مشرف عالم ذوقی کا فکشن


کتاب: مشرف عالم ذوقی کا فکشن
مرتب:ڈاکٹر محمد کامران شہزاد
پبلشر: مثال پبلشر، فیصل آباد
سن اشاعت: 2022ء
قیمت: 700 روپے
کل صفحات : 240

ڈاکٹر کامران رانجھا اردو کے ابھرتے ہوئے فکشن پارکھ ہیں۔ ان کی پہلی کتاب ”فکشن اور تنقید کا اسلوب“ کے نام سے منظرعام پر آئی۔ انھوں نے معروف فکشن نگار مشرف عالم ذوقی کے حوالے سے ایک کتاب ”مشرف عالم ذوقی کا فکشن“ کے نام سے مرتب کی ہے جس کا مقدمہ معروف ادیب حمید شاہد نے تحریر کیا ہے۔ مشرف عالم ذوقی جب تک زندہ رہے اپنی زندگی کا ثبوت دیتے رہے۔ انھیں لکھنے کا شوق ہی نہیں جنوں تھا جس کا ثبوت ان کی دو درجن کتابیں ہیں۔ ان کے اندر تخلیقیت کا گہرا کنواں تھا۔ ڈاکٹر کامران رانجھا نے ذوقی صاحب کے فن اور شخصیت پر لکھے گئے مضامین کو یکجا کر کے ایک ادبی خدمت سرانجام دی ہے۔

اس کتاب کا پہلا مضمون ”مشرف عالم ذوقی: سوانح اور تصانیف“ کے عنوان سے ہے جو ڈاکٹر کامران رانجھا نے تحریر کیا ہے۔ مشرف عالم ذوقی 24 مارچ 1964ء کو ہندوستان کے شہر ”آرہ“ میں پیدا ہوئے اور 19 ؍اپریل 2021ء کو وفات پائی۔

ذوقی کی پہلی کہانی بچوں کے رسالے ”پیام تعلیم“ میں شائع ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر گیارہ سال تھی۔ انھوں نے پہلا افسانہ ”جلتے بجھتے دیپ“ کے نام سے ریڈیو کے لیے لکھا۔ ان کا پہلا افسانہ جو شائع ہوا۔ اس کا عنوان تھا ”لمحہ رشتوں کی صلیب“ ۔ ذوقی کے تقریباً تیرہ ناول اور افسانوں کے آٹھ مجموعے منظرعام پر آچکے ہیں۔ ڈاکٹر کامران رانجھا نے اس مضمون میں ذوقی سے متعلق تمام علمی اور ادبی معلومات کو یکجا کر دیا ہے۔

کتاب کا دوسرا مضمون ”لے سانس بھی آہستہ: تکنیکی جائزہ“ کے نام سے ہے جو علی احمد فاطمی نے لکھا ہے۔ اس مضمون میں علی احمد فاطمی نے مشرف عالم ذوقی کے ناول ”لے سانس بھی آہستہ“ کی کہانی بیان کرتے ہوئے مشرف عالم ذوقی کے اسلوب پر بات کی ہے۔

کتاب میں موجود دوسرے مضمون کا عنوان ہے۔ ”محمد حمید شاہد بنام مشرف عالم ذوقی“ جو محمد حمید شاہد کا لکھا گیا ایک خط ہے جو انھوں نے مشرف عالم ذوقی کے نام تحریر کیا ہے۔ یہ ایک ادبی نوعیت کا خط ہے جو ماہنامہ ”سبق اردو“ میں 2013ء میں شائع ہوا تھا۔ اس خط میں حمید شاہد نے مشرف عالم ذوقی کے کچھ سوالوں کا جواب دیتے ہوئے ان کے ایک ناول پر تبصرہ کیا ہے جس میں نور محمد نام کا ایک شخص اپنی بیوی نادرا کے انتقال کے بعد اپنی بیٹی نگار کے ساتھ جنسی تعلق استوار کر لیتا ہے۔

اسے احساس گناہ بھی ستاتا ہے پھر وہ ایک ایسے علاقے میں جاکر آباد ہوجاتا ہے جہاں مذہب اور اخلاقیات کے دائرے اس کے اپنے علاقے سے مختلف ہیں وہاں لوگ اس کی حاملہ بیٹی کو اس کی بیوی سمجھتے ہیں۔ اس کہانی پر جو اعتراضات حمید شاہد کو ہوسکتے تھے۔ ان اعتراضات کا تذکرہ حمید شاہد نے بہت ادبی انداز میں مشرف عالم ذوقی سے معذرت کے ساتھ کیا ہے۔

کتاب کے تیسرے مضمون کا عنوان ”زمین کا جذام :لے سانس بھی آہستہ“ ہے جو محمد حامد سراج کا مشرف عالم ذوقی کے ناول ”لے سانس بھی آہستہ“ پر ایک تبصرہ ہے۔ اس ناول کے کردار نور محمد کے حوالے سے محمد حامد سراج لکھتے ہیں کہ ”ناول کا کردار نور محمد تمھیں سونے دے گا نہ جاگنے“ ۔ اس ناول میں نور محمد کی شادی نادرا سے ہوجاتی ہے۔ اس کی ایک اپاہج بیٹی پیدا ہوتی ہے۔ نادرا مر جاتی ہے۔ اکیلا گھر ہے۔ اپاہج بیٹی۔ چوتھا باب ”جبلت“ کے عنوان سے ہے۔ آخر میں حامد سراج نے لکھا ہے کہ ”سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ سب کچھ لیکن ذوقی۔ یہ ناول عام قاری کو ہضم نہیں ہو گا۔ کیا نقاد کا قلم اس کے نشتر سہ پائے گا؟

”اور کہا ذوقی نے : لے سانس بھی آہستہ“ اقبال خورشید کا تنقیدی مضمون ہے جو انھوں نے مشرف عالم ذوقی کے ناول ”لے سانس بھی آہستہ“ پر لکھا ہے۔ اس ناول کا مضمون Incest یعنی زنائے محرم ہے۔ تہذیبی اقدار کی تبدیلی اور جبلت کے تحت ناول میں نور محمد اور اس کی بیٹی نگار کے درمیان جنسی تعلق اور نور محمد کی پشیمانی کو مصنف نے بہت خوب صورتی سے پینٹ کیا ہے۔ اقبال خورشید نے ناول کے پلاٹ، تکنیک، جذبہ اور فکشن کے حوالے سے اپنا بھرپور نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔

”کچھ ’مرگ انبوہ‘ کے بارے میں“ مشرف عالم ذوقی کا مضمون ہے جس میں انھوں نے ناول اور سیاست کے رشتے کے حوالے سے بات کی ہے۔ دنیا کے سیاسی ماحول کا فکشن اور خاص طور پر ناول پر اثرات کی بابت ایک نقطۂ نظر بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا ناول ”مرگ انبوہ“ بھی درحقیقت سیاست کے اتار چڑھاؤ کی داستان ہے۔

”لے سانس بھی آہستہ: ایک شاہکار ناول“ ڈاکٹر مشتاق احمد کا مضمون ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے نور محمد کے کردار کے تناظر میں تہذیبوں کے تناظر میں بحث کی ہے۔ ”لے سانس بھی آہستہ کی کہانی دراصل آج کی کہانی ہے جہاں تہذیبوں کا تصادم جاری ہے۔ جہاں امریکا، افغانستان اور عراق پر کوڑے برسا رہا ہے۔ جہاں نئی نسل ڈپریشن کا شکار ہے۔ تعریفیں بدل چکی ہیں۔ نفرت اور محبت کے معنی تبدیل ہوچکے ہیں۔ جائز اور ناجائز کا فرق مٹ چکا ہے۔ ایک ترقی یافتہ نظام میں انسانی سکون درہم برہم ہو چکا ہے۔ یہ نئی تہذیب کی دستک ہے لیکن ذوقی نا امید نہیں ہوتے۔ وہ یہاں بھی نور محمد کے زندہ رہنے والے کردار کے ذریعے امید کی نئی شمع روشن کرلیتے ہیں۔“

”لے سانس بھی آہستہ: زندگی کے حسن اور فسوں کا کولاج“ رحمن عباس کا مضمون ہے۔ ”لے سانس بھی آہستہ“ اپنے موضوع اور اسلوب کی بنا پر شائع ہوتے ہی اردو فکشن کی دنیا میں موضوع گفتگو بن گیا۔ یہ ناول ہندوستانی مسلمانوں کی عائلی، سماجی صورت حال اور معاشرتی کشمکش کا منظرنامہ بیان کرتا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیبی روایات کے انتشار کا افسانہ ناول کا اہم موضوع ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ ناول تقسیم کے نفسیاتی اثرات کا غمگین پورٹریٹ بھی ہے۔ ناول اخلاقیات اور بالخصوص انسانی جبلت اور جنسی اخلاقیات پر نشتر لگاتا ہے اور قاری کو بے شمار سوالات کے بھنور میں چھوڑ جاتا ہے۔ ”

”نالۂ شب گیر: محرم رشتوں کی تضحیک کا المیہ“ ڈاکٹر جمیل حیات کا تبصرہ ہے جو انھوں نے مشرف عالم ذوقی کے ناول ”نالۂ شب گیر“ پر کیا ہے۔ تین سو چھتیس صفحات پر مشتمل یہ ناول پاکستان میں 2020ء میں شائع ہوا۔ ناول کی کہانی مجموعی طور پر ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو بچپن ہی سے اپنے گھر کے مردوں یعنی ماموں، دادا اور کزن کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار بننے کے بعد دل میں مردوں کے خلاف بھرپور نفرت کو جمع کرتی رہی۔ گھر میں موجود دوسری لڑکیوں نے سمجھوتا کر لیا اور اسی کھیل کا راضی خوشی حصہ بنتی رہیں لیکن ناہید نے بغاوت کی اور اپنی شرطوں پر زندہ رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس ناول کے کرداروں میں ناہید ناز، کمال یوسف اور صوفیہ کا کردار اردو ادب میں زندہ جاوید کردار ہیں۔

”مشرف عالم ذوقی کے ناولوں میں تصور مرگ“ ڈاکٹر نعیمہ بی بی کا مضمون ہے۔ اس مضمون میں مصنفہ نے یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ مشرف عالم ذوقی کے یہاں تصور مرگ ہر جگہ مختلف ہے۔ کہیں ایک انسان کی موت اس کے پورے خاندان کو خوف، بھیگ، غربت اور افلاس میں مبتلا کر دیتی ہے۔ کہیں اخلاقیات کی موت انسان کو بے شمار مسائل میں مبتلا کر دیتی ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے اردو ناول میں موت کے فلسفے کو بار بار بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسے حقیقی اور جاندار طریقے سے پیش کیا ہے۔

”آتش رفتہ کا سراغ: ایک مطالعہ“ سیمیں کرن کا مضمون ہے جس میں انھوں نے مشرف عالم ذوقی کے ناول ”آتش رفتہ“ پر تبصرہ کیا ہے۔ یہ ناول سڑسٹھ برس کی داستان ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی آزادی کے بعد کی آب بیتی ہے۔ سڑسٹھ برس میں رونما ہوتی تبدیلیوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو ایک لاش میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ ناول آزادی قلم کی ایک اہم مثال ہے۔

”مشرف عالم ذوقی ایک معتبر فکشن نگار اور دانشور“ حمید قیصر کا مضمون ہے جس میں انھوں نے ذوقی کے فن پر اظہار خیال کیا ہے۔ مشرف عالم ذوقی اردو فکشن کا ایک معتبر نام ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی ریاست کے معاملات اور حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے تھے۔ ایک محب وطن صحافی، محب وطن لکھاری کی حیثیت سے اپنی سرکار کے ہر اقدام پر مدلل اور کھل کر لکھتے تھے۔ وہ اپنی تحریر اور تقریر سے مسلمانوں کو آنے والے کڑے وقت سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ مشرف عالم ذوقی جدید دور کے مایہ ناز ناول نگار ہیں۔ ان کے یہاں افسانوں کے مجموعے کی بہ نسبت ناول زیادہ تعداد میں شائع ہوئے۔

ناول ”بین الاقوامی تاریخ“ اور ”آتش رفتہ کا سراغ“ یونس خان کا مضمون ہے جس میں انھوں نے ذوقی کے ناول ”آتش رفتہ کا سراغ“ کو بین الاقوامی تاریخ اور ادب سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ اس ناول کے ذریعے مشرف عالم ذوقی نے معاشروں میں آنے والی سیاسی، سماجی اور معاشی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ انسانی رویوں میں ہونے والی تبدیلیوں کو موضوع بنایا ہے۔

مشرف عالم ذوقی کے ناول ”نالۂ شب گیر“ کا تنقیدی مطالعہ، ڈاکٹر پرویز شہریار کا مضمون ہے۔ ”نالۂ شب گیر“ خالصتاً خواتین کو با اختیار بنانے کے ارادے سے لکھا گیا ناول ہے۔ اس ناول میں اٹھائے گئے سوالوں کا جواب وہ پورے معاشرے سے مانگتے ہیں۔ ناہید ناز کا کردار عصمت چغتائی کے ناولوں کی طرح باقی اور ضدی ہے۔

”مردہ خانے میں عورت: کی علامتی کائنات“ ڈاکٹر جمیل حیات کا مضمون ہے۔ مشرف عالم ذوقی کا یہ ناول ”مردہ خانے میں عورت“ پاکستان میں 2020ء میں شائع ہوا۔ یہ ناول چھ ابواب پر مشتمل ہے۔ اس میں 2014ء سے لے کر 2019ء تک ہندوستان میں پیش آنے والے واقعات (جس میں مسلمانوں کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ) کو موضوع بنایا گیا ہے۔ جمیل حیات نے اس ناول پر بھرپور تبصرہ لکھا ہے۔

مشرف عالم ذوقی کے ناول ”مردہ خانے میں عورت کا فکری و فنی مطالعہ“ ، ڈاکٹر صالحہ صدیقی کا مضمون ہے۔ ”مردہ خانہ میں عورت“ ، ”استعاراتی بیانہ“ نازیہ پروین کا مضمون ہے۔ ذوقی نے دنیا کو مردہ خانہ کہا ہے۔ وجودی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے جانوروں کی علامتیں استعمال کی ہیں۔ یہ ناول مابعد جدید بیانیے کی توانا آواز ہے۔ اس کی کہانی انفرادیت سے اجتماعیت کا سفر ہے۔

”وائٹ ہاؤس کی روشنی، ارجن اور مشرف عالم ذوقی“ اقبال خورشید کا مضمون ہے۔ اس مضمون میں اقبال خورشید نے ذوقی کی موت کے بعد اپنے تاثرات قلم بند کیے ہیں اور ان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔

”مشرف عالم ذوقی کا ناول“ مسلمان تقسیم کے تناظر میں ”محمد آصف کا مضمون ہے۔ اس مضمون نے ناول“ مسلمان ”پر بھرپور تبصرہ موجود ہے۔ تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں کے ساتھ کی جانے والی بدسلوکی کی ایک وجہ مسلمان خود بھی ہیں۔

مشرف عالم ذوقی کے ناولوں میں متغیر ہندوستانی سماج کی عکاسی، عبداللہ عتیق غوری کا مضمون ہے۔ اس مضمون میں مصنف نے مشرف عالم ذوقی کے ناول کو ہندوستانی معاشرے کا عکاس قرار دیا ہے۔

”پوکے مان کی دنیا“ مٹتی تہذیب کا نوحہ ”آمنہ نایاب کا مضمون ہے۔ “ پوکے مان کی دنیا ”دو سو اکہتر صفحات پر مشتمل ایک انوکھا ناول ہے۔ یہ ناول جنریشن گیپ، بدلتی ہوئی تہذیب کی تصویر کشی کرتا ہے۔ جاپانی کمپنی کے بنائے گئے اینیمیشن سیریل پوکے مان کو ذوقی نے کمال مہارت سے ناول کا موضوع بنا کر معاشرے کے ایک بڑے مسئلے پر نظر ثانی کی ہے۔

”مشرف عالم ذوقی کے ناولوں میں موضوعاتی تنوع“ ڈاکٹر محمد کامران شہزاد کا مضمون ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے چودہ ناول تحریر کیے جن میں سے سات بیسویں صدی کی آخری دہائی میں اور سات اکیسویں صدی میں تحریر کیے۔ ان کے ناولوں کے موضوعات متنوع ہیں۔ عورت اور اس کا استیصال، سماجی و تہذیبی اقدار، سیاست، عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات، خاص طور پر ہندوستان میں موجود مسلمان اور ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں، مشرف عالم ذوقی کے موضوعات ہیں۔ ان کا کینوس وسیع ہے اور وہ ناول لکھتے وقت انتہائی گہرائی سے کردار تراشتے جاتے ہیں جو معاشرتی و سماجی المیے کی صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔

”مشرف عالم ذوقی کا فکشن“ ایک ایسی مرتبہ کتاب ہے جس سے ہم مشرف عالم ذوقی کے ناولوں، ان کے کرداروں، ان کے موضوعات سے واقف ہوتے ہیں۔ اس کتاب میں بھی ان کے ایک ہی ناول پر کئی کئی مبصرین کے تبصرے شامل ہیں۔ جیسے ”لے سانس بھی آہستہ“ پر چھ تبصرے موجود ہیں۔ ”نالۂ شب گیر“ پر کئی تبصرے موجود ہیں۔ مجموعی طور پر یہ کتاب ہمیں مشرف عالم ذوقی اور ان کے فکشن سے بھرپور طریقے سے متعارف کرواتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments