چہرے تھے جن کے چاند سے ۔ پہلی قسط


نارتیا ائر پورٹ سے ٹوکیو تک نوے منٹ کا سفر ہے۔ روانہ ہوئے تو شام ہو چکی تھی۔ سورج کی سنہری کرنیں چند لمحوں کے لئے دکھائی دیں پھر نیلگوں دھند میں جذب ہو گئیں۔ موسم بہت خنک تھا۔ لیموزین بس اپنی مخصوص رفتار سے بھا کی چلی جا رہی تھی۔ سڑک کافی کشاد وتھی۔ بس میں با قاعدگی سے کمنٹری کی آواز آ رہی تھی۔ انجانا دیس انجانے لوگ، نہ زبان کا پتہ، نہ لوگوں کا علم مسلسل پرواز سے نڈھال اور تھکے ماندے مسافر، ایک دوسرے سے نا آشنا، خیالات میں گم اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے تھے۔

گھر سے نکلے یہ دوسری رات تھی۔ ایک رات کا زیادہ تر حصہ کراچی ائر پورٹ پر گزارا۔ یہاں سارا شہر امڈا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ جانے والے، الوداع کہنے والے، منزل پر جلد پہنچنے والے، سامان بھول کر پریشان پھر نے والے۔ کرتے اور چادروں میں ملبوس سروں پر بڑے سے رومال کی بکل مارے دیہاتی نوجوان عرب ممالک کو جانے والے سپوت۔ جو گھر بار چھوڑ کر ، گھر کی راحتیں تج کر کے اپنے خاندان اور اپنے ملک کی خوشحالی کی تلاش میں سرگرداں تھے۔

پیشانی پر بوسہ دینے والے بوڑھے ماں باپ، آنسوں بہانے والی بہنیں، ابو کی بانہوں میں ہمکنے اور کلکاریاں مارنے والے بچے اور فخر سے سر اونچا کیے معتبر بیویاں، یہ سب موجود تھے۔ لیکن رات ہوتے ہی تمام رونقیں ختم ہو گئیں۔ پھر نہ نگاہوں کا شام و سحر رہا نہ سوچتے بدن نہ ہنس مکھ چہرے، رہ گئے تو چند بچے کھچے مسافر، وہ بھی انتظار میں نڈھال اور پژمردہ کسی نے کرسی پر سر ٹیک لیا۔ کسی نے سامان پر چوکڑی ماری کوئی بے چین پھرا کیا میری طرح اب تو نہ چلنے میں چین تھا نہ بیٹھنے میں سکون محسوس ہو رہا تھا۔

میں وہ زمانہ یاد کرتا رہا جب میں پی آئی اے میں اسسٹنٹ ٹریفک افسر تھا اور یہ زمانہ ائرلائن کے عروج کا زمانہ تھا اصغر خان اس کے چیئرمین تھے۔ مجھے کچھ زیادہ پڑھنے کا خبط سوار تھا چنانچہ میں نے ایک دن اچانک استعفیٰ دے دیا میرے باس نے حیران ہو کر کہا کیا تم ہوش و حواس میں ہو تم چھ سال بعد کسی اسٹیشن کے انچارج ہو گے۔ اس وقت تو استعفیٰ واپس لے لیا لیکن اگلے روز استعفیٰ بھجوا کر بذریعہ ٹرین لاہور واپس آ گیا۔

خدا خدا کر کے روانگی کا اعلان ہوا جہاز روانہ ہوا اور رن وے کی سائڈ لائٹس کو پیچھے چھوڑ تا چشم زدن میں کراچی کی روشنیوں کے اوپر منڈلا رہا تھا۔ میں کھڑکی سے کراچی شہر کو پیچھے کھسکتا دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد چاروں طرف اندھیرا چھا گیا تو میں طیارے کے اندر آ گیا۔ میں نے تسلی سے اپنے گردونواح میں نظر کی۔ میری اگلی سیٹوں پر تین نو جوان پٹھان براجمان تھے وہ اپنے نانا سے ملنے بنکاک جار ہے تھے۔ ان کی کلاہ کی کلغی اوپر اٹھی تھی اور نسوار کی ڈبیا اندرون جیب میں۔

میرے دائیں طرف ایک جاپانی خاتون بیٹھی تھیں۔ ان کے ساتھ دو بچیاں تھیں۔ پندرہ سولہ سالوں کی۔ جو کچھ دیر بعد کتا بیں اور نوٹ بک لے کر اپنے کام میں مصروف ہو گئیں۔ میرے ساتھ کی دونوں سیٹیں خالی تھیں۔ نہ کوئی بات کرنے والا اور نہ کوئی سننے والا تھا۔ اب تو نیند سے بھی برا حال تھا۔ تھوڑی دیر بعد آنکھ لگ گئی۔ معلوم نہیں کتنی دیر تک سویا رہا۔ کیونکہ بھاگ دوڑ کی وجہ سے گزشتہ کئی راتوں سے صحیح طور پر سو نہیں سکا تھا۔

نہ جانے کتنی دیر بعد آنکھ کھلی تو ایک جاپانی دوشیزہ کو ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے دیکھا۔ وہ نو جوان تھی اور خوبصورت تھی۔ مسکرائی تو جیسے چیری بلاسم کھل اٹھے ہوں۔ میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اسے اچانک اور اتنا قریب دیکھ کر میں چونکا۔ وہ میری پریشانی بھانپ کر بولی ”نہیں! آپ خواب نہیں دیکھ ر ہے“ ۔ میں سمجھا کہ شاید کیپٹن نے طیارہ راستے میں روک کر سواریاں لی ہیں۔ وہ مسکرائی۔ میرے چاروں طرف پھول کھل اٹھے۔ میں نے پوچھا آپ ٹوکیو جا رہی ہیں اس نے کہا نہیں ٹوکیو سے آگے اوساکا جانا ہے۔

”آپ پہلی مرتبہ ٹوکیو جار ہے ہیں یا اس سے قبل بھی گئے ہیں“ نہیں پہلی اور آخری مرتبہ۔ جاپان اتنا گیا گزرا تو نہیں کہ دو دوبارہ دیکھنے کی خواہش نہ رہے میں اس کی مسکراہٹ اور پھبن دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ جاپانی عورتیں اتنی جاذب نظر بھی ہو سکتی ہیں نگاہوں میں رعنائی مجسمہ حسن شعلہ بدن۔ مسکراتی تو قوس و قزح کے رنگ بکھر جاتے۔ میں نے جھرجھری لی اور چاق و چوبند ہو کر بیٹھ گیا۔ کہ نیند میں کہیں ہاتھ نہ لگ جائے کہ میری پور پور جل اٹھے۔

قرب شاہاں آتش سوزاں بود ’اس نے بتایا کہ وہ پچھلی سیٹوں پر بیٹھی ہوئی تھی اور اس کے ساتھ بیٹھے دو آدمی مشروبات پینے اور بے سر و پا باتیں کرنے میں مصروف تھے۔ ادھر کافی سکون ہے ویسے بھی آپ نو سموکنگ زون میں بیٹھے ہیں میں کچھ لکھنے پڑھنے کا کام کرنا چاہتی تھی اور یہاں آ کر کافی کام نبٹایا ہے۔ آپ تو سو رہے تھے اور کافی سوئے ہیں۔ ”یہ میری بدقسمتی ہے“ ۔ وہ نیو یارک سے آ رہی تھیں۔ ان کا نام سیکوسن تھا۔ امر یکہ وہ سٹڈی ٹور پر گئی ہوئی تھی اس نے ٹوکیو یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ماسٹر کیا تھا اور اس ٹریننگ کورس کے لیے جس کے لیے میں عازم سفر تھا وہ آبزرور کے طور پر آخری سہ ماہی میں شامل ہو رہی تھیں۔

وہ ایک روشن خیال دوشیزہ تھی بولتی تھی تو اس کے منہ سے پھول جھڑتے تھے۔ یہ تو مجھے ٹوکیو جا کر معلوم ہوا کہ وہاں ہر خاتون کا یہی حال ہے۔ مردو زن کوشش کرتے ہیں کہ ان کی بات میں انتہائی نفاست اور شائستگی ہو۔ کیا عجیب اتفاق نہیں ہے کہ ”UNAFE میں ملنے کی بجائے ہماری ملاقات پہلے یہاں پر ہو گئی ہے“ یہ اتفاق ہے اسے ہم جاپانی زبان میں انکاؤنٹر کہتے ہیں ”وہ بولی۔

سیکوسن باتیں کرتی کرتی سو گئی تھی۔ میں سورج نکلنے کا انتظار کر نے لگا کہ ہزاروں فٹ کی بلندی سے دیکھوں کہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو آسمان کی وسعتوں میں اس کا کیا نظارہ ہوتا ہے کیا دھیرے دھیرے سورج ایک سنہری تھال کی طرح نمودار ہوتا ہے یا کہ نور کی ایک طیف ظاہر ہوتی ہے۔ میں سانس رو کے منظر کا انتظار کرنے لگا لیکن سب کچھ دھرے کا دھرے رہ گیا۔ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی پلک جھپکنے میں سورج کی شعاعیں چاروں طرف پھیل گئیں میں نے نیچے نگاہ کی تو دور کہیں بادلوں کا ہجوم دکھائی دیا۔

طیارے نے اڑان جاری رکھی طیارے کا ایک بلیڈ میرے سامنے تھا اور دور نیچے بادل کئی گھنٹے یہی منظر میری آنکھوں کے سامنے رہا۔ لگتا تھا طیارہ ایک ہی جگہ پر ساکن کھڑا ہے۔ اور پھر ایک ہولناک خیال کوندے کی طرح میرے ذہن میں لپکا کہ اگر طیارہ یہیں بادلوں میں ساکن ہو جا تا ہے تو کیا ہو گا بچوں کے لیے جاپان سے کھلونے لانے والا خو دکھلونا بن جائے گا۔ کافر ملکوں میں تو بہت لوگ اور ادارے پس ماندگان کی امداد کے لیے آگے آئیں گے لیکن پیچھے اسلامی ملک میں میرے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں ہو گا۔

علی کی عمر اس وقت 5 سال تھی عمر کی 3 سال۔ روانگی کے وقت عمر کے چہرے پر جو تحیر اور افسردگی تھی وہ مجھے اندر ہی اندر کاٹ رہی تھی۔ میں کھڑکی کے باہر دیکھتا رہا۔ میرے گرد ہجوم گل تھا اور لطف نظارہ تھا۔ لیکن میں زندگی کی تابتا کی سے محروم بیٹھا تھا۔ میں بار بار سوچ رہا تھا کہ میں اس سفر اور اس کے انجام سے اتنا پریشان کیوں ہوں۔ اس قدر خوف میرے اندر کیوں در آیا ہے۔ ہزاروں لاکھوں افراد روزانہ سفر کرتے ہیں۔ دن کے وقت، رات کے سمے، یورپ اور امریکہ ایسے آتے جاتے ہیں جیسے آدمی ٹہلتا ہوا کمپنی باغ میں گھوم پھر کر واپس آ جائے۔

پھر سول ایوی ایشن کا دعوی بھی ہے کہ زمینی سفر کی نسبت ان کا فضائی سفر زیادہ محفوظ ہوتا ہے۔ اور نتائج بھی یہی تھے۔ لیکن دل کسی بات سے مطمئن نہیں ہور ہا تھا۔ منزل کے حسن اور سفر کی دلکشی سے زیادہ راستے کے خطرات کا خوف نہ جانے کیوں میرے گرد پھیل گیا تھا۔ میں نے ایک مرتبہ پھر خطرے کو رد کیا اور جی کڑا کر کے سرود بہار میں شامل ہو گیا۔ ڈونا سمر کی آتشیں آواز دلوں میں آگ لگا رہی تھی۔

ملازمت کے تقاضوں اور ڈسپلن کی وجہ سے خشک اور سپاٹ زندگی کی وجہ سے میرے اندر کا شعلہ جو ایک عرصہ سے بجھ چکا تھا۔ ڈوناسمر کی دلنشین آواز سے اس کی راکھ میں شرر پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اتنے میں ہماری اگلی سیٹوں پر کھسر پھسر شروع ہو گئی۔ تینوں پٹھان بھائی کچھ زیادہ ہی پریشان تھے۔ میں نے ان سے پریشانی کی وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ وہ منہ ہاتھ دھونے کے لئے کتنی دیر سے باری باری واش روم جار ہے ہیں مگر وہاں کوئی آدمی بیٹھا ہے جو نکلنے کا نام نہیں لے رہا۔

سیکوسن نے ائر ہوسٹس سے بات کی۔ جس نے حیران ہو کر کہا واش روم بالکل خالی ہے۔ آپ چلے جائیں۔ میں نے وہاں جا کر دیکھا تو کوئی بھی نہ تھا بعد میں پتہ چلا کہ جب ہمارے پٹھان بھائی دروازہ کھول کر واش روم میں اندر جانے لگتے ہیں تو سامنے بڑے آئینے میں اپنا عکس دیکھتے ہی فوراً دروازہ بند کر دیتے ہیں کہ وہاں پر پہلے سے کوئی آدمی موجود ہے اور واپس آ جاتے ہیں۔ انکو اندر بھیج کر ہم کافی دیر ہنستے رہے۔

میں نے سیکوسن کو بتایا کہ ہماری ایک لوک کہانی ہے کہ بہت عرصہ پہلے جب آئینہ نیا نیا بنا تھا تو ایک حبشی کو راستے میں پڑ املا۔ اس نے اٹھا کر الٹ پلٹ کر کے دیکھا تو اس کو اس میں ایک نہایت بدصورت آدمی کی شکل دکھائی دی۔ حبشی نے آئینے کو ایک طرف پھینک کر کہا کہ اگر کام کی چیز ہوتی تو یہاں کیوں پڑی ہوتی۔ وہ مسکرائی کہ شاید آئینہ کی ایجاد پر ہر قوم کو مختلف تجربات سے گزرنا پڑا ہے۔ اس نے بتایا کہ پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک نوجوان کی اس کے والدین نے بڑے چاؤ پیار سے شادی کی اور چند روز بعد اللہ کو پیارے ہو گئے۔ نو جوان کو والدین سے بڑی محبت تھی۔ ایک روز وہ نوجوان ایدو شہر گیا۔ جسے آج کل ٹوکیو کہتے ہیں۔ گھومتے پھرتے شہر میں آئینوں کی دکان دیکھی۔ آئینہ اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔ اس نے آئینہ دیکھا تو اسے اپنے باپ کی شکل دکھائی دی۔ کیونکہ اس کی شکل باپ سے بہت مشابہ تھی جاپانیوں کی شکلیں اکثر ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔ وہ نو جوان حیران ہوا کہ اس کا والد یہاں آیا ہوا ہے وہ آئینہ خرید لایا اور گھر میں عبادت گاہ میں سجا کر رکھ دیا اور وہ اپنا اکثر وقت وہیں گزارتا۔

اس کی بیوی کو شک پڑا۔ ایک روز جب وہ چپکے سے عبادت والے کمرے میں گئی۔ آئینہ پر نظر پڑتے ہی اس کا سر چکرانے لگا کہ اب بات سمجھ میں آئی کہ اس کا خاوند اس عورت کے لیے یہاں رہتا ہے۔ خاوند کی واپسی پر بہت جھگڑا ہوا۔ خاوند نے کہا کیا بات کر رہی ہو وہ تو میرا باپ ہے۔ اور تم اسے میری داشتہ بنا رہی ہو۔ اس بات پر جھگڑا پڑھنے لگا۔ اور معاملہ ایک راہبہ تک پہنچا۔ راہبہ نے ان کی باتیں سنیں اور ان کے گھر عبادت گاہ میں گئی تو آئینے پر نظر پڑتے ہی راہیہ کا چہرہ نظر آیا تو اس نے انہیں سمجھاتے ہوئے کہا اب جھگڑ نے کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہ عورت جیسی بھی تھی اپنے گناہوں سے توبہ کر کے راہبہ بن چکی ہے۔ آپ بھی اسے معاف کر دیں۔

اب ہمارا طیارہ بنکاک کی فضاؤں میں داخل ہو چکا تھا۔ با ہر نظر ڈالی تو دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ سڑکیں نہر، مکانات دکھائی دے رہے تھے دوبارہ بیلٹیں باندھنے کا شور بلند ہوا۔

ہوائی اڈے سے ہم انٹرنیشنل لاؤنج میں داخل ہوئے۔ بنکاک ائر پورٹ ایک خوبصورت ائر پورٹ ہے۔ یہاں ہر وقت کوئی نہ کوئی جہاز دو زانو ہوتا ہے۔ انسانوں کا ہجوم رہتا ہے۔ اس لئے بنکاک ایک اہم سٹاپ بن گیا ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد مختلف ہوائی کمپنیوں کی فلائٹس دنیا کے مختلف کونوں اور سمتوں کو روانگی کے لیے تیار رہتی ہیں۔ تھائی والوں کی ہوائی کمپنی نے بھی اب کافی نام کمایا ہے۔ جس نے بھی اس میں سفر کیا ہے وہ ان کا مداح بن گیا ہے۔ کیونکہ اس میں مسافروں کے آرام کا بے انتہا خیال رکھا جا تا ہے۔ ان کی خوراک، ان کی سہولت کے لیے عملہ ہر وقت مستعد رہتا ہے۔ انٹرنیشنل لاؤنج میں تھائی لینڈ کی مصنوعات کے کئی سٹال اور ان پر سیل گرلز کا ہجوم تھا۔ لیکن ہر چیز مایوس کن۔ یہاں پر ایک گھنٹہ سٹاپ تھا جو گزرنے میں نہیں آ رہا تھا۔

سفر دوبارہ شروع ہو چکا تھا۔ جہاز سلک روٹ پر تھا اور میں کانٹوں کی سیج پر ۔ ”سفر بہت لمبا ہے میں نے سیکو سن سے کہا۔ “ آپ تو ابھی کراچی سے جہاز پر سوار ہوئے ہیں۔ میں نیو یارک سے آ رہی ہوں۔ آپ خود اس کا انداز کر سکتے ہیں اس نے جواب دیا۔ ”یہ تو ایک سزا معلوم ہوتی ہے کہ اتنی ذی روحوں کو ایک ڈبے میں بند کر دیا جائے اور کئی کئی دن رات فضا میں لڑھکایا جائے۔ اب تو کمر بھی کام نہیں کر رہی۔ میں نے کہا اب تو دن بھی ختم ہونے کو ہے۔ سفر ختم نہیں ہو رہا۔ سیکوسن بولی سفر کیسے ختم ہو۔ ایک مرتبہ جب آدمی گھر سے نکل پڑے تو پھر سفر جاری ہی رہتا ہے۔ یہ بات اس وقت میری سمجھ میں نہ آئی۔

اتنے میں اعلان ہوا۔ خواتین و حضرات ہم ٹوکیو پہنچنے والے ہیں۔ ٹمپریچر 12 سینٹی گریڈ ہے اور موسم ابر آلود ہے۔ موسم تو کیا ابر سے تو پورا طیارہ آلودہ ہو چکا تھا اور تھوڑی دیر میں ہم بادلوں میں گھر گئے اور چاروں اور اندھیرا چھا گیا اور سناٹا اتنا کہ تمام آوازیں اندھیرے میں جیسے ڈوب گئیں۔ باہر کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ہر طرف دھند اور نیلگوں سا غبار چھایا ہوا تھا۔ جہاز ایک دھندلکے میں داخل ہوتا، نکلتا، پھر ڈوب جاتا نہ جانے کتنی دیر ہم اسی کیفیت میں رہے۔

کافی دیر بعد طیارہ بادلوں کی ربیخ کر توڑ کر نکلا اور روشنی دکھائی دی۔ ہم زینہ بہ زینہ نیچے اتر رہے تھے۔ طیارے کے ہر چکر کے ساتھ میرا دل ڈوب جاتا۔ اچانک طیارہ پھر بادلوں کی ایک گپھا میں داخل ہو جا تا اور میرا دل انجانے خوف میں مبتلا ہو جاتا کہ کہیں جاپان دیکھے بغیر ہم بحرالکاہل کی تہوں میں ہمیشہ کے لئے نہ ڈوب جائیں۔ اس لئے اکتاہٹ محسوس کرتے ہوئے میں نے سیکوسن کی طرف دیکھا کہ دیکھوں اس پر کس قدر گھبراہٹ طاری ہے۔

لیکن محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اس پر کسی قسم کا خوف نہیں ہے۔ وہ تو ایسے بیٹھی تھی جیسے ایک معصوم گڑیا چھٹی کے بعد بستہ گلے سے لٹکائے ٹرام میں بیٹھی گھر جا رہی ہو۔ نہ فضا کا خوف نہ قضا کا ڈر۔ کیا یہ روزمرہ کی بات ہے یا ان ایام میں ان کی تندی زیادہ بڑھ جاتی ہے میں نے بادلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ یہ بحرالکاہل ہے۔ سیکوسن نے بتایا۔ یہاں موسم اتنا ہی بپھرا ر ہتا ہے مون سون میں تیز ہوائیں چلتی ہیں۔ آسمان پر بادل چھائے رہتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments