عورتوں کے حقِ رائے دہی سے جوتا چٹائی تک


امریکہ میں 26 اگست عورتوں کے مساوانہ دن ”ویمنز ایکوالٹی ڈے“ کے نام مختص ہے۔ یعنی اس دن سالہا سال بعد خواتین کی نسلوں پہ محیط جدوجہد رنگ لائی اور بلاخیر امریکہ کے قانون میں انیسویں ترمیم کے بعد 26اگست 1920 میں کانگریس سے بل پاس ہونے کے بعد صنفی تخصیص کے بغیر مساوانہ طور پہ عورتوں کو رائے دہی یعنی ووٹنگ کا حق ملا۔

ابھی میں اس موضوع پہ لکھنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ ہماری ریاست مدینہ، پاکستان کے شہر فیصل آباد سے ایک طالبہ خدیجہ محمود کی زبردستی جوتے چٹوائے جانے والی شرمناک ویڈیو وائرل ہو گئی۔ جس کے پس منظر میں خدیجہ کے غرور کو چیلنج کرتی لتاڑتی اور چنگھاڑتی آوازیں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی روتی ہوئی بے بس خدیجہ اپنے ناکردہ گناہ کی پاداش میں معافی مانگتی اور جوتوں کو اپنی زبان سے چاٹ رہی ہے۔ اس کا سارا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنے باپ کے عمر کے مرد سے شادی سے انکار کر دیا تھا۔ اس چند منٹ کی ویڈیو نے اگر مجھ جیسے حساس انسانوں کو غم و غصہ کی کیفیت سے بالکل سن کر کے کر دیا تو اس بات کا اندازہ لگانا بھی محال ہے کہ اس بچی پہ کیا گزری ہوگی جس کو یہ ہتک آمیز رویہ عمر بھر کا ٹراما بن کے ڈسے گا۔

یہ شرمناک واقعہ جو فیصل آباد میں نو اگست 2022ءکو پیش آیا، میڈیا کی تفصیلات اور ایف آئی آر کے مطابق کچھ اس طرح ہے کہ شیخ دانش علی جو فیصل آباد کا متمول بزنس مین ہے اپنی بیٹی انا علی کی ایک کلاس فیلو خدیجہ محمود سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ خدیجہ بی ڈی ایس فائنل ائر کی طالبہ ہے اور اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ رہتی ہے۔ اس کے دو بھائی انگلینڈ اور آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔ رشتے سے انکار کی جرات پہ شیخ دانش علی نے اپنے ہی جیسے غنڈوں سے نہ صرف خدیجہ کے گھر زبردستی گھس کے اسے زبردستی اغوا کیا بلکہ اس کے دو موبائل اور کئی لاکھ کے زیور کے ساتھ اس کے فائنل امتحان کی فیس بھی لے لی۔

خدیجہ کے ساتھ وہ اس کے بھائی (جو انگلینڈ سے آیا ہوا تھا) کو بھی لے گئے تاکہ وہ بھی بہن کے ساتھ ہونے اس ظلم اور جنسی ہراسانی کا تماشا دیکھ سکے۔ انہوں نے خدیجہ سے جوتے چٹوانے پہ ہی اکتفا نہیں گیا۔ بلکہ اس کے بال کاٹے، بھویں مونڈیں۔ دہنی جنسی عمل  پہ مجبور کیا۔ اور اس کی ویڈیو اس دھمکی کے ساتھ بنائی کہ اگر دس لاکھ روپے نہیں دیے گئے تو اس کی ویڈیو کو وائرل کر دیا جائے گا۔ ظاہر ہے پیسے کی ادائیگی کے نہ ہونے کی صورت میں ان ویڈیو کو اب پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔

گو اس واقعہ میں ملوث مجرمان اب جیل میں ہیں مگراس تمام واقعہ پہ میری زبان گنگ اور ذہن قلاش ہے کہ جو احتجاج تک کے الفاظ ڈھونڈنے سے قاصر ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ جب کوسوں میل دور میرا یہ حال ہے تو جس بچی پہ یہ سب بیتا ہے اس کا کیا حال ہو گا کہ جس کے ساتھ یہ واقعہ ٹراما کی صورت عمر بھر رہے گا۔

پاکستان کی موجودہ آبادی بائیس کروڑ ہے۔ جس میں عورتوں کی آبادی 47۔54 فی صد (ڈبلیو ایچ او) ہے۔ جوہر سطح پہ تفریقی رویہ کا شکار ہے۔ 2022ء میں ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق گلوبل جینڈر گیپ انڈکس کی بنیاد پہ دنیا کے 146 ممالک میں پاکستان کا نمبر 145 ہے اور اس طرح صنفی بنیاد پہ تفریق میں ہمارا شمار بدترین ممالک میں صرف افغانستان کے بعد ہے۔ اس انڈکس کا تعین کسی بھی ملک میں اسکی خواتین کی معیشت میں حصے داری، تعلیم کے حصول کے مواقع، صحتمند زندگی کا تناسب اور سیاسی طاقت ہے۔

WEF – GLOBAL GENDER GAP REPORT – PDF

میں سوچتی ہوں کہ جب دنیا کے بہت کے ترقی یافتہ ممالک کی خواتین معاشرے میں مساوی حقوق کے سبب تعلیمی، معاشی، اور صحتمند زندگی گزارتی ترقی کے مدارج طے کر رہی ہیں ہمارے پدر سری معاشرے میں آج بھی پیدائش کے وقت سے ہی مرد کے مقابلے میں عورت کے ساتھ ہر سطح پہ غیر مساوی رویہ روا رکھا جاتا ہے وہ غذا کی قلت، صحت کی سہولت کی کمیابی کے ساتھ اعلی تعلیم کے مواقع سے محروم اور باوجود عمدہ کارکردگی کے ملازمت میں بھی صنفی تفریقی رویے کا شکار ہیں۔ عورتوں کو گوشت پوست کے حساس انسان کے بجائے محض جنسی تسکین کا ذریعہ بنا دیا ہے جبھی وہ مرنے کے بعد قبر میں بھی جنسی بدفعلی کا شکار ہے۔ حتی کے ننھی معصوم بچیاں جنسی تشدد کے بعد مار کے کونے کھدروں میں پھینکی جا رہی ہیں۔

امریکہ کی جان ٹاؤن یونیورسٹیز انسٹی ٹیوٹ کی تحقیق کے مطابق پاکستان کا ویمن پیس اینڈ سیکیورٹی انڈکس ایک سو ستر ممالک میں 167 نمبر پہ ہے۔ اور صرف افغانستان، شام، اور یمن ہی عورتوں کے امن و تحفظ کے اعتبار سے پاکستان سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔

گویا وقت کے ساتھ دور جدید میں بجائے روشنی کی جانب سفر کرنے کے ہم ماضی کے دور جاہلیت کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔

اس قسم کے پر تشدد رویے کے خلاف اگر عورت مارچ میں ”میرا جسم میری مرضی“ کے احتجاجی بینر ہوں تو ان پہ اعتراض بھلا کیسا؟ اکثر توان عورتوں کو فاحشہ سمجھنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے کہ جن کے کاندھے پہ رکھے سر میں سوال اٹھاتا کلبلاتا دماغ ہوتا ہے۔ جو صنفی تفریقی رویے پہ احتجاج کرتا ہے۔ یقیناً ایسی ہی سوچ رکھنے والے سماج میں عورتوں کا درجہ اس سطح پہ پہنچ جاتا ہے کہ ان کے ساتھ اکثر ان کے گھر والے بھی بغیر کسی ندامت کے انتہائی تحقیر آمیز اور پرتشدد سلوک رکھتے ہیں۔ اس رویے کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ عورتوں کے حقوق کی پاسداری ہو کہ جس کا پہلا قدم خود اپنے ہی گھر سے اٹھے۔ قانونی اداروں کے علاوہ میڈیا اور تشہیری اداروں کو متحرک کیا جائے۔ تعلیم بلا تخصیص عام ہو اور صنفی تفریق کی بنیاد پہ تشدد کو ختم ہونے کے لیے قانون سازی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments