل شائع ہو رہا ہے۔ یہ بلا شبہ ایک بڑا اعزاز ہے۔ پاکستان بننے کے بعد نگار ویکلی سب سے قدیم ہفت روزہ ہے۔

طوفان میں دیا:

میں جب بھی کراچی جاتا ہوں نگار ویکلی کے روح رواں اسلم الیاس رشیدی صاحب سے لازما ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک یادگار ملاقات گزشتہ سال 17 دسمبر کو ہوئی جس میں نگار کے شائقین کے لئے ان سے ایک بات چیت ریکارڈ کی گئی۔ آج ادارے کو قائم ہوئے 74 سال ہو گئے۔ ہماری فلمی صنعت اور اس ادارے نے ایک ساتھ کیا کیا مشکلات نہیں دیکھیں پھر بھی اسلم صاحب آج بھی طوفان میں دیا جلائے ہوئے ہیں۔

اسلم الیاس رشیدی، ایک تعارف:

” سب سے پہلے شاہد لطیف صاحب کا شکریہ کہ وہ میرا انٹرویو کر رہے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیا ہم اپنے ہی ادارے میں اس بات چیت کو لگائیں گے؟ تو وہ کہنے لگے کہ کوئی ایسی بات نہیں کیوں کہ آپ کے ادارے کی بھی ایک تاریخ ہے۔ آپ نے نشیب و فراز دیکھے ہوں گے۔ مجھے ان کی بات کچھ معقول لگی اور۔ “

” یہ غالباً 1974 / 1975 کا دور تھا جب میں نے نگار کے آفس آنا شروع کیا۔ میٹرک کے امتحان دینے کے بعد دو تین مہینوں کی چھٹیاں تھیں لہٰذا والد صاحب سے پوچھا کہ کیا میں ان کے ساتھ نگار کے آفس جایا کروں؟ وہ کہنے لگے وہاں جا کر کیا کرو گے؟ میں نے کہا کہ دفتر میں بیٹھ جاؤں گا۔ کہنے لگے ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی۔ یوں میری شروعات ہوئیں۔ والد صاحب سے بات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ بہت محنت کرتے تھے۔ صبح نکلتے اور رات کے ایک بجے آتے۔

میں نے سوچا یہ اکیلے ہیں ان کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔ کبھی لاہور جا رہے ہیں کبھی بنگلہ دیش۔ پھر کالج شروع ہو گیا۔ وہاں سے دوپہر کو آفس آ جاتا۔ متواتر دو سال جانے کے بعد وہاں ایک دو روز نہیں گیا تو والد صاحب کچھ نہیں بولے۔ البتہ جب شام کو وہ واپس آئے تو اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ بھئی دو ہی دن کا شوق تھا؟ میرے لئے یہ غیر متوقع سوال تھا لہٰذا طبیعت کی خرابی کا بہانہ کر دیا۔ اس کے بعد میرے ذہن میں آیا کہ یہ بات والد صاحب نے کچھ سوچ کر کہی ہو گی اور یقیناً انہیں میری ضرورت ہے۔

اور پھر اس دن کے بعد آج تک دکھ درد بیماری کے علاوہ میں نے ناغہ نہیں کیا۔ میں نے ادارے میں نچلی سطح ہی سے کام سیکھا۔ والد صاحب کے دنیا سے چلے جانے کے بعد مجھے کام میں کوئی زیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔ اس لئے کہ پرچہ نکالنے کے تمام شعبوں میں انہوں نے مجھ سے کام کروایا۔ فلمی اور غیر فلمی انداز سے میں واقف ہو گیا۔ جو باتیں میں نے والد صاحب سے سیکھیں وہ آج میرے کام آ رہی ہیں“ ۔

والد صاحب کی شخصیت:

” الیاس صاحب نے ہمیشہ اپنے آپ کو فلم انڈسٹری کے لئے رکھا۔ گھر کے سربراہ کی حیثیت سے بھی انہوں نے اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائیں۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے کام کو ترجیح دی۔ بہت ضروری ہوتا تو غمی شادی میں جاتے۔ ایک میرے والد ہی نہیں بلکہ شعبہ صحافت سے منسلک افراد کے ساتھ یہ ہی کچھ ہوتا ہے۔ ایک روزنامے کے معروف مدیر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے نکاح کے فوراً بعد اپنے دفتر آ گئے کیوں کہ کاپی پریس میں جانے والی تھی۔ یہی چیز میں نے بھی الیاس صاحب سے سیکھی“ ۔

صحافی گھرانا:

” الیاس صاحب کا تعلق اخباری گھرانے سے تھا۔ ان کے سب سے بڑے بھائی عثمان آزاد ہندوستان کی تقسیم سے پہلے قائد اعظم رحمۃااللہ اور مسلم لیگ کا ترجمان اخبار ’انجام‘ سے وابستہ تھے۔ بہت نڈر لکھنے والے تھے۔ انہوں نے جیلیں بھی کاٹیں۔ روزنامہ ’انجام‘ کراچی سے 1965 تک شائع ہوا۔ پھر ایک اور بڑے بھائی عمر فاروقی صاحب تھے۔ یہ بھی عثمان آزاد صاحب کے ساتھ ایڈیٹر تھے۔ جب انجام بند ہوا تو انہوں نے اپنا شام کا اخبار روزنامہ ’آغاز‘ نکالا جو اب بھی باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے۔

الیاس صاحب نے فلم انڈسٹری کو بہت کچھ دیا۔ صحافتی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے نا مساعد حالات میں بھی انہوں نے نگار جاری رکھا۔ شاید یہ ان کی نیک نیتی اور محنت ہی تھی کہ آج ستر سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا اور اخبار اپنی جگہ پر نکل رہا ہے۔ یہ ان ہی کا لگایا ہوا بیج تھا جو ہماری فلم انڈسٹری کے لئے اب تناور درخت بن چکا ہے۔ انہوں نے ہر ایک کام خود کیا۔ حالاں کہ ان کے دوست احباب بھی تھے۔ ان میں بہت سے دوست اچھے بھی تھے جنہوں نے ان کا ساتھ دیا۔ ان کے فیصلے عموماً اپنے ہی ہوتے تھے۔ پھر نگار ایوارڈ کا جاری کرنا پھر اسے قائم رکھنا خود ایک بڑا کام تھا۔ جب کہ بڑے بڑے ایوارڈ آئے اور ختم ہو گئے۔

نگار ایوارڈ:

” والد صاحب کی سوچ تھی کہ جب ہندوستان میں فلم فیئر ایوارڈ دیے جا سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ اسی پس منظر میں پہلا نگار فلم ایوارڈ 1956 کی فلموں کے لئے 1957 میں فلم ’‘ وعدہ“ کو دیا گیا۔ ہر کام کرنے کے لئے ملکی حالات اہم ہوا کرتے ہیں۔ 1965 کی جنگ ہوئی، مارشل لاء لگے لیکن نگار ایوارڈ تسلسل کے ساتھ جاری رہے۔ ہمارے ملک میں شاید ہی کوئی اور چیز اس قدر تسلسل سے کی گئی ہو۔ یہ ایوارڈ بھی ”سیلف کمیٹڈ” تھے۔ یہ الیاس رشیدی صاحب کے فیصلے تھے، تن تنہا ”۔

” نگار ایوارڈ کو پاکستان کے سب سے بڑے اور مستند ایوارڈ کی حیثیت حاصل ہے۔ ملکی فلمی صنعت کی ترقی میں اس ایوارڈ کا کردار بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ الیاس رشیدی صاحب نے پاکستانی فلمی صنعت کی حوصلہ افزائی کے لئے اس ایوارڈ کا آغاز کیا تھا۔ 1997 میں ان کے انتقال کے بعد بھی باقاعدگی سے 2004 تک یہ ایوارڈ ہوتا رہا۔ لیکن فلمی صنعت کے تلے اوپر بحرانوں کی وجہ سے جب کہ فلمیں نہیں بن رہی تھیں ایک مرتبہ جو نگار ایوارڈ کا سلسلہ منقطع ہوا تو پھر ہوتا ہی چلا گیا۔ ایسے میں ایوارڈ کی تقریب کا بھی کوئی جواز نہ تھا۔ 46 سال باقاعدگی سے دیے جانے والا قابل ذکر ایوارڈ 2008 کے بعد چار سال تک تعطل کا شکار رہا۔ 2013 میں ایک دفعہ اور نگار ایوارڈ کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ 47 واں نگار ایوارڈ اب تک کا آخری ایوارڈ ہے جو 16 مارچ 2017 کو منعقد ہوا“ ۔

” بہت سے کٹھن مراحل اور پریشانیاں آئیں لیکن انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ نگار کو بند کر دیں! جب کہ بہت سے لوگوں نے مشورہ دیا کہ کیوں اپنی جان کو ہلکان کر رہے ہیں۔ الیاس صاحب اپنی دھن کے پکے تھے۔ حکومتی حلقوں میں بھی اس ایوارڈ کو بہت عزت اور احترام سے دیکھا جاتا تھا اور ہے۔ 34 ویں نگار ایوارڈ کی تقریب کے دوران الیاس رشیدی صاحب نے فلمی صنعت کی زبوں حالی کی وجہ سے ایوارڈ کے اس سلسلہ کو بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس پر میڈم نورجہاں نے اسٹیج پر آ کر کہا کہ جب تک الیاس صاحب فیصلہ واپس نہیں لیتے ہم لوگ ہال سے واپس نہیں جائیں گے۔ اس پر رشیدی صاحب کو کہنا پڑا کہ جب تک وہ زندہ ہیں آپ لوگوں کی خاطر نگار ایوارڈ قائم رہے گا“ ۔

الیاس رشیدی نے جو عظیم الشان کام نگار ایوارڈ کی صورت میں شروع کیا تھا اس نے پاکستان میں مکمل غیر جانبداری اور قابلیت کی کڑی شرائط کا ایک نظام وضع کیا۔ مجھے ان کے صاحب زادے اسلم الیاس رشیدی کے ساتھ بات چیت کر کے بہت خوشی ہوئی کہ خواہ نگار ایوارڈ مزید کچھ عرصہ نہ ہوں کوئی بات نہیں۔ ایوارڈ نہ ہونے کے باوجود اسلم صاحب کا یہ اعزاز کیا کم ہے کہ انہوں نے اپنے والد صاحب کے کڑے پیمانوں کو سختی کے ساتھ تھام رکھا ہے۔

انہیں ایک سے زیادہ مرتبہ پیشکشیں ہوئیں کہ نگار کے نام کے ساتھ کسی اور کا بھی نام لگا دیا جائے تو تمام تر اسپانسر شپ دوسرا فریق کرے گا لیکن۔ ایوارڈ کس کو دیے جائیں گے؟ یہ ”ان“ کا مسئلہ ہو گا۔ گھر آئی لکشمی کسے پیاری نہیں ہوتی، یہاں ان کی تربیت کام آئی انہوں نے دونوں پیشکشیں ٹھکرا دیں۔ واقعی دیر آید درست آید۔ نگار ایوارڈ کا ایک نام ہے۔ اسلم صاحب اتنے برے حالات میں بھی مایوس نہیں۔ اللہ ان کی ہمت اور ارادے مضبوط رکھے۔ کیا یہ کمال کم نہیں کہ 1948 سے لے آج تک باقاعدگی سے نگار ویکلی شائع ہو رہا ہے!

ایک سوال کے جواب میں اسلم الیاس صاحب نے کہا : ”کوشش تھی کہ یہ مسلسل ہوتا رہے اور کوئی فرق نہ آئے۔ مجھے افسوس ہے کہ فرق آ گیا۔ اندازہ تھا کہ ایک دفعہ فرق آ گیا تو پھر بڑھتا ہی جائے گا۔ نگار ایوارڈ 2004 تک برقرار رہا۔ مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب چینل والے نہیں چاہتے کہ یہ ایوارڈ ہوں۔ ہمارا یہ ایوارڈ ہمیشہ غیر جانبدار رہا۔ جبکہ ان کے ایوارڈ ہیں ہی ان ہاؤس ایوارڈ۔ جیسے لکس ایوارڈ۔ فلموں کے حالات اب قدرے بہتر ہیں۔

میں نے 2016 میں مارکٹنگ اور اسپانسر شپ حاصل کرنے کی بہت سخت کوشش کی۔ حکومت کے دروازے بھی کھٹکھٹائے۔ لگتا تو ایسے ہے کہ ضیاء الحق صاحب کے جانے کے بعد بھی حکومت کے اشتہارات، پی آئی ڈی اور حکومت سندھ کے اشتہارات فلمی پرچوں کو ارادتا نہیں دیے جاتے۔ نگار میرا نہیں فلمی صنعت کا ایوارڈ ہے۔ دنیائے فلم میں نگار ایوارڈ دوبارہ جاری ہونے سے، امید ہے چند سالوں میں یہ دوبارہ اپنی پہچان بنا لے گا۔ آرٹسٹ سمجھتے ہیں کہ نگار ایوارڈ ان کا اپنا ہے“ ۔

” یہ ان ہی کی ہمت تھی ورنہ ایسا کام کوئی بڑا ادارہ کرتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے۔ لاہور جا کر ایوارڈ کرنا پھر یہاں کے مسئلے مسائل۔ اب تو چلیں اسپانسر شپ مل جاتی ہے۔ لاکھوں کروڑوں کی باتیں ہوتی ہیں۔ لوگ پیسے بھی بناتے ہیں۔ ان کے وقت میں نہ کوئی اسپانسر شپ تھی نہ کبھی انہوں نے پیسے کا لالچ کیا اور نہ کسی ایوارڈ کا لینا دینا کیا۔ اس سب کے باوجود اس ایوارڈ کو جاری رکھا۔ ان حالات میں وہ ایک اخبار بھی چلا رہے تھے اور ایوارڈ بھی دے رہے تھے جس کا کوئی ’ریوارڈ‘ بھی نہیں۔ ان پر اللہ کا بڑا کرم تھا۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا انہیں کبھی مالی طور پر پریشان نہیں دیکھا! جب کہ وہ تھے۔ اب وہ اسے کیسے جھیلتے تھے؟ اس کو نہ ادارے پر نہ ہی گھر پر ظاہر ہونے دیا۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ وہ اللہ سے جو مانگتے انہیں مل جاتا تھا۔ وہ اتنا ہی مانگتے جتنی انہیں ضرورت ہوتی“ ۔

” کیا ماضی میں نگار ویکلی کو سرکاری اشتہارات ملتے تھے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” جب میں نے نگار ویکلی کی پچھلی فائلیں دیکھیں تو اس میں مجھے پاکستان ریلوے، پی آئی ڈی کے کلاسی فائڈ اشتہارات ملے۔ پھر بتدریج ان میں کمی محسوس ہوئی۔ 1985 تک پاکستان میں اخبارات کی بھرمار نہیں تھی۔ شاید صدر غلام اسحق کے زمانے میں پریس انفارمیشن کے متعلقہ قانون میں ترمیم ہوئی۔ پالیسی بنا دی گئی کہ ہفت روزہ اور ماہناموں کو سرکاری اشتہارات نہیں دیے جائیں گے۔ پھر یہ باتیں بھی ہونے لگیں کہ یہ تو شو بز کا پرچہ ہے۔ اوپر سے فلمیں بننا بھی کم ہوتی گئیں جو اب نہ ہونے کے برابر ہی ہیں۔ پھر بھی اللہ نے اس ادارے کو قائم رکھا ہوا ہے۔ شاید ہمارے بزرگوں اور والدین کی دعائیں ہیں“ ۔

” میرے چار بھائی تھے جن میں سب سے بڑے بھائی کا انتقال ہو گیا۔ وہ شروع شروع میں تو نگار کے آفس آئے لیکن انہیں اخباری ماحول سمجھ نہیں آیا۔ کہتے تھے کہ اس میں کوئی اسکوپ نہیں! یہ ہی بات مجھ سے بھی کہی گئی کہ اس کام میں کوئی مستقبل نہیں۔ آپ اس کو میری محبت سمجھیں یا کچھ اور۔ میں تو صرف والد صاحب کے لئے آتا تھا۔ اپنے انتقال سے سال بھر پہلے انہوں نے روزنامہ ڈان کو انٹرویو دیا جو ایک صفحہ پر رنگین شائع ہوا۔

ان سے آخر میں سوال کیا کہ آپ کے بعد اس ادارے کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ انہوں نے بتایا کہ میرا ایک بیٹا ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے میرے ساتھ ہے، مجھے لگتا ہے وہ اس ادارے کو سنبھال لے گا۔ دیکھا جائے تو معاملات میں وہ بڑے دور اندیش تھے مگر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔ مثلاً مجھ سے کبھی نہیں کہا کہ تم صحیح جا رہے ہو اور میرے جان نشین ہو۔ ان کی فطرت میں تھا کہ وہ کسی کے لئے اچھی یا بری جو بھی رائے رکھتے صرف اپنے ہی تک رکھتے“ ۔

نگار میں تجربات:
” کیا آپ نے نگار میں کوئی نئے تجربات کیے ؟“ ۔

” میں نے کچھ تجربات کیے ۔ کچھ کامیاب رہے اور کچھ بعض وجوہات کی بنا پر رہ بھی گئے۔ مثلاً 1980 کی دہائی میں ہمارے ادارے میں صلاح الدین پراچہ صاحب تھے۔ میں نے انہیں نگار انعامی معلوماتی مقابلے کا خیال پیش کیا۔ یہ میرا اور صلاح الدین پراچہ صاحب دونوں کا آئیڈیا تھا۔ پراچہ صاحب کے بھائی سعید امرت صاحب ہمارے لئے سوال بناتے رہے۔ یہ سلسلہ 6 سال چلا۔ اس سے نگار کی سرکولیشن میں بڑی بہتری آئی۔ نگار پہلے صرف رائٹ اپ پر فوکس تھا پھر میں نے انٹرویو اور ٹی وی ڈلوایا۔

میرے آنے کے بعد پرچہ کی اشاعت 200 فی صد بڑھ گئی۔ 7500 سے بڑھ کر 18000 تک چلی گئی۔ خاص ایڈیشن تو 28000 تک جا پہنچے، جیسے عیدین اور 14 اگست۔ اس کے علاوہ میری کوشش ہوتی کہ کچھ انٹرویو ہوں اور گیٹ اپ بھی معمول سے ہٹ کر ہو۔ مہینے میں دو رنگین ایڈیشن بھی شروع کیے۔ پھر یہ باقاعدہ شائع ہونے لگے۔ اس سے خرید و فروخت پر بھی اچھا اثر پڑا۔ ایک نگار انعامی مقابلہ دوسرے پرچے کا رنگین ہو نا گویا پرچے میں جان پڑ گئی“ ۔

” ابراہیم جلیس، سرورؔ بارہ بنکوی، طفیل احمد جمالی، کلیمؔ عثمانی صاحب، دکھی پریم نگری، بشیر نیاز، مسرورؔ انور وغیرہ وا لد صاحب کی زندگی میں تقریباً روزانہ ہی آتے۔ ان کے علاوہ جو بھی لاہور سے آتا یہاں ضرور آتا۔ اس میں حسن طارق، خلیل قیصر اور ریاض شاہد، درپن، شبنم، رابن گھوش، شمیم آرا اور دوسرے شامل ہیں۔ ان لوگوں کو تو میں نے خود یہاں بیٹھے ہوئے دیکھا ہے۔ بہت سے لوگ آتے تھے پھر آہستہ آہستہ۔“ ۔

” شمیم آرا کی جب پہلی فلم ’کنواری بیوہ‘ ( 1956 ) ناکام ہوئی تو کہنے لگیں کہ ہم تو اپنا گھر بار چھوڑ کر فلم میں آ گئے ہیں اب کہاں جائیں؟ ایسے میں الیاس صاحب نے ان کی حد درجے مدد کی۔ وہ ہمیشہ الیاس صاحب سے اپنے معاملات میں مشورہ کرتیں اور ان پر عمل بھی کرتی رہیں“ ۔

فلم ”احساس“ ( 1972 ) کا پس منظر:
” الیاس صاحب نے فلم ’احساس‘ ( 1972 ) بنائی تھی۔ اس کا کیا پس منظر ہے؟“ ۔

” اس کا پس منظر یہ ہے کہ پوری ٹیم جس میں ابراہیم جلیس، بشیر نیاز، سرورؔ بارہ بنکوی، نذر الاسلام، الیاس صاحب، شبنم، رابن گھوش وغیرہ شام چھ سات بجے اکٹھے ہو کر فلموں کے حوالے سے گپیں لگاتے تھے۔ پھر طے ہوا کہ ایک فلم بنائی جائے۔ الیاس صاحب کو کہا گیا کہ وہ یہ فلم بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ کیسے بنائیں؟ وقت کہاں سے لائیں گے! اس پر کہا گیا کہ بس آپ فلم بنانے کا اعلان کر دیں باقی یہ پوری ٹیم آپ کے ساتھ ہے۔

یوں فلم کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔ ابراہیم جلیس اور بشیر نیاز نے فلم پر کام کیا۔ فلم بنی اور چلی بھی لیکن۔ اس کا فائدہ کم از کم ہمیں نہیں ہو ا۔ میرے والد صاحب کمرشل مائنڈ سیٹ کے نہیں تھے۔ دوستوں کے کہنے پر ایک فلم تو بنا دی لیکن پھر دوبارہ کوئی فلم بنانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ البتہ فلم“ جوکر ”( 1966 ) ،“ ایندھن ”( 1966 ) ،“ سجن دشمن ” ( 1972 ) ، اور سنگیتا کی فلم“ اجالا ”تقسیم کیں۔ پروڈیوسر حسن شاہ نے فلم“ فرنگی ” ( 1964 ) کے تقسیم کاری حقوق آج تک کراچی میں نگار ویکلی کو دے رکھے ہیں“ ۔

پرنٹنگ پریس کا لگانا:
” کبھی اپنا پرنٹنگ پریس لگانے کی کوشش کی؟“ ۔

” الیاس صاحب نے تو کبھی اس بات پر توجہ ہی نہیں دی۔ حالاں کہ میں نے اس سلسلے میں ان کو قائل کرنے کی کوشش کی۔ میرا مقصد تھا کہ چلو اپنا پریس ہے ایک سے دو چیزیں ہو جائیں گی۔ ہم اپنا کام بہترین طریقے سے کر سکیں گے۔ میرے والد صاحب کو پیسہ کا لالچ نہیں تھا۔ جو چاہا اللہ تعالیٰ نے عطاء کیا۔ 38 سال اپنے پاس سے ایوارڈ کیے۔ پرچے میں سرکاری اشتہار کی روایت بھی میں نے ڈالی۔ نگار کے لئے پرنٹنگ پریس لگانے کو کہا لیکن والد صاحب نے منع کر دیا۔

وہ اپنے وقت کے حساب سے صحیح انکار کر رہے تھے۔ میں نے ایک نہیں بلکہ 2 مرتبہ پریس لگایا۔ دونوں دفعہ لیبر کی وجہ سے ناکام ہو گیا۔ 15 سال پہلے سوچا تھا کہ پرچہ کو بھی زندہ رکھا جائے گا اور باہر کا بھی کام کر لیں گے۔ لیکن جلد ہی ایک ایسا موقع آیا کہ پریس یا اخبار کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا۔ یوں پریس فروخت کر دیا“ ۔

” ان کے انتقال کے بعد میں نے 2007 میں پرنٹنگ پریس لگانے کی کوشش کی تب مجھے اندازہ ہوا کہ وہ صحیح منع کر رہے تھے۔ اس کام میں آپ کو خود کھڑا ہونا پڑتا ہے تب کہیں جا کر کام ہوتا ہے۔ شاید یہ ہی نہ کرنا اس کام میں میری ناکامی کا سبب ہوا۔ ایک واقعہ یاد آتا ہے : فلموں کے اشتہارات بلیک اینڈ وائٹ ہی شائع ہوتے تھے۔ میں نے پہلی دفعہ فلمساز اطہر شاہ خان کی فلم“ آس پاس ”کا اشتہار، فلمی کتابچہ سے پازیٹیو لے کر رنگین شائع کیا۔ شروع میں مجھے پرنٹنگ کی طرف سے کچھ لا پروائی محسوس ہوئی لہٰذا وہاں خود جانا شروع کر دیا۔ ایک مرتبہ بہت بارش ہوئی۔ دوپہر 2 بجے کاپی ڈاؤن ہونا تھی۔ حقانی چوک پر پریس تھا جہاں کمر کمر تک پانی کھڑا تھا۔ کاپیاں لپیٹ کر سر پر رکھ کر 3 منٹ پیدل کمر کمر پانی میں سے گزر کر پریس تک پہنچا“ ۔

” آپ کے بچوں میں کسی کو اخبار کے کام کا شوق ہے؟“ ۔

” دیکھیں دو چیزیں ہوتی ہیں ایک یہ کہ انسان کو اس فیلڈ سے لگاؤ ہو اور دوسری یہ کہ اس کام میں پیسہ ہو۔ میری اولاد کو اس کام سے لگاؤ ہے نا دلچسپی اور پیسہ اس میں نظر نہیں آ رہا۔ بہر حال آئندہ جو بھی ہو گا اللہ مالک ہے! ویسے بھی کسی کو زبردستی کسی فیلڈ میں نہیں دھکیلنا چاہیے۔ پھر اس کے نتائج اچھے نہیں ہوتے“ ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ”کورونا کی وجہ سے تمام دنیا کا نظام ہی بدل گیا۔ ملک کے دیگر شعبوں کی طرح ہماری فلم بھی متاثر ہوئی۔ انڈسٹری ختم تو نہیں ہوئی لیکن اس کو اب اٹھنے میں بڑا وقت لگے گا۔ اب یہ کب چلے گی؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اصل مسئلہ فلم کا فنانسر ہے جو ناپید ہو گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے ملک کے خراب سے خراب تر ہوتے ہوئے حالات ہیں“ ۔

قابل غور بات :

” جب سے پاکستان بنا ہے کسی بھی حکومت نے فلم انڈسٹری کو کبھی سپورٹ نہیں کیا۔ 1975 تک فلم انڈسٹری کو عروج حاصل تھا اور اس کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اب وہ دور نہیں رہا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ غالباً ہم خود ہیں۔ ہم نے اپنے آپ کو صحیح طور پر شناخت کروایا ہی نہیں۔ جو حکومت آتی ہے وہ ہماری بات سنتی ضرور ہے لیکن اس سے آگے کچھ بھی نہیں۔ ایک قومی فلم پالیسی نواز حکومت میں بنانے کا اعلان ہوا یہ ہی اعلان عمران حکومت میں بھی فواد چوہدری صاحب نے کیا تھا۔ جب تک حکومت اس بات کو سنجیدگی سے لے کر فلم انڈسٹری کو انڈسٹری کا درجہ نہیں دے گی تب تک یہ صرف باتیں ہی رہیں گی۔ حکومتوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں جب ہی تو ہماری فلم انڈسڑی کو اس کے حال پر چھوڑا ہوا ہے“ ۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا: ”بھارتی فلمیں مجبوری کے تحت آئیں۔ کیوں کہ ہماری پروڈکشن ختم ہو گئی تھی جب کہ فلم دیکھنے والے اور سنیما تو موجود تھے۔ یوں بھارتی فلموں کو لانا پڑا۔ اسی وجہ سے بہت سے سنی پلیکس بنے“ ۔

سنیما، تقسیم کار اور فلمساز:

” سنیما، تقسیم کار اور فلمساز کے اشتراک اور پیسے سے فلم بنتی تھی۔ یہ سب چاہتے تھے کہ فلم چلے اور کامیاب ہو۔ اب ایسا کیوں نہیں؟“ ۔

” اب سنیما والا نہ پیسے لگاتا نہ دیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے سنیما میں فلم لگا دو اور پھر پیسے کا حساب کتاب مت کرو۔ کئی سنیما والوں نے کئی ایک فلموں کے کروڑوں روپے دینا ہیں۔ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ آپ کی فلم جمعہ کو ریلیز ہوئی۔ پہلا ہفتہ جمعرات کو مکمل ہوا اور ہفتے یا اتوار کو تقسیم کار کے پاس سنیما سے پیسے آ جاتے تھے۔ کبھی کبھار ہی دیر سویر ہوتی تھی۔ اب ایسا نہیں۔ اب معاملات میں کھرے وہ لوگ بھی نہیں رہے جو آپس میں مل کر فلم انڈسٹری کو چلاتے اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔

سنیما والا کہتا کہ مجھ سے پیسے لے لو ریلیز پر کٹوا دینا۔ اب تو فلمساز 100 فی صد فنانس کرتا ہے۔ فلم نہ چلے تو نقصان ہے ہی لیکن اگر کامیاب ہو جاتی ہے تو سنیما والا اپنا حصہ تین سال تک روک کر رکھتا ہے۔ سنی پلیکس، سنی گولڈ وغیرہ کی چینوں کے پاس بڑے چھوٹے شہروں میں سنیما ہیں۔ فلمساز بھی مجبور ہے کہ ان کو فلم نہ دے تو کیسے ریلیز کرے؟ لب لباب یہ ہے کہ ہماری نیتیں صاف نہیں۔ دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ جس کا جو حق بنتا ہے اس کو فوراً دینا چاہیے۔ اس طرح گویا سنیما والے کو انڈسٹری سے کوئی لگاؤ نہیں اسے صرف اپنے پیسے سے لگاؤ ہے۔ یہ تب ہی ہوتا ہے کب کوئی باہر سے آتا ہے کہ اپنا کام نکالو اور نکلو۔“ ۔

” لوگ نگار ایوارڈ کا اجرا چاہتے ہیں۔ مجھے بھی اس بات کا احساس ہے کیوں ایک تو انڈسٹری وہ نہیں رہی دوسرے ایوارڈ کئی سالوں سے نہیں ہوا۔ نگار ایوارڈ سال کی اتنی بڑی تقریب ہوتی تھی جس میں انڈسٹری ایک پلیٹ فارم پر آ کر اپنی باتیں کرتی۔ وزرا اور اخبارات کے ذریعے اوپر پیغامات جاتے تھے۔ یہ سلسلہ ختم ہوا جو غلط ہوا۔ اسے دوبارہ اسی سطح پر لانا مشکل ہے“ ۔

انڈسٹری کے زوال کے بڑے اسباب:

” ایسے کون سے بڑے اسباب ہیں جن کی وجہ سے ہماری فلم انڈسٹری کو یہ دن دیکھنے پڑے؟ ایسا بھارت میں کیوں نہیں ہوا؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” اس کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ دنیا سے جانے والے ہمارے سینئیر، اپنے جونئیر کو کیا دے کر گئے؟ کہاں ہے دوسرا حسن طارق؟ کہاں ہے دوسرا پرویز ملک؟ کہاں ہے نذر الاسلام دوسرا؟ کہاں ہے ایس سلیمان دوسرا؟ ہمارے ملک میں فلم کے علاوہ بھی تمام شعبوں میں اس بات کی بہت کمی ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ اس کو سکھا دیا تو ہمارا کیا ہو گا؟ حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ آپ نے کسی کو سکھا دیا تو بڑی نیکی کی۔ دوسرے یہ کہ ہمارے ہنرمند وقت کے ساتھ نہیں چلے۔

نیا دور کے نئے تقاضوں سے پیچھے رہ گئے۔ نئے کیمرے، نئی تکنیک اور ایڈیٹنگ کے نئے اسلوب حاصل ہی نہیں کیے۔ ہمارے ہنر مندوں کو چاہیے تھا کہ وہ کمپیوٹر سے واقفیت حاصل کر کے جدید ایڈیٹنگ سیکھتے۔ ایک تو انہیں پرانی ایڈیٹنگ کا تجربہ ہوتا پھر کمپیوٹر ہاتھ میں ہوتا تو کیا سے ہوتا۔ فلمی صنعت کے بحران کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اسے بحیثیت صنعت چلایا نا حکومت سے تسلیم کرایا۔ ماضی میں لوگ اس شعبہ سے پر خلوص تھے لیکن فلمی صنعت کے عروج میں نامور فلمسازوں اور ہدایتکاروں نے چربہ فلمیں بنائیں۔

آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ 1965 میں بھارتی فلمیں بند نہیں ہونا چاہیے تھیں۔ مٹھی بھر مفاد پرست لوگ محب وطن بننے کی آڑلے کر فلمی صنعت کو نقصان پہنچا گئے۔ ہمارے ملک میں ہنر کی کوئی کمی نہیں، ان سے کام لینا ہی تو اصل کام ہے جو اکثریت کو نہیں آتا۔ پہلے کسی فلم کے ہٹ ہونے کے بعد اداکار منہ پھاڑ کر پیسہ نہیں بڑھاتے تھے۔ اب تو ایک فلم معمولی مقبول ہوئی نہیں اور فنکاروں نے معاوضے بڑھائے نہیں۔ فلمیں اب بھی بن رہی ہیں لیکن“ فلم ”نہیں۔

پرانی کلاسیکی قیمتی فلموں کے نیگٹیو اچھی حالت میں نہیں۔ یہ ہر قیمت پر کنٹرول ٹمپریچر پر ہونا چاہئیں جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہو رہا ( خاکسار کی تحقیق کے مطابق بھارت میں اس پر عمل بہت سختی کے ساتھ ہوتا ہے ) ، پھر اسٹوڈیو مالکان سے لے کر نمائش کنندگان تک کوئی ایک دوسرے سے مخلص نہیں بلکہ جہاں داؤ لگتا ہے ہاتھ دکھاتے ہیں۔ پہلے فلمیں 100 فی صد مار کیٹ کے پیسے سے بنتی تھیں۔ ہمارے ہاں کی فلمی صنعت کا پورا سسٹم اوور ہال ہونے والا ہے۔ سنیما مالکان نے سنیما کی جگہ کثیر المنزلہ عمارات بنا ڈالیں۔ اب تو نئے نقشوں میں سنیما کی کوئی جگہ نہیں رکھی جاتی۔ آج کل تو فلم بنانے سے لے کر تقسیم کاری تک سب پیسے والے کے ہاتھ میں ہے“ ۔

” شباب کیرانوی صاحب نے پاکستانی فلمی صنعت سے جو کمایا وہ واپس اسی صنعت میں لگایا۔ شباب اسٹوڈیوز صحیح معنوں میں پروڈکشن ہاؤس تھا۔ ستیش آنند نے شباب پروڈکشن کی 95 فی صد فلمیں تقسیم کیں۔ شباب صاحب کے انتقال کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر لاہور کے اسٹوڈیو مالکان جیسے آغا جی اے گل، کہا کرتے کہ میرا کوئی فلور خالی نہ رہے۔ فلمسازوں اور ہدایتکاروں سے کہتے کہ آپ فلم شروع کریں آگے کا میں ذمہ دار ہوں۔ بعد میں حساب ہوتا رہے گا“ ۔

خاکسار کے حساب سے لاہور اور کراچی کے اسٹوڈیو مالکان کی سوچ میں یہ ہی ایک بنیادی فرق ہے۔ لاہور والے ہر قیمت پر اسٹوڈیو میں کام چاہتے تھے جبکہ یہاں کراچی میں سوچ پر جمود طاری تھا۔ ہر چیز اسٹوڈیو میں نقد طے تھی۔ فلمسازوں کی ترغیب کا کوئی چکر ہی نہیں تھا۔ جب ہی تو رفتہ رفتہ فلمساز و ہدایتکار لاہور منتقل ہو گئے اور کراچی کے اسٹوڈیو مالکان اپنے نگار خانوں کو روتے رہے۔

” فلم غریب آدمی کے لئے ایک واحد تفریح کا ذریعہ تھا۔ جس فلم میں عورتیں آ گئیں وہ کامیاب سمجھ لی جاتی تھی۔ بعض مارننگ شو صرف خواتین کے لئے ہوا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ نگار ایوارڈ کا ٹکٹ بھی 1000 روپے لگایا گیا تھا۔ یہ فلمی صحافی اقبال احمد خان / کشور اقبال اور ان کی فیملی کی بہبود کے لئے کیا گیا تھا۔ اس زمانے تک فلمی صنعت ایک خاندان کی طرح تھی“ ۔

نشست کے آخر میں نگار ویکلی کے روح رواں اسلم الیاس رشیدی صاحب نے کہا: ”حالات کچھ بھی ہوں انڈسٹری تو بند نہیں ہوگی۔ چاہے سال کی دو فلمیں بنیں اور چھ سنیما رہ جائیں! “ ۔

( یہ تحریر 14 اگست کے نگار ویکلی کے صفحہ 14 پر شائع ہوئی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).