قصہ چاچے مولا داد کا


دنیا بھر میں رشتے مختلف ناموں سے پہچانے جاتے ہیں اور حسب مراتب ان کی تکریم ہوتی ہے یا چھوٹے ہوں تو شفقت کا سلوک کیا جاتا ہے۔ مثلاً والدین ہیں تو ان کا ادب کیا جاتا ہے ان کے ورثہ کا انسان حقدار ہوتا ہے۔ اسی طرح اس کے برعکس والدین وارث ہوتے ہیں۔ والدین کی وجہ سے رشتہ دار ماموں خالہ وغیرہ جذباتی لحاظ سے تایا چچا سے ذرا قریب لگتے ہیں۔ یوں تو آج کل انکل کا لفظ ہر قسم کے رشتوں پر حاوی کر دیا گیا ہے لیکن ”چاچا“ ایک ایسا رشتہ ہے جو خالص پنجابی ہے اور جب تک پنجابی زبان اور تہذیب موجودہ رہے گی یہ رشتہ اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ فریقین کے دل و دماغ کو ”خواہ مخواہ“ معطر کرتا رہے گا۔

اس رشتے کی بناوٹ محض باپ کے بھائی کی حد تک ہی نہیں اور نہ ہی باپ کا مائی باپ جایا ہونا ضروری ہے، بس ایک بار کسی کو چاچا کہہ دیا اور آگے سے اس نے اپنی اس حیثیت کو قبول کر لیا تو یہ بغیر دستخطوں کے میگنا کارٹا نافذ ہو جاتا ہے۔ دنیا کے کسی خطہ میں بھی پنجابی جائیں خواہ وہ محنت مشقت کے لئے یا سیر سپاٹے کے لئے ہر گروپ اپنی تنظیم کے لئے ایک چاچا ایسے تلاش کر لیتا ہے جیسے شہد کی مکھیاں اڑتے اڑتے ایک کو ملکہ نامی نیٹ کر دیتی ہیں اور وہ بھی سچ مچ ملکہ بن جاتی ہے یوں معاشرہ ہم آہنگی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرنے لگتا ہے۔

چاچا ایک ایسا وجود ہے جو ماں باپ دونوں کی خصوصیات اپنے اندر رکھتا ہے۔ جس سے انسان کھل کر دکھ سکھ کی بات کر سکتا ہے۔ اس سے دوستوں کی طرح گپ شپ لگائی جا سکتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ بار بار لڑ جھگڑ کر پھر راضی ہونا بڑا آسان ہوتا ہے۔ اب تو یہ کلچر ترقی کر کے پٹھانوں میں بھی اس حد تک اثر پذیر ہو چکا ہے کہ بڑا تو کجا چھوٹے کو بھی وہ چاچا کہہ کر اپنا الو پٹھا سیدھا کر لیتے ہیں۔

چوہنڈیاں گاؤں میں چاچا مولا داد اور اس کے بھائی کی مشترکہ زمین ایک مربع تھی اور گھر میں سب کچھ سانجھا تھا کہ اس کے بھائی کی وفات ہو گئی جس کے تین جوان بیٹے تھے۔ کچھ عرصہ تو سانجھ کھاتا خوش اسلوبی سے جاری رہا لیکن کب تک۔ شیطان جو ازل سے پھوٹ ڈالنے کے حربہ کا ماسٹر ہے چاچے کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ نصف کا مالک ہے اور یہ تینوں نصف کے لہذا یہ تینوں کے برابر ہے اور یوں ہی کوئی بہانہ بنتے ہی اس نے اعلان کر دیا کہ اب سے ہماری اور تمہاری زمین الگ الگ۔ بھتیجوں کو رنج تو پہنچا لیکن انہوں نے بلا اعتراض اس صدارتی آرڈر کو تسلیم کر لیا۔

اب فصل بونے کے لئے وقت کے اندر اندر زمین کو تیار کرنا تھا۔ تینوں بھائیوں نے اپنے حصہ کی زمین فصل کے لئے جلد تیار کر لی۔ انہوں نے دیکھا کہ چاچے کی زمین ابھی تک ایک بیگہ بھی تیار نہیں ہوئی۔ اس پر انہوں نے مشورہ کیا کہ اس طرح تو چاچا فصل بیج نہیں پائے گا۔ چلیں اس کی زمین بھی تیار کر دیتے ہیں۔ انہوں نے چاچے کی زمین میں ہل ڈال دیے اور زمین تیار کر دی۔ اس کارروائی کے دوران چاچا آیا اور زمین میں ہل چلاتے دیکھ کر غصے سے واپس پلٹ گیا شام کو عوامی ڈیرہ پر چاچا حقہ پیتے ہوئے حاضرین کو بتانے لگا:

”میں اپنی زمین پر گیا اور میں نے دیکھا کہ میرے بھتیجوں نے میری زمین میں بغیر اجازت اپنے ہل ڈال دیے ہیں۔ مجھے بہت غصہ آیا لیکن میں خاموش واپس آ گیا کہ آخر میرے بھائی کے بیٹے ہیں“

پھر کچھ دنوں بعد انہوں اپنے کھیتوں میں بیج ڈال دیا مگر چاچا اکیلا یہ کام تو کر نہیں سکتا تھا بول چال بھی بند تھی۔ انہوں نے مشورہ کیا کہ اپنے پاس سے ہی بیج ڈال دیتے ہیں۔ جب وہ بیج ڈال رہے تھے تو چاچے نے اپنی اراضی کا دورہ کیا اور دور سے انہیں اس جرم میں ملوث پاکر واپس لوٹ آیا اور شام کو پھر ڈیرہ پر بیٹھے حقہ پیتے ہوئے ایک کھنکارہ لیا اور اشرافیہ کو مخاطب ہو کر بولا:

”آج پھر میں نے دیکھا کہ میرے بھتیجوں نے جس طرح میری زمین میں بلا اجازت ہل چلائے تھے آج اس زمین میں بیج بھی ڈال رہے تھے۔ مجھے بہت غصہ آیا لیکن میں خاموش واپس آ گیا کہ آخر میرے بھائی کے بیٹے ہیں“

گندم اگ آئی اور چند ہفتوں میں پک گئی۔ تینوں بھائیوں نے مل کر اپنی گندم کاٹ لی لیکن چاچے کی گندم ابھی کھڑی تھی جسے انہوں نے جا کر کاٹ کر ڈھیر لگا دیا۔ اس موقعہ پر بھی چاچے نے گرداوری کی اور شام کو ڈیرے پر آ کر حقہ پیتے ہوئے فرمایا:

”آج پھر میں اپنی زمین پر گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میرے بھتیجے میری فصل کو بغیر مجھ سے پوچھے دھڑا دھڑ کاٹ رہے تھے۔ مجھے بہت غصہ آیا لیکن میں خاموش واپس آ گیا کہ آخر میرے بھائی کے بیٹے ہیں“

بھتیجوں نے اپنی گندم گاہنے کے بعد دانے الگ کر لئے اور اپنے گھر لے گئے لیکن چاچے کی گندم ابھی تک گاہی نہ گئی تھی۔ بھتیجوں نے سمجھ لیا کہ چاچے سے یہ کام اکیلے نہیں ہو پائے گا لہذا جہاں اتنا کیا وہاں اسے گاہ بھی دیتے ہیں۔ اس طرح انہوں گاہنے کے بعد جب دانے الگ کر لئے تو محترم چاچا جی تشریف لے آئے :

”تم لوگوں نے بلا اجازت میری زمین میں ہل چلایا میں چپ رہا، بغیر اجازت بیج ڈال دیا، میں خاموش رہا، بغیر اجازت گندم کاٹی، میں نے صبر کیا۔ زیادتی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اب تم نے دانے صاف کر کے ڈھیر لگا یا ہے۔ بس رہنے دو۔ اب مزید مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتی“

بھتیجوں نے پیار سے عرض کیا :
چاچا دانے گھر تمہارے ہی پہنچانے ہیں دیتے ہو اجازت؟
کون کافر اس سوال کا جواب ”نہ“ میں دے سکتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments