وسیب ڈوب گیا


وسیب ڈوب گیا۔ ماؤں کے لعل بہہ گئے، بہنوں کے ویر بہہ گئے، سہاگنوں کے سہاگ اجڑ گئے، باپوں کی کمریں ٹوٹ گئیں، بھائیوں کے بازو کندھے سے اکھڑ گئے، خواب ملیا میٹ ہو گئے، فصلیں تباہ ہو گئیں، آشیانے صفحہ ہستی سے مٹ گئے، بھوک نے پیٹوں پر قبضہ جما لیا، پیاس نے ہونٹوں پر پپڑیاں جما دیں اور وسیب ڈوب گیا۔

جن کے پاس وقت اور وسائل ہیں وہ ڈوبے ہوئے وسیب میں سیلاب سے بچ گئی زندہ لاشوں کو بچانے کے لیے کھانا، پانی، دوائیں، خیمے فراہم کر رہے ہیں۔ جن کے پاس جسمانی توانائی ہے وہ مٹی تلے دبی لاشیں ڈھونڈنے میں مدد دے رہے ہیں۔ جس کی جتنی حیثیت ہے وہ اتنی مدد کی کوشش کر رہا ہے۔ اور کچھ سرفروش اپنے وسائل و ہمت سے بڑھ کر کام کر رہے ہیں۔

جس کی جتنی اوقات ہے وہ وسیب کے لیے اتنی کوشش کر رہا ہے۔ جن کے پاس وقت، وقعت اور وسائل دونوں نہیں ہیں ان کے پاس آنسو ہیں، آہیں ہیں، دعائیں ہیں مگر مجھے کہنے دیجئے کہ ان آنسوؤں، آہوں، دعاؤں سے کام نہیں بنتا۔ عالم اسباب میں سبب چاہیے ہوتے ہیں۔

آج معجزے نہیں ہوتے۔ اگر معجزہ ہونا ہوتا تو اسی وقت ہو گیا ہوتا جس وقت ایک باپ بہتے ہوئے سیلابی ریلے کے کنارے پر بیٹھ کر اپنے بچوں کے سیلاب میں بہہ جانے کا دکھ دھاڑیں مار مار کر سنا رہا تھا یا جب ایک ماں بین کر کر کے اپنی بربادی کا احوال سنا رہی تھی۔

لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہے ہیں۔ پورے ملک سے درد مندوں کی طرف سے امداد کا سلسلہ جاری ہے مگر نظریاتی سرحدوں کے محافظ اور اسمبلیوں کے تخت نشین ابھی تک خواب خرگوش میں ہیں۔ جن کی ذمہ داری ہے وہ کولڈ ڈرنک نامی گلوکاروں کے شو دیکھنے، جشن آزادی کے نام پر بھاری رقوم اڑانے اور سیاسی شغل میلہ لگانے میں مشغول ہیں۔ اور جن کی ذمہ داری نہیں وہ پیروں پہ چھالے لیے مدد کرنے کو بھاگتے پھر رہے ہیں۔

مرکزی حکومت نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے، حاتم طائی کی روح کو شرمندہ کرتے ہوئے سیلاب متاثرین کو پچیس تیس ہزار فی گھرانا دینے کا اعلان کیا ہے۔ کوئی ان سے جا کر پوچھو کہ آج کل دو پنکھے، ایک رات کو اور ایک دن کو چلانے کا اور ایک بلب جلانے کا بجلی کا بل پندرہ ہزار روپے آ رہا ہے، اس پچیس تیس ہزار سے کیا ہو گا؟

وسیب میں پکی اینٹ ساڑھے سات سے آٹھ ہزار روپے کی ایک ہزار مل رہی ہے پچیس تیس ہزار سے تو ایک مکان کی ایک دیوار تک نہیں کھڑی ہو سکتی۔ سیمنٹ کی بوری ایک ہزار روپے کو عبور کر چکی ہے۔ مستری کی دیہاڑی ہزار روپے سے اوپر ہے، کچی مٹی کی ایک ٹرالی کم از کم چار سے پانچ ہزار روپے میں پڑ رہی ہے۔ آپ کے اس پچیس تیس ہزار کے کفن لے کر پہن لیں اور بچوں سمیت لیٹ جائیں اجتماعی قبروں میں؟

ایک ارب روپے کے نزدیک پڑنے والا جشن آزادی کا پروگرام دیکھ کر خوش ہو لیں یا اربوں روپے سے بنائے جانے والے ملی نغمے سن کر خود کو دھوکہ دیں؟ دنیا کی بڑی فوج رکھنے پر خوش ہوں یا ایٹمی طاقت ہونے پر شادیانے بجائیں؟ رجیم چینج جیسی واہیاتیوں پر اندھا یقین کر لیں یا وزیر اعظم کی بے سر پیر باتوں اور دعووں پر ایمان لے آئیں؟

میڈیا کی بے حسی پر آنسو بہائیں یا اپنے مر جانے والوں کی لاشیں ڈھونڈیں؟ گل کے ساتھ ہونے والے تشدد کا افسوس کریں یا اپنی پردہ دار ماؤں بہنوں بیٹیوں کے سڑک پر بے آسرا بیٹھنے پر روئیں؟ چھوٹے چھوٹے بچوں کی چار چار دن کی بھوک پر کلیجہ مسلیں یا انہی بچوں کے سیلاب میں بہہ گئے بستوں اور کتابوں کا دکھ منائیں؟ اس باپ کی آہ و بکا سن کر ماتم کریں، جس کے سب بچے، گھر بار، مال و متاع سیلاب میں بہہ گیا؛ یا حکومتی وفود کے غیر ملکی دوروں پر اڑائی جانے والی رقوم پر منہ پیٹیں؟

وسیب ڈوب چکا ہے، اگر بے حسی یہی رہی تو جو باقی بچ گیا ہے وہ بھی ڈوب ہی جائے گا۔ پھر شاید ان حکمرانوں کو غیر ملکی امداد بھی وافر مل جائے گی اور نظریاتی سرحدیں بھی پہلے سے زیادہ محفوظ ہو جائیں گی۔

صدیق سالک نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا تھا اور اپنا درد خوب بانٹا تھا۔ ہم بد نصیبوں نے تونسہ سے لے کر بلوچستان تک ڈوبتے دیکھا ہے مگر اس کو لفظوں میں بیان کرنے سے بھی معذور ہیں۔ صدیق سالک کو بلا لاؤ اور کہو کہ آ کر دیکھے اور داستان لکھے کہ وسیب ڈوب گیا۔ شاید اس طرح کسی حکمران یا نظریات کے محافظ کے دل میں رحم کی کوئی رمق جاگے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments